شیرازہ منتشر کرنے والی ایک وباء: بدگمانی

نثاراحمد حصیر القاسمی
شیخ الحدیث معہد البنات بورہ بنڈہ و جامعۃ النور یوسف گوڑہ
سکریٹری جنرل اکیڈمی آف ریسرچ اینڈ اسلامک اسٹیڈیز ۔ حیدرآباد۔
[email protected]
0091-9393128156
امت مسلمہ کی ایک بڑی بیماری دوسروں سے بدگمانی ہے اور اس میںہر خاص وعام مبتلا ہے، اس بدگمانی کی وجہ سے لوگوں کے آپسی رشتے ٹوٹ رہے، تعلقات میں دراڑیں پڑ رہیں، اختلافات پیدا ہورہے، نئے نئے فتنے جنم لے رہے، سماجی ڈھانچے کھوکھلا ہورہے ، الفت ومحبت ناپید ہورہی اور اس کی جگہ بغض وعناد ، عداوت ودشمنی، حسدو کینہ ، مکر و فریب اور رسا کشی لے رہی ہے۔ اسی لئے اللہ تعالیٰ نے دوسروں سے بدگمانی کرنے سے منع فرمایا ہے۔
کسی انسان کے کسی عمل کے اندر دو پہلو ہوتے ہیں، ایک خیر کا اور دوسرا شر کا، بدگمانی کے اندر انسان شر کے پہلو کو خیر کے پہلو پر ترجیح دے کر خیر کو نظر انداز کردیتا اور شر کے پہلو پر یقین کر بیٹھتا اور اسی زاویہ سے سوچنے اور عمل کرنے لگتا ہے، ماوردی نے ادب الدنیا والدین کے اندر تحریر کیا ہے کہ بدگمانی یہ ہے کہ جو قابل اعتماد وبھروسہ ہے اس کے کسی عمل کی غلط تاویل کرکے اسے ناقابل اعتماد وبھروسہ قرار دے دے۔ (ادب الدنیاوالدین ص:199)
ابن قیم علیہ الرحمۃ فرماتے ہیں کہ بدگمانی اس بات سے عبارت ہے کہ انسان کسی کے بارے میں غلط وبرے خیالات کا مجسمہ بن جائے، دل اس کے بارے میں نفرت وکراہت سے بھر جائے، یہاں تک کہ اس کے اثرات اس کی زبان اور دوسرے اعضاء وجوارح پر ظاہر ہونے لگیں۔ (الروح ، طبع اول 1/238)
مثال کے طور پر کوئی کسی کو کسی عورت کیساتھ گھومتے پھرتے اور ہنسی مذاق کرتے ہوئے دیکھتا ہے تو وہ گمان کرنے لگتا ہے کہ یہ کوئی اجنبی عورت ہے اور اس کے ساتھ یہ معاشقہ کررہا یا اس کے ساتھ اس کے ناجائز تعلقات ہیں، وہ اس کے ساتھ برائی کرنا چاہتا ہے جبکہ ہوسکتا ہے کہ وہ اس کی قریبی رشتہ دار ومحرم ہو، اس کی بہن، پھوپھی یا اس کی بیوی یا بھانجی ہو۔
اسی طرح مثال کے طورپر ایک نہایت نیک متقی وپرہیزگار انسان ہے ، دعوت کا بڑا جذبہ ہے، وہ امت کی فلاح و صلاح میں گھٹنے والے اور معاشرہ کی خرابیوں کو ختم کرنے کے لئے ہمیشہ فکر ومند رہتے ہیں، انہیں خیال آیا کہ ہر جگہ دعوت وتبلیغ کا کام تو کیا جاتا ، گھر اور محلوں میں تو لوگوں سے فہمائش کی جاتی، مگر یہ کوٹھے کے طوائف جو شب وروز بدکاری میں مبتلا ہیں، وہ بھی تو دعوت دین کی محتاج ہیں، چنانچہ اسی جذبہ سے وہ ایک دن موقع پر کر طوائف خانہ پہنچ گئے اور انہیں ایک ایک کرکے اللہ اور اللہ کے رسول کی باتیں بتاتے رہے، بہتوں نے توبہ کیا اور اسلام کو گلے لگایا، اور اپنی سابقہ زندگی کو چھوڑ کر اسلام کے راستے پر چلنے لگیں، مگر دیکھنے والے انہیں طوائف خانے جاتے اور گھنٹوں بعد نکلتے دیکھا اور یہ گمان کر بیٹھے کہ یہ لباس وپوشاک سے تو متقی ہیں جو ان کا ڈھونگ ہے، بہروپئے اور بدکار انسان ہیں، یہ جب طوائفوں کے پاس جاسکتے ہیں تو شراب بھی پی سکتے اور دوسری برائی بھی کرسکتے ہیں۔ انہوں نے دوسروں سے اور دوسروں نے اوروں سے اس کا چرچا کرنا شروع کیا، اور بدگمانیاں بڑھتی گئیں مگر جب کسی انصاف پسند نے حقیقت حال معلوم کیا تو اندازہ ہوا کہ حقیقت کچھ اور ہے۔اسی لئے اسلام نے دوسروں کیساتھ حسن ظن رکھنے کی تعلیم دی اور بدگمانی سے سختی سے منع کیا ہے۔
ایک روایت میں ہے کہ رسول اللہ صلعم نے ایک بار کعبۃ اللہ پر نظر ڈالتے ہوئے فرمایا:
اے اللہ کے گھر تجھے خوش آمدید، تو کس قدر عظمت والا اور تیری حرمت کسی قدر عظیم ہے، مگر اللہ کے نزدیک مومن کی حرمت تیری حرمت سے بڑھ کر ہے، اللہ نے تیری ایک چیز کو حرمت والا اور مقدس بنایا ہے، اور مومن کی تین چیزوں کو حرمت والا و مقدس بنایا ہے، اس کی جان کو، اس کے مال کو، اور یہ کہ کوئی اس کے بارے میں بدگمانی نہ کرے۔
(شعب الایمان للبیہقی 5/692)
سماج ومعاشرہ ، خاندان وقبیلہ اور جماعتوں وتنظیموں کو بکھیرنے وٹکڑے کرنے والے اس اخلاقی بیماری پر اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں جابجا منتبہ کیا اور اس سے بچنے کی تاکید کی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے:
حالانکہ انہیں اس کا کوئی علم نہیں ، وہ صرف اپنے گمان کے پیچھے پڑے ہوئے ہیں، اور بے شک وہم وگمان حق کے مقابلہ میں کچھ کام نہیں دیتا۔ (النجم:28)
رسول اللہ صلعم نے بے شمار احادیث میں اس سماجی بیماری کا تذکرہ فرمایا اور اس سے بچنے کی تلقین وتاکید فرمائی ہے، حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے ، وہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلعم نے فرمایا:
بدگمانی سے بچو کیونکہ بدگمانی سب سے جھوٹی اور خلاف واقعہ بات ہے ، نہ کسی کے ٹوہ میں لگو، نہ کسی کی جاسوسی کرو، نہ آپس میں ایک دوسرے سے حسد کرو ، نہ ایک دوسرے کی جڑ کاٹو، یا اعراض کرو ، ومنہ پھیرو، اور نہ آپس میں بغض کرو، اور اللہ کے بندو آپس میں بھائی بھائی بن جائو۔ (صحیح البخاری 6064)
حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلعم نے کعبۃ اللہ پر نگاہ ڈالی اور فرمایا :
کس قدر تیری حرمت بڑھی ہوئی ہے او ابو حازم کی روایت میں ہے کہ رسول اللہ صلعم نے کعبۃ اللہ پر جب نگاہ ڈالا تو فرمایا : اے گھر تجھے خوش آمدید، کس قدر تو عظمت والا اور تیری حرمت عظمت والی ہے، اللہ کے نزدیک مومن کی حرمت تیری حرمت سے بڑھ کر ہے، اللہ نے تیرے اندر ایک حرمت رکھی ہے اور مومن کے اندر تین ، اس کا مال ،اس کی جان اور یہ کہ اس سے بدگمانی کی جائے۔ (السلسلۃ الصحیحۃ للالبانی، 3420)
