سیدعلی گیلانی کی حریت کانفرنس سے علیحدگی بڑانقصان؟

عبدالرافع رسول
آزادی کی تحریکوں میں پائے جانیوا لے اختلافات جب نظریات کے بجائے حساسیت عصبیت تک پہنچنے لگے تو یہ اختلافات خوفناک اور مہیب شکل اختیار کر تے ہیںاور پھر تحریکیں متزلزل اور غیر موثر ہو جاتی ہیں۔ تحریکیوں کے لیے دی جانے والی قربانیاں ضائع ہو جاتی ہیںاوربالآخر خاک چھاننے کے سوا کچھ حاصل نہیں ہوتا۔یہ محض مفروضہ گمان ، خوف یا اندیشہ نہیں بلکہ اس کی بنیاد زمینی حقائق پر رکھی گئی ہے اوراس حوالے سے افغانستان اورفلسطین کی مثالیں ہمارے سامنے ایک برہان قاطع ٹھوس دلیل کے طورپرسامنے ہے ۔
29جون2020سوموارکوسوشل میڈیاکے ذریعے کشمیرکے91سالہ بزرگ قائد سیدعلی گیلانی کے دوصفحات پرمشتمل ایک خط اور47سکینڈکے انکاایک مختصر آڈیوبیان سامنے آیاجس میں وہ حریت کانفرنس سے اعلان برات کیاہے۔ اگلے روزسری نگر کے تمام اخبارات نے یہ خبراپنی شہہ سرخیوں کے ساتھ شائع کی ۔تحریک کے اس نازک موڑ پرسیدعلی گیلانی کاحریت کانفرنس کوخیربادکہہ دینے نے عام کشمیری مسلمان کوورطہ حیرت میں ڈال دیا۔اس مفارقت کی کئی وجوہات ہوسکتی ہیں البتہ تحریکوں حلقوں میں اسکی وجہ آزادکشمیرمیں حریت کانفرنس کے نمایندگان کے مابین چپقلش کوسمجھاجارہاہے ۔ آزادکشمیرمیں حریت کانفرنس کی اہم اکائی اورسید علی گیلانی کی تنظیم تحریک حریت گیلانی صاحب کی طرف سے پہلے جس کی غلام محمدصفی نمایندگی کررہے تھے دوسال قبل انہیں برطرف کرکے ان کی جگہ عبداللہ گیلانی نامی شخص سیدعلی گیلانی کے نمایندہ کے طورپر سامنے آیالیکن اسے حریت کانفرنس کی باقی تمام اکائیوں نے دل سے قبول نہیں کیااور وہ اسکی قیادت ماننے سے صاف انکارکیا حریت کانفرنس آزادکشمیرشاخ نے فورم کی قیادت سے اسے سبکدوش کرکے ایک اوراکائی کے نمایندے کوفورم کی ذمہ داری سونپی ۔بس موجودہ اختلاف یہیں سے شروع ہوااوربادی النظرمیں حریت کانفرنس اورسیدعلی گیلانی کے مابین اصل اختلاف کی جڑیہی ہے۔ یہ اختلاف سینہ بہ سینہ چلتا رہاتھالیکن 29جون2020سوموارکو91سالہ بزرگ قائد کے دوصفحات پرمشتمل خط اور47سکینڈکے انکے مختصرایک آڈیوبیان کے منظرعام آنے سے یہ سارامعاملہ طشت از بام ہوگیا۔
