تاریخ کا ایک روشن ستارہ حضرت عمر بن عبدالعزیز رحمۃ اللہ علیہ

شمس عالم قاسمی
وادی مکہ میں ایک خاموش سناٹا چھایا ہوا ہے،رات کا آخری پہر ہے، فلک پر ستارے ٹمٹما رہےہیں،صبح صادق طلوع ہونے کو ہے،خلیفہ ثانی حضرت عمر ابن الخطاب رضی اللہ عنہ کا عہد خلافت ہے،امیرالمومنین حسب عادت اپنے علاقے میں رعایا کی خبر گیری کیلئے گشت فرما رہے ہیں،ایک گھر سے آواز آتی ہے امیرالمومنین اس جانب متوجہ ہوتے ہیں،ماں کہتی ہے بیٹی دودھ میں پانی ملادو!بیٹی کہتی ہے میں پانی نہیں ملاؤں گی،ماں کہتی ہے ملادو! خلیفہ تھوڑی نہیں دیکھ رہا ہے!بیٹی کہتی ہے خلیفہ نہیں دیکھ رہا ہے تو کیا ہوا اس کا رب تو دیکھ رہاہے!
بقول شاعر؛میں پانی دودھ میں ہر گز ملا سکتی نہیں ائے ماں!
’’عمر دیکھیں نہ دیکھیں پر خدا تو دیکھتا ہوگا ‘‘
امیرالمومنین بچی کا یہ جواب سن کر بہت خوش ہوتے ہیں اور اپنے لخت جگر حضرت عاصم کا نکاح اس نیک سیرت لڑکی سے کر دیتے ہیں،ان کے یہاں ایک لڑکی پیدا ہوتی ہے جن کا نام ام عاصم ہے،جو عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی پوتی ہوئیں۔
سن 61ھ مطابق 681ء مدینہ منورہ میں عبدالعزیز بن مروان بن حکم سے ام عاصم کا نکاح ہوتا ہے اور ان کے گھر ایک جلیل القدر، عظیم المرتبت پچے کی پیدائش ہوتی ہے،جنہیں دنیا بنی امیہ کے آٹھویں خلیفہ،عمر ثانی،پانچویں خلیفہ راشد اور مجدد اول یعنی عمر بن عبدالعزیز بن مروان کے نام سے جانتی ہے ۔
آپ کے والد مسلسل 21 برس مصر کے گورنر رہے،دولت و ثروت کی فراوانی تھی،لہٰذا نازو نعم کے ماحول میں آپ کی پرورش ہوئی،آپ ایک نفیس طبع خوش پوش مگر صالح نوجوان تھے، عہد شباب میں نہایت عمدہ لباس زیب تن فرماتے،دن میں کئی کئی پوشاک تبدیل کرتے،بہت ہی اچھی خوشبو استعمال کرتے،جس راہ سے گزر جاتے فضا مشکبار ہو جاتی۔
آپ کی طبیعت بچپن ہی سے پاکیزگی اور زہد و تقوی کی طرف راغب تھی اس لیئے یہ ظاہری اسباب و نشاط آپ کو قطعا متاثر نہ کر سکے،آپ کا دل ھمیشہ اللہ تعالٰی کی عظمت اور خوف سے لبریز رہا۔
آپ کے استاد صالح بن کیسان فرماتے ہیں کہ’’مجھے ایسے کسی آدمی کا علم نہیں جس کے دل میں اللہ تعالٰی کی عظمت اس لڑکے سے زیادہ نقش ہو‘‘۔
پاکیزگی نفس اور تقدس آپ کی شخصیت کا ایک نہایت ہی اہم اور خصوصی وصف تھا۔
707ء میں آپ اس شرط پر مدینہ کے گورنر بنے کہ آپ اپنے پیش رو حکمرانوں کی طرح لوگوں پر ظلم و ستم نہیں کریں گے،جب مدینہ منورہ تشریف لائے تو آپ کا ذاتی سامان تیس اونٹوں پر لد کر آیا۔
