احساس سے ذمہ داری سے عاری مسلمانوں کی بے سمت زندگی

مفتی احمدنادرالقاسمی
اسلامک فقہ اکیڈمی انڈیا
خندہ زن کفر ہے احساس تجھے ہے کہ نہیں
اپنی توحید کا کچھ پاس تجھے ہے کہ نہیں
فلسفہ عروج وزوال میں دنیا کا یہ دستور رہاہے کہ جب کوئی قوم اپنی قومی غیرت سے آزاد ہوکر دوسروں کے سہارے زندہ رہنے کی عادی ہوجاتی ہے اور اپنے زندگی کے معاملات میں مکمل دوسروں پر انحصار کرلیتی ہے تو وہ زندہ لاش کی مانند بے قیمت ہوکر رہ جاتی ہے۔اوربجائے داعی کے مدعوبن جاتی ہے۔اس کامقصد حیات بے سمتی کا شکار ہوجاتاہے ۔اسے جو مل جائے بس اسی پر قناعت کرنے لگ جاتی اورنشان منزل تلاش کرنے کا ہنر کھودیتی ہے۔اس کی زندگی میں کوئی ایسی چیز باقی نہیں رہ جاتی ہے جودوسروں کو متاثر کرسکے۔ آج امت کا ایساہی کچھ حال ہوکر رہ گیاہے۔نہ اخلاق وکردار کی دولت ہے جو دوسری اقوام کے لئے وجہ کشش ہو۔نہ کوئی پیغام ہے جو دوسروں کو دے سکے اور جس خصوصیت کی یہ ملت حامل ہے نہ اسکی دعوت ہے،نہ مشن ہے۔اور اس سے آگے بڑھ کر یہ کہ احساس ذمہ داری کے ادراک سے بھی عاری ہے جس کا نتیجہ ہے کہ پوری دنیا اس پر ٹوٹ پڑی ہے اور یہ خواہش کرنے لگی ہے کہ مسلمان اس کے انداز فکر اور طریقہ زندگی کو اختیار کرلے ،اس کے فلسفہ حیات کو اپنالے ۔یہ ہوا اس لئے کہ جب کوئی قوم اپنے اصولوں کی دعوت سے منحرف ہوجاتی ہے تو توبجائے داعی کے مدعو بن جاتی ہے ۔اسے دوسروں کی فکر اور سوچ متاثر کرنے لگتی ہے۔
اس کامشاہدہ حضرات قارئین کو گزشتہ دنیا کے چھ سات مہینوں میں پیداشدہ مایوس کن حالات میں ضرور ہواہوگا کہ ایسے حالات میں اسلام کا اور کتاب وسنت کا کیا پیغام اور رہنمائی ہے۔امت کے افراد نے دنیائے انسانیت کی نہیں کی ،دنیا کو رب کی طرف نہیں بلایا ۔اس کے خالق سے اس کے تعارف کی طرف توجہ نہیں دی۔نتیجہ یہ ہوا کہ دنیانے اپنی بقا اور تحفظ کا مسیحا غیراللہ یعنی WHOکوقرار دیا ۔اس نے کہا چلو تو دنیا چلی ،اس نے کہا رکو تو دنیارکی ،اس نے کہا گھروں میں اپنے آپ کو محصور کرو تو دنیا نے محصور ہونے میں عافیت سمجھی ۔رب کی طرف بلانے اور رب کی معرفت رکھنے والی قوم خاموش تماشائی بلکہ اسی کی مبلغ بن کر کھڑی دکھائی دینے لگی۔
وائے ناکامی متاع کارواں جاتارہا
کارواں کے دل سے احساس زیاں جاتارہا
ایسالگتا ہےکہ ہم نے یہ طے کرلیا ہے کہ دنیا ہمارے لئے کچھ کرے گی توہم زندہ رہیں گے۔دنیا کچھ سوچے گی تو ہم آگے بڑھیں گے ۔ہم کچھ کرسکنے کی پوزیشن میں نہیں ہیں ۔اس طرح دنیا میں ہم بے وقعت وبے بس قوم بن کر رہ گئے۔کوئی ہماری بات سنتا نہیں ۔ہر جگہ ہمارے حقوق سلب ہورہے ہیں ۔ہم صرف چیخ رہے ہیں کہ ہمارے حقوق مارے جارہے ہیں ۔ہمیں نظر انداز کیا جارہاہے۔مذہبی اور قومی بنیاد پر ہمارے ساتھ عصبیت ہورہی ہے۔اور ہم بس یہ کہ کر اپنے غصے کو ٹھنڈا کرلیتے ہیں ۔یہودی برے ہیں ۔کرشچن غلط ہیں ۔الکفر ملۃ واحدۃ۔وغیرہ وغیرہ ۔ہم نے یہ نہیں سوچاکہ ہم نے بھی کچھ کیا یا نہیں اور ہمیں کرنا کیاچاہئے۔