گیلانی صاحب کی حریت سے علیحدگی پرسری نگرمیں دوآراپائی جارہی ہیں بعض لوگوں کاخیال ہے کہ گیلانی صاحب کا حوصلہ شاید ٹوٹ گیا اسی لئے حریت سے کنارہ کشی اختیار کی ۔ان کاخیال ہے کہ بھارت کوزچ کرنے کے لئے اس وقت جیسے تیسے اس فورم کی بہت ضرورت تھی اور اس وقت بھارت پراپنے صفوں میں پائی جانے والی کمزوریوں اسے آشکارنہیں کرناچاہیے تھا۔ کئی دانشوروں کاکہناہے کہ کثیرالجماعتی فورم میں رائے کے تنوع میں بڑے حوصلے سے کام لیناہوتاہے اورٹھوس دلائل دے کردوسروں کوقائل اورمائل کرناقیادت کی کرشمہ سازی ہوتی ہے یہی انصاف کاتقاضاہے اوریہی قیادت کی ہنرمندی کہلاتی ہے ۔اس طبقے کاکہناہے کہ بالفرض مان بھی لیاجائے کہ حریت کانفرنس کے درون خانہ اس قدر خرابی بسیارپائی جارہی ہے توبھی گیلانی صاحب ایسے لیڈرہیںجودشمن کے شرکوسمجھتے ہیں اور وہ اس امرکوخوب جانتے ہیں کہ اس وقت ملت اسلامیہ کشمیر پوری طرح دشمن کے نرغے میں ہے اور وہ اسے سب کچھ چھیناجارہاہے توایسے وقت میں نہایت مدبرانہ اندازمیں فورم کوچلاناناگزیرامر ہے لیکن اس سب کے باوجود گیلانی صاحب نے ایک ایسا فیصلہ لیا کہ بھارت جسے کشمیری مسلمانوں کی شکست سے تعبیرکررہاہے ۔ اس میں کوئی ابہام نہیںکہ گیلانی صاحب اپنی آخری سانس تک اس کشتی کو منجدھار سے نکالنے کی کوشش کرکے اپنے آپ کو ملت اسلامیہ کشمیر کا وفادار لیڈرثابت کرکے دکھائیں گے لیکن نازک موقع پرمعمولی سی چونک سے دشمن فائدہ اٹھاسکتاہے۔
اپنے خط میں بزرگ کشمیری رہنماخط میں جو کئی طرح کی باتیں لکھیں ہیں بادی النظرمیں ان شکایات کاازالہ ممکن ہے اوراگرکوئی تحریکی لبادہ اوڑ کر حرص وآزاورحقیرمنفعت کے روگ میں مبتلاہے اسکی رکنیت کومعطل کیاجاسکتاتھااورجہادکونسل اوردیگراداروں سے اس حوالے سے معاونت حاصل کی جاسکتی تھی لیکن اس کاہرگزیہ علاج نہیںکہ بزرگ قائدکااپنی آخری عمرمیں اس حریت کانفرنس کوچھوڑدیں جسے1993میں انہوں نے ہی تشکیل دیا،متعارف کرایااور سپیس فراہم کی حالانکہ اس وقت تحریک آزادی کشمیرکے کئی بانی رہنمائوں نے پورے دلائل کے ساتھ اس پرگیلانی صاحب کے ساتھ اختلاف کیاتھااورانکے اس فیصلے کی شدیدنکتہ چینی کی۔لیکن کشمیرکے چوپالوںمیں ایک رائے یہ بھی پائی جارہی ہے کہ گیلانی صاحب تحریک آزادی کشمیرسے کنارہ کش نہیں ہوئے اوردلیل کے طورپروہ بزرگ رہنما کے اس تازہ بیان کاحوالہ دیتے ہیں کہ جس میں وہ کہتے ہیں کہ وہ بھارتی استعمار سے تاحیات برسرِ پیکار رہیں گے۔اس لئے وہ کہتے ہیں کہ کشمیرسیدعلی گیلانی کایہ اقدام محض سچ کا مجرد بیان نہیں، بلکہ یہ صحیح وقت اور صحیح مقام پر حق گوئی کا نام ہے۔