بدگمانی ہی کی وجہ سے بہت سے گھریلو نزاع واختلاف پیدا ہوتے ، اور اکثر وبیشتر زوجین کے درمیان تفریق کی وجہ یہی بدگمانی ہوتی ہے، ، عام طور پر بھائی بہنوں ، والدین ، زوجین ، پڑوسیوں، دوستوں اور قرب وجوار کے لوگوں یا تنظیموں، جماعتوں اور ایک جگہ کام کرنے والے ملازمین ، مدرسین، عملہ وانتظامیہ کے درمیان اختلافات وناچاقی کی وجہ یہی بدگمانی ہوتی ہے، جو آگے چل کر بڑے فتنے وفساد کا سبب بنتی ہے۔
امام غزالیؒ نے تحریر کیا ہے کہ ’’آپ جب کسی انسان کو دیکھیں کہ وہ دوسروں سے بدگمانی رکھتا ہے ، دوسروں کے عیوب تلاش کرتا پھرتا ہے ، ہر عمل پر نکتہ چینی کرتا اور اس کو شک کی نگاہ سے دیکھتا ہے تو آپ یقین جانیں کہ وہ بدباطن ہے، اور اس کے باطنی خباثت ہی کی وجہ سے اس سے اس طرح کا عمل ظاہر ومترشح ہورہا ہے، وہ دوسروں کو اسی نگاہ سے دیکھتا ہے جیسا خود ہے، کیونکہ جو مومن ہوتا ہے وہ عذر تلاش کرتا ہے، جبکہ منافق عیوب تلاش کرتا ہے، مومن تمام مخلوق کیساتھ مخلص اور صاف دل ہوتا ہے۔ (احیاء علوم الدین 537)
اسلام نے دوسرے مسلمانوں کے بارے میں خاص طور پر نیک وصالح لوگوں اور علماء وپرہیز گاروں کے بارے میں کسی دلیل کے بغیر بدگمانی کرنے کو حرام قرار دیا ہے، البتہ جو خود معاصی ومنکرات کا کھلے عام ارتکاب کرتا ہو تو ان سے بدگمانی رکھنا حرام نہیں ہے، اس لئے کہ اس نے فسق وفجور اور معاصی ومنکرات کا کھلے عام ارتکاب کرکے خود اپنے آپ کو اس قابل بنا دیا ہے کہ لوگ اس کے بارے میں غلط گمان کریں، حضرت سفیان ثوری رحمہ اللہ نے فرمایا کہ گمان دو طرح کا ہوتا ہے، ایک تو گناہ ہے کہ آپ کسی کے بارے میں بدگمانی رکھیں، اور زبان سے اس کا دوسروں کے سامنے اظہار بھی کریں، اور دوسرے قسم کی بدگمانی گناہ نہیں ہے، اور وہ یہ ہے کہ آپ کسی کے بارے میں بدگمانی تو رکھیں مگر اس کا اظہار بالکل نہ کریں بلکہ اپنی ذات تک اسے محدود رکھیں۔
اللہ تعالیٰ نے نیک وصالح مومن بندوں سے بدگمانی رکھنے سے سختی سے منع فرمایا ہے، ارشاد باری تعالیٰ ہے:
اے ایمان والو! بہت بدگمانیوں سے بچو، یقین جانو کہ بعض بدگمانیاں گناہ ہیں، اور بھید نہ ٹٹولا کرو اور نہ تم میں سے کوئی کسی کی غیبت کرے، کیا تم میں سے کوئی بھی اپنے مردہ بھائی کا گوشت کھانا پسند کرتا ہے؟ تم کو اس سے گھن آئے گی، اور اللہ سے ڈرتے رہو، بے شک اللہ توبہ قبول کرنے والا مہربان ہے۔ (الحجرات، 12)
اللہ تعالیٰ نے ایمان والوں کو حکم دیا ہے کہ وہ دوسرے مسلمانوں میں سے جو اہل خیر وصلاح ہیں ، بطور خاص ان کے بارے میں بدگمانی سے دور رہیں، کیونکہ بدگمانی کسی بنیاد، کسی دلیل یا شواہد یا واضح علامت کی بنیاد پر نہیں ہوتی، اس کی بنیاد صرف ظن وگمان اور اوہام وخیالات پر ہوتی ہے، جس سے شکوک وشبہات جنم لیتے اور آپس میں فساد وبگاڑ پیدا ہوتا ہے، علامہ ابن کثیر رحمہ اللہ کا کہنا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے مومنوں کو بہت سی بدگمانیوں سے منع فرمایا ہے، اور یہ گھر والوں، قرابت داروں اور عام لوگوں پر بے موقع وبے محل تہمت لگانا ہے، کیونکہ ان میں سے بعض تو گناہ خالص ہوتا ہے ، لہٰذا ہر مومن پر واجب ہے کہ احتیاط کے طور پر ہر طرح کی بدگمانی سے بچے۔
