میں کبھی انصار شیخ ہوں،کبھی سلمان،کبھی حسن صافی،کبھی ڈاکٹر روشن تو کبھی محمد علی۔۔۔۔

عبدالوہاب حبیب
9970073214
[email protected]
سوشل میڈیا پر نظروں کے سامنے ایک تصویر بار بار گھوم رہی ہے۔واہٹس ایپ کے سینکڑوں گروپ ،فیس بک اور ٹویٹرپر ایک ہی تصویر شئیر ہورہی ہے جس میں اینٹوں کا ایک کچا مکان ہے دیوار کو سمنٹ تک دستیاب نہیں۔صرف اینٹیں قرینہ سے لگائی ہوئی ہیں جو دیوار بن گئی ہے۔چھت ٹین پوش ہے جس پر لکڑیاں اور پتھر رکھے ہیں تاکہ تیز ہواسے چھت کا سایہ نہ محروم ہو جائے۔اس کچے مکان کا داخلی دروازہ لوہے کا بنا ہے جو کسی پانی کے ڈرم کو کاٹ کر بنایا ہوا ہیدروازہ میں شہتیر کے چار پیوند ہیں۔تصویر میں اس گھر کے سامنے دائیں جانب دو افرادکھڑے ہیں جو کسی لڑکی کا گلدستہ کے ذریعہ استقبال کر رہے ہیں ۔درمیان میں اسکارف پوش ایک لڑکی ہے اور بائیں جانب ایک خاتون ہیں جو انتہائی سادی ساڑی زیب تن ہے جبکہ سب سے اخیر میںایک شخص جن کے سفید بال اور پیرہن ان کی غربت کی عکاسی کر رہے ہیں۔تصویر ناندیڑ کے تعلقہ لوہا کے ساونگی گائوں کی ہے۔ اس مکان کے سامنے اب لوگوں کے مبارکبادی دینے کا تانتا بندھا ہوا ہے۔گلدستے ،مٹھائیوں کے ذریعہ اس لڑکی کا استقبال ہو رہا ہے۔یہ گھر ،بائیں جانب کھڑے شیخ محبوب کا ہے اور جس لڑکی کا استقبال ہو رہا ہے یہ اس شخص کی بیٹی وسیمہ جو اب ڈپٹی کلکٹر بن چکی ہے۔وسیمہ شیخ اب رینک Aڈپٹی کلکٹر بن چکی ہے کیونکہ اس نے ایم پی ایس سی امتحانات میں تیسرے پوزیشن میں کامیابی حاصل کیا ہے۔وسیمہ کے والد ذہنی معذور ہے۔وسیمہ کی والدہ نے مزدوری اور چوڑیاں بیچ کر اپنے اولاد کی پرورش کی۔نا مساعد حالات میںوسیمہ کے بھائی نے آٹو چلا کر کفالت کی تو وہیںوسیمہ نے اپنے خوابوں کی تکمیل کیلئے روایتی نہ سہی اوپن یونیورسٹی سے گریجویشن کیا،پھر سیلس ٹیکس انسپکٹر امتحانات کامیاب کیا۔ملازمت کے دوران تعلیم جاری رکھی اور اب ایم پی ایس سی میں نمایاں کامیابی حاصل کرنے کے بعد انہیں ڈپٹی کلکٹر کا عہدہ پیش کیا گیا ہے۔تصویر میں وسیمہ کا استقبال کرنے والے شخص کا قد ان کے مکان سے بھی زیادہ ہے اور چھت ان کے کندھوں تکہی آ رہی ہے لیکن وسیمہ کی کامیابی اتنی اونچی ہے جسے گننا شاید ممکن نہیں ،کیونکہ غربت اور انتہائی دل شکن حالات کی کشتی میں سوار ہونے اور مجبوریوں کے سمندر کو عبور کرتے ہوئے کامیابی سے ہمکنار ہوئی ہے۔
