خدارا میت کی بے حرمتی سے بچیے!

حافظ اقبال چوناوالا،جوگیشوری،ممبئی
رکن مجلس مشاورت دارالعلوم وقف دیوبند
میرے محلے ویشالی نگر جوگیشوری کے ایک عزیز ساتھی خلیل غوری صاحب کے بہنوئی کا باندرہ ہولی فیملی ہسپتال میں 24 جون بروز بدھ کو مغرب بعد انتقال ہوگیا تھا ، مرحوم کرونا وائرس سے متاثر تھے، ہم لوگ فورا ہسپتال پہنچ گئے، ہسپتال کی ساری کاروائی اور پھر بی ایم سی کی رسید اور پولس این او سی حاصل کرنے کے بعد تقریبا رات بارہ بجے کے قریب ہم لوگ باندرہ ویسٹ کوکنی قبرستان پہنچ گئے، ہسپتال میں ممبئی جامع مسجد کی طرف سے ایمبولینس موجود تھی، قبرستان پہنچ کر ساری کارروائی اور نماز جنازہ سے فارغ ہو کر جو ساتھی میت کو قبر میں اتارنے کےلئے مقرر کیے گیےتھے انھوں نے قبر میں میت کو آرام سے اتار دیا پھر گورکن نے بنا کسی لکڑی کے تختے یا لکڑی کی پلائی کے فورا پھاوڑے سے سیدھا میت پر مٹی ڈالنا شروع کردیا، میں نے فورا اعتراض کیا اور لکڑی کے تختے اور پلائی لگانے کی درخواست کی لیکن انھوں نے صاف انکار کردیا اور کہا کہ ہم کو اسی طرح تدفین کرنے کی ہدایت ہے اور یہ اس قبرستان میں کورونا والی تہتر ویں 73 میت ہے اور ہم سب کورونا میت کو اس طرح ہی دفن کرتے ہے، میں نے تدفین کے بعد تفصیلات معلوم کی کہ کس کی طرف سے ہدایت ہے تو انھوں نے ممبئی جامع مسجد کے تحت جو لوگ تدفین کی خدمت انجام دے رہے ہیں انکا نام لیا، میں نے فورا اس ٹیم کے ایک ساتھی شاداب بھائی کو رات ہی میں بارہ بجکر پچیس منٹ پر فون کیا جب ان سے میں نے اس بارے میں سوال کیا تو انھوں نے بتایا کہ بی ایم سی کی طرف سے اور مہاراشٹر حکومت کی طرف سے ہم کو یہ ہدایت ہے کہ میت کو قبر میں رکھنے کے بعد بنا کسی تختے کے سیدھے مٹی ڈال دی جائے، میں نے کہا ایسی کوئی ہدایت تو نہیں ہے اور پھر میں نے ہمارے علاقہ اوشیوارہ قبرستان کا حوالہ دیا کہ ہمارے علاقے کے اوشیورہ قبرستان جوگیشوری میں تدفین کے وقت لکڑی کی پلائی رکھی جاتی ہے تو انھوں نے کہا وہ لوگ ایسا کیوں کرتے ہیں مجھے معلوم نہیں، میں رات بھر اسی بےچینی کی عالم میں پریشان رہا اور سوچتا رہا یہ میت کی بے حرمتی کیسے ہورہی ہے اور کون اسکا ذمہ دار ہے؟
