اپنی اولاد کو ارطغرل سیریل اور پب جی گیم سے دور رکھئے

 

قاضی  محمد حسن ندوی

استاذ حدیث وفقہ دارالعلوم ماٹلی والا بھروچ

اس میں کوئی شک نہیں کہ دنیا کی نعمتوں میں اولاد ایک بڑی نعمت ہے،اس کی جتنی قدر کی جاتی ہے ،اس کے فوائد و ثمرات زندگی میں نمایاں ہوتے ہیں،نیزوہ اپنے والدین کےلئے آنکھوں کی ٹھنڈک اورباعث رحمت ہوتی ہیں ،مگر سوال یہ ہےکہ اس کی قدردانی کی صورت کیاہے،؟اور اس کے تقاضے کیا ہیں؟اس کی قدردانی اور تقاضے یہ ہیں کہ جب بچہ پیدا ہو،توآذان وتکبیر پڑھ کر دونوں کان میں دم کیاجائے، کسی نیک صالح شخص کے ذریعہ تحنیک کرایی جاءے،اچھا نام رکھا جائے،اللہ نے حیثیت دی ہے توساتوے دن عقیقہ کریں اور جب پڑھنے کی عمرکوپہنچ جاءےتو ان کی تعلیم کے ساتھ ساتھ تربیت کی فکرکریں،نیک صالح ماحول میں پرورش و پرداخت کرنے کی کوشش کریں،اورحسن اخلاق سے آراستہ کریں،چوں کہ باپ کی طرف سے اولاد کوجو تحفہ ملتا ہے،اس میں یہ سب سے اچھا تحفہ ہے جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے(مانحل والدولدہ نحلا افضل من ادب حسن) کوئی والد اپنی اولاد کو حسن ادب سے بہتر کوئی تحفہ نہیں دے سکتا(مسند احمد رقم الحدیث:166576)

لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ عام طور ہروالد کی تمنا آور آرزو یہ ضرورہوتی ہےکہ میرابچہ ہونہارنیک صالح ہو،باادب متواضع ہو،فرماںبردار ہو،لیکن یہ صفات کیسے پیدا ہوں گی ، اور اس کے طریق کار کیاہوں گے ؟اس کی طرف بالکل توجہ نہیں ہوتی ،نہ تعلیم کے ساتھ،حسن ادب سے اپنی اولاد کو آراستہ اور تربیت کی فکر کرتے ہیں،جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ بہت سے بچے غلط پروگرام دیکھنے کے اس طرح دل دادہ ہوجاتے کہ جو نہ صرف بیحیاءی اور بداخلاقی کاخوگر بناتے بلکہ ایمان جیسی دولت پر ڈاکہ ڈالنے میں دریغ نہیں کرتے ،چنانچہ اس وقت ارطغرل سیریل، پب جی گیم (pubg game) کے ذریعہ یہی خرابیاں پیدا ہو رہی ہے ،ارطغل سیریل سے فایدہ سے زیادہ نقصان ہے،اس میں کئی چیزیں غیر مناسب ہیں ،جن کو اس چسکا لگ جاتاہے انہیں تلاوت قرآن،دینی کتابیں پڑھ نے میں دل نہیں لگتا ،سب سے بڑا نقصان یہ ہے کہ دینی کاموں سے نفرت ہو جاتی ہے،اسی لیے قرآن میں ایسے پروگرام کو لہو الحدیث سے تعبیر کیا ہے

(ومن الناس من یشتری لھوالحدیث لیضل عن سبیل اللہ بغیر علم ویتخذھا ھذوا اولیک لھم عذاب مھین)سورہ لقمان/6،ایک وہ لوگ ہیں جو کھیل کے باتوں کےخریدار ہیں،تاکہ اللہ کے راستے سے ہٹادے اور اسے ہنسی ٹھراءیں ان ہی لوگوں کے لیے ذلت کا عذاب ہے) ،اس کے علاوہ اس میں وقت کا ضیاع ہے،بعض لوگ یہ سمجھتے کہ اس سیریل کو د یکھنے سے جزبہ جہاد جاگتاہے ،یہ ایک خام خیالی ہے ،شیطان کادھوکہ ہے،اگر کوئی جزبہ جہاد سے شرشارہونا چاہتاہے تو اسے چاہیے کہ وہ سورہ محمد صف ،انفال ،توبہ کی تفسیر کامطالعہ کرے،اور غزوات کی تاریخ اور شہداء کی سیرت پڑھے