707ء سے 713ء تک مدینہ کے گورنر رہے،اس دوران آپ نے عدل و انصاف سے حکومت اور اھل حجاز کے دل جیت لیئے،مسجد نبوی کی تعمیر آپ کے زمانہ گورنری کا شاندار کارنامہ ہے،713ء میں ولید نے مدینہ کی گورنری سے آپ کو الگ کردیا۔
خلیفہ وقت سلیمان بن عبد الملک آپ کی شخصیت سے بے حد متاثر تھا چنانچہ اس نے وفات سے پہلے آپ اور یزید بن عبدالملک کو علی الترتیب اپنا جانشین مقرر فرما کر بنی امیہ کے نام ایک ایک وصیت نام جاری کیا کہ تمام لوگ اس پر بیعت کریں لہذا تمام لوگوں نے بیعت کرلی۔
سن 718ء وابق کی جامع مسجد میں افراد بنو امیہ سے بیعت ثانیہ کے بعد وصیت نامہ کھول کر پڑھا گیا،جب اعلان خلافت ہو رہا تھا اس وقت دو لوگوں نے بیک وقت بآواز بلند انا للہ کہا ایک ہشام نے جسے خلافت نہ ملنے کا غم تھا،دوسرے عمر بن عبدالعزیز رحمۃ الله علیہ نے جنہیں حکومت مل جانے کا افسوس تھا، آپ اس عظیم ذمہ داری کے اٹھانے سے لرزاں تھے،خلیفہ مقرر ہونے کے بعد آپ پر گھبراہٹ کا عالم طاری تھا،آپ خود اس کے خواہشمند نہ تھے،آپ کے نزدیک خلافت موروثی نہیں بلکہ ایک جمہوری ادارہ تھی،لہٰذا سلیمان کی تدفین کی بعد مسجد میں آئے،منبر پر چڑھے اور لوگوں کو خطاب کرتے ہوئے فرمایا:
’’لوگوں ! میری خواہش اور عام مسلمانوں کی رائے لیئے بغیر مجھے خلافت کی ذمہ داری سونپ دی گئی ہے اس لیئے میری بیعت کا جو طوق تمہارے گردن میں ڈال دیا گیا ہے میں خود ہی اسے اتار دیتا ہوں،تم جسے چاہو اپنا خلیفہ منتخب کر لو‘‘
تمام لوگوں نے بآواز بلند کہا ہم نے آپ کو اپنے لیئے پسند کیا اور ہم آپ سے راضی ہوگئے ۔
اس کے بعد آپ نے خدا اور اس کے رسول کے احکامات بیان کرتے ہوئے فرمایا:
’’لوگوں ! جس نے خدا کی اطاعت کی،اس کی اطاعت ہر انسان پر واجب ہے،جس نے خدا کی نافرمانی کی،اس کی اتباع لوگوں پر ضروری نہیں،میں اگر اللہ تعالیٰ کی اطاعت کروں تو میری اطاعت ضروری جانو اور میں اللہ تعالٰی کی نافرمانی کروں تو میری بات نہ مانو‘‘
حاضرین نے ایک بار پھر آپ کی تائید کی اور اس طرح آپ نے بنو امیہ کے موروثی دستور کے خلاف شریعت مطہرہ کی روشنی میں بیعت عامہ حاصل کرنے کے بعد خلیفہ اسلام کی حیثیت سے اپنے کام کا آغاز کیا۔
