سرحدوں پر بہت تنائو ہے کیا۔۔۔؟

عارف شجر
حیدرآباد، تلنگانہ
ٓٓ جب جب ہندوستان میں پارلیمانی یا اسمبلی الیکشن کی تاریخیں نزدیک آتی ہیں تب تب ملک میں داخلی اور خارجی دونوں سطح پر کچھ نہ کچھ کشیدگی بڑھ جاتی ہے اور اتنی بڑھتی ہے کہ اقتدار کی کرسی پر بیٹھنے کے لئے سیاسی پارٹیاں اسے الیکشن کے دوران موضوع بہتر سمجھ کر رائے دہندگان کے بیچ بھنانے کی کوشش میں اپنی سرگرمی تیز کر دیتے ہیں جس کی کئی مثالیں بھری پڑی ہیں۔ابھی جو تازہ حالات ہندوستان اور چین کے بیچ سرحد پر ہیں اسے بھی اسی چشمے سے دیکھا جا رہا ہے۔لوگوں کا ماننا ہے کہ اکتوبر۔ نومبر میں بہار اسمبلی کے الیکشن ہونے کے امکان ہیں اسی کو مد نظر رکھتے ہوئے سرحدوں پرکشیدگی تونہیں ہے ؟چونکہ جس طرح سے ایل اے سی پر ہوئے 20ہندوستانی جانباز فوجیوں کی شہادت پر سیاسی پارٹیاں سیاست کر رہی ہیں اس سے تو یہی بات ظاہر ہوتی ہے، کیوں کہ جس طرح سے ہمارے ملک کے پی ایم نریندر مودی نے بہار رجمنٹ کے فوجیوں کی شہادت کا ذکر کرتے ہوئے انکی جانبازی کو سلام کرتے ہیں اس سے تو ایک بات صاف ظاہر ہوگئی کہ پی ایم مودی نے بہار رجمنٹ کے جوانوں کی شہادت کو ہی ترجیح دی اور وہ کیوں دی، اس پرسوال اٹھنا لازمی ہے کیوںکہ ملک کے دیگر ریاست کے بھی جوان شہید ہوئے ہیں اس پر انہوں نے کیوں خاموشی اختیار کر لی، پی ایم مودی کو اس بات کا علم ہونا چاہئے کہ اگر کوئی ہمارے سرحد پر جوان شہید ہوتا ہے تو وہ کسی ریاست، کسی شہر یا پھر کسی قصبہ اور گائوں کا نہیں ہوتا بلکہ اسکی شہادت پورے ملک کے لئے ہوتی ہے وہ اپنی شہادت پورے ملک کے لئے دیتا ہے۔ یہ کہنا کہیں سے بھی درست نہیں ہے کہ وہ بہار رجمنٹ کا تھا اور خصوصی طور سے بہار کا نام لینا اس بات کا اشارہ کرتا ہے کہ جوانوں کی شہادت پر بھی سیاست ہونے لگی ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ایک بار پھر ہمارے فوجی جوانوں کو لے کر سیاست کا ایشو بنایا جا رہا ہے وہ کسی طور زیب نہیں دیتا۔26فروری 2019 کو پاکستان کے بالا کوٹ میں سرجیکل اسٹرایک ہوا جسکی کامیابی کو لے کر بی جے پی کے اعلیٰ قایدین نے سرجیکل اسٹرائک کا حوالہ دے کر سیاسی میدان میں کود گئے اور اپنی سیاست چمکانے لگے حتہ کہ انتخابی عوامی اجلاس میں بھی سرجیکل اسٹرایک کو بھنانے کی کوشش کی گئی جس میں بی جے پی کامیاب بھی ہوئی لیکن وہیںبی جے پی کی جم کر مذمت بھی کی گئی تھی یہاں تک کے سابق فوجی سینئر افسروں نے بھی اسکی خوب مذمت کی تھی اور کہا تھا کہ سیاست میں فوجیوں کو اپنی سیاسی فائدے کے لئے کھینچنا کہیں سے بھی ٹھیک نہیں ۔اس میں کوئی شک نہیں کہ ہمارے بہادر جوانوں نے چاہے وہ پاکستان کے بالا کوٹ میں سرجیکل اسٹرائک ہو یا پھر حالیہ دنوں میںچینی فوجیوں کو منھ توڑ جواب دینے کی بات ہو ہمیں انکی بہادری اور جانبازی پر فخر ہے اور ہمیشہ رہے گا ۔ یہی نہیں7 جولائی 2013 کو بہار کے گیا ضلع کے بودھ گیا میں بودھ مندر پر سیریل بم بلاسٹ کا واقع سامنے آیا تھا اسے لے کر بھی خوب سیاست ہوئی وجہ صاف تھی کہ 2014 میں عام انتخابات ہونے تھے جسے مدعا بنا کر بہار میں ایک طرح کا ماحول یکطرفہ کرنے کی کوشش کی گئی جس میں بی جے پی پوری طرح کامیاب بھی رہی اور وہ بہارلوک سبھا انتخاب میں40 میں سے31سیٹ بی جے پی اتحاد کی جھولی میں گئی جبکہ بی جے پی نے تنہا 21 سیٹ لا کر یہ ثابت کر دیا تھاکہ بودھ مندر بم بلاسٹ کا فائدہ اسے بمپر ملا ہے۔ چرچہ یہی ہے کہ اس بار بی جے پی بہار اسمبلی انتخابات میں ایک بار پھر اپنی کامیابی کے جھنڈے گاڑنے کے لئے بہار کے شہید فوجی جوانوں کی شہادت کا سہارا لے رہی ہے جوکہیں سے بھی درست نہیں ہے۔