اس وقت سب سے بڑا سوال یہ ہے کہ ہم نے اپنے حصہ کا کام کیا یا نہیں ؟ہم نے یہ سوچاہی نہیں کہ ہم تو دوسروں کے سہارے زندہ ہیں ۔ہم نے ہمیشہ دوسروں سے حقوق مانگا ۔ہم نے حصہ دار بننے کی کوشش نہیں کی۔اس وقت ہمارا طرز عمل ایساہوگیا ہے کہ دنیا ہماری حرکتوں پر خندہ زن ہے۔ہمیں احساس ہی نہیں کہ ہم خود اپنے دین ،اپنے ایمان اور اپنے مذہبی مسلمات کے لئے مضحکہ کا سامان بن چکے ہیں۔ہمیں قران سمجھاتاہے ،ہم سمجھنے کوتیار نہیں ۔ہمیں رسول اپنے مقدس ارشادات کے ذریعہ بدلنا چاہتاہے ہم بدلنے کو راضی نہیں ۔ہمیں صحابہ کی عملی زندگی جدوجہد کی دعوت دیتی ہے ہم کرنے کو تیار نہیں۔پھر ہمیں گلہ ہے کہ ہم بے وزن ہیں۔”یاایھا الناس قد جا ٸکم برھان من ربکم۔“(سورہ نسا ٕ ١٧٤)”قدجاءکم بصائر من ربکم فمن أبصر فلنفسہ ومن عمی فعلیھا“(سورہ انعام ١٠٤) ”توبوا إلی اللہ جمیعا أیہ المومنون“۔(سورہ نور)
ہماری لاشعوری کا عالم یہ ہے کہ ہم مساجد میں کیسے نماز پڑھیں اور کیسے کھڑے ہوں اور صفوں میں کتنا فاصلہ رکھیں اور مساجد میں رکھے ہوئےمصلوں پر نماز ادا کریں یا بغیر مصلے کے فرش پہ نماز پڑھیں ۔اپنے گھرسے مصلے لے کر مساجد کو جائیں یا بغیر مصلے کے جائیں ۔یہ بھی ہم طے کرنے کی حالت میں نہیں ہیں۔ہم ان میں بھی ان کے أحکام کے پابند ہیں جو جانتے ہی نہیں نماز کیاہے؟ہم نے کھبی یہ سوچاکہ بغیر اس کا اظہار کئے ہماری عبادت میں کہیں یوگا کا طریقہ تو نہیں عالمی پیمانےپر داخل کیا جارہا ہے جو اپنے گھروں سے چادریں لےکر پارکوں میں جاتے اور ایک ایک میٹر کے فاصلہ پر چادریں بچھاتے ہیں۔ کہیں ہمیں تو نہیں اسی طرح بھیڑ اور اجتماع کے نام پر مساجد میں اسی طرح کھڑا ہونے پر جبرا ڈسٹینسنگ کانام دے کر مجبور کیا جارہاہے اور ہم طبی احتیاط کے نام پر ترک سنت اور ”صلواکمارأیتمونی أصلی“ کے ترک کا ارتکاب کررہے ہیں؟ جس میں اقامت صلوۃ تو پایاجاتاہےمگر جماعت اور ہماری اجتماعیت کا گلا گھونٹا جارہا ہے۔ کیونکہ جب ہم اپنے بھائی سے مل مل کر کھڑے ہی نہیں ہورہے ہیں تو جماعت کی حقیقت کہاں وجود میں آرہی ہے؟ اورہم اپنااپنا مصلی بغل میں دبائے بھاگے چلے جارہے ہیں اور مساجد میں الگ الگ بچھاکر بڑے ادب سے کرونا چپٹ جانے کے خوف سے گردن جھکائےبیٹھے ہیں ۔یہ سب کیا ہورہاہے ؟ہم مسجدوں کے صاف شفاف فرش پہ نماز کیوں نہیں اداکررہے ہیں جو مصنوعی ٹریڈیشن کریٹ کررہے ہیں؟ اور أئمہ اور اہل علم نصیحت پہ نصیحت بغیر غوروفکر کے کئے چلے جارہے ہیں ۔بہر حال بات بہت لمبی ہوجائےگی ۔یہ ساری باتیں بڑی دانشمندی کے ساتھ سوچنے کی ہیں ۔جب ہم کوئی بات کہیں تو اسلام کے عمومی مزاج اور سامنے والے کے طرزعمل اور اس کے حقائق کی تہ تک بھی جانے کی کوشش کریں ۔اللہ تعالی امت کو ہر شر سے محفوظ رکھے آمین۔
انشاء اللہ کل کی گفتگو کرونا اور مڈیکل انشورنس اورکووڈ جانچ کو بنیادی تفتیش کاحصہ بنانے ،طب کا کمرشیلائزیشن اور غریب عوام پر ہوگی ۔
Comments are closed.