مدارس و مراکز کی سالمیت وبقا:قوم وملک کے مفاد میں

ڈاکٹر آصف لئیق ندوی، چلہنیاوی
موبائل: 8801589585
علم و ادب کے مراکزوادارے اس کرہ ارض پر اس چشمہ جاری و صافی کی مانند ہیں جن سے نئی نسل اپنی تعلیم وتربیت،حکمت و معرفت اور تہذیب و ثقافت کی پیاس بجھاتی ہے، اخلاق وکردار کا ان سے درس و سبق حاصل کرتی ہے، وہاں سے فکر و ادب اور شعور و وجدان کوبالیدگی ملتی ہے، زبان کو گویائی اور قلم کو روانی ملتی ہے اور فکر و نظر کو پرواز اور تہذیب وتخیل کو بلندی نصیب ہوتی ہے۔ غرض کہ بے شمارتعمیر و ترقی ہے جو ایک انسان علم وادب کے قلعے اور مینارے سے حاصل کرتا ہے، جس کا شمار اس مختصر تحریر میں بیان کرپانا مشکل ہے۔ ہمیں اس بات کا ہمیشہ ادراک و احساس ہونا چاہئے کہ کسی بھی قوم وملک کی بلندی و عروج میں علم وادب کا بہت بڑا نکردار ہوتاہے،بغیر اسکے کوئی قوم وملک ترقی کے منازل طے نہیں کرسکتا۔بلکہ دوسری قوموں اور ممالک سے وہ پیچھے بھی ہوسکتا ہے۔بغیر علم کے جوہر و گوہرکے ہم اور ہمارا لشکربھی معارضین سے ہار سکتا ہے۔ اسی بات کوراقم السطورنے اپنے اس شعر میں کہنے کی کوشش کی ہے۔
عروجِ ملک وملت میں ضرورت ہے بہت اس کی
نہیں ہے علم تو پھر ہار سکتا ہے یہ لشکر بھی!!!!
خواہ علم وادب کاکوئی بھی ادارہ ہو،سب قابل احترام ہیں، خواہ وہ دارالعلوم ندوۃ العلماء ہو یا علی گڑھ مسلم یونیورسٹی،دارالعلوم دیوبند ہو یامولاناآزاد نیشنل اردو یونیورسٹی، جامعہ مظاہرعلوم سہارنپور ہو یا دیگر مدارس ومراکز سب انسانی وسائل تعلیم کے قلعوں کی مانند ہیں البتہ دینی ادارے انسانی تعلیم کیساتھ ساتھ تحریک ایمان و عمل محرک بھی ہوتے ہیں، جہاں سے ہمارے دین و شریعت کی صحیح ترویج و اشاعت بھی ہوتی ہے اور ہماری اسلامی زندگی کو روح و غذا بھی ملتی ہے اور قرآن و حدیث کے افہام و تفہیم کی کم و بیش صحیح ترجمانی بھی ہوتی ہے، ہماری زندگی اور اسکی روح کے لیے دونوں لازم و ملزوم شئی ہیں، اسلامی زندگی کی بقا و تحفظ بغیر ان اسلامی قلعوں اور پاؤر ہاؤس کے تحفظ و بقا کے ناممکن اور مشکل ہے اور آج کے اس پرفتن دور میں تو انکی اہمیت و افادیت مزید دوچند ہوجاتی ہے جہاں روز نت نئے فتنوں اور چیلنجوں کا انبار ہو، ان سے مقابلہ کی قوت و طاقت انہیں مداراس و مراکز سے ملتی ہے اور وہاں کے فارغین و مبلغین اور علماء و اساتذہ پوری دنیا میں جو کارنامے اور خدمات انجام دے رہے ہیں، ہمیں یہ کہنے میں کوئی حرج نہیں کہ علماء واساتذہ زمین پر اللہ کی بڑی نعمتوں اور انبیاء کے سچے وارثان کی بزم ہیں، آج ان اداروں اور اساتذہ کی مالی حالت قابل افسوس اور لائق رحم ہے، جو ہماری آنکھوں سے مخفی نہیں! وہاں کے اساتذہ و مدرسین کو مالی بحران کیوجہ سے فارغ کیا جارہا ہے۔ تنخواہ کے لیے فنڈ کی کمی کیوجہ سے انہیں طویل ملازمت اور اچھی کارکردگی کے باوجود ملازمت سے برخاست کیا جارہا ہے، اسوقت ہمیں بڑھ چڑھ کر حصہ لینا اور دامے درمے قدمے سخنے انکی مدد و اعانت کرنا، انکی صدا پر لبیک کہنا ہرفردو بشر اور خصوصاً احباب علم و بصیرت کے لیے لازم ہے، آزمائش کی اس گھڑی میں ہمارا پیش پیش رہنا اور ہر طرح سے تعاون کرنے کا ہاتھ بڑھائے رکھناہماری جسمانی روح کیساتھ ساتھ ایمانی روح کی بقا کا ضامن بھی ہوگا، ہمیں اپنی روزی روٹی کیساتھ ساتھ انکی بھی لازماًفکر کرنی چاہئے۔اور بالخصوص ان دنوں جب کہ ارباب حل و اقتدار اور فرقہ پرست طاقتیں سب ہمارے مخالف ہوں اور فضا ہمارے لیے سازگار نہ ہو تو ایسے وقت اسلامی ادارے کی اس آواز پر کہ”اللہ کے واسطے کون ہیں جو میری مدد کے لیے تیار ہیں ” ہمیں اس میں پس وپیش نہیں کرنا چاہئے۔ اوردل کھول کرہمیں تعاون کرنا چاہیے اور اس لیے مدد کرنی چاہیے کہ صدقہ ہماری بلا و مصیبت کوبھی دور کرتا ہے، عمر میں اضافہ کا باعث بنتا ہے اور مرض کو دفع کرتا ہے۔۔ اللہ آپکی مدد فرمائے، ”ان اللہ لایضیع أجر المحسنین”
ایک ایسے وقت جبکہ بلوی عام ہے، کورونا وبا مالہ وماعلیہ سے ہر فرد، ہر انسان بلکہ پوری دنیا بری طرح متأثر اور لاچار و مجبور ہے، خدا کا قہر گناہوں کی کثرت کیوجہ سے تیزی سے بڑھتا جارہا ہے۔ امراض و اموات کے رکنے کا نام نہیں ہے، اس مصیبت کے عالم میں بھی دشمنان اسلام موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اس وبا و مرض کے بہانے ہمیں ہر اعتبار سے کمزور اور بے بس کر دینے پر تلے ہیں!! ہم اور آپ رات و دن جسکا مشاہدہ کرتے آرہے ہیں کہ ہمارے اور ہماری شریعت کے خلاف کیا کیا کھلواڑ ہورہا ہے، ہمیں بدنام کرنے کی کیا کیا تدبیریں، حربے اور بہانے اختیار کیے جارہے ہیں، کیسے کیسے ظلم و ستم ہیں جس کے ہم شکار بنتے جارہے ہیں، کن کن پریشانیوں سے ہم اور آپ گزرتے جا رہے ہیں، کیا ہم نہیں دیکھتے! کہ کیسے ہمیں اور ہماری شریعت کو جھٹلانے کی کوششیں کی جارہی ہیں؟ اور باطل و مہلک طور و طریق کو فروغ و رواج مل رہا ہے! ہماری اجتماعی عبادت و ریاضت، دعوت و تبلیغ اور تعلیم و تدریس پہلے ہی مرحلے سے متأثر ہے اور اسکو مزید ٹارگٹ اور ناکارہ بنانے کی ہر ممکن کوششیں ہورہی ہیں!!
