مسلمان تعلیم کے سفر میں ادب و شعور کو شامل کریں

عارفہ مسعود عنبر
تعلیم کا ادبی شعور سے رشتہ ایسا ہی ہے، جیسا پھول کا خوشبو سے ،چاند کا چاندنی سے ، سورج کا روشنی سے، پھول اپنی خو شبو کے سبب ہی ہر شخص کا دھیان اپنی طرف متوجہ کر لیتے ہیں، اگر پھولوں سے خوشبو کو الگ کر دیا جائے تو وہ محض کاغذ کے پھولوں کی مانند سجاوٹ کے کام ہی آسکتے ہیں، نہ وہ اپنی مہک سے دوسروں کو معطر کر سکتے ہیں، نا فضاؤں میں خوشبو گھول کر ہواؤں کو مہکا سکتے ہیں، اسی طرح اگر چاند کو چاندنی سے جدا کر دیا جائے تو ایک سیاہ دھبے کے سوا کچھ نہیں رہے گا ، چاند اپنی چاندنی کے سبب ہی تمام عالم کو ٹھنڈک اور روشنی بخشتا ہے، سورج کو اگر اس کی روشنی سے الگ کر دیا جائے تو وہ آسمان میں اپنا وجود ہی کھو دیگا، یہی حال ہمارے علم و ادب اور شعور کا ہے ،شعور کے بغیر تعلیم بھی ایسی ہی ہے جیسے خوشبو کے بغیر پھول ، چاندنی کے بغیر چاند ، روشنی کے بغیر سورج، شعور کے بغیر اکثر لوگ اپنی تعلیم کا غلط استعمال کرنا شروع کر دیتے ہیں ، انسان تعلیم حاصل کر کے بڑے سے بڑے عہدے پر فائز ہو کر خود کو اعلی مقام پر محسوس کرنے لگتا ہے ، کامیابی اور بلندی کے نشے میں اسے ہر چیز بونی نظر آتی ہے وہ آسمان کی بلندیوں پر پرواز کرنے لگتا ہے جہاں پہنچ کر وہ اپنے آپ کو سب سے اوپر مان کر علم وفن کی وراثت کا بے تاج بادشاہ محسوس کرنے لگتا ہے ،اور اس بلند پرواز میں یہ بھول جاتا ہے کہ وہ چاہے جتنی بلند پرواز کیوں نہ کر لے لوٹ کر اسی زمین پر آنا ہے ،اور اس زمین کے نیچے ہی اس کا حقیقی مقام ہے ،جہاں ہماری کامیابیوں کی بلندیاں ہمارا سرمایہ نہ ہونگی بلکہ ہمارے اخلاق و کردار کی بلندیاں ہمارا ذخیرہ ہوں گی، ہمارے نیک اور صالح اعمال کی دولت ہمارے کام آئے گی ، اس پرواز میں انسان انا پرستی میں اس قدر غرق ہوجاتا ہے کہ کسی کی دل آزاری کرنے میں اسے کوئی گریز کوئی ہچکچاہٹ محسوس نہیں ہوتی ،وہ کم علم نااہل اور غریب لوگوں کو ناقص العقل سمجھ کر حقارت کی نظر سے سے دیکھنے لگتا ہے، اسے اپنا رشتہ دار، دوست احباب بتانے، اس کے ساتھ اٹھنے ۔بیٹھنے اس سے مراسم رکھنے میں اپنی توہین محسوس کرتا ہے ، اس کا یہ عمل معاشرے کی اصلاح کی بجائے خرابیاں پیدا کرنےکے ساتھ لوگوں کو احساسِ کمتری کا شکار بنا دیتا ہے، وہ اپنی کم علمی اور نا اہلی کو دور کرنے کی بجائے اس پر شرمندگی محسوس کرنے لگتا ہے ، وہ علم حاصل کرنے اور اور با صلاحیت لوگوں سے کچھ سیکھنے کی بجائے ان سے نظریں چرانے لگتا ،ان کے سامنے ندامت محسوس کرتا ہے ،اس صورتحال میں یہ علم و ہنر معاشرے کو مستفید کرنے کی بجائے نقصان پہنچاتا ہے ، تعلیم کی اہمیت اور افادیت سے ہم کبھی انکاری نہیں ہو سکتے، اگر ہمارے پاس تعلیم نہیں ہوگی تو حیات کے نشیب و فراز کو سمجھنے سے قاصر رہیں گے ، اور منزل زیست حاصل کرنے میں ناکام ، حقیقت یہ ہے کہ تعلیم ہی وہ زینہ ہے جس کی ایک ایک سیڑھی پر قدم بڑھا کر ہم کامیابی کی منازل کو حاصل کر سکتے ہیں ،تعلیم کے ذریعہ انسان اپنی تمام ناکامیوں پر فتح حاصل کر کے محرومیوں اور