امام محمد قاسم نانوتوی: حیات وخدمات کے چند درخشاں پہلو

اسجد عقابی
برصغیر کے علماء ومشائخ میں جن مقدس ہستیوں نے وقتاً فوقتاً دینی کاز کیلئے قربانیاں دی ہیں، ان کی فہرست کافی طویل ہے۔ شیخ مجدد الف ثانی رحمۃ اللہ علیہ نے نام نہاد دین الہٰی ( اکبری) کا قلع قمع کرنے کیلئے زندگی کا طویل عرصہ زنداں کی تاریکیوں میں گزارا ہے۔ شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ نے اشاعت حدیث اور قرآنی تعلیمات کی ترویج کیلئے کئی طرح کے الزامات سہے ہیں۔ شیخ عبد الحق محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ نے حدیث کی تعلیمات کیلئے طویل زمانے تک جد وجہد کی ہے۔ سید الطائفہ حاجی امداد اللہ مہاجر مکی نے بیعت و سلوک کے ذریعہ بدعات و خرافات کی پھیلی قبیح رسومات کو جڑ سے اکھاڑا ہے۔ انہیں نابغہ روزگار اور دین حنیف کے مقدس قافلہ میں ایک نام حجتہ الاسلام امام محمد قاسم نانوتوی رحمۃ اللہ علیہ کا ہے۔ برصغیر نہیں بلکہ عالمی سطح پر آپ کی شخصیت متعارف ہے۔ آپ کی شخصیت کے متعلق مختلف سوانح حیات، مقالات ومضامین مخطوطات وغیرہ آپ کے زمانہ سے اب تک لکھے جارہے ہیں۔ ان تمام تحریرات میں آپ کی زندگی، کارنامے، خدمات، علمی تفوق، ولایت، فقاہت، فلسفہ، کلام نیز دیگر علوم باطنیہ و ظاہریہ کا جو خلاصہ سلطان القلم مولانا مناظر احسن گیلانی رحمۃ اللہ علیہ نے (سوانح قاسمی) میں درج فرمایا ہے وہ کہیں اور نہیں ہے۔ مولانا مناظر احسن گیلانی رحمۃ اللہ علیہ کی مرتب کردہ سوانح سے زیادہ جامع اور معتبر تحریر کس کی ہوسکتی ہے، کیونکہ اس سوانح کے اصل مآخذ آپ کا خاندان اور خصوصاً آپ کے پوتے حکیم الاسلام حضرت مولانا قاری طیب صاحب قاسمی رحمۃ اللہ علیہ کی ذات گرامی ہے اور وہ جمع شدہ احوال ہیں جنہیں تحریری شکلوں میں سنبھال کر رکھا گیا تھا۔
ولادت با سعادت
آپ کی ولادت با سعادت ہجری سن کے اعتبار سے 1248 ہے لیکن ماہ کی تعیین میں اختلاف ہونے کی بنا پر عیسوی سن میں بھی قدرے اختلاف ہوگیا ہے، اس اعتبار سے 1832 یا 1833 ہے۔ آپ کی پیدائش اس وقت میں ہوئی جب انگریزی تسلط تقریباً پورے ملک میں اپنا قبضہ جما چکا تھا اور سلطنت مغلیہ صبح کے چراغ کے مانند ٹمٹما رہی تھی۔ آپ کے جدِ امجد مولانا ہاشم صاحب کو شاہجہانی عہد میں نانوتہ کی جاگیر داری عطاء کی گئی تھی۔ آپ کا سلسلہ نسب حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے ملتا ہے اور اسی مناسبت سے صدیقی لکھنے کا قدیم رواج آپ کے خاندان میں پایا جاتا ہے۔
ابتدائی تعلیم