تحریک آزادی کیساتھ عشق کی حدتک وا رفتہ ہونے والے دردمندوں اورغالی حامیوںکو گیلانی صاحب کی اس علیحدگی پرجوامرستارہاہے وہ یہ کہ اسے بھارتی میڈیاپرفساد بگھارنے والے اجارہ داروں، تجزیے کے آڑھتیوں اور ٹھیکیداروں کوموقع مل گیاکہ وہ گیلانی صاحب کے حوالے سے یہ پروپیگنڈہ کر رہے ہیں جوجنگ وہ لڑرہے تھے اورحریت کانفرنس کی جس فوج کے وہ کمانڈرانچیف سمجھے جاتے تھے بالآخراس میں وہ ہمت ہارگئے ہیں۔بھارتی میڈیابزرگ قائدکے خلاف افواہ، غلط بیانی، کردار کشی اور دشنام طرازی پراترآیاہے اوروہ 29جون 2020 سے ملت اسلامیہ کشمیر کو گمراہ کرنے کی کوشش کررہاہے ۔لیکن اسلامیان کشمیراس امرکوخوب سمجھتے ہیں کہ سیدعلی گیلانی اپنے موقف اورتحریک آزادی کشمیرکے ساتھ اپنی کمٹمنٹ سے دہلی کے دروبام ہلاتے رہے اوروہ دہلی کے ایوانوںکی دیواروں پر لرزاں ہیولے بن کر بھارتی حکمرانوں کو ڈراتے رہے۔
بھارتی میڈیا کا نقارخانہ پہلے کشمیری مسلمانوں کے باہم وصال پر گریبان چاک کیے سربازار ماتم کناں تھا لیکن اب یہی نقارہ خانہ سید علی گیلانی کی حریت کانفرنس سے علحدگی پرخوشی سے جھوم اٹھا ۔بھارتی میڈیادشنام طرازی پراتر آیاہے اورروزاول سے اسلامیان کشمیرپربھونکنے والے اینکر اب طنزیہ انداز میں شورڈالے ہوئے ہیںکہ کشمیرکی تحریک آزادی کے پیادے، رسالے اور فیل بان اپنی مہم جوئی کے دوش سے سبک باری چاہتے ہیںاورآزادی کے حق میں بلند آہنگ تقریریں کرنے والے حالات کودیکھ کراب کونوں، کھدروں میں دبکے جھرجھری لینے لگے ہیں۔
واضح رہے جتنے اینکرآج بھارتی میڈیاپرکشمیری مسلمانوں کے خلاف بھونک رہے ہیں انہوں نے آرایس ایس کے جس مکتب سے درس لحن اوربکواس بکنے کالہجہ بنایااس کا بنیادی نظریہ ہی کشمیری اوراس خطے کے تمام مسلمانوں سے نفور ہے۔ لیکن مودی اوراسکے میڈیا کواس امرپرکوئی ابہام نہیں ہوناچاہئے کہ تحریک آزادی کے ساتھ وفاگیلانی صاحب کی سانسوں کے ساتھ جڑی ہے بلکہ سانس کی ڈوری کٹنے کے بعد بھی بسمل کی صدائے پراثر سے بھارت کے ایوانوں اور اس کے قصر ہائے سود و زیاں میں خروش یعنی زورکی صدا برپاکرتارہے گا۔
1993میں معرض وجود میں آنے والی حریت کانفرنس پہلے نظریاتی بنیادوں پردوپھاڑ ہوئی اورایک حریت گیلانی اورحریت میرواعظ کے ناموںسے اسکے دودھڑے بن گئے ۔لیکن بادی النظرمیں اب نظریات کے بجائے شخصی پسند وناپسندکے اختلاف کے باعث بزرگ کشمیری رہنماسیدعلی گیلانی حریت کانفرنس کوالوداع کہہ گئے ۔اسے پتہ چل گیاکہ حریت کانفرنس کے فورم پر اختلافات بدستور موجود ہیں فرق صرف یہ ہے کہ یہ اختلاف پہلے نظریاتی ہواکرتے تھے لیکن اب پسندناپسند پر۔
