بھارت- راہ اور سمت سفر کا تعین

عبد الحمید نعمانی
6اپریل1921ءکے ینگ انڈیا میں گاندھی جی نے لکھا تھا ، ”اگر بھارت تشدد کا طریقہ اپناتا ہے اور میں زندہ رہا تو میں بھارت میں رہنا پسند نہیں کروں گا،وہ میرے اندر کوئی فخر پید اکرنے سے قاصر رہے گا‘‘۔
اگر آج کے بھارت میں گاندھی جی ہوتے تو ان کا عمل اور رد عمل کیا ہوتا ؟۔ہندوسنسکرتی اور اسلامی تہذیب کے نام پر عوام کو متوجہ کرنے کی مہم چلائی گئی لیکن وہاں اور یہاں بھی ملک کی سمت سفر کی راہ گم ہوگئی، بھارت میں امن و شانتی کے داعی گاندھی جی کو ناتھو رام گوڈسے نے قتل کر دیا تو پاکستان میں لیاقت علی خاں کو سیدا کبر نے موت کے گھاٹ اتار دیا۔وہاں کے نظام زندگی پر وڈیروں اورزمین داروں نے قبضہ کر لیاتو یہاں کے نظام حکومت و وسائل حیات پر فرقہ پرستوں اور سرمایہ داروں اور ان کے گماشتوں نے قبضہ جما لیا اور قبضے کا سلسلہ دونوں جگہوں پر تا ہنوز جاری ہے اور دونوں ملک کے عوام کے لیے سمت سفر اور بہتر زندگی گزارنے کے وسائل اور آگے چلنے کے راستے مسدود ہوتے چلے گئے ، اور جب بھی راہ ہموار ہوتی نظر آئی تو غل غباڑے اور جذباتی نعرے سے سفر کے رخ کو نامعلوم منزل کی طرف موڑ دیا گیا اور پبلک سروکار والے مسائل ، حل ہونے کے بجائے سراپاسوالات بن کر رہ گئے ، بھارت میں مسائل کی نوعیت کچھ مختلف ہونے کی وجہ سے حالات کچھ الگ ڈھرے پر رواں دواں ہوگئے ہیں ، گزشتہ کچھ برسوں خصوصاً1964ءسے عجیب طرح کی صورت حال سے ملک کے عوام خصوصاً محنت کشوں ، کسانوں ، مزدوروں ، اقلیتوں کو دوچار ہونا پڑا ، اسی (80)کی دہائی خصوصاً1984ءسے الگ طرح کاظاہرہ شروع ہوا، مذہبی علامتوں کا استعمال کر کے فرقہ وارانہ رنگ میں غول بندی شروع ہوئی، جس کی زد میں وہ بھی آتے چلے گئے جن کے متعلق سوچا بھی نہیں جاسکتا تھا کہ وہ اتنی آسانی سے بتاشے کی طرح ، وقت کی بارش میں ڈھے جائیں گے ، لیکن اصول و نظریہ سے خالی زندگی اور سیاست کے متعلق حتمی انداز میں کچھ مختلف سوچا بھی نہیں جاسکتا ہے ، گزشتہ دنوں سب کا ساتھ ، سب کا وکاس کے نعرے کے ساتھ اقتدار کی کرسی پر براجمان سرکار کے زیر سایہ جب قتل و غارت گری اور نہتے انسانوں کے ہجومی قتل سے متاثر ہوکر کچھ نا مور شخصیات نے اپنے ایوارڈ واپس کیے اور اپنے تکلیف دہ تاثرات کا اظہار کیا تو وہ ہندوتو گینگ کے حملے کی زد میں آگئے ۔ فاشسٹ عناصر نے اپنے سیاہ کرتوتوں پر تنقید کو ملک پر تنقید اور اس کی وفاداری و نیک نامی کے حملے سے جوڑ کر دکھانے اور باور کرانے کی مہم شروع کر دی اور کہنا چاہیے کہ وہ بے کر دار شر پسند میڈیا اور فسادی لیڈروں کی گٹھ جوڑ سے اپنے مقصد و مہم میں بہت حد تک کامیاب بھی رہے ۔