مہاراشٹر اسٹیٹ پبلک سروسیس کمیشن کے فائنل امتحانات کامیاب کرنے والوں کی فہرست میں سیدہ اسماء ظہیر کا بھی نا م ہے ۔اسماء کے والد پولس محکمہ میں ڈرائیورہے۔ایم پی ایس سی کامیابی کے بعد اب اسماء کو اسسٹنٹ کمشنر ٹیکس ڈپارٹمنٹ تقویض کیا گیا ہے۔فہرست میں موجود ثمینہ بانو عبدالرزاق باغبان ایکسائزڈپارٹمنٹ میںڈپٹی سپرنٹنڈنٹ اور شیخ فیاض منیر اسٹیٹ سیکریٹریٹ(منترالیہ)میں ڈیسک آفیسر کے طور فائز ہوں گے۔ازیں قبل چوڑیاں فروخت کرنے والے شخص کی بیٹی روبینہ شیخ یو پی ایس سی کامیاب کرکے ڈی ایس پی بنی تھی تو وہیں ٹرین حادثہ میں اپنے دونوں پیر گنوانے کے باوجود سبزی فروش کی بیٹی روشن شیخ نے ایم بی بی ایس کامیاب کرکے انگشت بدنداں کر دیا تھا۔ان مثالوں سے یہ بات تو واضح ہے کہ اچھی منصوبہ بندی،جہد مسلسل،اور اللہ پر بھروسہ کامیابی کی ضمانت ہے۔علم کی مشعل تھام کر ہم اپنے آس پاس تاریک ماحول روشن کر سکتے ہیں۔یہ تو بات ہوئی ان نوجوانوں کی جنہوں نے ستارو ں پر کمند ڈالنے کی ٹھان رکھی تھی اور یقین محکم ،عمل پیہم پر قائم رہے ۔یہ وہ نوجوان ہیں جنہوں نے اپنے مقصد متعین کے ہدف کی تکمیل کیلئے کوشاں رہیں۔لیکن بہ حیثیت مسلم ،بہ حیثیت سماج،ایک کمیونٹی ہم ایسے نوجوانوں کو کتنا سازگار ماحول،کتنی حوصلہ افزائی ،کتنی مدد اور کتنے مواقع فراہم کر رہے ہیں؟۔سچر کمیٹی ،محمود الرحمن کمیٹی نے مسلمانوں کے تعلیمی ،سماجی اورمعاشی پسماندگی اجاگر تو کردی لیکن سیاسی سرد ایوانوں میں ان کمیٹیوں کی سفارشات پر غفلت اور تعصب پرستی کی گرداب جمی ہوئی ہیں ۔کیا ہمارا تعلیمی نظام صرف سرکاری اداروں اور حکومتی اعانت پر منحصر رہ سکتاہے؟ لاک ڈائون میں ہم نے دیکھا کہ مسلم سماج نے کورونا جیسی جان لیوا قہر میں بھی بہ نفس نفیس مزدوروں کی مدد کی،کھانافراہم کیا،ٹرانسپورٹ کا انتظام کیا،ضرورتمندوں کی ہزاروں کروڑ روپیوں کی ہر لحاظ سے مدد کی۔اسلام میں علم کا حاصل کرنا ہر مسلم پر فرض قرار دیا گیا ہے اور پہلی آیت اسی حکم کے ساتھ نازل ہوئی ہے اور اسی فریضہ کی ادائیگی کیلئے اگر متحدہ کاوشیں ہوں تو؟ عام طور پر ہمارے درمیان ایک طبقہ ایسا بھی موجود ہے جو لاکھوں بلکہ کروڑوں روپئے اپنے آرام کیلئے صرف کرتا ہے،برانڈ کے بغیر خریدی مکمل نہیں ہوتی۔ہماری تنظیموں کے اخراجات اجتماعات،جلسے،جلوس اور پروگرامس پر خرچہوتے ہیں ،ان پروگرامس کی بھی اہمیت سے بالکل انکار نہیں لیکن لاک ڈائون نے ہمیں بتادیا کہ ملک کے وزیر اعظم جب اپنا پیغام پہنچانے آن لائن کانفرنس کر سکتے ہیں اور کروڑوں افراد تک اپنا پیغام پہنچا سکتے ہیں تو ہم ہمارے پروگرامس آن لائن کرتے ہوئے صر ف ہونے والی رقم تعلیمی فرض پر کیا خرچ نہیں کر سکتے؟تعلیم مسلسل عمل ہے یہ چند دنوں کی تحریک یا مہم نہیں جسے کچھ دن چلاکر ہم خاموش بیٹھ جائیں۔21سال کی عمر میں یو پی ایس سی کامیاب کرنے والے شیخ انصار سے میں جب انٹرویو لے رہا تھا اور اس کے جو معاشی مسائل و گھریلو بتاتے ہوئے اس کی آنکھوں کو میں بھول نہیں سکتا۔انصار کے والد رکشہ ڈرائیور ،والدہ مزدور اوربھائی ہوٹل پر ملازمت کرتے ہوئے انصار کو تعلیم کیلئے مددکر تے تھے۔