واضح رہے 2003میں نئی دلی کے ساتھ مذاکرات اور جنرل مشرف کے چار نکاتی فارمولے کی حمایت کے معاملوں پر سید علی گیلانی نے میر واعظ عمر فاروق سمیت کئی قائدین پر تحریکی اہداف سے انحراف کا الزام عائد کیا تھا۔ یہ تنازع کئی ماہ تک جاری رہا اور بعد میں حریت کی بعض اکائیوں نے سید علی گیلانی کو حریت کانفرنس کا چئیرمین منتخب کیا۔ اس طرح حریت کانفرنس دو دھڑوں میں بٹ گئی۔البتہ19 جون2008 جمعرات کو اس وقت ایک نئی(Development) ہوئی کہ جب میر واعظ عمر فاروق نے بزرگ رہنما سید علی شاہ گیلانی کے دولت خانہ واقع حیدر پورہ جا کر ان سے ملاقات کی۔ دن بھر جاری رہنے والی اس غیر معمولی ملاقات کے آخر پر حریت کے دونوں دھڑوںکو متحد کرنے کے لیے چھ رکنی کمیٹی تشکیل دی گئی۔ جسے اس بات کا بلیغ اشارہ ملتاتھا کہ آئندہ یہ اتحاد ہو کر رہے گا۔
2008ہندئووں کے امر ناتھ شرائن بورڈ کو ارض کشمیرسے آٹھ ہزار کنال اراضی منتقل کرانے کے خلاف کشمیر میں جو آواز بلند ہوئی تھی اس آواز کے تناظر میں حریت کانفرنس کے دونوں دھڑوں کے مابین اختلافات ختم کرنے کا موقع ملاتھا اوریہ انکے باہم ایک ہونے کے لئے فی الحقیقت یہ بڑا نادر موقع تھا لیکن اس موقع کو گنوانا نہیں چاہیے تھا۔بلکہ اس موقعے کا بھر پور فائدہ اٹھاتے ہوئے دونوں دھڑوںمیں اتحاد قائم ہو جانا چاہیے تھالیکن ایسانہ ہوسکا۔البتہ 2016میں دونوں دھڑوں کے مابین ’’جے آرایل ‘‘کے نام سے اتحادہوا۔اس طرح پہلے حریت کانفرنس اوربعد میں ’’جے آرایل‘‘کے ذریعے ہڑاتالیں کروائی جارہی تھیں اوربھارتی بربریت پربیانات کے ذریعے ردعمل دیاجاتاتھا۔
سید علی گیلانی ’’حریت گیلانی‘‘کے تا حیات چیئر مین تھے۔سید علی گیلانی کا حریت کانفرنس سے علیحدگی کا اعلان ایک ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب کشمیر میں بیشتر حریت لیڈر تھانہ یا خانہ نظربند ہیں۔ 91سالہ بزرگ قائد سید علی گیلانی نے اپنی سیاسی زندگی میں کئی نشیب و فراز دیکھے۔ 29 ستمبر1929میں شمالی کشمیر کے ڈورو سوپور گائوں میں پیدا ہونے والے سید گیلانی نے اورینٹل کالج لاہور سے منشی فاضل کی ڈگری حاصل کی اورپھرکشمیریونیورسٹی سے ادیب فاضل کی سندبھی پائی۔انہوں نے ابتدا میں ہی جماعت اسلامی میں شمولیت اختیار کی،اور ایک داعی کی حیثیت سے شعلہ بیان وعظ و تبلیغ کے مقرر کے طور پر خود کو متعارف کرایا۔ گیلانی صاحب نے1950کی دہائی کے ابتدائی برسوںمیں سیاست میں قدم رکھا اور1962میں پہلی مرتبہ گرفتار ہونے کے بعد وقفہ وقفہ سے زائد از10 برس جیل میں بھی گزارے۔انہوںنے انتخابی سیاست میں بھی شرکت کی اور جماعت اسلامی کی ٹکٹ پر الیکشن بھی لڑے اور 3بار 1972اور1977کے علاوہ1987میں ممبر اسمبلی بھی بنے تاہم1989میں انہوں نے بطور احتجاج رکن اسمبلی کی حیثیت سے استعفی دیا،جس کے بعد انتخابات کا بائیکاٹ کیا۔