صبح ہوتے ہی میں نے مفتی عزیز الرحمن فتح پوری دامت برکاتہم کو فون کرکے ساری تفصیلات بتلائی، پھر مفتی سعید الرحمن صاحب سے بات کی ،پھر مفتی جسیم الدین قاسمی مرکزالمعاف سے بات کی سب نے یہی فرمایا کہ یہ تو میت کی بے حرمتی ہے کہ میت کو سیدھے مٹی میں دبا دیا جائے ،تدفین کا صحیح اسلامی طریقہ یہ ہے کہ اس طرح میت کو دفن کیا جائے کہ میت کے بدن پر مٹی نہ آئے یا تو بغلی قبر بناکر میت کو اس کے اندر رکھ کر کچی اینٹ یا نرکل وغیرہ سے بند کردیا جائے یا قبر اگر صندوقی ہے جیسا کہ آج کل ممبئی وغیرہ میں ہوتی ہے تو پھر تختے، پلائی یا سیمنٹ کے سلیب وغیرہ سے بند کر دیا جائے اور پھر تختے وغیرہ کے درمیان جو سراخ ہو اسے چٹائی وغیرہ سے بند کرکے مٹی اس طرح ڈالی جائے کہ میت کے بدن پر مٹی نہ گرے۔ انہوں نے فتاویٰ کی مشہور کتاب فتاوی شامی کا حوالہ بھی دیا۔(قوله: والقصب) قال في الحلية: وتسد الفرج التي بين اللبن بالمدر والقصب كي لاينزل التراب منها على الميت، ونصوا على استحباب القصب فيها كاللبن. اهـ(رد المحتار: 2/ 236)
پھر میں نے ممبئی میں تدفین کی خدمات انجام دینے والے ذمے دار اقبال بھائی ممدانی صاحب سے بات کی تو انھوں نے برجستہ کہا ہم کو حکومت کی طرف سے یہ ہدایت ہے اور پورے مہاراشٹر میں اسی طرح تدفین ہورہی ہے، ہم اسی پر عمل کریں گے، پھر کہنے لگے کہ میت کو پلاسٹک کی بیگ میں ڈال کر دیتے ہیں،پلاسٹک کو گلنے میں دس سال لگتاہے اور اگر ہم تختہ رکھیں گے تو تختہ گلنے کو اور تین سال لگتا ہے، عجیب الٹی سیدھی باتیں کیں اور بھی بہت کچھ باتیں کیں جو مجھکو بہت نامناسب لگیں، بہت ہی افسوس ہوا خدمت کرنے والے کی گفتگو سن کر۔
بہر حال پھر میں نے ہمارے محترم مولانا محمود دریابادی صاحب کو ساری تفصیلات بتلائی انھوں نے ایم ایل اے رئیس شیخ صاحب سے بات کی اور یہ معلوم کیا کہ کیا بی ایم سی کی طرف سے ایسی کوئی ہدایت ہے تو رئیس شیخ صاحب نے بتایا ایسی کوئی ہدایت نہیں ہے اور نہ ہی ایسا کوئی جی، آر یا سرکولر آیا ہے کہ لکڑی کا تختہ نا رکھا جائے، پھر میں نے ملاڈ ویسٹ قبرستان کے ذمے دار مختار بھائی سے بات کی ،انھوں نے بتایا کہ ہمارے یہاں پوری طرح سنت طریقہ پر تدفین کی جاتی ہے لکڑی کی پلائی کے ساتھ چٹائی بھی پلائی پر رکھتے ہیں اور ہمیں کوئی ایسی ہدایت حکومت کی طرف سے نہیں ملی ہے کہ تختہ یا چٹائی نا رکھی جائے۔
پھر میں نے مفتی حذیفہ دامت برکاتہم بھیونڈی سے بات کر کے معلوم کیا کہ آپ کے یہاں کووڈ میت کی تدفین کا طریقہ کار کیا ہے انھوں نے بھی یہی بتایا کہ وہاں بھی لکڑی کے تختے اور چٹائی کے ساتھ تدفین ہوتی ہے، اسی طرح میں نے مہاراشٹر کے دوسرے علاقے دھولیہ، مالیگاوں، اورنگ آباد، بیڑ ، سب جگہ سے معلومات حاصل کی، سب نے یہ بتایا کہ ہم حکومت اور پولس کی نگرانی میں بھی تختے اور چٹائی کے ساتھ ہی کووڈ میت کو دفن کرتے ہیں۔
