’’منکر‘‘پرنکیر ہر شخص کی ذمہ داری ہے

مولانامحمد قمرالزماں ندوی
مدرسہ نور الاسلام کنڈہ پرتاپگڑھ
سماج اور معاشرہ میں پھیلی ہوئی برائی اور ظلم و زیاتی کو روکنا اور منکر پر نکیر کرنا، یہ ہر شخص کی ذمہ داری ہے ۔ اس کا پہلا درجہ یہ ہے کہ انسان کے پاس اگر طاقت ہے تو برائ کو ہاتھ سے روکے، اگر اس کی طاقت نہ ہو تو زبان سے روکے، اور اگر اس کی بھی طاقت نہ ہو، تو کم سے کم دل سے اس کو برا جانے، اور یہ ایمان کا کم سے کمتر درجہ ہے ۔
عام طور پر اب یہ دیکھا جا رہا کہ لوگ بہت سے مواقع پر مصلحت اور مفاد کو مقدم رکھتے ہیں اور برائی پر نکیر نہیں کرتے ،کہیں حالات کا رونا روتے ہیں، کہ اب زمانہ بدل گیا ہے، مصلحت یہ ہے کہ کسی کو ٹوکا نہ جائے، نکیر نہ کی جائے،اور کنارہ کشی اختیار کر لی جائے ۔ اسی میں سکون و راحت ہے، ان کا عمل ان کے ساتھ ہے، ہمیں اپنی اصلاح کی طرف زیادہ توجہ دینی چاہیے ۔ یہ سوچ، تھنکنگ اور نظریہ درست نہیں ہے ۔ انسان کے لئے ضروری ہے کہ وہ اپنی صلاح کی فکر کرے اور دوسروں کی اصلاح کی بھی فکر کرے ۔ اصلاح اور صلاح دونوں ضروری ہے،صلاح اپنی اصلاح اور درستی کو کہتے ہیں،جبکہ اصلاح دوسروں کی بہتری اور اچھائی ہے، دونوں لازم و ملزوم ہے،سورہ عصر میں اس کی تفصیل آئی ہے۔
آئیے اس حوالے سے اسلامی تعلیمات کا خلاصہ پیش کرتے ہیں ۔
حضرت جابر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے ارشاد فرمایا : اللہ تعالٰی نے حضرت جبرئیل علیہ السلام کو حکم دیا کہ فلاں شہر کو شہر والوں سمیت الٹ دو ۔ حضرت جبرئیل علیہ السلام نے عرض کیا : اے میرے رب ! اس شہر میں فلاں بندہ بھی ہے، جس نے ایک لمحہ بھی آپ کی نافرمانی نہیں کی ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم فرماتے ہیں کہ اللہ تعالی نے حضرت جبرئیل علیہ السلام سے ارشاد فرمایا کہ تم اس شہر کو اس شخص سمیت الٹ دو،کیونکہ شہر والوں کو میری نافرمانی کرتا ہوا دیکھ کر اس شخص کے چہرے کا انگ ایک گھڑی کے لئے نہیں بدلا ۔ (چہرے پر شکن تک نہیں آیا یعنی اس برائی کو ہوتے دیکھا اور ان لوگوں کو نہ ہاتھ سے روکا نہ زبان سے اور نہ ہی دل سے برا سمجھا اور جانا، بلکہ سب سے الگ تھلگ اپنی عبادت میں مصروف رہا اور دعوت جیسے عمل اور نہی عن المنکر کا فریضہ انجام دینے سے غافل رہا) ( مشکوۃ المصابیح )
صاحب مرقاۃنے اس حدیث کی شرح میں لکھا ہے کہ اللہ تعالی کے اس ارشاد کا حاصل اور خلاصہ یہ ہے کہ بیشک میرے اس بندے نے کبھی بھی میری نافرمانی نہیں کی، مگر اس کا یہ جرم اور گناہ ہی کیا کم ہے، کہ لوگ اس کے سامنے خلاف شریعت امور اور کام انجام دیتے رہے، اور گناہ کرتے رہے اور وہ اطمنان کے ساتھ ان کو دیکھتا رہا ،برائی پھیلتی رہی اور لوگ اللہ تعالی کی نافرمانی کرتے رہے ،مگر ان برائیوں اور نافرمانی کرنے والوں کو دیکھ کر اس کے چہرے پر کبھی بھی ناگواری اور شکن کے آثار محسوس نہیں ہوئے ۔ (مرقاۃ)
انسان کی دنیا اور آخرت میں نجات ،کامیابی و کامرانی اور فلاح و سعادت صرف اس میں نہیں ہے کہ وہ صرف خود نیک صالح ، مطیع و فرمانبردار اور شریعت کا پابند رہے، بلکہ اس پر لازم ہے کہ اپنی نجات کی فکر کے ساتھ اپنی اولاد اہل و عیال رشتہ دار اور عام طبقئہ انسانی کی نجات اور کامیابی کی فکر کرے ،اس کے لئے کوشاں ہو اور امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کو اپنی زندگی کا حصہ اور مشن بنائے ۔
ارشاد خداوندی ہے : ’’یا ایھا اللذین آمنوا قوا انفسکم و اھلیکم نارا‘‘
اے ایمان والو! اپنے کو اور اپنی اولاد کو آتش جہنم سے بچاؤ۔
ایک سچا اور پکا مسلمان وہ ہے جو اپنی صلاح کے ساتھ دوسروں کی اصلاح کرے اور امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا فریضہ انجام دیتا رہے ۔ دعوت الی اللہ کے لوازم میں سے معروف کا حکم دینا اور برائ و منکر سے روکنا بھی ہے ۔ اسی لئے مسلمان داعی کی ذمہ داری ہے کہ وہ نیکیوں کا حکم دے برائیوں سے روکے بلکہ برائی سے مقابلے کے لئے ڈٹ جائے لیکن حکمت اور مصلحت کو بھی نہ چھوڑے اگر اس کے بس میں ہو اور برائ کے ازالے سے کوئ بڑا فتنہ کھڑا ہونے کا اندیشہ نہ ہو تو وہ اس برائ کو اپنے ہاتھ سے روکے اور ایسا نہ کرسکتا ہو تو زبان و بیان سے حق و صداقت واضح کر دے اور اگر یہ بھی نہیں کرسکتا تو باطل کو دل میں برا ضرور سمجھے اور اسے جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کی تیاری کرتا رہے ۔ یہی آنحضرت صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے اس ارشاد گرامی کا مصداق ہے : تم میں سے جو شخص برائ ہوتے دیکھے تو اپنے ہاتھ سے روک دے اگر ایسا نہ کر سکے تو زبان سے منع کرے اور اگر ایسا بھی نہ کر سکے تو دل میں برا سمجھے اور یہ ایمان کا کمزور ترین درجہ اور سطح ہے ۔ (مسلم شریف)
Comments are closed.