مدارس کے اساتذہ کی تنخواہیں اور ارباب اہتمام کا رویہ

مولانا محمد قمر الزماں ندوی
مدرسہ نور الاسلام، کنڈہ پرتاپگڑھ
کورونا وائرس کی وجہ سے لاک ڈاؤن کا سلسلہ دراز سے دراز ہوتا جارہا ہے، تقریباً چار مہینے پورے ہونے جارہے ہیں۔تمام تعلیمی ادارے بند ہیں،ہوائی راستے تو بالکل بند ہیں، ٹرین سروس بھی برائے نام جاری ہے۔اس لاک ڈاون سے یقیناً تمام شعبے متاثر ہونے ہیں، لیکن سب سے زیادہ متاثر دینی مدارس ہوئے ہیں اور ہو رہے ہیں، کیونکہ دینی مدارس میں سرمایہ اور مالیہ کی فراہمی کا کام رمضان میں ہوتا ہے اور اس سال مدارس کے سفراء اور محصلین وصولی کے لیے نکل ہی نہیں سکے، اور ہم نے امت کا یہ مزاج بنایا ہی نہیں کہ وہ از خود مدارس کو زکوٰۃ کی رقم پہنچائیں۔ اساتذہ کی تنخواہیں بند ہیں ، جس کی وجہ مدارس میں افرا تفری کا ماحول ہے، اساتذہ، ارباب اہتمام سے شاکی ہیں، اور ذمہ داران حالات کی مجبوری بتا کر اپنا پالا جھاڑ رہے ہیں،بہتوں کے پاس یقنیا مجبوری بھی ہے۔ حال ہی میں بہت سے ادارے کے بارے میں اطلاعات آرہی ہیں کہ وہاں کے ذمہ داروں نے جملہ اساتذہ اور ملازمین کو معزول اور سبک دوش کردیا۔ بعض نے چھٹنی اور کٹوتی کرنا شروع کردیا ہے، اور بعض نے یہ کہنا شروع کر دیا کہ، اب اپنا انتظام آپ خود سوچ لیں۔ غرض افرا تفری اور بے یقینی کی فضا قائم ہے اور شکوہ و شکایت کا دور چل رہا ہے۔ اس موقع پر ضرورت تھی کہ ارباب اہتمام اور نظمائے مدارس اسلامی تعلیمات کے مطابق نرمی، فیاضی، سخاوت،اعلیٰ ظرفی،ہمت اور حوصلہ سے کام لیتے اور اساتذہ کی تقرری کو ایک معاہدہ اور شرط سمجھتے ہوئے اس کو پورا کرنے کی کوشش کرتے اور یہ سمجھتے کہ وعدہ اور معاہدہ بھی حدیث کی روشنی میں ایک قرض ہے۔ العدةدین (الطبرانی فی الاوسط) وعدہ بھی ایک قرض ہے۔ اساتذہ کو اطمنان دلاتے کہ آپ سب بھی دعا و محنت کریں ہم بھی کوشش کرتے ہیں جیسے ہی حالات نارمل ہوں گے، مالیہ کا نظام بہتر ہوگا،سب سے پہلے آپ کی بقایا تنخواہیں ادا کرنے کی کوشش کی جائے گی، اللہ کی ذات پر بھروسہ رکھئے۔
دوسری طرف اساتذہ بھی حالات اور مجبوری کو سمجھتے ہوئے صبر و ہمت اور جفاکشی سے کام لیتے، اپنی ضروریات کو بہت حد تک وقتی طور کے لیے دباتے،انتظامیہ کا ہاتھ بٹاتے ان کا ساتھ دیتے مالیہ کی فراہمی کے لیے جو کچھ کرسکتے تھے اس کو کرتے۔ اگر دونوں طرف سے فریق نہیں رفیق کا معاملہ ہو جائے تو اب بھی مسئلہ کا حل آسان اور یقینی ہے۔ بہت سے مدارس کے اساتذہ اور بعض ذمہ داروں نے بھی اس سلسلہ میں مجھ سے تقاضا کیا کہ میں بھی اس موضوع پر مناسب رائے کا اظہار کروں، عدیم الفرصتی کا عذر پیش کرکے میں بچتا رہا ، لیکن ان لوگوں کا اصرار غالب رہا، تو اپنے عزیز شاگرد مولانا محمد زاہد ناصری فاضل دیوبند (ناظم مدرسہ صفت الصحابہ حیدر آباد) کو اجارہ، اجرت اور مستاجر و اجیر کے احکام و مسائل کو کتاب و سنت اور اقوال فقہاء کی روشنی میں جمع کرنے کو کہا انہوں اس کام کو بڑے سلیقہ سے مرتب کیا اب ہم انہیں تفصیلات کو اور اپنے ہونہار شاگرد کی مرتب کردہ تحریر کو جو میری بھی رائے اور نظریہ ہے،اپنے قارئین کی خدمت میں پیش کر رہے ہیں۔