1990میں گرفتار ی کے بعدرہائی پاتے ہی1993میں حریت کانفرنس کی داغ بیل ڈالی گئی جس میں کلیدی کردارگیلانی صاحب نے ہی اداکیا اور میر واعظ عمر فاروق،محمد یاسین ملک، عباس انصاری،مرحوم خواجہ عبدالغنی لون اور ایس حمید کے ہمراہ اس پلیٹ فارم سے مزاحمتی کردارنبھایا۔ سال 2003میںاس وقت کے بھارتی وزیراعظم واجپائی کے ساتھ میرواعظ عمرفاروق ،عبدالغنی لون،پروفیسرعبدالغنی اورعباس انصاری ملاقات پرگیلانی صاحب برہم ہوئے اورمتحدہ حریت کانفرنس سے کنارہ کشی اختیار کر کے ’’حریت کانفرنس گیلانی ‘‘کی بنیاد ڈالی جس کے وہ سربراہ منتخب ہوئے۔اسی دوران جس جماعت اسلامی جموںوکشمیرکے ساتھ انہوں نے اپنی عمرکاغالب حصہ کھپایا کے ساتھ ان کے شدیداختلافات سامنے آئے۔ انہوں نے جماعت اسلامی کے کرداروعمل کو یہ کہتے ہوئے شدیدتنقیدکی کہ وہ کشمیرکی عسکری تحریک سے دامن بچارہی ہے جوکسی صورت میں جائزنہیں ۔لیکن جماعت اسلامی جموںوکشمیران کے موقف سے قائل نہیں ہوئی جسکے باعث بعد گیلانی صاحب نے 7 اگست 2004کو جماعت اسلامی جموں وکشمیر کے ساتھ ایک تحریری مفاہمت کے بعد ’’تحریک حریت جموں و کشمیر‘‘تنظیم کو منصہ شہود پر لایا اور وہ اس کے بھی چیئرمین مقرر ہوئے ۔
تاہم گیلانی صاحب نے 19مارچ 2018کو اپنی جگہ اپنے دست راست محمد اشرف صحرائی کو تحریک حریت جموں وکشمیر کا عبوری چیئرمین مقرر کیا اور وہ اس عہدے پر بدستور فائز رہے۔2016میں متحدہ مزاحمتی قیادت بھی تشکیل دی گئی جس میں وہ خود،میرواعظ عمرفاروق اوریاسین ملک فیصلہ سازی کرتے رہے ہیںاور2016سے یکم اپریل 2019تک مشترکہ پلیٹ فارم سے کشمیرمیں بھارتی بربریت کے خلاف بیانات اورہڑتالوں کی کال دیتے رہے ۔گیلانی صاحب کی صحت گزشتہ کچھ عرصہ سے نہایت خراب ہیں اوروہ صاحب فراش ہیں۔ جبکہ وہ سال2010سے اپنے ہی گھر کے اندر نظر بندی کے ایام گذار رہے ہیں۔ سال2010میں نئی دہلی میں ایک سمینار میں خطاب پر سید علی گیلانی کے خلاف معروف قلمکار ارونا دھتی رائے اور مائو نواز واراویرا سمیت بغاوت کا مقدمہ بھی درج کیا گیا۔ کشمیرکے بزرگ قائد سید علی گیلانی نے ایک درجن سے زائد از کتابیں بھی تصنیف کی ہیں،جن میں ا ن کی سوانح حیات ولر کنارے کے علاوہ جیل میں بتائے ایام پر مبنی روداد قفس کے علاوہ دید و شنید،صدائے درد اور مقتل سے واپسی قابل ذکر ہے۔انہوں نے کئی کتابوں کاپیش لفظ بھی لکھاجس میں احقرکی ضخیم کتاب’’کشمیردوتہذیبی تصادم ‘‘بھی شامل ہے۔
Comments are closed.