کوروناکاقہرتنبیہ ِربانی کامظہر:اسکے تقاضے اورنجات کا راستہ

ڈاکٹر آصف لئیق ندوی،چلہنیاوی
گیسٹ لیکچرار:مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی
اللہ کا فرمان ہے: ”بھلا وہ کون ہے؟ جو مضطر کی فریاد کو سنتا ہے، جب وہ اس کو آواز دیتا ہے اور اس کی مصیبت کو دور کردیتا ہے اور تم لوگوں کو زمین کا وارث بناتا ہے، کیا اللہ کے ساتھ کوئی اور خدا ہے؟ – نہیں – بلکہ یہ لوگ بہت کم نصیحت حاصل کرتے ہیں“۔سورہ نمل آیت۔ 62
اسوقت پوری دنیا کورونا وبا کی جس مصیبت و پریشانی سے گزر رہی ہے، وہ کسی سے مخفی نہیں ہے،سب کو اس بات کا اقرار ہے کہ یہ ایک قدرتی اور آسمانی آفت وبلا ہے، جس نے نارمل زندگی،حکومت، معیشت،تعلیم وترقی وغیرہ کی چولیں ہلا کر رکھ دی ہیں،خصوصاً کاروباری اور مزدورطبقوں کوبہت متاثر کیاہے۔انسانیت بھوکے مررہی ہے،ہر جگہ خوف و ہراس کا عالم ہے، ہمیں افسوس اس بات پر ہے کہ ہم صرف چھلکے کی فکر کررہے ہیں، مگر نفس وبا کے علاج و معالجے اوراعمال و اخلاق کی درستگی کی صحیح فکرو کوشش نہیں ہوپارہی ہے۔ بلکہ وبا کی روح اور تقاضے سے انکارو بغاوت کا یہ عالم ہے کہ شر پسندوں اور فرقہ پرستوں نے آفت و وبا کے دوران بھی ہندومسلم بھید بھاؤ، نفرت و عداوت، ظلم وستم اور حق تلفی و ناانصافی کا وہی طریقہ اور رویہ اپنائے رکھا ہے، جوقبل وبا بھی انکی زندگی اور ناپاک عزائم و مقاصدکا حصہ تھا، جو عین وبا اور بلاکے نزول کا موجب ہے، شاعر کے بقول۔۔”وہی رفتار بے ڈھنگی جو پہلے تھی سو اب بھی ہے“۔ راقم السطور نے بھی اپنے اس شعر کے ذریعے اس بات کی عکاسی کی ہے۔ کہ
نہ توبہ کی جفاؤں سے نہ خالق کا خیال آیا۔۔۔۔ہزاروں آفتوں لے کر کورونا کا وبال آیا
”زمانہ کی قسم! بیشک انسان خسارے میں ہے، مگر وہ جو لوگ ایمان لائے اور نیک عمل کیے“ (قرآن)، اسی لیے مثل مشہور ہے کہ”جو بیج بوئیں گے وہی پھل کاٹیں گے“۔ نفرت و عداوت اور بھید بھاؤ کا پھل کبھی میٹھا نہیں ہوسکتا۔
نعوذ باللہ۔قدرت نے آسمان و زمین کی تخلیق کے وقت کسی بھید بھاؤ سے کام نہیں لیا بلکہ اپنے بندوں کے آرام و سکون اور امن و امان کی زندگی کے لیے ساری چیزیں پیدا فرمائیں۔ انکے رہنے سہنے کے لیے مسطح اور ہموار زمین بنائی، زمینوں سے اناج و غلہ پیدا کرنے کی عقل سلیم عطا فرمائی، پھلوں، پھولوں اور جڑی بوٹیوں سے دوائیں بنانے کا زبردست دماغ عطا کیا، کھیتوں اور جانوروں کو سیراب کرنے لیے آسمان سے بارش کا انتظام کیا،”آخرتم اپنے رب کی کن کن نعمتوں کو جھٹلاؤگے“!؟(قرآن)۔ وہی پروردگارعالم ہے، جس نے ہمارے واسطے دھوپ اور روشنی کے لیے چکمتا سورج پیدا کیا، روشن چاند بنایا، متعدد مفیدوکار آمد ستارے بنائے۔ غرض کہ انسانی زندگی اور اسکی ضروریات کی تکمیل کے لیے ابتدائے کائنات سے لے کر قیامت تک اور پیدائش سے لے کر موت تک ذرّات سے لیکر پہاڑ تک پیدا فرما دیا اور پہاڑ کو زمین پر کیل بنایاتاکہ زمین انسانوں کو لے کر اپنی جگہ سے کھسک نہ سکے اور دنیا کا نظام درہم برہم نہ ہو جائے۔بغیر کسی پیلر کے آسمان کو چھت بنایا، بادل کو سایہ داراور مینہ بنایاغرض کہ انسانی زندگی کے لیے کوئی کسر نہ چھوڑی۔