کیا ہم کو اور آپ کو اس بات کی امید اور توقع ہے کہ ایسے لوگ انسانیت کے خیر خواہ اور اسلام کے مخلص ثابت ہونگے جو کبھی ہندتوا ایجنڈے تو کبھی منووادی وچار کی، تو کبھی بدھ مذہب کی اتباع کی سفارش و تائید کرتے ہیں اور باہر ممالک سے اپنے ہم مسلک ومشرب مظلوم اقلیتوں کو تحفظ فراہم کرنے کے لئے ہندوستان میں جگہ فراہم کرنا چاہتے ہیں اور دوسری طرف اپنے ہی ملک کی بڑی اقلیت اور انسانیت کے سچے ہمدرد اور ہم نوا کو مشق ستم بنا ہوئے ہیں اور انکی شریعت و اسلامی اداروں کے مستقبل کو تاریک بنا دینا چاہتے ہیں، جو اپنے ملک وقوم اور اس کی معیشت اور تعلیمی و تربیتی اداروں کا خیر خواہ نہیں ہو سکا۔ شراب کی دکانوں کو کھولنے کا برجستہ فیصلہ تو کرلیا مگر تعلیمی اور تربیتی اداروں جن میں ہماری تعمیر و ترقی راز چھپا ہے ان کو کھولنے کی تدبیریں نہ کرسکا، بھلا وہ کیسے ہماری مصیبتوں اور پریشانیوں میں ہمارا سہارا بن سکتا ہے! دشمن تو یہی چاہتا ہے کہ مسلمان کیسے مجبور و لاچار بن جائیں! ان کے تمام ادارے، مدارس و مراکز اور مساجد و مینارے کیسے ویران اور ناکارہ ہوجائیں اور ان کے مخیر حضرات وخواتین کیسے ان کی مدد سے دستبردار ہو جائیں تاکہ ان کی دل کی مرادیں خود بخود پوری ہوجائیں اور ہندو راشٹر کی تمام رکاوٹیں دور ہوکر اسکا خواب شرمندہ تعبیر ہوجائے اور اسکا راستہ بالکل ہموار ہوجائے اور ہندوستان کو ہندتوا ایجنڈے میں جکڑ دیا جائے۔
ایسے وقت میں جبکہ رمضان کا مبارک مہینہ لاک ڈاؤن کی حالت میں گزرا، مدارس و مراکز کے تعاون و اعانت والے مہینہ کو بالکل مقفل کر دیا گیا، سفرائے مدارس کی تمام راہوں کو ظاہری طور پر بالکل مسدود و مقید بنا دیا گیا، تمام کاروبار و تجارت پر عارضی طور پر تالا لٹکا دیا گیا، اشیاء خوردنی کے کاروبار کے سوا سب کچھ بند رکھا گیا اور کورونا کا ایسا ہوّا کھڑا کیا گیا اور جب اس کی شدید ضرورت محسوس کی گئی تو اسوقت ان لاک کا سسٹم بنالیا گیا۔ افسوس کہ مدارس و مراکز کے ذمہ داران اور اساتذہ چاہ کر بھی اپنے سالانہ بجٹ کی تکمیل نہ کرسکے اور سفرائے مدارس فردا فردا مخیرین حضرات تک رمضان کے مخصوص مہینہ میں رسائی نہ کر سکے، ظاہر ہے آزاد ادارے ہمیشہ عوام اور مخیرین حضرات کے صدقہ و زکوۃ اور عطیہ و تعاون سے چلتے ہیں، ان کے لئے کوئی سرکاری فنڈ تو دور کی بات! بلکہ سرکار تو یہی چاہتی ہے کہ کیسے ان اداروں کو دہشتگرد کا اڈہ ثابت کرکے ان پر تالا لگا دیا جائے اور یہ کام وہ بہت آسانی سے نہیں کر سکتے! اس لیے بدخواہوں نے اس سے بہتر کوئی اورموقع نہ سمجھا اور نہ ہی اسکو ایسا موقع مل سکتا تھا کہ پورے ملک اور اسکے باشندگان کو مالی اعتبار سے کمزور بنا کر رکھ دیا جائے اور تعمیر وترقی اور مالی ارتکاز کی ذمہ داری کسی ایک فرقہ کے حوالے کردی جائے تاکہ نہ رہے بانس اور نہ بجے بانسری۔۔۔واللہ اعلم بالصواب۔۔مگریاد رکھا جائے کہ
