جنتاکی پارٹی جنتاکے خلاف

محمدجمیل اخترجلیلی ندوی
ہمارے ملک ہندوستان کے سورج کواسی وقت گہن لگ گیا، جس وقت بھارتیہ جنتاپارٹی نے 2014 میں اس کی باگ ڈوراپنے ہاتھوں میں لیا، یہاں کی عوام نے پارٹی کے نام سے دھوکہ کھایااورپارٹی نے دھوکہ دینے کے لئے ہی اپنے نام کے آگے ’’جنتا‘‘ کا لیبل چسپاں کیاہے، یہ پارٹی نام کے اعتبارسے توضرور’’جنتا‘‘ہے؛ لیکن حقیقت یہ ہے کہ ابتداہی سے یہ پارٹی جنتاکی نہیں رہی ہے، جولوگ اس پارٹی کے حقیقت سے واقف ہیں، وہ اس بات کوبخوبی جانتے ہیں اورجولوگ اس حقیقت سے واقف نہیں، انھیں بھی بیتے چھ سالوں میں اس کااندازہ ہوگیاہوگا۔
پارٹی کے گزشتہ چھ سالوں کے کارناموں پراگرنظرڈالی جائے توان کے اکثر کارنامے وہ نظرآئیں گے، جوجنتاکی کمرتوڑنے والے ہیں، پھرجب ان کے لیڈروں سے ان چیزوں کے بارے میں سوال کیاجاتاہے تووہ گیدڑوں کی طرح جواب دیتے ہیں، آپ کو یاد ہوگا، جب پیاز کی قیمت نے ملک کے شہریوں کی آنکھوں میں پانی بھردیاتھا اوراس وقت ان کے عزت مآب ایسے لیڈرسے اس بابت سوال کیاگیاتھا، جس کے سپرد اس پارٹی نے اس ملک کی معیشت کی ذمہ داری کررکھی ہے، اس وقت اس لیڈرکاجواب تھا: میں پیاز نہیں کھاتی، یہ جواب اس کے منھ سے ، جس کے سپرد ملک کی معیشت ہے، بالکل ایساتھا، جسے کسی بچہ سے پوچھ لیاگیاہو، اس جواب سے جہاں ایک طرف یہ معلوم ہوتا ہے کہ جواب دینے والے کی سطح کیاہے؟ وہیں یہ بات بھی معلوم ہوتی ہے کہ اس کی سوچ اوروہ بھی عوام کے تعلق سے کیسی ہے؟
اس وقت ہمارا ملک ایک طرف مکمل طورپر کورونا کی چپیٹ میں ہے، ایک ایک دن میں اٹھارہ اٹھارہ ہزارتک متاثرین کی تعدادپہنچ رہی ہے، وہیں دوسری طرف مہنگائی بھی آسمان کوچھورہی ہے، ایسی چیزیں توبالخصوص مہنگی ہورہی ہیں، جن کاتعلق براہ راست حکومت سے ہے؛ حالاں کہ حکومت کوخوب معلوم ہے کہ ایک زمانہ سے لاک ڈاؤن ہونے کی وجہ سے لوگ دانہ دانہ کومحتاج ہیں، بہ مشکل اپنے گھروں کی کفالت کررہے ہیں، اپنی خواہشوں کے ساتھ ساتھ اپنے بال بچوں کی خواہشوں کوبھی کچل رہے ہیں، ان کے تہوارروکھے سوکھے اندازمیں گزررہے ہیں، کتنے ایسے ہیں، جنھیں اپنی نوکریوں سے ہاتھ دھوناپڑاہے، انھیں ابھی تک نوکریاں دستیاب نہیں ہوئی ہیں، وہ بہت پاپڑبیلنے کے بعددووقت کی روزی چگاڑ کرپارہے ہیں، ایسے وقت میں حکومت کی کیاذمہ داری تھی؟ اپنی عوام کی خبرگیری یاپھراپنی عوام کی پیٹھ پرمزیدبوجھ ڈالنا؟
عوام کسی نہ کسی طرح کم یازیادہ اپنی حکومت کوٹیکس ضروراداکرتی ہے اورآج سے نہیں ہمیشہ سے کرتی رہی ہے، اس پارٹی کے آنے کے بعد اس ٹیکس میں کئی گنااضافہ ہوگیاہے، ایسامحسوس ہوتاہے کہ ملک کے باشندے ٹیکس نہیں؛ بل کہ رہنے کا کرایہ دے رہیں، پھرجی ایس ٹی نے تواوربھی کمرکوجھکادیا، شایداس حکومت کی پالیسی بھی یہی ہے کہ ہرچیزکو عام آدمی کی پہنچ سے باہرکردیاجائے؛ تاکہ وہ ہمارے پیروں پرناک رگڑے، گڑگڑائے، ہاتھ جوڑے کھڑارہے، پھرجاکراسے دوروٹی احسان جتاتے ہوئے اس طرح پھینک کردی جائے، جس طرح جانوروں کودی جاتی ہے، گویایہ حکومت غلامی کے اس دورکوواپس لاناچاہتی ہے، جس کے تصورسے ہی رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں، جس کی ایک جھلک شایدان لوگوں کی نگاہ میں بھی ہو، ، جنھوں نے انگریزکازمانہ دیکھاہے۔