خلافت کا بار گراں اٹھاتے ہی فرض کے تکمیل کی احساس نے آپ کی زندگی کو بالکل ہی بدل کر رکھ دیا وہی عمر جو نفاست پسندی اور خوش لباسی میں اپنا ثانی نہیں رکھتے تھے،جو خوشبو کے دلدادہ تھے،جن کا لباس فاخرانہ اور جن کی چال امیرانہ آن بان کی آئینہ دار تھی اب سراپا عجز و نیاز تھے،خلافت سے پہلے آپ تین ہزار درہم والا لباس پسند فرماتے،پھر دوران خلافت آپ نے تین درہم والا کپڑا خریدا اور فرمایا:’’کاش کوئی اس سے موٹا اور کھردرا کپڑا ہوتا کیونکہ یہ بھی پتلا ہے،غور کرنے کا مقام ہے، پہلے کہاں وہ تین ہزار درہم کا لباس اور اب یہ فقط تین درہم کا،اللہ تعالٰی آپ کے درجات بلند فرمائے کہ آپ جیسے لوگوں کو ہی اللہ کے بندوں کے امور سنبھالنے چاہیئے۔‘‘
منصب خلافت پر فائز ہوتے ہی آپ نے بیت المال کو خلیفہ کے بجائے عوام کی ملکیت قرار دیا،اس میں تحفہ،تحائف،انعامات و نوازشات کا طریقہ موقوف کردیا،سلیمان بن عبد الملک کی جائیداد کو ورثاء میں تقسیم کرنے کے بجائے سارا اثاثہ اور مال و دولت کو بیت المال میں داخل کرنے کا حکم صادر کیا،اپنی بیوی فاطمہ کو حکم دیا کہ تمام زیورات و جواہر بیت المال میں جمع کرادو ورنہ مجھ سے الگ ہوجاؤ،وفا شعار،نیک اھلیہ نے حکم کی تعمیل کی،گھر کے کام کاج کیلئے بھی کوئی ملازمہ مقرر نہ تھی تمام کام ان کی اہلیہ خود کرتیں۔
آپ کے سامنے سواری کیلئے اعلیٰ ترین گھوڑے پیش کئے گئے مگر آپ نے اس پر سوار ہو نے سے انکار کیا اور فرمایا :’’میرے لیئے میرا خچر ہی کافی ہے‘‘اور ان گھوڑوں کو بیت المال میں جمع کروا دیا،جب پولیس آفیسر نیزہ لے کر آگے آگے روانہ ہوا تو اسے روکا اور فرمایا "میں بھی تمام مسلمانوں کی طرح ایک مسلمان ہوں” حسب دستور قصر خلافت(شاہی محل) میں داخل ہونے کا وقت آیا تو آپ نے کہا کہ میرے لیئے میرا خیمہ ہی کافی ہے اور اندر داخل ہوگئے۔
ہر وقت امت مسلمہ کے حقوق کی نگہداشت اور اللہ تعالٰی کے احکامات کی تعمیل اور نفاذ کی فکر دامن گیر رہتی جس کی وجہ سے چہرے پر پریشانی و ملال کے آثار دکھائی دیتے،آپ کو حیران و پریشان دیکھ کر آپ کی حالت دریافت کی گئی تو آپ نے فرمایا: ’’یہ تشویشناک بات ہی تو ہے کہ مشرق سے مغرب تک امت محمدیہ کا کوئی فرد ایسا نہیں جس کا مجھ پر حق نہ ہو اور بغیر مطالبہ و اطلاع کے اس کا ادا کرنا مجھ پر فرض نہ ہو‘‘۔
الغرض آپ نے اپنے پڑ داد حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے نقش قدم کی اتباع کرتے ہوئے اپنی زندگی کو تنگدستی اور فقر و استغناء کا نمونہ بنایا، آپ نے باغ فدک اھل بیت کو ان کا حق سمجھ کر واپس کردیا جس پر اس سے قبل اختلاف تھا، خانوادہ رسول صل اللہ علیہ وسلم کے خلاف ہونے والی زیادتیوں کا ازالہ کیا،خطبہ جمعہ کے دوران حضرت علی رضی اللہ عنہ پر ہونے والی طعن و تشنیع کا سلسلہ ختم کیا، نظام حکومت میں پھیلے ہوئے تمام تر فتنوں اور گمراہیوں کا سد باب کیا۔
