داستان ایمان فروشوں کی(قسط-2)

تلخیص : ابو حمران
ادھر صلاح الدین ایوبی اپنے نائبین کو سامنے بٹھائے یہ ذہن نشیں کرا رہا تھا کہ وہ حکومت کرنے نہیں آیا اور نہ کسی کو حکومت کرنے دے گا اس نے انھیں کہا کہ اسے جنگی طاقت کی ضرورت ہے اور اس نے یہ بھی کہا کہ اسے یہاں کا فوجی ڈھانچہ بلکل پسند نہیں ۔پچاس ہزار باڈی گارڈز سوڈانی ہیں، ہمیں ہر خطے کے باشندوں کو یہ حق دینا ہے کہ وہ ہماری فوج میں آکر اپنے جوہر دکھائیں اور مال غنیمت میں سے اپنا حصہ وصول کریں، یہاں کے عوام کا معیار زندگی اسی طرح بلند ہوسکتا ہے۔صلاح الدین ایوبی نے انھیں بتایا۔۔’’میں نے ناجی سے کہہ دیا ہے کہ وہ عام بھرتی شروع کردے۔‘‘
’’ کیا آپ کو یقین ہے کہ وہ آپ کے حکم کی تعمیل کرے گا‘‘ ایک ناظم نے اس سے پوچھا۔
’’کیا وہ حکم کی تعمیل سے گریز کرے گا؟‘‘
’’وہ گریز کر سکتا ہے‘‘ ناظم نے جواب دیا۔’’ فوجی امور اسی کے سپرد ہیں ،وہ کسی سے حکم لیا نہیں کرتا اپنی منواتا ہے۔‘‘
سلطان ایوبی خاموش رہا جیسے اس پر کچھ اثر ہی نہ ہوا ہو۔اس نے سب کو رخصت کردیا اور صرف علی بن سفیان کو اپنے ساتھ رکھا، علی بن سفیان جاسوسی اور جوابی جاسوسی کا ماہر تھا، اسے صلاح الدین ایوبی بغداد سے اپنے ساتھ لایا تھا، وہ ادھیڑ عمر آدمی تھا ،اداکاری، چرب زبانی اور بھیس بدلنے میں مہارت رکھتا تھا، اس نے جاسوسی کی بھی اور جاسوسوں کو پکڑا بھی تھا، اس کا اپنا ایک گروہ تھا جو آسمان سے تارے بھی توڑ لاتا تھا، صلاح الدین ایوبی کو جاسوسی کی اہمیت سے واقفیت تھی۔ فنی مہارت کے علاوہ علی میں وہی جذبہ تھا جو صلاح الدین ایوبی میں تھا۔
’’تم نے سنا علی! ‘‘ صلاح الدین نے کہا۔’’یہ لوگ کہہ گئے ہیں کہ ناجی کسی سے حکم نہیں لیتا اپنی منواتا ہے۔‘‘
’’ ہاں‘‘ علی نے جواب دیا۔’’میں نے سن لیا ہے، اگر میں چہرے پہچاننے میں غلطی نہیں کرتا تو میری رائے میں باڈی گارڈز کا یہ کمانڈر جس کا نام ناجی ہے ناپاک ذہنیت کا انسان ہے اس کے متعلق میں پہلے سی بھی کچھ جانتا ہوں۔ یہ فوج جو ہمارے خزانے سے تنخواہ لیتی ہے دراصل ناجی کی ذاتی فوج ہے۔ اس نے حکومتی حلقوں میں ایسی ایسی سازشیں کی ہے جس نے حکومتی ڈھانچے کو بے حد کمزور کردیا ہے، آپ کا یہ فیصلہ بالکل بجا ہے کہ فوج میں یہاں کے ہر خطے کے سپاہی ہونے چاہیے میں آپ کو تفصیلی رپورٹ دوں گا۔ مجھے شک ہے کہ سوڈانی فوج ناجی کی وفادار ہے ہماری نہیں، آپ کو اس فوج کی ترتیب اور تنظیم بدلنی پڑے گی۔ یا ناجی کو سبکدوش کرنا پڑے گا‘‘۔