پچھلی قوموں نے تخلیق انسانی کے مقصد سے ہٹ کر غفلت والی زندگی گزاری، نفرت و عداوت کا شیوہ اختیار کیا اور رب چاہی زندگی سے منہ موڑ کر صرف دنیا ہی کو سب کچھ سمجھ بیٹھی، کمزوروں اور مظلوموں پر ظلم و ستم کا پہاڑ توڑا، ان کے حقوق پامال کیے، تو ہمارے رب نے اپنی مخلوق پر رحم و کرم کا معاملہ فرماتے ہوئے نبیوں کی آمدورفت کا لامحدود سلسلہ قائم فرما کر بھٹکے ہوئے انسانوں پر عظیم احسان فرمایا۔ مگر افسوس صد افسوس! آج کے موجودہ حالات، شرپسندوں کے طرز عمل، گودی میڈیا کے دوہرے معیار اور فرقہ پرستوں کے ناپاک عزائم ومقاصد کی وجہ سے ہمارا موقف و کردار کیا گزشتہ قوموں کیطرح نہیں ہے،جو اپنے جرائم ومظالم کیوجہ سے نیست و نابود ہو گئیں، انہوں نے بھی نبیوں اور اولیاء اللہ کا مذاق اڑایا، ان کی تذلیل و تضحیک کی، رسولوں، پیغمبروں کے انذار و تبشیر، علماء کے وعظ و نصیحت کو مسخرا سمجھ کر انہیں کے خلاف سازشوں کا جال پھیلا دیا، دین حق کی دعوت و تبلیغ کرنے والوں کے راستوں میں روڑے اٹکائے، صراط مستقیم پر چلنے کے بجائے الٹا مشرکانہ دین وطریقہ پر چلنے کی ترغیب دلانے لگے اور گھر واپسی کی تدبیریں شروع کردیں، سی اے کے ذریعے مسلمانوں کوڈیٹینشن سینٹر میں ڈالنے کا قانون بنایا، اس کے خلاف صدائے حق بلند کرنے والوں پر ملک سے غداری،ملک بدر اور گولی مار دینے کی دھمکیاں دیں اور نعرے لگوائے، طرح طرح کے حربے اختیار کئے، جس طرح کل نبیوں اور انکے متبعین کے ساتھ ظلم و ستم ہوا، شرپسندوں نے انکا مذاق اڑایا، ان کے خلاف نازیبا، جھوٹی اور تکلیف دہ باتیں پھیلائیں، ان کے خلاف مقدمات دائر کیے، ان کو پھانسی کی سزا تک سنائی گئی، سالہا سال نبیوں اور ان کے متبعین کا سماجی بائیکاٹ کیا،ان سے لین دین پر روک لگائی۔ انکو بھوکے پیاسے تڑپایا، طرح طرح کی تکلیف پہنچائی، اذیتیں دیں۔
کیا آج وہی صورتحال پوری دنیا۔ خصوصاً ملک ہندوستان میں اقلیتوں بالخصوص مسلمانوں کے ساتھ نہیں ہو رہا ہے!؟ ہم اہل حق ہو کر بھی طرح طرح سے ستائے نہیں جا رہے ہیں!؟ ہمارے خلاف مختلف سازشیں نہیں ہورہی ہیں!؟ ہماری دعوت تبلیغ پر روک نہیں لگائی جا رہی ہے!؟ ہمارے خلاف مختلف حربے اختیار نہیں کیے جا رہے ہیں!؟ ہم پر جھوٹے الزامات نہیں لگائے جا رہے ہیں!؟ ہم مظلوم ہونے کے باوجود بھی الٹا ظالم و قاتل گردانے نہیں جارہے ہیں!؟ اور ہمیں ظالموں کی صف میں کھڑا نہیں کیا جارہا ہے!؟ ہمارے خلاف چارج شیٹ داخل نہیں کی جا رہی ہے!؟ ہماری مسجدوں کو ویران! ہمارے مدارس و مراکز کو ناکار کرد! اساتذہ کو مدرسوں سے فارغ جیسی صورتحال! اولیاء اللہ کی توہین! ہمارے بعض کاروبار کو محدود و مسدود! ہماری عید اور قربانی پر نظر بد! کھانے پینے کی چیزوں پر بندشیں! عبادت گاہوں پر پابندیاں! ہماری مساجد پر جھوٹے دعوے! ہمارے قائدین و نوجوانوں کو محروس ومقید! ہماری ماں بہنوں کو بیوہ! ہمارے بچوں کو یتیم و اپاہج! نہ جانے کیا کیا ظلم و ستم کا معاملہ ہے جو روااور جائز سمجھا جارہا ہے!! ہمیں ہر طرح سے پیچھے دھکیلنے کی ہرممکن کوشش ہورہی ہے!