صحابی رسول حضرت ابوھریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا :
*” الصُّلْحُ جَائِزٌ بَيْنَ الْمُسْلِمِينَ … إِلَّا صُلْحًا أَحَلَّ حَرَامًا أَوْ حَرَّمَ حَلَالًا … الْمُسْلِمُونَ عَلَى شُرُوطِهِمْ ".*
” مسلمانوں کا آپس میں صلح کرنا اور صلح کرانا جائز ہے، ہاں ! وہ صلح جو کسی حرام کو حلال یا حلال کو حرام کرنے کا سبب بنے (شریعت میں) اس کی اجازت نہیں ہے (اور) مسلمان اپنی شرطوں اور عہد وپیمان پر قائم رہیں، ان سے انحراف نہ کریں ! ”
(سنن ابوداؤد، حدیث نمبر : 3594)
ابو سلیمان حمد بن محمد خطابی رحمہ اللہ (وفات : ٦٥٠ ھ) نے فرمایا کہ : یہ حدیث شریف دین، یعنی مالی حقوق کے بارے میں جائز شرطوں اور معاہدوں سے متعلق ہے اور اللہ تعالیٰ کے اس حکم کے مطابق ہے جو اس نے عقود ومعاہدات کو پورا کرنے کے لیے دیا ہے، فاسد شرطوں سے اس حدیث شریف کا کوئی تعلق نہیں ہے۔
(عون المعبود شرح سنن أبي داؤد، بضمن حدیث نمبر : 3954)
کرونا کی وجہ سے ہونے والے لاک ڈاؤن نے چونکہ مالی اعتبار سے عموماً لوگوں کی کمر توڑدی ہے؛ لہذا انتظامیہ کی طرف سے اساتذہ وملازمین کو ملازمت سے نکالنے، انھیں تنخواہوں سے محروم رکھنے اور ان میں کٹوتی کرنے کے واقعات سامنے آرہے ہیں، ایک طرف تو اساتذہ اور عملہ کا کہنا ہے کہ آسانی کے دنوں میں ہم نے انتظامیہ کا ساتھ دیا ہے؛ لہذا مشکل حالات میں نہ تو ہمیں برطرف کیا جائے، نہ ہی تنخواہوں سے محروم رکھا جائے اور نہ ہی ان میں کسی قسم کی کوئی کٹوتی کی جائے، دوسری طرف انتظامیہ کا کہنا ہے کہ راحت کے ایام میں ہم نے بھی تو ان کا ساتھ دیا ہے، ہم نے انھیں ملازمت سے سبکدوش نہیں کیا، دیر ہو یا سویر ہم نے انھیں پوری تنخواہیں دیں، نہ تو انھیں کبھی تنخواہوں سے محروم کیا اور نہ ہی ان کی تنخواہوں میں بلاوجہ کٹوتی کی؛ لیکن اب جبکہ مہاماری کی وجہ سے سب لوگ پریشان ہیں اور ہم بھی اس سے مستثنیٰ نہیں ہیں؛ اس لیے ہم اس طرح کے فیصلے کرنے پر مجبور ہیں۔
واضح رہے کہ جس طرح ناظم اور مہتمم کے پاس مدرسے کی رقوم قوم وملت کی امانت ہوتی ہیں، اسی طرح مدرسے کے اساتذہ وعملہ بھی ان کے پاس قومی اثاثہ اور سرمایہ ہیں، نہ تو ناظم اور مہتمم ادارے کے مالک ہیں اور نہ ہی اساتذہ وعملہ ان کے مزدور؛ بلکہ دونوں قرآن وسنت اور دین متین کے محافظ وامین ہیں، انتظامیہ کو یہ بات ذہن میں رکھنی چاہیے کہ حکومتیں اپنے ملک کی آرمی اور فوج کا سب سے زیادہ خیال رکھتی ہیں؛ چونکہ مدارس کے اساتذہ وعملہ بھی حزب اللہ، یعنی خدائی فوج کے لوگ ہیں؛ لہذا ان کا بھی خاص خیال رکھنا لازم اور ضروری ہے، اگر خدا نہ خواستہ وہ انتظامیہ کے ناروا سلوک سے دل برداشتہ ہوکر دین کی اس عظیم خدمت سے محروم ہوگئے تو ان کا جو نقصان ہوگا وہ اپنی جگہ ہے، اس سے ادارے اور دین کا بھی بہت بڑا نقصان ہوگا، نیز اساتذہ وعملہ کو بھی یہ سوچنا چاہیے کہ سرحدوں کی حفاظت میں قربانی کا جذبہ فوج کا امتیازی وصف ہوتا ہے، اور چونکہ مدارس دین کے قلعے ہیں؛ اس لیے ان کی بقا وتحفظ کی فکر بھی اساتذہ وعملہ کا طرۂ امتیاز ہوناچاہیے اور موجودہ مہاماری میں جبکہ پوری انسانیت معاشی خسارے میں مبتلا ہے، انھیں بھی مالی نقصان سہنے کی ہمت جٹانی ہوگی !