جنتانام رکھنے سے کوئی پارٹی جنتاکی نہیں ہوجاتی، جنتاکے لئے کام کرناپڑتاہے، جنتا کوسہولیات فراہم کرناپڑتاہے، یہاں توصرف جنتاکومارنے کاکام جاری ہے، جوکبھی موب لنچنگ کے ذریعہ سے انجام دیاجاتاہے، کبھی نوٹ بندی کرکے، کبھی مہنگائی کے ذریعہ سے توکبھی ملک بندی کے ذریعہ سے ؛ لیکن مارجنتاکوہی پڑتی ہے، کچھ دنوں پہلے گیس کی قیمت نوسوتک پہنچ چکی تھی، آہستہ آہستہ اس میں کمی آئی توپٹرول وڈیزل سونے کے بھاؤ بکنے لگے، اس وقت ملک نے لاک ڈاؤن کی چادر سے اپنامنھ نکال بھی نہیں پایاہے کہ پٹرول اور ڈیزل کی قیمتوں نے آدبوچاہے اوروہ بھی اس طورپر، جس میں حکومت سب سے زیادہ عوام سے لوٹنے اوراس کومہنگائی کے بوجھ تلے دبانے کاکام کررہی ہے، جس کااندازہ آپ اس سے لگاسکتے ہیں کہ جس وقت بی جے پی نے 16؍مئی 2014کواقتدارسنبھالاتھا، اس وقت عالمی بازارمیں خام تیل کی قیمت 108 ڈالر فی بیرل تھی، اس وقت ہمارے ملک میں تیل کی قیمت 71.41روپے تھی، جس میں مرکزکاٹیکس 9.20ر وپے تھا، آج کل خام تیل کی قیمت تقریباً40ڈالرفی بیرل ہے، یعنی2014کے مقابلہ میں سیدھے 68ڈالر کم، توتیل کی قیمت کتنی ہونی چاہئے؟بہت زیادہ تو 50-55کے درمیان؛ لیکن ہے کتنی قیمت؟ 80سے پار، یہ گھپلہ بازی کوئی اورنہیں، ہماری جنتاپارٹی ہی کررہی ہے، اس وقت مرکزکاٹیکس تقریباً32روپے یااس سے زائدہے، یعنی 820فیصد،ہمارے ملک کے ارباب اقتدارجن ملکوں سے غیرمسلم عوام کولاکر اس ملک میں آباد کرنے کی بات کررہے ہیں، ان ملکوں کی تیل کی قیمتوں پراگرآپ نظرڈالیں گے تو36روپے سے زائدکسی بھی ملک میں تیل کی قیمت نظرنہیں آئے گی، اب آپ ہی بتائیں کہ یہ حکومت جنتاکی ہے یاجنتاکوموت کے گھاٹ اتارنے والی ہے؟۔
پٹرول اورٹیزل کی قیمت کاسیدھااثرعوام کی اس جیب پرپڑتاہے، جوپہلے سے کٹی ہوئی ہے، ڈیزل کی قیمت میں اضافہ کی وجہ سے اکسپورٹ اورامپورٹ مہنگے ہوجاتے ہیں، جس کی بھرپائی ہرسامان میں قیمت پڑھاکرکی جاتی ہے، لازمی بات ہے کہ چیزوں کے قیمتیں خودبخودبڑھ جائیں گی، جان بچانے کے لئے کھاناتوضروری ہے، اوراس ضرورت کوپورا کرنے کے لئے کچھ بھی کرناپڑسکتاہے، خلاصہ یہ ہے کہ جھری عام آدمی کی گردن ہی پرچلے گی۔
لاک ڈاؤن کے دوران حکومت نے تقریباً 68ہزارکروڑکی معافی کااعلان کیاتھا؛ لیکن اس معافی میں بے چاری جنتاکاتونام ہی نہیں لکھاتھا، اس معافی میں توملک کے ان بڑے بڑو ں کانام لکھاتھا، جوملک کوچونالگاچکے تھے، چوں کہ وہ بڑے ہیں، حکومت کے ساتھ رہ چکے ہیں؛ اس لئے وہ معافی کے مستحق ہیں، جنتا حکومت کی نظرمیں غلام ہے اور غلاموں کے لئے معافی کہاں ہوتی ہے؟ اسی لئے بے چارے کسانوں کوجان دے کربھی حکومت سے لئے ہوئے قرض کوچکاناپڑنارہاہے۔