فی الحال انصار ڈپٹی کلکٹر کے طور پر بنگال میں تعینات ہے اور مستقبل میں چیف سیکریٹری رینک تک خدمات انجام دیں گے۔سبزی فروش کی بیٹی ڈاکٹر روشن شیخ نے دونوں پیر ٹرین حادثہ میں گنوانے کے باوجود تعلیمجاری رکھی۔89فیصد معذور ہونے پر ایم بی بی ایس میں داخلہ نہیں ملا تو کورٹ سے مدد قانونی اجازت حاصلکی اور ڈاکٹر بن کر سبھی اندیشوں کو غلط قرار دیتے ہوئے بتادیا کہ پروازکیلئے پروں کی نہیں بلکہ حوصلوں کی ضرورت ہوتی ہے۔روشن کے ابتدائی سنگین ترین حالات میں جنہوں نے اس کی مدد کیں اس میں اکثر ہمارے غیر مسلم بھائی ہیں خاص طور پر ایم ڈی میں داخلہ کیلئے بی جے پی لیڈر کریٹ سومیا نے دو دنوں میں اس ہونہار طالبہ کیلئے قانون میں تک ترمیم کروائی۔اورنگ آباد میں سال گذشتہ نوح صدیقی اور سلمان شیخ نے یو پی ایس سی میں میابی حاصل کیں۔شیخ سلمان اب آئی آر ایس ہے جبکہ نوح صدیقی بطور اسسٹنٹ کمشنر آف انکم ٹیکس ،ناگپورمیں خدمات انجام دے رہے ہیں۔سلمان کو جس وقت یو پی ایس سی میں کامیابی کا علم ہوا وہ کھیت میں پدینہ کی کاشت میں اپنے والد کا ہاتھ بٹا رہے تھے۔گجرات کے چھوٹے سے دیہات کانودار،پالنپورسے تعلق رکھنے والے حسن صافن نے 22سال کی عمر میں یو پی ایس سی میں کامیابی حاصل کی۔گھر کی معاشی حالت اتنی تنگ تھی کہ ان کی والدہ ریسٹارنٹ اور شادی تقریبات کیلئے روزانہ 15-20کلو روٹیاں بناتی تھیں ۔حسن کی کامیابی کے بعد اب وہ اب جام نگر میں اسسٹنٹ سپرنٹنڈنٹ آف پولس ہے۔ محمد علی شہاب کیرلا کے غریب فیمی میں پیدا ہوئے۔والد پان شاپ اور بانس کی ٹوکریاں فروخت کرتے تھے،محمد علی بھی بچپن ہی سے والد کا ہاتھ بٹاتیلیکن محمد علی ابھی 11سال کے ہی تھے کہ والد کا انتقال ہوگیا۔غربت کے مارے ان کی والدہ بہن بھائیوں کی پرورش نہیں کر سکتی تھی اس لیے محمد علی کو یتیم خانہ بھجوادیا۔ یہاں انہوں نے خود تعلیم حاصل کی،دوسرے یتیم بچوں کو بھی پڑھایا۔گریجویشن کرنے کیلئے پیسہ نہیں تھا تو خود ایک نجی اسکول میں پڑھانے لگے،پھرکیرلا کی واٹر اتھارٹی میں پیون کی نوکری کی،تعلیم بی اے فاصلاتی ذریعہ سے کیا ۔کلرک کی ملازمت اختیار کی اور آخریو پی ایس سی میں کامیابی حاصل کی۔منجملہ بتانے کا مقصد یہ ہیکہ ہمارے پاس ایسے سینکڑوں وسیمہ،انصار شیخ،روشن شیخ،حسن صافن،سلمان،محمد علی مل جائیں گے جن کے پاس مقصد ہے،حوصلہ ہے ،صلاحیتیں ہیں،وہ محنت کے عادی ہیں لیکن افسوس معاشی حالت ٹھیک نہیں! ۔سچر کمیٹی نے واضح کیا ہے کہ مسلم طلباء کی ایک تہائی تعداد حالات کے سبب ترک تعلیم (ڈراپ آئوٹ ہوجاتے )کر تے ہیں ۔
حل کیا ہے؟کیسے اس تعلیمی فرض میں ہم مدد کر سکتے ہیں؟