آپ بچپن سے ہی نہایت ذہین، طباع، بلند ہمت، تیز، وسیع حوصلہ، جفاکش، جری و چست و چالاک تھے۔ آپ نے نانوتہ میں قائم مکتب سے تعلیمی سفر کا آغاز کیا، چند دنوں کے قلیل عرصہ میں قرآن مجید مکمل کرلیا تھا۔ چند دنوں تک مکتب میں تعلیم حاصل کرنے کے بعد آپ دیوبند تشریف لائے، یہاں آپ نے مولوی مہتاب صاحب سے عربی تعلیم کا آغاز کیا۔ اس وقت آپ کی عمر بمشکل آٹھ سے نو سال تھی۔ حقیقت تو یہ ہے کہ جس ذات گرامی سے محض 49 سال کی عمر میں بڑے بڑے تجدیدی کارنامے ذات باری کو لینا مقصود تھا، اس بچہ کی ذہنی سطح بھی لاکھوں کروڑوں سے الگ تھی۔ آپ میں تفہیمی صلاحیت ناقابل یقین حد تک موجود تھی۔ دیوبند میں کچھ دنوں قیام کے بعد آپ سہارنپور اپنے نانا مولوی وجیہ الدین رحمۃ اللہ علیہ کے گھر تشریف لے گئے۔ یہاں آپ نے تعلیمی سلسلہ کو جاری رکھتے ہوئے سہارنپور کے مشہور بزرگ مولانا نواز سہارنپوری سے عربی زبان کی بعض کتابیں پڑھیں۔
1260 ہجری میں آپ مولانا مملوک علی نانوتوی رحمۃ اللہ علیہ کے ہمراہ دہلی پہنچے۔ مولانا مملوک علی اس وقت دلی عربی کالج کے استاد اور حضرت نانوتوی کے والد محترم شیخ اسد علی مرحوم کے رفیق اور قریبی رشتہ دار تھے۔ دہلی میں رہتے ہوئے آپ نے مختلف علوم و فنون میں دسترس حاصل کی، یہیں دہلی کے قیام کے دوران آپ کی ملاقات قطب عالم مولانا رشید احمد گنگوہی رحمۃ اللہ علیہ سے ہوئی۔ اگرچہ حضرت گنگوہی عمر میں تقریباً چار سال بڑے تھے لیکن ایسا دوستانہ تعلق پیدا ہوا جو اپنے آپ میں مثال ہے۔ بعد کے زمانے میں ان دونوں ہستیوں نے تقریباً تمام عمر ایک دوسرے کے معاون اور دست راست کے طور پر گزارا۔ دہلی میں قیام کے دوران حدیث میں صحاح ستہ کے علاوہ دیگر اہم کتابیں آپ نے شاہ عبد الغنی اورمولانا مملوک علی نانوتوی رحمۃ اللہ علیہما سے پڑھا ہے۔ محض سترہ سال کی عمر میں آپ علوم ظاہریہ کی تکمیل سے فارغ ہوکر اپنے وطن مالوف نانوتہ تشریف لے آئے۔
بیعت و سلوک
علوم ظاہریہ سے فراغت کے بعد علوم باطنیہ کی تکمیل کیلئے سید الطائفہ حاجی امداد اللہ مہاجر مکی رحمۃ اللہ علیہ کے دامنِ ارادت سے وابستہ ہوئے۔ حاجی صاحب سے آپ کی ملاقات بچپن سے ہی ہوا کرتی تھی۔ حالت طفولیت سے ہی حاجی صاحب سے قلبی لگاؤ تھا، نانوتہ میں قیام کے دوران اور بارہا نانوتہ سے دہلی اور دہلی سے نانوتہ جاتے ہوئے تھانہ بھون میں روحانی تسکین کیلئے قیام فرماتے۔ لیکن اس ملاقات اور عقیدت و محبت میں شدت مزید اس وقت پیدا ہوئی جب آپ دہلی میں مقیم تھے۔ باوجودیکہ حاجی صاحب کا حلقہ ادارت دہلی میں بہت وسیع تھا حتی کہ شاہی خاندان کے بعض افراد بھی ان کے دامنِ ارادت سے وابستہ تھے، لیکن حاجی صاحب جب بھی دہلی تشریف لاتے ہمیشہ مولانا مملوک علی نانوتوی کے پاس قیام فرماتے۔ مولانا نانوتوی اور آپ کے رفیق خاص کو فائدہ اٹھانے کا بھر پور موقع ملا کرتا تھا، یہ بھی عجیب بات ہے کہ ابتداء میں مولانا رشید احمد گنگوہی کو حاجی صاحب سے کچھ خاص لگاؤ نہیں تھا، مولانا نانوتوی کی تشکیل اور حاجی صاحب کے متعلق بیانات نے مولانا رشید احمد گنگوہی کو بھی بیعت و سلوک کے منازل طے کرنے پر آمادہ کرلیا۔ مولانا نانوتوی کے علم و فضل پر حاجی صاحب کو اس قدر اعتماد تھا کہ فرمایا کرتے تھے کہ جس طرح اللہ نے شمس تبریز کو مولانا رومی بطورِ لسان عطاء کیا تھا، اللہ نے مجھے قاسم نانوتوی کو بطورِ لسان عطاء کیا ہے۔ آپ کو دیکھنے والے اور آپ کے ساتھ رہنے والے اس بات کی شہادت دیتے ہیں کہ کرامات و مکاشفات کا عمل ہر روز آپ سے ہوا کرتا تھا، لیکن آپ انہیں اس طرح چھپاتے کہ کسی کو خبر تک نہ ہوتی تھی۔
جنگ آزادی
آپ نے دہلی میں ایسے وقت میں قیام فرمایا تھا، جب دہلی کے لال قلعہ کی رونقیں پھیکی پڑ چکی تھی۔ دہلی کی سیاسی ہنگامہ آرائی کو آپ نے بہت قریب سے دیکھا تھا۔ یہ ایسا زمانہ تھا جب ہر دن مسلمانوں کیلئے کہیں نہ کہیں سے کوئی اندوہناک خبر موصول ہوا کرتی تھی۔ ایسے وقت میں تھانہ بھون کے درویش نے بھی اپنی جماعت کے ساتھ مل کر انگریزوں سے مقابلہ کرنے کی تیاری شروع کی۔ 1857 کے غدر میں پاکبازوں کی یہ مقدس جماعت بھی انگریزوں کے خلاف شاملی کے میدان میں سینہ سپر ہوگئی۔ فوج کی قیادت سید الطائفہ حاجی امداد اللہ مہاجر مکی فرمارہے تھے، جبکہ فوج میں حضرت نانوتوی، مولانا رشید احمد گنگوہی اور حافظ ضامن شہید جیسے نوجوان صف اول میں تھے۔ مسلمانوں کیلئے یہ آخری لڑائی ثابت ہوئی اور پھر ہمیشہ کیلئے ہندوستان کی سرزمین جس پر مسلمانوں نے صدیوں حکمرانی کی تھی مسلمانوں کے ہاتھ سے نکل گئی۔ مغلیہ سلطنت کا ٹمٹماتا چراغ اس آندھی کا مقابلہ نہیں کرسکا اور ہمیشہ کیلئے گل ہوگیا۔
بخاری شریف کا حاشیہ
آپ کی علمی شخصیت کسی تعارف کی محتاج نہیں تھی۔ لیکن ابتدائی زمانہ میں جب عوام کا بڑا طبقہ آپ کی علمی صلاحیتوں سے ناواقف تھا، ایسے زمانہ میں محدث احمد علی سہارنپوری نے بخاری شریف کے اخیر کے چھ پاروں پر حاشیہ کا کام آپ کے سپرد کردیا۔ علمی حلقوں میں چہ میگوئیاں ہونے لگیں، بعض نے خطوط لکھ کر محدث احمد علی سہارنپوری سے اعتراض جتلایا کہ ایک نو خیز کے ذمہ اتنا اہم کام کیسے سپرد کیا جاسکتا ہے۔ محدث سہارنپوری نے قریب سے آپ کو پرکھا تھا، جانچا تھا، آپ کی علمی گہرائی و گیرائی سے واقف تھے، آپ نے مولانا نانوتوی کو کام کرنے دیا۔ کام کے اختتام پر محدث سہارنپوری نے وہ مسودہ ان معترضین کے سامنے پیش کیا جو اب تک اس نوخیز عالم ربانی کی حقیقت سے ناواقف تھے۔ کسی معترض کو یہ کہنے کے علاوہ کہ (اس سے بہتر اور کیا ہوسکتا ہے) کچھ نہیں تھا۔