’’میں اپنی صفوں میں ہی اپنے دشمن پیدا نہیں کرنا چاہتا‘‘۔صلاح الدین ایوبی نے کہا۔’’ناجی گھر کا بھیدی ہے اسے سبکدوش کرکے اپنا دشمن بنالینا دانشمندی نہیں، ہماری تلوار غیروں کے لیے ہے، اپنوں کو خون بہانے کے لیے نہیں۔ میں ناجی کی ذہنیت کو پیار اور محبت سے بدل سکتا ہوں ۔تم اس فوج کی ذہنیت معلوم کرنے کی کوشش کرو۔ مجھے صحیح اطلاع دو کہ فوج کہاں تک ہماری وفادار ہے؟‘‘
مگر ناجی اتنا کچا آدمی نہیں تھا اس کی ذہنیت پیار اور محبت کے بکھیڑوں سے آزاد تھی اسے اگر پیار تھا تو اپنے اقتدار اور شیطانیت کے ساتھ تھا، اس لحاظ سے وہ پتھر تھا، مگر جسے اپنے جال میں پھانسنا چاہتا اس کے سامنے موم ہو جاتا تھا اس نے صلاح الدین ایوبی کے ساتھ یہی رویہ اختیار کیا۔ اس کے سامنے وہ بیٹھتا نہیں تھا، ہاں میں ہاں ملاتا چلا جاتا ، اس نے مصر کے مختلف خطوں سے ایوبی کے حکم کے مطابق فوج کے لیے بھرتی شروع کر دی تھی ؛حالانکہ یہ کام اس کی مرضی کے خلاف تھا، دن گزرتے جا رہے تھے، صلاح الدین ایوبی اسے کچھ کچھ پسند کرنے لگا تھا ،ناجی نے اسے یقین دلایا تھا کہ سوڈانی فوج حکم کی منتظر ہے اور یہ قوم کی توقعات پر پورا اترے گی،ناجی صلاح الدین ایوبی کو دو تین مرتبہ کہہ چکا تھا کہ وہ باڈی گارڈز کی طرف سے اسے دعوت دینا چاہتا ہے اور فوج اس کے اعزاز میں جشن منانے کے لیے بے تاب ہے؛لیکن صلاح الدین ایوبی مصروفیت کی وجہ سے یہ دعوت قبول نہیں کرسکا۔
علی بن سفیان نے صلاح الدین ایوبی کو ناجی کے متعلق جو رپورٹ دی اس سے وہ پریشان ہوگیا۔ اس نے علی سے کہا۔۔۔’’تو اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ شخص صلیبیوں سے زیادہ خطرناک ہے۔‘‘
’’یہ ایک سانپ ہے جسے مصر کی امارت آستین میں پال رہی ہے۔‘‘علی بن سفیان نے ناجی کی تخریب کاری کی تفصیل سنائی کہ اس نے کس طرح بڑے بڑے عہدیداروں کو اپنے ہاتھ میں لیا اور انتظامیہ میں من مانی کرتا رہا ۔پھرکہا۔ ’’اور جس سوڈانی سپاہ کا وہ سالار ہے وہ ہماری بجائے اس کی وفادار ہے۔ کیا آپ اس کا کوئی علاج سوچ سکتے ہیں؟‘‘
’’صرف سوچ ہی نہیں سکتا۔‘‘ صلاح الدین ایوبی نے جواب دیا۔’’علاج شروع کر چکا ہوں ،مصر سے جو سپاہ بھرتی کی جا رہی ہے اسے میں سوڈانی محافظوں میں گڈ مڈ کر دوں گا پھر یہ فوج سوڈانی ہوگی نہ مصری۔ ناجی کی یہ طاقت بکھر کر ہماری فوج میں جذب ہو جائے گی۔ ناجی کو میں اس کے صحیح ٹھکانے پر لے آوں گا۔‘‘
’’اور میں یہ بھی وثوق سے کہہ سکتا ہوں کہ اس نے صلیبیوں کے ساتھ بھی گٹھ جوڑ کر رکھا ہے۔۔‘‘علی بن سفیان نے کہا۔۔’’ آپ سلطنتِ اسلامیہ کو ایک مضبوط مرکز پر لاکر اسلام کو وسعت دینا چاہتے ہیں مگر ناجی آپ کے خواب کو دیوانے کا خواب بنا رہا ہے۔‘‘