آسودگیوں کو شکست دے کر اپنی منازل کو حاصل کر سکتا ہے ، لیکن اس بات سے بھی انکار نہیں کیا جاسکتا جب تک ہمارے پاس شعور کا سرمایہ نہ ہوگا، خوف خدا سے سرشار نرم حساس اور محبت کرنے والا قلب اور اس دل میں اس کے بندوں سے محبت نہ ہوگی ہم تعلیم کے ذخیرے سے مستفیض نہیں ہو سکتے، شعور کے بغیر تعلیم کے خزانے کا صحیح استعمال ناممکن ہے، شعور ادب کا لباس ہے ، شعور تعلیم کا زیور ہے تعلیم کے صحیح استعمال کا سلیقہ ہمیں شعور ہی سکھاتا ہے، شعور انسان کو نہ صرف اس کے جذبات پر قابو کرنا سکھاتا ہے بلکہ برے اخلاق کا جواب بہترین اخلاق سے دینے کا درس بھی دیتا ہے، جس سے بد ترین دشمن کو بھی بہترین دوست میں تبدیل کیا جا سکتا ہے، ،شعور کی یہی وہ سطح ہے جہاں وہ تعلیم پر بھی فوقیت حاصل کر لیتا ہے، یہ شعور آتا کہاں سے ہے؟ شعور حاصل کرنے کے لئے بھی تعلیم کی طرح مدرسہ اسکول، درسگاہیں، ہوتی ہیں؟ نہیں ہرگز نہیں یہ شعور حاصل ہوتا ہے ہمارے والدین کی تربیت سے، ہمارے بزرگوں کی روایتوں سے، خدا اور اس کے بندوں سے محبت سے ،حسن اخلاق سے انکساری سے ، یہ شعور حاصل ہوتا ہے ادبی مجالس سے ، ہم اپنے بچوں کو بڑے سے بڑے کالج میں چاہے جتنا پڑھا لکھا لیں وہ چاہے جتنی ڈگریاں حاصل کر لیں لیکن ان میں ادب، اخلاق، کردار، محبت، انسانیت، کے عناصر موجود نہیں ہونگے تو وہ جاہل ہی رہیں گے اور کبھی بھی باشعور نہیں ہو سکتے،جیسے کہ ابلیس کو اللہ نے بے شمار علم اور عبادات سے نوازا ،ملائکہ نے اسے تعلیم دی ،ادب و آداب سکھائے،یک مصلحت ربی تھی کہ یہ بہت جلد سیکھتا گیا ،سیکھنے اور عبادت کرنے کے علاؤہ اسے کوئ کام نہ تھا وہ اتنا مگن ہو کر تعلیم حاصل کرتا رہا کہ فرشتے بھی اس کی قابلیت اس کی عبادت گزاری پر رشک کرنے لگے ،وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اسکی عزت و توقیر میں اضافہ ہوتا گیا ،فرشتے اس کے ساتھ کو باعث فخر سمجھتے اور اسے آسمان ادب کا عابد کہا جانے لگا، ترقی کرتے کرتے وہ پہلے سے ساتویں آسمان پر پہنچ گیا ، ملائکہ کو درس دیتا رہا ،ان کا استاد ٹھہرا دیا گیا ،اس کے علم و فضل کے چرچے تھے، اس مقام پر پہنچ کر اس نے اپنی ریاضت کی حد کر دی پھر اسے حکم ہوا کہ داروغہ جنت” رضوان” کی معاونت کرو اور اہل جنت کو اپنے علم و فضل سے بہرہ کر دو یوں ابلیس کو جنت میں داخلے کا پروانہ بھی مل گیا آخرکار ترقی کرتا ہوا علم و ریاضت کے عالی مقام پر پہنچ گیا جہاں پہنچ کر یہ خود کو بہت طاقتور محسوس کرنے لگا اور اس میں غرور و تکبر کے عناصر پیدا ہو گئے اور وہ غرور میں چور ہو گیا ، جس کا خمیازہ اسے اٹھانا پڑا اور عزائل کہا جانے والا ابلیس آج شیطان مردود کے نام سے جانا جاتا ہے، اس لیے تعلیم کے ساتھ ساتھ شعور بھی برابر کی اہمیت کا حامل ہے شعور کے ذریعے ہی صلاحیتوں کو اجاگر کرنے کا موقع ملتا ہے، انسان اللہ اور اس کے رسول سے محبت کرنے لگتا ہے جو بھٹکی ہوئی انسانیت کے لیے فلاح رشد و ہدایت کا باعث بنتا ہے تعلیم کے ساتھ شعور بھی بے حد ضروری ہے تاکہ تعلیم کا صحیح استعمال کیا جاسکے۔
Comments are closed.