اللہ کے نبی صلعم نے بدگمانی سے پرہیز کرنے کی تاکید کی اور اس سے بچے رہنے کا حکم دیا ہے، آپ صلعم نے فرمایا:
بدگمانی سے بچو کیونکہ بدگمانی سب سے جھوٹی اور خلاف واقعہ بات ہے۔ (بخاری ومسلم)
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے وہ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلعم کو کعبۃ اللہ کو طواف کرتے دیکھا ، آپ صلعم فرما رہے تھے، کس قدر تو عمدہ ہے، اور کس قدر تیری خوشبو عمدہ ہے، کسی قدر تو اور تیری حرمت عظیم ہے، اس ذات کی قسم جس کے قبضہ قدرت میں محمد کی جان ہے، مومن کی حرمت اللہ کے نزدیک تیری حرمت سے زیادہ عظیم ہے، اس کی جان ، اس کے مال کی حرمت اور یہ کہ مومن کے بارے میں خیر ہی کا ہم گمان کریں۔ (رواہ ابن ماجہ بسند حسن)
مشہور تابعی اور جلیل القدر محدث حضرت سعید بن المسیب رحمہ اللہ فرماتے ہیں ، رسول اللہ صلعم کے بارے میں میرے بعض بھائیوں نے مجھے لکھا کہ اپنے بھائی کے معاملہ کی بہتر توجیہ کرو، جب تک کہ کوئی ایسی بات نہ ظاہر ہو جو تجھے بدظنی پر مغلوب کردے، اور مومن کی زبان سے نکلنے والی باتوں کو شر پر محمول نہ کرو، بلکہ بہتر محمل تلاش کرو، تجھے اس کا بہتر محمل مل جائے گا، اور جو خود اپنے آپ کو تہمتوں سے دوچار کردے وہ بدگمانی کرنے والوں پر ملامت نہ کرے۔
بدگمانی میںمبتلا شخص دوسروں کے عیوب تلاش کرنے میں لگا رہتا، ان کی لغزشوں کی جستجو میں ہوتا ، ان کی کوتاہیوں کو اجاگر کرنے کی سعی کرتا اور اس طرح وہ خود کو اللہ کی ناراضگی وغضب کا حقدار بنا دیتا اور اللہ کی سزا وعتاب کا مستحق بن جاتا ہے، اللہ کے نبی صلعم نے اس طرح کی بیماری میں مبتلا شخص کے لئے سخت وعید کا اعلان فرمایا ہے اور اسے ذلیل ورسوا ہونے کا مژدہ سنایا ہے، آپ صلعم کا ارشاد ہے:
اے وہ لوگو! جنہوں نے زبان سے تو ایمان لایا ہے، مگر ایمان ان کے دل میں داخل نہیں ہوا ہے، مسلمانوں کی غیبت مت کرو اور نہ ان کی عیب جوئی کرو کیونکہ جو دوسروں کے عیوب تلاش کرتا ہے ، اللہ اس کے عیوب تلاش کرتا ہے، اور اللہ جس کے عیوب تلاش کرے، اللہ اسے اس کے گھر میں ذلیل ورسوا کردیتے ہیں۔ (رواہ ابوداؤد، بسند صحیح)
بدگمانی کرنے والا ہلاکت میں پڑنے والوں میں سب سے زیادہ ہلاک وبرباد ہونے والا ہے، اللہ کے نبی صلعم کا ارشاد ہے:
اگر کوئی کہتا ہے کہ لوگ ہلاک وبرباد ہوگئے تو وہی سب سے زیادہ ہلاک وبرباد ہونے والا ہے۔ (مسلم)
اس کی تشریح کرتے ہوئے امام خطابی فرماتے ہیں کہ اس کا مطلب یہ ہے کہ انسان مسلسل دوسروں کی عیب جوئی کرتا رہتا ، ان کی برائیو کا تذکرہ کرتا رہتا اور کہتا ہے کہ لوگ بگڑ گئے ، ہلاک ہوگئے، برباد ہوگئے، یا اس طرح کی باتیں کرتا ہے تو جو کوئی اس طرح کی باتیں کرنے لگے اور اس طرح کے عمل میں پڑ جائے تو اس کی حالت ان سے بدتر ہے کیونکہ اس کے اس عمل کے گناہ کا بوجھ اس کے کاندھے پر ہوگا۔