آپ کی تمام تر مساعی اور کوشش اس امر پر لگی ہوئیں تھیں کہ ایک بار پھر سنت عمری اور عہد فاروقی کی یاد تازہ ہو جائے، آپ کو انہیں خدمات جلیلہ اور کارہائے نمایاں کے بدولت پانچویں خلیفہ راشد کے نام سے بھی یاد کیا جاتا ہے۔
آپ نے عوام الناس میں یہ اعلان جاری کروادیا کہ جن لوگوں کی زمین و جائیداد سابقہ حکومتوں نے ناحق قبضہ کر رکھا ہے وہ حضرات اپنا دعوی پیش کریں، یہ کام بہت خطرناک اور نازک تھا،خود اپ کے پاس بڑی موروثی جاگیر تھی،بعض افراد نے کہا کہ اگر آپ نے اپنی جاگیر واپس کردی تو اولاد کی کفالت کیسے کریں گے؟ آپ نے فرمایا ان کو اللہ کے سپرد کرتا ہوں۔
اس اعلان کے بعد جاگیروں کی دستاویزات منگوائیں،آپ کے ایک ماتحت ان دستاویزات کو پڑھتے جاتے اور آپ ان کو پھاڑ پھاڑ کر پھینکتے جاتےتھے ،آپ نے ایک ایک جاگیر ان کے حق داروں کو واپس کردی،اس میں کسی کے ساتھ کسی قسم کی رعایت سے کام نہ لیا اور اپنے گھر کا بھی ایک ایک نگینہ بیت المال میں داخل کروادیا، خاندان کے تمام وظائف بند کردیئے،خلفاء کے ساتھ نقیبوں اور علمبرداروں کے چلنے کا سلسلہ بھی بند کر دیا۔
جریر بن خطفی نے ایک مرتبہ آپ کی شان میں قصیدہ پڑھا جس سے حسن طلب کی جھلک آرہی تھی،آپ نے اشعار سننے کے بعد ارشاد فرمایا مشکل یہ ہے کہ قرآن کریم کی رو سے تمہارا کوئی حق بیت المال پر ثابت نہیں ہوتا، جریر نے عرض کیا امیر المومنین میں بحیثیت مسافر حق دار ہوں یہ سن کر آپ نے اپنی جیب سے اس کو پچاس دینار عنایت فرمائے ۔
اہلیہ محترمہ نے آپ سے ایک دن شکایت کی کہ عیدالفطر سر پر آرہی ہے سب لوگ نئے کپڑے پہنیں گے ایک ہمارے بچے ہیں خلیفہ وقت کے فرزند ہونے کے باوجود پھٹے پرانے کپڑوں میں ہوں گے۔
امیرالمومنین نے بیت المال کے خزانچی کو رقعہ لکھا کہ ہماری ایک مہینے تنخواہ پیشگی بھیج دیجئے ۔
خزانچی نے عرض کیا بادشاہ کا حکم ہے مجھے کوئی عذر نہیں لیکن امیرالمومنین کو کیونکر یہ یقین ہے کہ وہ ایک مہینے تک زندہ رہ سکتے ہیں؟
اگر اس کا جواب نفی میں ہے تو غریبوں کے مال کا حق کیوں پیشگی ہی اپنی گردن پر رکھتے ہیں ۔
آپ نے فرمایا خزانچی کا خیال بہت صحیح ہے۔
اللہ اللہ کیا لوگ تھے زبانیں حق کہنے کیلئے آزاد تھیں اور کان حق سننے کیلئے کھلے تھے خلوص کے ساتھ جسارت و دلیری تھی اور فراخ دلی کے ساتھ سنوائی۔