ایسے حالات میں سب سے پہلے ہمارے اساتذہ کو چاہیے کہ وہ ایسے طلباء کی نشاندہی کریں،اسکول انتظامیہ انہیں تعلیمی رہنمائی کریں۔ہر پرائمری اسکول میں صلاحتیں پروان چڑھانے کامیاب لوگوں کو مدعو کیا جائے۔ہفتہ یا مہینہ کا ایک دن متعین ہوں جہاں صلاحیتوں کو پروان چڑھانے (Skill Development) کا کام ہوں۔ہائی اسکولوں سطح پرطلباء کو پروفیشنل شعبہ جات کی معلومات فراہم کی جائے،طلباء کی صلاحتیوں سے متعلق شعبہ جات کی نشاندہی کی جائے اور کائونسلنگ کی جائے۔ہائیر ایجوکیشن میں سرکاری،غیر سرکاری ادارو ں کی اسکالرشپ کی حصولی کیلے کاوشیں ہوں۔محلہ جاتی سطح پرکمیٹی ہوں تو بہتر ہے ورنہ دینی اور سماجی تنظیمیں اسکالرشپ کو مزید موثر طریقہ سے انجام دے سکتے ہیں۔اعلیٰ تعلیم میں Mentorship دلوائی ؍کی جا سکتی ہے جس میں چنندہ طلباء کو معاشی طور مدد ہو ں۔انہیں تعلیمی وسائل فراہم کیے جائیںتاکہ وہ اپنی تعلیمی سرگرمیوں میں ہی مشغول رہیں۔ہر چند کہ انجینئر نگ،میڈیکل شعبہ کی اپنی اہمیت ہے تا ہم طلباء کو مقابلہ جاتی امتحانات کی طرف راغب کیا جائے۔زکوۃ فائونڈیشن ،رحمانی فائونڈیشن سے رہنمائی کرتے ہوئے اب تک سینکڑوں طلباء یو پی ایس سی کامیاب کر چکے ہیں اسی طرح اورنگ آباد کے کاوش فائونڈیشن سے ابتدائی رہنمائی کے بعد گذشتہ سال نوح صدیقی اور شیخ سلمان نے اس با وقار امتحان کو کامیاب کیا۔اگر ہم ابتدائی دور میں ہی ایسے طلباء کا انتخاب کریں اور کاوش فائونڈیشن کی طرح کام کرنے والے اداروں کی ممکنہ وسائل سے مدد کریں تو آئندہ دہائی میں ہمارے انشاء اللہ مختلف حالات ہوں گے۔ایڈمنسٹریشن اور ملک و قوم کی فلاح و بہبود میں اور سب سے اہم مین اسٹریم میں افراد موجود ہوں گے۔اس کے علاوہ دیگر شعبہ جات میں بھی چھوٹے چھوٹے پروجیکٹس،پریکٹیکل ،انٹرن شپ،مینٹر شپ،اپیرنٹس شپ کے ذریعہ رہنمائی کر سکتے ہیں۔جیسے انجینئرنگ شعبہ کے طالب علم کو مقامی سے بین الاقوامی پروجیکٹس کی بھی معلومات دی جا سکتی ہے۔ شعبوں کے لحاظ سے طلباء کے گروپس بنائے جائیں جہاں وہ اپنے مقصد کے حصول کیلئے مرتکز ہوں۔مسابقتی امتحانات کی تیاری کیلے مراکز کھولیں۔اپنے علاقے میں لائبرری (ڈیجیٹل لائبرری ہوں تو بہتر ہے)کا انتظام کروائیں۔خا ص طور پر ہائی اسکول میں بچوں کو حوصلہ افزائی کرنے والے کامیاب افراد کے واقعات سے روشناس کروایا جائے۔اگر کوئی غریب طالب علم یا مزدور بچہ دکھائی دیتا ہے تو یہ بطور امت یہ ہمارا فرض ہے کہ ہم ا ن کی امداد کریں اور بتا دیں کہ وہ حصول تعلیم کے فرض اور ناخوشگوار حالات کے درمیان تنہا نہیں بلکہ ہم ان کے ساتھ ہیں۔سرکاری ملازمین۔عہدیداران،بلڈر،تاجر،اساتذہ،انجینئرس،ڈاکٹرس حضرات مل کر بھی اس کار خیر میں ہر طرح سے اپنا تعاون پیش کر سکتے ہیں۔Mentorshipہو ں تو سب سے بہتر ہے ۔ترقی یافتہ ممالک اور ادارے کی فہرست دیکھ لیجئے تو پتہ چل جائے گا کہ یہ انسانوں پر زیادہ انویسٹمنٹ کرتے ہیں۔
Comments are closed.