بدگمانی کے کچھ اسباب و وجوہات ہیں، جن میں سے صرف چند وجوہات کا اس جگہ تذکرہ مناسب سمجھتا ہوں۔
اس کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ بدگمانی کرنے والا خود کو بڑا پارسا اور پاک وصاف سمجھتا اور ظاہر کرتا ، خود پسندی میں مبتلا رہتا، اور سمجھتا ہے کہ وہ دوسرے سے بہتر ہے، اس وہم میں مبتلا ہونے کی وجہ سے وہ دوسروں کو حقیر سمجھتا ، دوسروں کے ہر عمل کو شک کی نگاہ سے دیکھتا ، اس میں کیڑے نکالتا، اور اس کا غلط محمل تلاش کرنے کی کوشش کرتا ہے، خود کو حق اور درست راہ پر سمجھتا اور دوسروں کو باطل وغلط راہ پر اور یہ فطری بات ہے کہ جو خود پسندی کے مرض میں مبتلا ہوتا ہے وہ لازمی طور پر دوسروں کے بارے میں بدگمانی رکھے گا۔
اس کی ایک وجہ باطنی خباثت ، عقل ودانش کی ، ایمان کی کمزوری ، اور شیطان کے نرغے اور تسلط میں ہونا بھی ہے، جو لگ کامل العقل بڑے دل والے وسیع الظرف اور عمدہ صفات کے حامل پاک نفوس ہوتے ہیں، وہ اس برے اخلاق واطوار سے کنارہ کش ہوتے اور دوسروں کے بارے میں اچھا ہی گمان کرتے ہیں۔
علامہ مقدسی کا قول کہیں میری نظروں سے گذرا تھا ،انہوں نے فرمایا ہے کہ بدگمانی ، گمان کرنے والوں کے خبث باطنی سے ٹپکتا ہے کیونکہ جو مومن ہوتا ہے وہ تو دوسرے مومن بندے کے عمل میں عذر تلاش کرتا ہے، البتہ جو منافق ہوتا وہی دوسروں کے عیوب تلاش کرتا اور غلط محمل ڈھونڈھتا ہے، انسان کو تہمت کی جگہوں سے پرہیز کرنا چاہیے تاکہ اس کے بارے میں بدگمانیاں پیدا نہ ہوں، اور بدگمانی شیطان کی دخل اندازی کی راہ ہموار کرتاہے۔
ایک وجہ افکار وخیالات ، نظریات وتصورات اور بعض مسائل وقضایا میں غلو اور سختی ہوتی ہے۔
مسلمانوں کے اتحاد کو برقرار رکھنے اور تفرقہ وپھوٹ سے امت کو بچانے کیلئے اللہ کے نبی صلعم نے بعض مستحبات کو بھی ترک کردیتے، یا افضل کی بجائے غیر افضل پر عمل لیتے تھے، مثال کے طور پر کبھی اللہ کے نبی صلعم نے فقراء کو نہیں دیا اور مالداروں کو ان کی تالیف قلب کے لئے عطا کیا تاکہ ان کے دلوں میں اسلام کی محبت پیدا ہو اور وہ اسلام سے قریب ہوجائیں، یا مسلمان ان کے شر سے محفوظ رہیں، اللہ کے نبی صلعم نے تالیف قلب ہی کے پیش نظر خواہش کے باوجود کعبۃ اللہ کو شہید کرکے از سر نو تعمیر کرنے سے گریزاں رہے، بخاری کی روایت ہے ، حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلعم نے فرمایا:
اے عائشہ اگر تیری قوم دور جاہلیت کے ساتھ قریب العہد نہ ہوتی بلکہ پرانی ہوگئی ہوتی یعنی کفر کے زمانہ سے قریب نہ ہوتی تو میں کعبہ کو توڑ کر دو دروازے بناتا ، ایک دروازہ سے لوگ اندر جاتے اور ایک دروازے سے باہر نکلتے، (صحیح البخاری ، کتاب العلم)
حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ سفر میں نماز پوری پڑھتے تھے اور حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ ان پر نکیر کرتے تھے مگر جب سفر میں حضرت عثمان نے پوری نماز پڑھی تو انہوں نے بھی پوری پڑھی اور اختلاف نہیں کیا، اس پر جب ان سے سوال کیا گیا تو انہوں نے فرمایا ’’الخلاف شر‘‘ اختلاف کرنے میں شر اور فتنہ وفساد ہے۔
ایک وجہ دوسروں کی رائے کا احترام نہ کرنا، اور ہر حال میں اپنی رائے پر اڑے رہنا ، اور کسی سے دوستی یا دشمنی اسی کی بنیاد پر کرنا ہے اور اس کی سب سے بڑی وجہ خواہشات نفسانی کی پیروی ہے ، نفس کی پیروی انسان کو بدگمانیوں میں مبتلا کردیتی ہے۔ کسی چیز کی چاہت انسان کو اندھا، بہرا بنا دیتی ہے، جب انسان اپنی خواہش نفس کیساتھ دوسروں کی طرف دیکھتا ہے تو اس وقت وہ غلطیوں وکوتاہیوں کو فراموش کر بیٹھتا ہے جسے وہ چاہتا ہے اس کا قول وعمل گرچہ غلط ہو اسے بہتر وعمدہ نظر آتا اور اس سے حسن ظن قائم کرتا ہے، اور انسان اگر کسی سے نفرت وبغض کرتا ہے تو اس کی خواہش نفس اسے اس سے بدگمانی پر آمادہ کرتی ہے وہ اس کی لغزشوں اور غلطیوں کی تلاش میں جٹ جاتا ہے ، خواہ سامنے والے اپنے قول وعمل میں درست اور حق پر ہی کیوں نہ ہو۔
انسان کی بیماری خواہ جسمانی ہو یا روحانی ، حسی ہو یا نفسیاتی ، سماجی ہو یا اجتماعی، اسلام نے ہر ایک کا علاج بتا دیا ہے، بدگمانی ایک جسمانی نفسیاتی بیماری ہے اور اس کے علاج کے طور پر اسلام نے کہا ہے کہ انسان اپنے انسان ہونے کی حقیقت پر غور کرے، انسان خطاء کا پتلا ہے، اس پر بھول چوک ، کمزوری و ذھول طاری ہوتا رہتا ہے، انسان اپنے ذہن میں اگر یہ رکھے کہ غلطی ہر کسی سے ہوتی ہے تو وہ دوسروں کے عمل میں عذر تلاش کرے گا، اور دوسروں سے پیش آنے والے ہر عمل پر گرفت کرنے سے اجتناب کرے گا اور سمجھے گا کہ اس کی کوئی معقول وجہ ہوگی۔
حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا ہے کہ :
تیرے بھائی کی زبان سے جو بات نکلے اس سے خیر ہی کا گمان کرو جبکہ تم خیر کا محمل پاسکتے ہو۔اس کے ساتھ ہی انسان اپنے اندر اخوت ایمانی کے جذبہ کو پروان چڑھائے، کیونکہ جب آپ دوسرے کو اپنا مخلص بھائی کی نگاہ سے دیکھیںگے تو ان کے بارے میں آپ حسن ظن قائم کریںگے اور بدگمانی سے دور ہوںگے ۔
اسی طرح انسان کو مشتبہ مقام ومقال سے پرہیز کرنا چاہیے تاکہ اس کے بارے میں بدگمانی پیدا نہ ہو، انسان خود کو شبہ میں یہ کہتے ہوئے نہ ڈالے کہ لوگ کیا کہیںگے یا کیا سوچیںگے ہمیں اس کی پرواہ نہیں کیونکہ اس طرح شیطان کی مداخلت کا راستہ کھل جائے گا اور وہ آپ کی عزت وشہرت پر بٹے لگانے ، آپ کی صورت مسخ کرنے اور آپ کو متہم کرنے کی تدبیریں کرے گا، اسی طرح آپ بلا وجہ دوسروں میں بدگمانی پیدا کرکے انہیں گناہ میں مبتلا کرنے کے مرتکب ہوںگے اور خود بھی مخلوق میں بدنام ہوںگے، اگر انجانے میں کوئی اس طرح کے مقام تہمت میں پڑ جائے تو اسے فوری طور پر امر واقعہ کی وضاحت کرنی چاہیے، تاکہ اس کی آبرو بھی محفوظ رہے اور دوسرے بھی بدگمانی کے گناہ سے بچ جائیں۔