وہیں کانگریس نے بھی گلوان میں ہندوستانی اور چینی فوجیوں کے درمیان ہوئے حملے میں ہندوستانی فوج کی شہادت پر مرکزی حکومت پر سوال کھڑے کر رہی ہے، فوجیوں کی شہادت کیسے ہوئی اور چین نے کیا ہماری زمین پر قبضہ کر رکھا ہے ان دو سوالوں کو کانگریس نے خصوصی طور سے سلگتا ہوا ایشو بنا لیا ہے جس کا جواب پی ایم مودی کے پاس نہیں ہے حالانکہ پی ایم مودی نے یہ واضح کر دیا ہے کہ، نہ تو چینی فوجی ہمارے پوسٹ پر گھس آئے ہیں اور نہ ہی ہماری ایک اینچ زمین پر انکا کوئی قبضہ ہے لیکن پی ایم کی بات پر اپوزیشن کو یقین نہیں ہے کانگریس کا کہنا ہے کہ انکی باتوں میں تضاد ہے پی ایم او ہندوستانی فوج اورچینی فوج میں تصادم اور زمین پر قبضہ کو لے کر کچھ اور بیان دے رہا ہے تو ملک کے وزیر دفاع کچھ اور بیان دے رہے ہیں جس سے شک و شبہ پیدا ہو رہا ہے حقیقت ملک کے سامنے اب تک نہیں آیا ہے کہ آخر ایل اے سی پر ہوا کیا تھا اور موجودہ حالات کیا ہیں۔ ایک بار پھر کانگریس لیڈر راہل گاندھی نے ٹوئٹ کرکے مرکزی حکومت سے پوچھاہے کہ، چین نے ہندوستانی زمین پر قبضہ کیا ہے۔؟ ہم چین کے خلاف متحد ہیں لیکن یہ جاننا ضروری ہے کہ کیا چین نے ہماری زمین پر قبضہ کر رکھا ہے؟ مجھے یہ بات کہہ لینے دیجئے کہ دونوں جانب سے سوالات و جوابات خوب ہو رہے ہیں دونوں سیاسی قائدین ایک دوسرے پر الزام تراشی کرنے میں پوری طرح سرگرم دکھائی دے رہے ہیں۔ مجھے لگتا ہے کہ دونوں نے یہ تہیہ کر لیا ہے کہ جب تک بہار الیکشن ختم نہیں ہوتا تب تک اس معاملے کو گرمائے رکھنا ضروری ہے۔ مجھے یہ بات کہہ لینے دیجئے کہ ایک نے بہار پر دوبارہ قابض رہنے کے لئے پوری طرح زور لگا رکھا ہے تو دوسرے نے بہار سے بی جے پی اتحاد پارٹیوں کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کی ابھی سے ہی حکمت عملی تیار کر رکھی ہے یہی وجہ ہے کہ اس بڑے معاملے کو سیاسی ایشو بنا دیا گیاہے تاکہ یہ بہار الیکشن تک چلتا رہے۔اس سچائی سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ بہار میں بی جے پی اتحاد پارٹیوں کی حالات خستہ ہے اسے ڈر لگنے لگا ہے کہ بہار میں ہماری سرکار نہ چلی جائے کیوں کہ بہار کی عوام نے پی ایم مودی اور خصوصی طور سے بہار کے سی ایم نتیش کمار کی کارگذاریوں سے کافی خفا دکھائی دے رہے ہیں۔ بہار کے عوام کا کہنا ہے کہ مرکز کی بی جے پی حکومت اور بہار کی نتیش حکومت نے عوام کو صرف اور صرف سبز باغ دکھانے کا کام کیا ہے۔
بہر حال!20 ہندوستانی فوجیوں کی شہادت کا غم پورے ہندوستانی باشندوں کو ہے انکی شہادت پر جتنا بھی آنسو بہایا جائے کم ہے حالانکہ پی ایم مودی نے ملک کے عوام کو یقین دہانی کرائی ہے اور یہ صاف کر دیاہے کہ ہندوستانی فوجیوں کی شہادت رائیگاں نہیں جائے گی یعنی اسکا بدلا چین سے ضرور لیا جائیگا جس طرح پاکستان کے بالا کوٹ میں دہشت گردوں کے خلاف سرجیکل اسٹرائک کرکے پاکستان سے بدلا لیا گیا تھا۔ اب اسکا بدلا کب لیا جائے گا یہ وقت کب آئے گا یا پھر بہار الیکشن کے نزدیک آتے ہی بدلا لیا جائے گا یہ تو پی ایم مودی ہی بہترجانتے ہیں لیکن جس طرح سے ان دنوں سرحدوں پر کشیدگی بڑھی ہوئی ہے چاہے وہ ایل اے سی ہو یا ایل اوسی یا پھر نیپال کی سرحدہو اس سے یہ بات صاف ظاہر ہو گئی ہے کہ ملک کے حالات ٹھیک نہیں ہیں۔ میں معروف شاعر راحت اندوری کے اس شعر کے ساتھ اپنی بات ختم کرتا ہوں کہ۔۔۔
سرحدوں پر بہت تنائو ہے کیا
کچھ پتہ تو کرو چنائو ہے کیا
Comments are closed.