آخر رب کی بھی تو آنکھیں ہیں، جو وہ آسمان سے سب کو دیکھ رہا ہے!سب کی نیت و اعمال سے واقف ہے! آخر ان کے بھی تو نیک بندے اور اولیاء ہیں جو اگر اللہ کی قسمیں کھا لے تو اللہ اس کی لاج رکھ دیتا ہے، مظلوموں کی آہ! کو ڈائریکٹ اللہ سنتا ہے۔ انکی آہ اور رب کے درمیان کچھ پردہ حائل نہیں رہتا! افسوس ہے! انسانیت دم توڑ رہی ہے، ملک کی سرحدیں تک محفوظ نہیں ہیں، مزدور و غریب بھوکے مر رہے ہیں، معیشت و ملک کا برا حال ہے، مصیبتوں سے دنیا جوجھ رہی ہے اور ہم ہندو مسلم کی نفرت و عداوت میں لگے ہوئے ہیں اور ہر وقت ہندومسلم کا کوئی نہ کوئی شوشہ چھوڑ رہے ہیں۔بھلا کیسے ہمیں کوروبا وبا سے نجات اور سکون کی زندگی میسر ہوسکتی ہے جب کہ دوسرا طبقہ مظالم کا شکار ہے جو اہل حق، زمین پر اللہ کا خلیفہ، خیر امت، نبی کا وارث، ملک اور انسانیت کا خیرخواہ و ہمدردہے۔
خدارا! کسی کی قبر مت کھودئے! کہیں ایسا نہ ہو کہ پروردگارکو ہمارا عمل ناگوار لگے اور انکا غضب بھڑک اٹھے۔ جیسا کہ پچھلی قوموں کیساتھ بھڑکا اور انہیں عذاب الہی نے ان کے گناہوں کیوجہ سے آدبوچا!! اور قہر ِخدا سے بچنے کے لیے ہمیں بھی منہ چھپانے کی جگہ نہ مل سکے! اس سے قبل کہ اللہ کی شدید پکڑ کے ہم مستحق بنیں، ہمیں اپنی جفاؤں سے توبہ کرنا لینا چاہئے! سب کے ساتھ عدل و انصاف اور مساوات و رواداری کا معاملہ استوار رکھنا چاہئے! اپنی نیت و اعمال کو فوراً درست کرلینا چاہئے! پوری انسانیت کے ساتھ خیرخواہی کا جذبہ بحال کرنا چاہئے! اللہ کے بندوں خصوصاً علمائے دین کے ساتھ مضبوط رشتہ استوار رکھنا چاہئے! جو ہمیں مشورہ دے سکیں کہ کیسے ہم اپنوں اور اپنے ملک والوں کوعذاب الہی سے بچاسکتے ہیں!؟ دوسروں کے لئے کنواں کھودنے سے ہمیں ہر حال میں بچنا چاہئے! کیوں کہ کنواں کھودنے والا پہلے خود اس کنواں میں گرتا ہے! اللہ ہمیں اپنے امن و امان میں رکھے اور سکون و اطمینان والی زندگی نصیب فرمائے اور وبا کے قہر سے پوری دنیا کوبچائے!!