کوتوال شہر عمر بن مہاجر کہتے ہیں کہ آپ کی تنخواہ دو درہم روزانہ مقرر تھی،آپ کا چراغ دان تین لکڑیوں کو کھڑا کرکے اس پر مٹی رکھ کر بنایا جاتا تھا جب اراکین سلطنت آپ کے پاس رات کو جمع ہوکر معاملات سلطنت میں گفتگو کرتے تو آپ بیت المال کا چراغ جلائے رکھتے جب دربار بر خواست ہوجاتا تو اس کو گل کرکے اپنا چراغ جلا لیتے۔
جب آپ خلیفہ ہوئے تو آپ نے گھر کے اخراجات کم کردیئے،گھر سے شکایت ہوئی آپ نے فرمایا میری تنخواہ میں اتنی وسعت نہیں ہے کہ تمہارا سابقہ خرچ جاری رکھوں، باقی رہا بیت المال تو اس میں تمہارا بھی اتنا ہی حق ہے جتنا مسلمانوں کا ۔
ابو جعفر منصور نے آپ کے صاحبزادے سے پوچھا تمہارے والد کی کیا آمدنی تھی کہا کل چار سو دینار،یہ آمدنی آہستہ آہستہ کم ہو رہی تھی،اگر وہ اور زندہ رہتے تو اور بھی کم ہوجاتی۔
آپ نے اپنے مختصر دور خلافت میں رعایا کی فلاح و بہبود کیلئے بھی وسیع پیمانے پر اقدامات کیے ۔
خلیفہ بننے سے قبل نو مسلموں سے بھی جزیہ وصول کیا جاتا تھا، آپ نے اسے ظلم قرار دیتے ہوئے اس کی ممانعت کردی، اس پر صرف مصر میں اتنے لوگ مسلمان ہوئے کے جزیہ کی آمدنی گھٹ گئی اور وہاں کے حاکم نے آپ سے شکایت کی کہ آمدنی کم ہونے کی وجہ سے قرض لے کر مسلمانوں کے وظائف ادا کرنے پڑ رہے ہیں جس پر آپ نے لکھا کہ :’’جزیہ بہر حال ختم کردو،حضور صلی اللہ علیہ وسلم ہادی بنا کر بھیجے گئے تھے محصل بنا کر نہیں‘‘
آپ نے بیت المال کی حفاظت کا نہایت سخت انتظام کیا،دفتری اخراجات میں تخفیف کردی، ملک کے معذورین اور شیر خوار بچوں کیلئے وظائف مقرر کیے،نو مسلموں پر جزیہ معاف کردینے سے آمدنی گھٹنے کے باوجود سرکاری خزانے سے حاجت مندوں کے وظائف مقرر کیے ،لیکن ناجائز آمدنیوں کی روک تھام،ظلم و ستم کے سد باب اور مال کی دیانتدارہ تقسیم کے نتیجے میں صرف ایک سال بعد یہ نوبت آ گئی کہ لوگ صدقہ لے کر آتے تھے اور صدقہ لینے والا کوئی نہیں ملتا تھا۔
آپ نے جگہ جگہ سرائیں بنوائیں جن میں مسافروں کی ایک دن اور بیمار مسافروں کی دو دن میزبانی کا حکم دیا،شراب کی دکانوں کو بند کروایا اور حکم دیا کہ کوئی ذمی مسلمانوں کے شہروں میں شراب نہ لائے،آپ نے علم کی اشاعت پر خصوصی توجہ دی،تدریس و اشاعت میں مشغول علماء کرام کیلئے بیت المال سے خصوصی وظائف مقرر فرما کر ان کو فکر معاش سے آزاد کر دیا،آپ کا سب سے عظیم تعلیمی کارنامہ احادیث نبوی کی حفاظت و اشاعت ہے،آپ کے دور خلافت میں بڑے پیمانے پر تبلیغ اسلام کے باعث ہزاروں لوگ مسلمان ہوئے جن میں سندھ کے راجہ داہر کا بیٹا جے سنگھ بھی شامل تھا۔