ایک مرتبہ کا واقعہ ہے کہ رسول اللہ صلعم مسجد میں معتکف تھے، ام المومنین حضرت صفیہ رضی اللہ عنہا آپ کے پاس آئیں اور کچھ دیر کے بعد جب جانے لگیں تو آپ ان کیساتھ اٹھے اور انہیں گھر تک پہنچانے کے لئے نکلے، آپ کے پاس سے دو شخص کا گذر ہوا، ان دونوں نے آپ کو دیکھ کر اپنی چال تیز کردی، تو رسول اللہ صلعم نے انہیں آواز دے کر فرمایا:
علی رسلکما ، انھا صفیۃ بنت حیی ، ذرا ٹھہرو یہ (میری زوجہ) صفیہ بنت حیی ہے، ان دونوں نے کہا:
سبحان اللہ ، اے اللہ کے رسول اور اللہ کے نبی کا یہ فرمانا ان پر بڑا گراں گذرا کہ شاید میرے بارے میں اللہ کے نبی کو یہ گمان ہوا کہ میں شک کرسکتا ہوں تو رسول اللہ صلعم نے فرمایا، شیطان انسان کے جسم میں خون کے مقام کو جا پہنچتا ہے، یا خون کی طرح دوڑتا ہے، مجھے ڈر ہوا کہ کہیں شیطان تمہارے دلوں میں کچھ ڈال نہ دے۔ (بخاری)
آج گھروں میں بکھرائو ہے، سماجی تانے بانے منتشر ہیں، بھائی بھائی کا دشمن ہے، اہل مدارس اور علماء کے بارے میں بے بنیاد تبصرے کئے جاتے ، اور انہیں متہم کیا جاتا ہے، ان ساری باتوں کی بنیاد صرف بدگمانی ہے، کسی نے کوئی دینی ادارہ قائم کیا، کسی مرکز ودرسگاہ کی بنیاد رکھی، اپنے ادارے کیلئے مالیہ کی فراہمی کی اپیل کی، یا کسی دوسرے بحران کے شکار دینی ادارے کے لئے مالی تعاون کی اپیل کی، مساجد کی تعمیر میں حصہ لینے کی لوگوں سے خواہش کی ، اہل خیر اور آخرت کی فکر رکھنے والے حضرات تو اس پر کان دھرتے اور اس میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے اور مالیہ کی فراہمی میں دست تعاون دراز کرتے ہیں مگر جو بیمار دل ہوتے وہ اس پر طرح طرح سے نکتہ چینی کرتے، شکوک وشبہات کا بازار گرم کرتے، سوالات پر سوالات کرتے اور موقع پر پہنچ کر امر واقعہ کی تحقیق کرنے کی زحمت نہیں کرتے، اس طرح نیتوں پر شک کرنے والے اور دینی کاموں میں لگے ہوئے لوگوں سے بدگمانی کرنے والے وہی ہوتے ہیں جن کا کسی عمل خیر اور فلاحی کاموں میں کبھی ہاتھ نہیں کھلتا، اور اپنے بخل کی پردہ داری کیلئے تحقیق وجستجو کی بجائے سوالات کھڑے کرتے اور دوسروں کو بھی عمل خیر میں ہاتھ بٹانے سے روکنے کے مرتکب ہوتے ہیں، یہ منافقین کا شیوہ ہے، جن کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے:
یہی وہ ہیں جو کہتے ہیں کہ جو لوگ رسول اللہ کے پاس ہیں، ان پر خرچ نہ کرو یہاں تک کہ وہ ادھر ادھر ہوجائیں، اور آسمان وزمین کے کل خزانے اللہ کی ملکیت ہیں، مگر یہ منافقین بے سمجھ ہیں۔ (المنافقون 7)

Comments are closed.