پب جی گیم دیکھنے سے وقت کے ضیاع کے علاؤہ سب سے بڑا نقصان یہ ہے کہ اس کو دیکھنے والا شرکیہ عمل کو انجام دیتا ہے، اور ایمان جیسی نعمت سے محروم ہوجاتا ہے( المعاذ باللہ)

اس لیے ہم اس خوش فہمی میں نہ رہیں کہ میرے بچے ترقی کی راہ پر گامزن ہیں ، ہمیشہ موبایل سے کتابوں کا مطالعہ کرتے ہیں،آل لاین اساتذہ سے کلاس کررہے ہیں، بلکہ یہ دیکھیں کہ موبایل میں کیسے پروگرام ہیں،کیا دیکھتے ہیں ؟یہ ہروالد کی ایمانی اور اخلاقی زمہ داری ہے،جیساکہ اللہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے ( کلکم راع وکلکم مسءول عن رعیتہ(الحدیث) )تم میں سے ہر ایک نگراں ہے ،اور ہرنگراں سےاپنے رعایا کے بارے میں سوال ہوگا)،اسی وجہ سے قرآن مجید میں تربیت اولاد کے سلسلہ میں والد کوبڑی تاکید کی گئی ہے ،اور ہدایت قرآنی سے روگردانی کرنے والوں کو سخت وعید سے تنبیہ کی گئی ہے

(یاایھا الذین آمنوا قوا انفسکم واھلیکم نارا وقودھاالناس والحجارۃ-ایت/6—-)اے ایمان والو!تم اپنے اور اپنے گھر والوں کو اس آگ سے بچاؤ جس کا ایدھن لوگ اور پتھر ہیں

شیخ الاسلام مولانا شبیر احمد عثمانی صاحب نے اس آیت کے تحت جو باتیں لکھی ہیں وہ غور سے پڑھیں اور اپنا محاسبہ کریں کہ آیا اس کے مطابق ہم اپنی اولاد کے ساتھ پیش آتے ہیں یانہیں؟اور اس پہلو سے کیا ہم اولاد کی تربیت کررہے ہیں؟

لکھتے ہیں:کہ ہر مسلمان کو لازم ہے کہ اپنے ساتھ اپنے گھر والوں کو بھی دین کی راہ پرلاءے سمجھا کر، ڈراکر ،پیارسے ،مارسے ،جس طرح ہوسکے دیندار بنانے کی کوشش کرے(حاشیہ سورہ تحریم ص/743)

تفسیر روح المعانی میں ہے کہ جب یہ آیت نازل ہوئی تو حضرت عمر نے عرض کیا یارسول اللہ اپنے کوجہنم سے بچانے کی فکر سمجھ میں آ گیی (کہ ہم گناہوں سے بچیں اور احکام الہیہ کی پابندی کریں)مگر اہل وعیال کو ہم کس طرح جہنم سے بچائیں،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اس کا طریقہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے تم کو جن کاموں سے منع کیا ہے ان کاموں سے ان سب کو منع کرو اور جن کاموں کو کرنے کا حکم دیا ہے تم ان کا اہل وعیال کو بھی حکم کرو، تو یہ عمل ان کو جہنم کی آگ سے بچاسکے گا (بحوالہ معارف القرآن ص/503)

اولاد کی تربیت و اصلاح کا عمل بہت ہی اہم کام ہے ،جس میں والدین کا ایک دو دن دیکھ ریکھ کرنا یا ٹیوشن کرادینا کافی نہیں بلکہ سن طفولیت سے لےکر بلوغ تک اولاد کی نقل وحرکت پر نگاہ رکھنا نہایت ضروری ہے ،

آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک مرتبہ آپ کے دونوں نواسے (حضرت حسن اور حسین )کھانا کھارہے تھے ،اپنے سامنے سے کھانا لینے کے بجائے دوسرے کے سامنے سے لینے لگے تو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ہاتھ پکڑ کرکہا (خذ مایلیک)اپنے سامنے سے لقمہ لو(خلاصہ حدیث شریف مشکوٰۃ شریف)