آپ کا علمی سرمایہ اتنا اہم اور ایسے باریک مسائل پر مشتمل ہےکہ، موجودہ زمانے میں ان کی تسہیل کی ضرورت ہے۔ بحمد اللہ یہ کام کئی افراد نے انجام دیا ہے اور فی الوقت خانوادہ قاسمی کے چشم وچراغ ڈاکٹر مولانا محمد شکیب قاسمی کی زیر نگرانی حجہ الاسلام اکیڈمی دارالعلوم وقف دیوبند میں یہ کام بخوبی انجام دیا جارہا ہے۔ امید ہے کہ نسل نو کیلئے یہ قیمتی علمی سرمایہ کار آمد ثابت ہوگا۔
آپ نے وقتاً فوقتاً حالات و واقعات کے پس منظر میں کئی کتابیں تصنیف کی ہیں۔
تحزیر الناس
آب حیات
تقریر دلپزیر
تصفیہ العقائد
وغیرہ کتابیں قابلِ ذکر ہیں۔
علمی مناظرہ
سلطنت مغلیہ کے سقوط کے بعد، مسلمانوں پر کئی طرح کے حملے ہوئے۔ انگریز حکومت کے وظیفہ خور پادریوں نیز پنڈتوں نے یکبارگی مسلمانوں کے عقائد پر چہار جانب سے حملہ کیا۔ ایسے وقت میں امام محمد قاسم نانوتوی کی ذات گرامی نے ہندوستانی مسلمانوں کو چہار جانب سے محفوظ رکھنے کیلئے مختلف لائحہ عمل کو تیار کیا، اور بیک وقت ہر محاذ پر بذات خود آہنی دیوار بن کر مسلمانوں کے لئے کھڑے ہوگئے۔ آپ نے کئی مناظرے کئے ہیں۔ کبھی پنڈتوں سے تو کبھی پادریوں سے۔ اخیر میں شاہ جہاں پور کے مناظرہ (میلہ خدا شناسی) جس میں ہر سہ مذاہب کے نمائندوں کو بیک وقت ایک ہی اسٹیج پر اپنے مذہب کی حقانیت کو ثابت کرنے کا موقع دیا گیا تھا۔ یہ ایسا مناظرہ تھا جس نے مسلمانوں میں اعتماد بحال کیا اور انہیں یہ یقین دلایا کہ ہند میں ملت کے نگہبان موجود ہیں۔ میلہ خدا شناسی کی مکمل روداد (مباحثہ شاہ جہاں پور) میں موجود ہے۔
جس زمانہ میں انگریزی مشنریز مکمل تیاری کے ساتھ صرف ہندوستان میں ہی بیٹھ کر نہیں، بلکہ سات سمندر پار بیٹھے لوگوں کے ساتھ مل کر مسلمانوں کی زبوں حالی اور بربادی کے منصوبے بنا رہی تھی، مسلمانوں کو قرآن و حدیث سے دور کرنے کی سعی کی جارہی تھی، اسی زمانہ میں ان منصوبوں کے توڑ کا کام دیوبند میں بوریہ نشیں قاسم نانوتوی کررہےتھے۔
اندرونی خلفشار
مغلیہ سلطنت کے اخیر زمانے میں شیعوں کا دبدبہ قائم ہوچکا تھا۔ خصوصاً میرٹھ، مظفر نگر، سہارنپور کے علاقوں میں سادات بارہہ کے تسلط اور اثر و رسوخ کی وجہ سے شیعیت کا خطرہ بھی سر پر منڈلانے لگا تھا۔ حضرت نانوتوی کے شیعوں کے ساتھ کئی ایسے واقعات پیش آئے ہیں جو کتابوں میں موجود ہے۔ ایک مرتبہ چند شیعوں نے آپ کا تمسخر اڑانے کیلئے زندہ شخص کا جنازہ پڑھانے کی درخواست کی۔ ان کے منصوبے کے اعتبار سے جب جنازہ کی دو تکبیرات ہوجائے تو جنازہ سے بندہ اٹھ کھڑا ہو۔ اس سے یقینا آپ کو سبکی ہوگی۔ آپ نے ابتداء میں منع کردیا اور عقائد کے اختلاف کو وجہ بتاتے ہوئے معذرت چاہی، لیکن شیعوں کے گروپ کی جانب سے جب اصرار زیادہ ہوا تو آپ غصہ کی حالت میں جنازہ کے سامنے تشریف لائے، نماز شروع ہوئی۔ دو تکبیر کے بعد جنازہ میں کوئی حرکت نہیں ہوئی۔ پیچھے سے لوگوں نے جنازہ کو منصوبہ کے مطابق اٹھنے کا اشارہ کیا لیکن جنازہ میں کوئی حرکت نہیں ہوئی۔ نماز سے فراغت کے بعد آپ نے غصہ کی حالت میں فرمایا اب یہ قیامت کی صبح ہی اٹھے گا۔ جب جنازہ دیکھا گیا تو وہ مر چکا تھا۔ اس واقعہ کا کافی گہرا اثر ہوا۔ کئی شیعہ تائب ہوکر دین اسلام کے سچے پیروکار بن گئے۔ دوسرا بڑا فائدہ یہ ہوا کہ جن سنیوں کے اذہان میں کچھ شکوک وشبہات پیدا ہوئے تھے ان کے عقائد میں پختگی پیدا ہوگئی۔
دارالعلوم کا قیام
ان شورشوں کے درمیان آپ نے چند مخلصین کے ساتھ مل کر 1866 میں دیوبند میں ایک مدرسہ قائم کرنے کا فیصلہ کیا۔ اس کام کیلئے علاقے کے بڑے بزرگوں کی سرپرستی حاصل کی گئی اور بے سرو سامانی کے عالم میں مکتب قائم کیاگیا۔ اخلاص و عمل کے پیکر اور مخلصین کی جماعت ہمہ تن اس مکتب کو کامیاب بنانے میں لگ گئی۔
جس طرز کو اپناتے ہوئے دارالعلوم کا قیام عمل میں آیا تھا، وہ بے نظیر تھا۔ اس سے قبل مدارس کا ایسا تصور موجود نہیں تھا۔ خدا پر بھروسہ کرتے ہوئے آپ نے اسے عوام الناس کے ذریعہ چلانے کا فیصلہ کیا اور اس کیلئے باضابطہ اصول ہشتگانہ متعین کیا گیا۔ آج بھی بحمد اللہ ان اصول ہشتگانہ کی اہمیت و افادیت برقرار ہے۔ حضرت نانوتوی کا لگایا ہوا یہ پھل ایسا ثمر آور درخت کی شکل میں امت کے سامنے آیا کہ آج عالم اسلام میں جو فیوض و برکات، جو علمی کارنامے ان مدارس سے وجود میں آئے ہیں وہ آب زر سے لکھے جانے کے قابل ہے۔ خصوصاً برصغیر میں جو اسلامی تعلیمات، اسلامی شناخت موجود ہے اس کا سہرا دارالعلوم کے سر جاتا ہے، اور دارالعلوم کا قیام حضرت نانوتوی کا کارنامہ ہے۔
وفات
15 اپریل 1880 میں آپ دار فانی سے رخصت ہوئے۔ اس قلیل مدت میں آپ نے وہ کارہائے نمایاں اور تجدیدی کام انجام دئیے ہیں، جو صدیوں میں بمشکل انجام دیئے جاسکتے ہیں۔ آپ کے مربی سید الطائفہ حاجی امداد اللہ مہاجر مکی فرمایا کرتے تھے کہ مولوی قاسم جیسی شخصیت صدیوں میں پیدا ہوتی ہے۔
(مولانااسجدعقابی دارالعلوم وقف دیوبندکے شعبہ انگریزی کے استاذہیں۔مولاناکے مضامین اورمقالات پڑھنے کے لئے مندرجہ ذیل لنک پرکلک کرکے مولاناکے ذاتی بلاگ پرتشریف لے جائیں۔)
Comments are closed.