’’تم اس سلسلے میں کیا کر رہے ہو؟‘‘
’’یہ مجھ پر چھوڑیں‘‘۔۔ علی بن سفیان نے کہا ۔۔ میں جو کچھ کروں گا وہ آپ کو ساتھ ساتھ بتاتا رہوں گا ،آپ مطمئن رہیں، میں نے اس کے گرد جاسوسوں کی ایسی دیوار چن دی ہے جس کی آنکھیں بھی ہیں کان بھی ہیں اور یہ دیوار متحرک ہے یوں سمجھ لیں کہ میں نے اسے اپنے جاسوسی کے قلعے میں قید کرلیا ہے۔”
صلاح الدین ایوبی کو علی بن سفیان پر اس قدر اعتماد تھا کہ اس سے اس کی درپردہ کارروائی کی تفصیل نہ پوچھی۔ علی نے اس سے پوچھا۔” معلوم ہوا ہے کہ وہ آپ کو جشن پر مدعو کر رہا ہے۔اگر یہ بات صحیح ہے تو اس کی دعوت اس وقت قبول کیجیے گا جب میں آپ کو بتاؤں گا۔”
اگلے دس دنوں میں ہزار ہا تربیت یافتہ سپاہی امارتِ مصر کی فوج میں آگئے۔
علی بن سفیان نے صلاح الدین ایوبی کا محافظ دستہ بدل دیا ، یہ سب امیرِ مصر (وائسرائے) کے پرانے باڈی گارڈز تھے ، ان کی جگہ اس نے ان سپاہیوں میں سے باڈی گارڈز کا دستہ تیار کردیا جو نئی بھرتی میں آئے تھے ، یہ جانبازوں کا منتخب دستہ تھا جو سپاہ گری میں بھی تاک تھا ، اور جذبے کے لحاظ سے اس کا ہر سپاہی مرد حُر تھا ۔
ناجی کو یہ تبدیلی بالکل پسند نہیں تھی؛ لیکن اس نے صلاح الدین ایوبی کے سامنے اس تبدیلی کی بے حد تعریف کی ، اور اس کے ساتھ ہی درخواست کی کہ سلطان صلاح الدین ایوبی اس کی دعوت کو قبول کریں ، سلطان صلاح الدین ایوبی نے اسے جواب دیا کہ وہ ایک آدھ دن میں اسے بتائے گا کہ وہ کب دعوت قبول کرے گا ۔ ناجی کے جانے کے بعد صلاح الدین ایوبی نے علی سے مشورہ کیا کہ وہ دعوت پر کب جائے ۔ علی نے مشورہ دیا کہ اب وہ کسی بھی روز دعوت قبول کرلیں۔۔
دوسرے ہی دن صلاح الدین ایوبی نے ناجی کو بتایا کہ وہ کسی بھی رات دعوت پر آسکتا ہے ، ناجی نے تین روز بعد کی دعوت دی اور بتایا کہ یہ دعوت کم اور جشن زیادہ ہوگا اور یہ جشن شہر سے دور صحرا میں مشعلوں کی روشنی میں منایا جائے گا،ناچ گانے کا انتظام ہوگا باڈی گارڈز کے گھوڑا سوار اپنا کرتب دکھائیں گے ،، شمشیر زنی اور بغیر ہتھیاروں کی لڑائی کے مقابلے ہوں گے اور صلاح الدین ایوبی کو رات وہیں قیام کرایا جائے گا ، رہائش کے لیے خیمے نصب ہوں گے۔۔۔صلاح الدین ایوبی پروگرام کی تفصیل سنتا رہا اس نے ناچنے گانے پر بھی اعتراض نہ کیا ، ناجی نے ڈرتے جھجھکتے کہا۔’’ فوج کے بیشتر سپاہی جو مسلمان نہیں یا جو ابھی نیم مسلمان ہیں کبھی کبھی شراب پیتے ہیں ، وہ شراب کے عادی نہیں ، وہ اجازت چاہتے ہیں کہ جشن میں انھیں شراب پینے کی اجازت دی جائے ۔‘‘