اسی طرح رب العالمین نے انسانوں کو پیدا کرتے وقت ہندو مسلم، سکھ عیسائی اور کالے گورے کا کوئی فرق نہیں رکھا۔سب کو بہترین ڈھانچے میں پیدا کیا اور نہ ان کے لیے کوئی مخصوص اور علیحدہ آسمان و زمین بنائی، بلکہ انکی کی رہبری کے لیے انہیں میں سے بے شمار انبیاء کرام کو بھیج کر دنیائے انسانیت پر عظیم احسان و کرم کا معاملہ فرمایا، ان کی ہدایت وبھلائی کے لیے آسمانی کتابیں نازل فرمائیں، جن کے ذریعے حق و باطل کا فرق بتلایا،رب اور بندے کا امتیاز بتایا،اچھے اخلاق وکردارسکھائے، انسانیت کی بھلائی و خیرخواہی کے اصول و ضوابط بتائے،احکامات و حقوق بتائے،موت و حیات کا دستور بتایا اور قیامت تک کی انسانیت کیلئے اپنی ساری نعمتیں تمام کردیں۔ اسی طرح منہیات و ممنوعات کے مبادی واصول بتائے اور ہمیشہ کے لیے ظلم و زیادتی، قتل و غارت گری، نفرت و عداوت، حق تلفی و نا انصافی، شرپسندی و فرقہ پرستی کو محرّمات ومبغوضات میں شامل فرما یا اور ایک انسان کے ناحق قتل وخون کو پوری انسانیت کے قتل کے مساوی قرار دیا اور قیامت تک کی انسانیت کو تنبیہ فرما دی کہ امن و امان، چین و سکون اور خوشحال زندگی رب کے عطا کردہ اصول کی پابندی میں ہے اور مرتے دم تک ان کی رسی کو مضبوطی سے تھامے رکھنے میں ہے، وہی خداجوانسان کے گناہوں کے نتیجے میں آفتیں اور مصیبتیں بھی نازل کرتا ہے،اور ان سے چھٹکاراحاصل کرنے میں وہی بندوں کی مدد بھی کرتاہے۔ شرط یہ ہے کہ بندہ گناہوں سے توبہ کرلے اور صدق دل سے اللہ کو مدد کے لیے پکارے، وہی اللہ ہے، جو ہمیں اندھیرے سے روشنی کیطرف نکال لاتا ہے۔اپنے نیک بندوں کے اوپر بے شمار احسان فرماتاہے،وہی خالق ہے جوہمیں حمل و نقل اور سفر و حضر کے لیے ہر طرح کی سواریاں مہیا فرماتا ہے، مختلف ایجادات و اختراعات مثلاًجہاز،ٹرین اور میزائل و غیرہ بنانے میں انسان کوعقل عطا کرتا ہے، چھوٹے بڑے جانوروں کو انسان کے ماتحت فرما کر ان کے لیے جہاں سواریوں اور مختلف ضرورتوں کا سامان مہیا کرتا ہے، وہیں ان کے گوشت اور دودھ ومکھن سے انسان کو لذیذ غذا پہونچاتا ہے اور ان کے چمڑوں اور ہڈیوں سے متعدداستعمال کی چیزیں بنواتاہے۔
مگر جب یہی انسان اپنے خالق و مالک کی نافرمانی کرنے لگتا ہے، انکی نعمتوں سے ہر وقت فائدہ اٹھاتا ہے اورانکی نعمتوں کا شکرنہیں بجا لاتا ہے، بلکہ اللہ سے کسی شئی کو نسبت کرنے میں بھی تنگ دلی اور تنگ نظری سے کام لیتا ہے، ان کے معاہدوں اور ہدایات کوبرسرعام توڑتا ہے،ان کی ذات اورانکی نعمتوں میں باطل طاقتوں کو شریک ٹھہراتا ہے، جب کہ قرآن کا کھلا فرمان ہے کہ”ان الشرک لظلم عظیم“”بے شک شرک بہت بڑا ظلم ہے“، اللہ شرک کو کبھی معاف نہیں کرتا اور نہ ہی کفران نعمت کو وہ پسند فرماتا ہے، مگر ظالم و جابر انسان نہ جانے کیسے کیسے جرم کا ارتکاب کررہا ہے!! اللہ کی کتابوں، رسولوں، فرشتوں اور آخرت کی دائمی زندگی کا انکار کرتا ہے، پھر بھی پروردگارعالم نافرمانوں کو خوب مہلت دیتا ہے اور اس کی فوراً گرفت اور پکڑ نہیں کرتاہے بلکہ موت کے بعد کی زندگی کے حساب و کتاب سے معلق کر دیتا ہے۔