لیکن اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ مزاحمت پوری طرح ختم ہوگئی ہے ۔ یا مزاحمت ترک کر دینا چاہیے ، اب پورا ملک محسوس کر رہا ہے اور دیکھ بھی رہا ہے بلکہ بھگت بھی رہا ہے کہ کام سے زیادہ جملے بازی اور نعرے بازی سے کام کیا جاتا رہا ہے ، سب کو ساتھ لے کر کچھ طبقے ، خصوصاًسرمایہ دار اور صنعتی گھرانے کے وکاس کے لیے جتن کیے گئے اور کیے جارہے ہیں ، نج کاری کے عمل سے عوام اور اکثریت کے مسائل و مشکلات میں اضافہ اور سہولیات میں کمی بلکہ ان کے خاتمے کی راہ ہموار ہور ہی ہے اس کی طرف سے توجہ ہٹانے کے لیے فرقہ وارانہ مسائل اچھالے اور ابھارے جاتے ہیں ، آئین کے تقاضوں اور ان میں درج عوامی فلاحی باتوں کو نظر انداز کر کے کچھ طبقے کی فلاح اور مفادات کے تحفظ میں ملک کے وسائل کا بے دریغ استعمال کیا جارہا ہے اور مصیبت کو موقع میں تیزی سے بدلاجارہا ہے ، ایسی صورتحال میں ایسے عناصر بھی سرگرم عمل ہیں جو ہندوتو اور ملت کے نام پر سیکو لرازم ، جمہوریت اور موجودہ پارلیمانی نظام اور آئین کے خلاف بے اعتمادی پیدا کر کے لوگوں کے ذہن و عمل کو انتشار و مایوسی اور شدت و جارحیت کی راہ پر ڈال رہے ہیں ، ایک فرقہ پرست دوسرے فرقہ پرست سے تقویت و غذا حاصل کر کے عوام کے یکسوئی و اعتماد کو تباہ اور ذہن و عمل کو فرقہ وارانہ راستے پر لے جانے کا کام کر رہے ہیں ، جہاں ہندوتو وادی جناح سے زیادہ گاندھی ، نہرو کو نشانہ تنقید بناتے ہیں ، وہیں ملت کے نام پر سیات کر نے والے فرقہ پرست ساورکر سے زیادہ مولانا آزادؒاور مولانا حسین احمد مدنی ؒکے خلاف تنقید و جارحیت کا مظاہرہ کر تے ہیں ،پھر مشترکہ طور پر متحدہ قومیت اور فرقہ وارانہ اتحاد کے لیے کام کرنے والوں کو اپنی تنقید و جارحیت کا نشانہ بنایا جاتا ہے ،گرو گولولکر اور سنگھ کے دیگر سر سنچالک اور ہندوتو وادی جنا ح سے زیادہ مولانا آزادؒ کو خطر ناک قرار دیتے ہیں ، یہ سب باتیں ’بنچ آف ٹھاٹس‘اور دیگر مجموعہ ہائے تحریر میں ریکارڈ پر ہیں ،لیکن کمال کی بات تو یہ ہے کہ دونوں فریق نے ابھی تک سماج کے سامنے کوئی ایسا بہتر نمونہ اور عملی طریق کار پیش نہیں کیے ہیں جن کو اختیار کر کے انسان بہتر سمت میں آگے بڑھ سکے ، مولانا آزادؒ، مولانا حسین احمد مدنی اور ؒمجاہد ملت مولانا حفظ الرحمن وغیرہم نے وطنی اشتراک پر مبنی مثبت قومیت و وطنیت کا جو تصور پیش کر کے اتحاد اور قومی یکجہتی کی راہ دکھائی تھی ، اس کے خلاف بھی اسلام کے نام پر ذہن بنانے کی کوشش کی جاتی رہتی ہے ، اس کا مطلب یہ ہے کہ ملک کے باشندوں کے درمیان وطن و آئین کے تعلقات کی جو بنیاد ہے ، اسے بھی نعرے بازی کے زیر