’’آپ ان کے کمانڈر ہیں۔‘‘صلاح الدین ایوبی نے کہا۔’’ آپ چاہیں تو انہیں اجازت دے دیں نہ دینا چاہیں تو میں آپ پر اپنا حکم نہیں چلاؤں گا۔‘‘
’’امیرِ مصر کا اقبال بلند ہو‘‘ناجی نے غلاموں کی طرح کہا’’ میں کون ہوتا ہوں اس کام کی اجازت دینے والا جس کو آپ سخت ناپسند کرتے ہیں‘‘۔
’’انھیں اجازت دے دیں کہ جشن کی رات ہنگامہ آرائی اور بدکاری کے سوا سب کچھ کر سکتے ہیں۔‘‘صلاح الدین ایوبی نے کہا۔’’ اگر شراب پی کر کسی نے ہلہ گلہ کیا تو اس کو سخت سزا دی جائے گی‘‘۔
جشن کی شام آگئی ، ایک تو چاندنی رات تھی ، صحرا کی چاندنی اتنی شفاف ہوتی ہے کہ ریت کے ذرے بھی نظر آجاتے ہیں ، دوسرے ہزارہا مشعلوں نے وہاں صحرا کی رات کو دن بنادیا تھا ، باڈی گارڈز کا ہجوم تھا جو ایک وسیع میدان کے گرد دیواروں کی طرح کھڑا تھا ، ایک طرف صلاح الدین ایوبی کے بیٹھنے کے لیے جو مسند رکھی گئی تھی وہ کسی بہت بڑے بادشاہ کا تخت معلوم ہوتی تھی ، اس کے دایئں بایئں بڑے رتبوں کے مہمانوں کی نششتیں تھیں ۔
تیغ زنی اور بغیر ہتھیاروں کی لڑائی کے مظاہرے ہوئے جن میں کئی ایک سپاہی زخمی ہوئے ۔صلاح الدین ایوبی شجاعت اور بے خوفی کے ان مظاہروں اور مقابلوں میں جذب ہوکر رہ گیا تھا اسے ایسی ہی بہادر فوج کی ضرورت تھی ۔ اس نے علی بن سفیان کے کان میں کہا۔ ” اگر اس فوج میں اسلامی جذبہ بھی ہو تو میں صرف اسی فوج سے صلیبیوں کو گھٹنوں بٹھا سکتا ہوں‘‘۔
علی بن سفیان نے وہی مشورہ دیا جو وہ پہلے بھی دے چکا تھا۔ اس نے کہا ۔’’اگر ناجی سے کمان لے لی جائے تو جذبہ بھی پیدا ہو جائے گا۔‘‘
مگر صلاح الدین ایوبی ناجی جیسے تجربہ کار سالار کو سبکدوش نہیں کرنے کی بجائے سدھار کر راہ حق پر لانا چاہتا تھا۔وہ اس جشن میں اپنی آنکھوں سے یہی دیکھنے آیا تھا کہ یہ فوج کردار کے لحاظ سے کیسی ہے ۔اسے ناجی کی اس درخواست سے ہی مایوسی ہوگئی تھی کہ اس کے سپاہی اور کماندار شراب پینا چاہتے ہیں اور ناچ گانا بھی ہوگا ۔ صلاح الدین ایوبی نے اس کی درخواست اس وجہ سے منظور کی تھی کہ وہ دیکھنا چاہتا تھا کہ یہ لشکر کس حد تک عیش و عشرت میں ڈوبا ہوا ہے ۔
صلاح الدین ایوبی نے علی بن سفیان سے کہا ” میں جو دیکھنا چاہتا تھا وہ دیکھ لیا ہے ۔یہ سوڈانی عسکری شراب اور ہنگامہ آرائی کے عادی ہیں ، تم کہتے ہو ان میں جذبہ نہیں میں دیکھ رہا ہوں ان میں کردار بھی نہیں ۔ اس فوج کو اگر تم میدان جنگ میں لے گئے تو یہ لڑنے کی بجائے اپنی جان بچانے کی فکر کرے گی اور مال غنیمت لوٹے گی اور مفتوح کی عورتوں کے ساتھ وحشیانہ سلوک کرے گی ۔‘‘