مگر جب وہی نافرمان بندہ کسی طرح سے اقتدار و حکومت کی کرسی کو حاصل کر لیتا ہے اور اپنی طاقت و قوت کا ناجائز فائدہ اٹھاتے ہوئے رب کی نافرمانی کے ساتھ ساتھ اللہ کے نیک بندوں، اولیاء اللہ کی شان، کمزوروں، مظلوموں، یتیموں، بے سہاروں اور نہتوں پر ظلم و ستم ڈھانے لگتا ہے، کسی مخصوص طبقے یا فرد کیساتھ نفرت و عداوت اور بھید بھاؤ کا معاملہ اپناتا ہے، ان کے حقوق کو غصب کرتا ہے، انکا زر زمین ہڑپنے کی کوشش کرتا ہے، ان کی عزت و آبرو کو پامال کرتا ہے، انکی جان ومال اور دولت و ثروت کو سستا سمجھ کر تباہ و برباد کرتا ہے، انکے کاروبار کو نشانہ بناتا ہے اور اپنی قوم کے علاوہ لوگوں کو جانوروں سے کمتر یا اس سے بدتر تصور کرتا ہے، ان کے خون کو ارزاں سمجھ کر بہتے ہوئے چھوڑ دیتا ہے اور عدل و مساوات قائم کرنے کے بجائے انکے خلاف طرح طرح کی بندشیں لگاتا ہے، ان کے خلاف غیر انسانی اور غیر دستوری قوانین بنانے لگتا ہے، ان کی عبادت گاہوں کو اپنی جاگیر سمجھ کر نگلنے لگتا ہے اور انکی ہر عبادت و ریاضت، عید و قربانی، دعوت و تبلیغ، تعلیم و تربیت اور انکے مدارس و مساجد پر بری نظریں لگانے لگتا ہے، تو اس وقت خالق کائنات اور پروردگار عالم کا غضب ظالموں پر بھڑک اٹھتا ہے اور ان کی پکڑ کرتا ہے، ان پرکوروناجیسے آفتوں کا قہر نازل کرتا ہے، انہیں اسی طرح سے مصیبتوں میں گرفتار کرکے گناہوں کی سزا دیتا ہے، جس طرح انہوں نے پچھلی قوموں کو نبیوں کی عناد و سرکشی پر دیا تھا، جب کہ ابھی تو چھوٹی موٹی مصیبت بھیج کر سرکش بندوں کو متنبہ فرما رہاہے اور بڑے عذاب و عقاب سے آگاہ کر رہا ہے، اللہ کا فرمان ہے:”بچو اس فتنے سے جو اترے گا، تو کسی بُرے بھلے کی تمییز نہیں کرے گا، بلکہ سب کو اپنی لپیٹ میں لے لے گا۔ (قرآن)۔ غرض کہ ظالموں کیساتھ ساتھ تماشائیوں کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لے گا!!
جیسا کہ ہم ابھی کورونا وائرس کی وبا، اس سے پیدا شدہ حالات اوراسکے سیاق و سباق سے سمجھ رہے ہیں، اسی بات کو سمجھانے کے لیے قرآن کریم نے مختلف جگہوں پر مختلف انداز سے انسانوں کو سمجھایا ہے اور مثالیں دے دے کر مخاطب کیا ہے کہ کیا تم عقل سے کام نہیں لیتے!؟ کیا تم غور و فکر سے کام نہیں کرتے! کاش!کہ تم حق کی طرف لوٹ آتے!؟ کیا تم نے قرآن جیسی کتاب میں عقل و تدبر سے کام نہیں لیا!؟ مگر افسوس!ان کے دلوں پر تالا پڑا ہوا ہے۔
ہونا تو یہ چاہئے تھا!! اقوام عالم کی تاریخِ عروج و زوال سے ہم سبق حاصل کرتے!! اور اللہ کے عذاب و قہر کا مطلب سمجھتے! کہ کیسے اور کن گناہوں اور جرائم کے سبب ہماری پکڑ ہو سکتی ہے اور جس طرح ہم سے پہلی قوموں کی گرفت ہوئی اور بعض تو صفحہ ہستی سے مٹا دی گئی، انکا نام و نشان تک باقی نہیں بچا، کاش! ہم کوروناوبا کو اپنی سیاست کا ڈھال نہ بنائے ہوتے! بلکہ اسکے سیاق و سباق پر غور و خوض کرتے ہوئے تنبیہات ربانی سے اپنی دنیا و آخرت سنوارنے والے بن جاتے! کم ازکم فطرتی اور انسانی اصول کا تو پاس و لحاظ کرتے! تو شاید ہمارا اور ہماری معیشت کا بُرا حال نہ ہوا ہوتا!جسے آج ہم اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں اور ظالموں کے جرائم پر اپنی خاموشی کی سزا جھیل رہے ہیں۔
Comments are closed.