اثر منہدم کردیا جائے ، اس گروہ کو مثبت قومیت و وطنیت اوریک طرفہ منفی تہذیبی راشٹر واد کے درمیان کوئی فرق نظر نہیں آتا ہے، وطنی اشتراک پر مبنی مثبت قومیت ووطنیت ،آفاقی انسانی تعلقات اورا نسان دوستی کی راہ میں ذرا بھی رکاوٹ نہیں ہے ، مولانا آزادؒاور مولانا حسین احمد مدنی ؒنے فرقہ وارانہ اتحاد کے لیے ،متحدہ قومیت کا تصور یورپ و مغرب سے نہیں بلکہ رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے مختلف مذاہب و قبائل اور مسلم وغیر مسلم کے درمیان کیے گئے میثاق مدینہ سے اخذ و استنباط کیا تھا ، اس سلسلے میں اصل مسئلہ سربراہی کا نہیں ، جیسا کہ کچھ لوگ راہ فرار نکالنے کے لیے کہتے لکھتے ہیں ، بلکہ مشتر ک مقاصد کے لیے متحدہ جماعت و قوم کی تشکیل کا ہے ، جس میں (الف)محمد نبی صلی اللہ علیہ وسلم (ب)مسلمانان ِقریش مکہ و ساکنین شہر مدینہ (ج)مدینہ کے مسلمان،(د)مدینہ کے یہودی (ہ)مدینہ کے نصرانی (و)مدینہ کے غیر مسلم شامل تھے ، اس کی دفعہ اول میں ہی کہا گیا ہے کہ متذکرہ الصدر ہر شش(6) گروہ ایک جماعت کی حیثیت رکھتے ہیں ، اس کی تاریخ و سیر کی کتابوں، سیرت ابن ہشام وغیرہ میں پوری تفصیلات موجود ہیں تاہم سب سے جامع تفصیل مرحوم ڈاکٹرحمید اللہ نے اپنی دیگر کتب کے علاوہ اپنی بے نظیر کتاب مجموعة الوثا ئق السیاسة میں پیش کی ہے۔
بھارت جیسے مشترک آبادی والے ملک میں مذہب و تہذیب کے نام پر عوام میں فرقہ وارانہ ذہن و دوری پیدا کرنا نہ ملک کے مفاد میں ہے نہ اس کے باشندوں کے حق میں ، ملک و ملت کے مفاد میں یہی بہتر ہے کہ ہر طرح کی فرقہ پرستی کی مخالفت و مزاحمت کی جائے ، آئین ہند، ملک کے تمام باشندوں کو اپنی شناخت کو باقی رکھتے ہوئے اپنے اپنے مذاہب و روایات کو ماننے اور چلنے کی آزادی و ضمانت دیتا ہے، اس حوالے سے ملک کے باشندوں کی راہ اور سمت سفر بہت حد تک طے ہے ، اسی کے تناظر میں ہندوتو اور ملت کے نام پر سیاست کرنے والوں اور سرگرمیوں میںلگے عناصر کا جائزہ و مطالعہ کرنے کی ضرورت ہے ، یہ دونوں گروہ و فریق آئین کی بنیادی دفعات کے تحت ملک کے باشندوں کے اختیارات و حقوق کو نظر انداز کر کے جس طور سے آگے بڑھنے اور سماج کو آگے لے جانے کی سعی کر رہے ہیں اس کو لے کر نتیجہ خیز بحث و گفتگو اور سوالات کے ذریعے ، بہتر نمونے اور مسائل کے حل کے پیش نظر ضروری نکات و مطالبات کو سامنے لانا ضروری اور وقت کا تقاضا معلوم ہوتا ہے ۔ اس کے بغیر بھارت میں سیاسی نظام، مذہبی و تہذیبی ،سماجی و قتصادی مسائل و معاملات کے سلسلے میں صحیح راہ کا تعین اور یکسوئی و یکجہتی کے ساتھ آگے بڑھنے کے لیے سمت سفر طے نہیں ہوسکتی ہے ۔
Comments are closed.