مصائب میں الجھ کر مسکرانا میری فطرت ہے
مجھے ناکامیوں پر اشک برسانا نہیں آتا۔۔۔۔۔
تمام چیلنجوں اور آزمائشوں سے سبق حاصل کرتے ہوئے اپنے ساتھ ساتھ تمام کاروبار اور کاروان زندگی کو آگے لے کرچلنا، اپنی اور اپنی قوم کی شناخت اور تشخصات کو باقی رکھنے میں پیش پیش رہنا مسلمانوں کی زندگی اور انکی سرگرمیوں کا ماحصل اور لب لباب ہے، ہم نے اپنے بڑوں اور آباء و اجداد کی زندگی سے یہی سبق سیکھا ہے اور یہی ہماری اور ان کی فکروں کا یہی خلاصہ بھی ہے۔ورنہ۔۔ تجھے آباء سے اپنی کوئی نسبت ہو نہیں سکتی۔۔۔۔۔۔کہ تو گفتار وہ کردار تو ثابت وہ سیارہ
مصائب و مشکلات اور آزمائشوں اور فتنوں کا پیدا ہونا کوئی بات نہیں، انبیاء کرام، صحابہ و تابعین اور علماء ودانشوران کی عظیم قربانیوں سے ہمارے دین اسلام بھرا پڑا ہے۔ کتنی قربانیوں کے بعد یہ دین اور شریعت اور اسلامی تشخصات ہمارے پاس پہنچے ہیں، یہ سوچتے ہوئے ہمارے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں اور انکے سامنے ہم لوگ گفتار کے غازی ثابت ہوتے ہیں، موجودہ دور اور اس کی آزمائشیں ہمارے لیے امتحان کی گھڑی ہے اور چیلنجوں سے مقابلہ کرنا مسلمانوں کے رگ و ریشے میں داخل ہے۔ ہمیں اپنے آباء و اجداد کی مثالوں پر کھرے اترنا اور ان کے لگائے ہوئے چمن اور پودوں کو بھی ہرا بھرا رکھنا اور انکی قربانیوں سے درس لیتے ہوئے اپنی اپنی قربانیاں پیش کرنا ملک کی حفاظت وسالمیت کے ساتھ ساتھ شریعت کی بقا و تحفظ کی کوشش کرنا، اپنی نسل اور ان کی دینی و اخلاقی، تعلیمی و تربیتی، ایمانی و روحانی اور ادبی و اسلامی مستقبل کے بارے میں سوچنا اور اس کا لائحہ عمل تیار کرنا ہمارا ایمانی فریضہ بھی ہے اور سماجی و ملی ذمہ داری بھی، خواہ اس کے راستے میں لاکھ رکاوٹیں اور دشواریاں کیوں نہ آجائیں مگر یہ کارواں کبھی کسی جمود و تعطل کا شکار نہیں ہونا چاہیے!! چونکہ یہی ہمارا سرمایہئ حیات ہے اور یہی ہماری تحریک زندگی کے ذرائع و وسائل بھی ہیں۔
مرغن ولذیذ کھانے پینے اور طرز رہائش کو مختصر کرنے کی ضرورت پڑے تو ہمیں اسلامی اداروں کی بقا و تحفظ کے لئے اولین فرصت میں ترجیح دینا چاہئے۔ اور انکی احیاء و تجدید میں کوئی بھی دریغ نہیں کرنا چاہئے۔کیونکہ

تعلیم سے انسان سنور جاتا ہے آصف
پاکیزہ بنا دیتی ہے مومن کی نظر بھی

Comments are closed.