بنی امیہ کی 92 سالہ دور حکومت میں حضرت عمر بن عبدالعزیز رحمۃ الله علیہ کی خلافت کے ڈھائی سال تاریکی میں روشنی کی حیثیت رکھتے ہیں۔
آپ کا زمانہ خلافت حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی طرح بہت مختصر تھا،لیکن جس طرح عہد صدیقی بہت اہم زمانہ تھا اسی طرح حضرت عمر بن عبدالعزیز رحمۃ الله علیہ کا زمانہ بھی عالم اسلام کیلئے بڑا قیمتی زمانہ تھا ۔
آپ کا سب سے بڑا کارنامہ یہ ہے کہ آپ نےخلافت اسلامیہ کو خلافت راشدہ کے نمونے پر قائم کرکے عہد صدیقی اور عہد فاروقی کو دنیا میں پھر سے واپس لے آئے تھے۔
بنی مروان آپ سے بہت ناراض رہتے تھے،اس لئے کہ آپ نے وہ تمام رقومات جو سالانہ وظائف اور مختلف بے محل عطایات میں انہیں ملتا تھا موقوف کردیا تھا،آپ ان سے کہتے تھے بیت المال پر میرا کوئی قبضہ اور دخل نہیں ہے،میں صرف اس کا محافظ،نگران اور امین ہوں،یہ غریبوں اور یتیموں کا مال ہے یہ عطایات کی صورت میں تقسیم نہیں ہوتا ۔بنی امیہ انہیں وجوہات سے آپ سے بغض و عناد رکھتے تھے ،آخر کار انہوں نے اس نیک صفت خلیفہ کے قتل کی سازش کی اور ٢٠ رجب ١٠١ھ بمطابق ٧٢٠ء آپ کے ایک خادم کو ایک ہزار اشرفی دے کر زہر خورانی پر آمادہ کیا۔
دوران علالت ہی آپ کو اس بات کا علم ہوگیا تھا لیکن آپ نے غلام سے کوئی انتقام نہیں لیا بلکہ ایک ہزار اشرفیاں اس سے لے کر بیت المال میں داخل کروادیا اور غلام کو آزاد کردیا ۔
طبیعت زیادہ بگڑنے لگی تو آپ نے اپنے بعد ہونے والے خلیفہ یزید بن عبدالملک کے نام وصیت لکھوائی جس میں تقوی کی تلقین کی ۔
٢٥ رجب المرجب ١٠١ھ بمطابق ١٠ فروری ٧٢٠ء کو صرف انچالیس سال(٣٩) کی عمر میں سفر حیات کی تکمیل کی، اس دار فانی سے دار جاودانی کی طرف انتقال فرمایا اور داعی اجل کو لبیک کہا ۔
حلب کے قریب سمعان میں آپ کے جسد اطہر کو سپرد خاک کیا گیا جو ملک شام میں واقع ہے۔
آپ کے انتقال پر حضرت خواجہ حسن بصری رحمۃ اللہ نے فرمایا :’’آج دنیا کا سب سے بہترین آدمی اٹھ گیا‘‘۔
اللہ تعالیٰ آپ کی قبر کو نور سے منور فرمائے،آپ کے درجات بلند فرمائے،جنت الفردوس میں اعلی مقام عطا فرمائے اور ہم تمام لوگوں کو آپ کے چھوڑے ہوئے نقوش کو اپنا کر خلق خدا کی خدمت کرنے اور احکام خداوندی کے پہنچانے کی توفیق عطا فرمائے تاکہ پھر سے اک بار دنیا میں اسلام کا بول بالا اور اور کفر و شرک کا منہ کالا ہو، لوگوں کو انصاف ملے،دنیا میں خوش حالی ہو،اس کائنات سے ظالم اور ظلم و ستم کا خاتمہ ہو آمین ۔
Comments are closed.