اچھی حکومت وہ ہوتی ہے، جواپنی عوام کے لئے سوچے، عوام کی راحت کے لئے کام کرے، عوام کوزیادہ بھاری بوجھ کے نیچے نہ دبائے، کم ازکم بیلنس میں تو رکھے، جوحکومت عام آدمی کی کمائی سے زیادہ بوجھ اس کی جیب پرڈالے اوروہ بھی صرف اپنی جیب بھرنے کے لئے ، وہ بدترین حکومت ہے، اس ملک کی حکومت بھی اسی صف میں شامل ہے، اوراس تعلق سے عام آدمی کوبیدارہونے کی ضرورت ہے، اگراب بھی نہ جاگے توزندگی دوبھرہوجائے گی، زندگی دوبھرکرنے کی چال تسلسل کے ساتھ جاری ہے، لاک ڈاؤن کے دوران پی ایم جی نے’’آتم نربربھر‘‘کانعرہ بلندکیاتھا، اس تعلق سے عام آدمی کوچاہے جوبھی بتایاجائے؛ لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہ بھی عام آدمی کومارنے کی بات ہے؛ کیوں کہ آتم نربھرکاجومفہوم پی ایم جی نے واضح کیاہے، اس کا خلاصہ’’نج کاری‘‘ ہے، یعنی حکومت ہرسیکٹرکوپرائیویٹ کمپنیوں کے حوالہ کرناچاہتی ہے، اس سے نقصان سراسرعوام کاہے اورکئی گنافائدہ حکومت کا۔
ابھی کچھ دنوں پہلے کی بات ہے کہ مرکزنے کوئلہ کانوں کی نیلامی کافیصلہ سنایا، اس کااثربھی عوام پربری طرح پڑے گا،جھارکھنڈ حکومت نے اس کے خلاف سپریم کوٹ میں عرضی دائرکی ہے اورملک کی تاریخ میں یہ پہلی بارہے کہ صوبائی حکومت مرکز کے خلاف سپریم کورٹ میں مقدمہ دائرکرے، خداکرے سپریم کورٹ کاجج منصف مزاج ہو، پھرآج کے اخبارات کی زینت یہ خبر ہے کہ پسنجرٹرین کی ذمہ داریاں بھی نجی کمپنیوں کودی جاری ہیں؛ بل کہ ریکویسٹ فارکوالیفیکشن مدعوکے ساتھ ساتھ ٹینڈرکاعمل بھی شروع کردیاگیا ہے، پھریہ حق نجی کمپنیوں کو35سال تک کے لئے دیاجائے گا، اس نجکاری کی وجہ بتاتے ہوئے ریل کے ایک عہدے دارکاکہناہے کہ اس قدم کامقصدجدیدترین کوچوں اور انجنوں کا لانا، روزگار میں اضافہ، حفاظت میں بہتری، مسافروں کوعالمی معیارکی سہولت کی فراہمی اورسفرکے وقت کوکم کرناہے، کمال ہے کہ ایک ایسی حکومت خود یہ کام نہیں کرسکتی، جس کے پاس سارے وسائل ہیں اورایک کمپنی سے یہ تمام سہولتیں چاہی جاری ہیں، جس کے پاس معمولی اختیارات ہوں گے، یہ توخیال است ومحال است۔
یہ بات یادرکھنے کی ہے کہ پسنجرٹرین ہی وہ وسیلہ ہے، جن سے سب سے زیادہ عام آدمی فائدہ اٹھاتاہے، جب اسے کسی کمپنی کے حوالہ کردیاجائے گاتوعام آدمی کوگہری چوٹ پہنچے گی، اس کے کرایہ میں لامحالہ اضافہ ہوگا؛ کیوں کہ حکومت کواس کی نجکاری سے 30ہزارکروڑروپے کی سرمایہ کاری کی توقع ہے، حکومت کے اس توقع کوتوپوراکرناہی ہوگا اوراس کے لئے عام آدمی کی جیب ہی پربوجھ ڈالاجائے گا، ایک توعام آدمی پہلے سے ہی مہنگائی کی مارجھیل رہاہے، پھراس پراضافی بوجھ کی مار، جنتاکی پارٹی جنتا کے خلاف ہے، بے چاری جنتا جائے توکہاں؟ اورکرے توکیا؟
Comments are closed.