’’اس کا علاج یہ ہے۔‘‘علی بن سفیان نے کہا۔’’ کہ آپ نے مختلف خطوں سے جو فوج تیار کی ہے انہیں ناجی کے اس پچاس ہزار سوڈانی لشکر میں مدغم کردیا جائے ۔برے سپاہی اچھے سپاہیوں کے ساتھ مل جل کر اپنی عادتیں بدل دیا کرتے ہیں۔ ‘‘
صلاح الدین ایوبی مسکرایا اور علی سے کہا۔ ” تم یقینا میرے دل کا راز جانتے ہو ۔میرا منصوبہ یہی ہے جو میں ابھی تمھیں نہیں بتانا چاہتا تھا ، کسی سے اس کا ذکر نہ کرنا۔ ‘‘
صلاح الدین ایوبی اور اس کے سٹاف کو ناجی نے نہایت شان و شوکت اور عقیدت مندی سے رخصت کیا۔سوڈانی فوج دو رویہ کھڑی ’’ سلطان صلاح الدین ایوبی زندہ باد‘‘ کے نعرے لگا رہی تھی۔صلاح الدین ایوبی نے نعروں کے جواب میں بازو لہرانے ،مسکرانے اور دیگر تکلفات کی پرواہ نہ کی ۔ناجی سے ہاتھ ملایا اور اپنے گھوڑے کو ایڑ لگادی۔ اس کے پیچھے اس کے محافظوں اور دیگر سٹاف کو بھی گھوڑے دوڑانے پڑے۔ اپنے مرکزی دفتر میں پہنچ کر وہ علی بن سفیان اور اپنے ایک نائب کو اندر لے گیا اور دروازہ اندر سے بند کرلیا۔ وہ سارا دن کمرے میں بند رہے ۔سورج غروب ہوا، رات تاریک ہوگئی کمرے کے اندر کھانا تو درکنار پانی بھی نہیں گیا ، رات خاصی گزر چکی تھی جب تینوں باہر نکلے اور اپنے اپنے گھروں کو روانہ ہوئے ۔
اگلے روز صلاح الدین ایوبی دوپہر کا کھانا کھا رہا تھا کہ اسے اطلاع دی گئی کہ ناجی ملنے آیا ہے، صلاح الدین ایوبی کھانے سے فارغ ہوکر ناجی سے ملا ، ناجی کا چہرہ بتارہا تھا کہ گھبرایا ہوا ہے اور غصے میں بھی ہے اس نے ہکلانے کے لہجے میں کہا۔ ’’قابلِ صد احترام امیر! کیا یہ حکم آپ نے جاری کیا ہے کہ سوڈانی محافظ فوج کی پچاس ہزار نفری مصر کی اس فوج میں مدغم کردی جائے جو حال ہی میں تیار ہوئی ہے؟ ‘‘
’’ہاں ناجی! ‘‘ صلاح الدین ایوبی نے تحمل سے جواب دیا۔میں نے کل سارا دن اور رات کا کچھ حصہ صرف کر کے اور بڑی گہری سوچ و بچار کے بعد یہ فیصلہ تحریر کیا ہے کہ جس فوج کے تم سالار ہو اسے مصر کی فوج میں اس طرح مدغم کردیا جائے کہ ہر دستے میں سوڈانیوں کی نفری صرف دس فی صد ہو اور تمھیں یہ حکم بھی مل چکا ہوگا کہ تم اب اس فوج کے سالار نہیں ہوگے ۔تم فوج کے مرکزی دفتر میں آجاؤ گے ۔
’’عالی مقام! ‘‘ناجی نے کہا۔’’مجھے کس جرم کی سزا دی جارہی ہے؟‘‘
’’اگر تمھیں یہ فیصلہ پسند نہیں تو فوج سے الگ ہو جاؤ۔‘‘صلاح الدین ایوبی نے کہا۔
’’معلوم ہوتا ہے میرے خلاف سازش کی گئی ہے۔‘‘ ناجی نے کہا۔ ’’ آپ کے بلند دماغ اور گہری نظر کو چھان بین کرلینی چاہیے ۔مرکز میں میرے بہت سے دشمن ہیں۔‘‘
Comments are closed.