لاک ڈاؤن میں تنخواہ کے استحقاق سے متعلق دارالعلوم دیوبند نے اپنے فتوے میں کہا ہے کہ :
” جو اساتذہ اور ملازمین مدرسہ کے مستقل ملازم ہوں ان کا معاملہ اگرچہ مسانہہ پر مبنی ہوتا ہے؛ لیکن بعض جگہ عرفا سال ختم ہونے کے بعد بھی عقد اجارہ قائم رہتا ہے؛ اس لیے نیا سال شروع ہونے کے بعد اگر صراحتاً عقد اجارہ فسخ نہیں کیا گیا تو مدرسین وملازمین اگلے مہینوں کی تنخواہ کے حقدار ہوں گے، اگرچہ عذر کی وجہ سے کام نہ کرسکیں۔”
(استفتاء : 4995، فتویٰ : ١٦٣/تتمہ/د، ص : 1، اجراء : ١٤٤١/١٠/٢٨ھ)
لہذا فرمان نبوی "الْمُسْلِمُونَ عَلَى شُرُوطِهِمْ” (مسلمان اپنے معاہدے پر قائم رہیں) اور دارالعلوم کے واضح فتوے کے مطابق کسی بھی انتظامیہ کے لیے اساتذہ وعملہ کی تنخواہوں کی ادائیگی میں پس وپیش کرنا یا ان میں کٹوتی کرنا جائز نہیں ہوگا، ہاں ! اگر وہ بروقت ادا نہ کرسکیں تو بحکم الٰہی انھیں مہلت دی جائے گی؛ لیکن ان کی تنخواہیں ان کی طرف سے دست برداری کے بغیر ہرگز ساقط نہیں ہوں گی۔(البقرة : 280)
ہاں ! دارالعلوم دیوبند کے مذکورہ فتوے میں بطور مشورہ یہ بات بھی کہی گئی ہے کہ :
” مدرسہ کے مجموعی حالات، نیز مراعات ورخصت کے مقررہ ضابطے، مدرسہ کی مالی حالت، ملازمت کی نوعیت اور کارکردگی وغیرہ امور چونکہ مختلف ہوتے ہیں، اس لیے مذکورہ شرعی حکم اور مصالح مدرسہ کو سامنے رکھ کر بہتر ہے کہ ارباب حل وعقد کے مشوروں سے موجودہ حالات کے لیے کوئی ضابطہ اور طریق عمل خود طے کرلیا جائے، نیز اگر لاک ڈاؤن کی مدت طویل ہوجاتی ہے تو بھی مصالح مدرسہ کو سامنے رکھتے ہوئے باہمی مشورے سے مصالحت کی کوئی مناسب صورت اختیار کر لیا جائے۔”(حوالہ سابق)
حال ہی میں ایک بڑے ادارے سے وہاں کے جملہ دوسو اساتذہ وعملہ کو معزول کردینے کی بات سامنے آئی ہے، اگر ملازمین پر سکتہ طاری کرنے والا یہ اقدام وہاں کے ضابطے کے مطابق ہے تب تو لب کشائی فضول ہے، ورنہ تو مہاماری کے دور میں اس طرح کا یک طرفہ فیصلہ دینی خذمت گزاروں کی عظمت وتقدس اور ان کے ادب واحترام کے خلاف ہے، ہاں ! اگر کسی ادارے میں عزل ونصب، یعنی سبکدوشی اور بحالی کے اصول وضوابط مقرر نہ ہوں اور انتظامیہ آئندہ مہینوں کی پوری تنخواہ ادا کرنے کی متحمل بھی نہ ہو، نہ فی الحال اور نہ فی المآل تو ایسی صورت میں مصالح مدرسہ کی رعایت کرتے ہوئے بہتر ہوگا کہ مذکورہ بالا حدیث شریف اور دارالعلوم دیوبند کے فتویٰ کو سامنے رکھتے ہوئے باہمی رضامندی سے صلح کا راستہ اختیار کرلیا جائے اور مقررہ تنخواہ سے کم کی ادائیگی کا، یا بقدر تنخواہ مالیہ کی فراہمی کا، یا انتظامیہ کی جانب سے سبکدوش نہ کرنے اور ادارہ کے کھلنے تک بلا معاوضہ خدمت کو موقوف کرنے کا نیا معاہدہ کرلیا جائے کہ قرآن کریم میں بھی "وَالصُّلْحُ خَيْرٌ”، یعنی صلح کو بہترین صورت کہا گیا ہے۔(النساء : 128) اور مذکورہ بالا حدیث شریف میں رسول اللہ ﷺ نے بھی اس کی اجازت مرحمت فرمائی ہے۔
Comments are closed.