پھر آج بروز جمعہ ڈھائی بجے میں اور مولانا مبشر صاحب نے ممبئی بی ایم سی کے ویسٹ آفس میں میڈیکل آفیسر گلنار خان سے ملاقات کی اور ان سے پوچھا کہ کیا بی ایم سی کی طرف سے ایسی کوئی ہدایت یا سرکولر جاری کیا گیا ہے کہ میت کو بغیر تختے اور چٹائی کے یونہی دفن کیا جائے؟ تو انھوں نے اس بات سے صاف انکار کردیا اور کہاکہ ایسا کوئی سرکولر جاری نہیں کیا گیا ہے، آپ لوگ اپنے مذہب کے مطابق تدفین کریں، اس میں بی ایم سی کی طرف سے کوئی ہدایت جاری نہیں کی گئی ہے۔
اب میرا سوال یہ ہے کہ ممبئی جیسے عظیم الشان شہر میں میت کی اس طرح بے حرمتی کے ساتھ تدفین ہورہی ہے اس کا ذمے دار کون ہے؟ اور کیا اس غلط طریقے کو جلد از جلد درست نہیں کرنا چاہئے؟ اور جو لوگ نادانی یا ناواقفیت یا لا پرواہی کی وجہ سے اس طرح تدفین کررہے ہیں انکی اصلاح نہیں ہونی چاہئے ؟
ہمیں یہ معلوم ہونا چاہیے کہ اسلام میں انسان کا جس طرح زندگی میں احترام ہے اسی طرح مرنے کے بعد مردے کے جسم کا بھی مکمل احترام ہے۔چنانچہ حدیث شریف میں ہے کہ عمرو بن حزم رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے مجھے ایک قبر پر ٹیک لگائے دیکھا، تو فرمایا:’’ اس قبر والے کو ایذا نہ دو۔‘‘ (مسند احمد،المستدرک للحاکم : ۶۵۰۲)
اسی طرح حدیث میں ہے کہ میت کی ہڈی توڑنا زندہ کی ہڈی توڑنے کی طرح ہے۔ ان روایات سے واضح طور پر معلوم ہوتا ہے کہ احترامِ میت کے منافی کوئی فعل نہیں ہونا چاہیے۔ احادیث میں وارد لفظ شق (سامی) لحد( بغلی قبر) کا تقاضا بھی یہی ہے کہ میت اور مٹی کے درمیان آڑ ہو۔

خصوصی اپیل
میری تمام عمائدین شہر اور سماجی و سیاسی رہنماؤں سے اپیل ہے کہ تمام قبرستان کے ذمہ داروں کو یہ بتائیں کہ حکومت کی طرف سے ایسی کوئی ہدایت نہیں ہے کہ تختے اور چٹائی نہ رکھے جائیں نیز شریعت کا بھی مسئلہ یہی ہے کہ سیدھے مٹی ڈالنے سے میت کی بے حرمتی ہوتی ہے نیز بی ایم سی کی طرف سے بھی کوئی ایسی ہدایت نہیں ہے۔
جامع مسجد سے بھی گزارش ہےکہ ماشاء اللہ آپ حضرات بڑی اہم خدمت انجام دے رہے ہیں، بس یہ جو ایک کوتاہی ہو رہی ہے اس کو شریعت کے مطابق درست کرلیجیے اللہ تعالیٰ آپ کے اجر میں اضافہ کرے گا انشاءاللہ۔
عوام سے بھی اس بات کی اپیل کی جاتی ہے کہ وہ اپنی میتوں کو شریعت کے مطابق ہی دفن کریں، اگر قبرستان والے تختے کا انتظام نہیں کرتے تو اپنی طرف سے تختے یا پلائی ضرور لے کر جائیں، حکومت کی طرف سے بھی یہ بالکل منع نہیں ہے۔
آپ سب کا خادم
اقبال چونا والا جوگیشوری ممبئی
26/ جون 2020

Comments are closed.