شیخ زکریا کاندھلوی بچپن میں اپنے والد مولانا یحییٰ صاحب کے سامنے ایک تکیہ ہاتھ میں لےکر کہا یہ میرا تکیہ ہے ،والد محترم نے اصلاح و تربیت کےلئےایک چپت لگائی،اورکہا کہ ابھی سے میرا تکیہ کہتا ہے، آیندہ کیاکہیگا

ناظرین ان دونوں واقعات پر غور کیجئے بظاہریہ باتیں معمولی ہیں ،لیکن بچوں کو پروان چڑھانے میں ریڑھ کی حیثیت رکھتی ہیں ،یقیناوہی بچے ترقی کے منازل کوطے کرتے ہیں ،جن کے والد بچپن سے لیکر جوانی تک اولاد کی نقل و حرکت پرنگاہ ہی نہیں رکھتے بلکہ بری عادات اور سنت کے خلاف اعمال پر سخت گرفت کرتے اور اصلاح کے لئے فکرمندی کے ساتھ دعا کرتے اور اچھے اعمال پر تعریفی اور حوصلہ افزاکلمات کہتے

حضرات انبیاء کرام کا اپنی اولاد کے سلسلے میں یہی کردار تھا ایک طرف تربیت کے لیے عملی تدویرواسباب اختیار کرتے،دوسری طرف اولاد کی صالحیت کےلیےدعابھی کرتے،چنانچہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے جو دعاکی اسے قرآن مجید میں نقل کیاگیا ہے

( رب اجعلنی مقیم الصلواۃ ومن ذریتی ربنا و تقبل دعا )اے میرےرب مجھ کو اور میری اولاد کو نماز قائم کرنے والا بنا اور میری دعا کو قبول فرما

قابل ذکر بات یہ ہے کہ حضرت یعقوب علیہ السلام نےاپنی موت سے پہلے اپنی اولاد کا امتحان لیا کہ آیا میری اولاد میرے مرنے کے بعد دینی نقوش کو باقی رکھیں گے یانہیں؟چنانچہ

حضرت یعقوب علیہ السلام کے اس فکر اور حسن کردار کو ہماری رہنمائی کےلئے قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نےاس طرح تصویر کشی کی ہے

(اذقال لبنیہ ماتعبدون من بعدی قالوانعبدالھک والہ آباءک ابراہیم واسماعیل واسحاق الھاوواحدا ونحن لہ مسلمون(سورہ بقرہ۔ 132 )جب کہا اپنے بیٹوں کو تم میرے بعد کس کی عبادت کروگے؟ان لوگوں نے کہا کہ ہم تیرے اور تیرے باپ دادوں(ابراہیم واسماعیل واسحاق) کےرب کی عبادت کریں گے وہی ایک معبود ہے،اور ہم سب اسی کے فرمانبردار ہیں

واقعی اولاد کی تربیت کے سلسلے میں والدین میں یہ سوچ ہوتی ہے خاص طور اخروی کامیابی پیش نظر ہوتی ہے توان کی اولاددونوں جگہوں میں کامیاب ہوتی ہیں

الغرض اولادکوپروان چڑھانے میں اولاد کی محنت اور لگن کے ساتھ ساتھ والدین کاشروع سے حکمت عملی کے ساتھ تربیت کرنا بھی نہایت ضروری ہے ،یہ چیزانبیاء اور سلف صالحین میں بدرجہ اتم موجود تھی ،اس کی کچھ جھلک میں نے اپنے والد محترم مولانا احمدحسین صاحب المظاہری( رحمہ اللہ )میں بھی دیکھی کہ آپ ہمیشہ اس کے لئے کوشاں رہتے اوردعا بھی کرتے رہتے کہ ہماری ساری اولاد کی اچھی تربیت ہو،اس لیے آپ چھوٹی چھوٹی باتوں پر نظر رکھتے،معمولی غلطی پرسخت گرفت کرتے،ہاں یہ بات ان میں ضرور تھی کہ سب بچوں کوایک ہی ڈنڈے سے نہیں ہانکتے بلکہ بچوں کے مزاج کے مطابق اور عمروں کے اعتبار سےپیش آتے،اور تربیت کرتے،اس کی کئ مثالیں نقوش احمد میں راقم نے پیش کیاہے ،اس میں دیکھ سکتے ہیں

اخیر میں دعاہے کہ اللہ ہمیں بھی اپنی اوراولاد کی اصلاح کےلئے سلف صالحین کے طریقوں کو اپنانے کی توفیق عطا فرمائے آمین

Comments are closed.