قربانی کے ایام میں جانور قربان کرنے کی بجائے رقم صدقہ کرنے کا رجحان

 

قول سدید : مفتی احمد نادر القاسمی

باحث ورفیق اکیڈمک ڈپارٹمنٹ ،اسلامک فقہ اکیڈمی انڈیا

آج کل بہت۔سے دانشور حضرات اور خاص طور سے بعض جدید ذہن کے لوگوں کی طرف سے اکثر یہ سوال سننے کو ملتا رہتاہے اور لوگ نہ صرف یہ کہ دریافت کرتے ہیں بلکہ میڈیا کے ذریعہ اس طرح کی ذہن سازی کی کوشش بھی کی جاتی ہے کہ اسلام کاایک رکن حج اور قربانی جیسی متبر ک دینی اور روحانی عبادت ۔پر اتنی خطیر رقمیں خرچ کرنے سے بہتر تو یہ ہے کہ ان رقومات سے غریبوں اورضرورت مندوں کی مدد کردی جاۓ۔۔اس طرح کی چیزیں لیبرل حلقےکی طرف سےبھی آتی رہتی ہیں ۔اورجیسے جیسے حج اورقربانی کے ایام قریب ہوں گے۔آٸیں گیں۔

اس پہلو کو سامنے رکھتے خیال ہواکہ کچھ مفید دینی معلومات اور دینی وشرعی اعتبار سے اسلام کے۔متعین کردہ احکامات اور عبادتیں۔ ان کی توقیفی اور معقولی حیثیت۔اور دینی لحاظ سے زکوة۔صدقہ۔خیرات۔یتیموں ۔غریبوں۔ مسکینوں اورسماج کے ضرورتمندوں کی حاجت رواٸی کاکیامقام ہے۔؟اور اس میں بندے کوایک دوسرے کی جگہ ردوبدل کااختیار ہے؟ اس پر روشنی ڈالی جاۓ۔

عبادات اوراحکام کی حیثیت:

احکام شرعیہ میں٠ عبادات کا تعلق امر توقیفی اور تعبدی سے ہوتاہے ۔جس کامطلب یہ ہے کہ دینی احکام وعبادات کی۔منطقی معنویت اور حکمت عقلی اعتبار سےکسی کی سمجھ میں آٸے یانہ آٸے وہ اسلامی حکم اورعبادت ہے تواسکو تسلیم کرنا اوراس کے حق ہونے پر ایمان لاناہے ۔اور۔وہ جس کیفیت کے ساتھ کتاب وسنت میں وارد ہواہے اور جس وقت جن اوقات کےساتھ مربوط ہے ان کو اسی طرح اورانہیں اوقات میں اداکرنا ہے۔ اسے دوسری چیزکے ساتھ بدلانہیں جاسکتا۔ مربوط اوقات کے علاوہ کی طرف موخر اورپھیرا اورمنتقل نہیں کیاجاسکتا۔۔جسے اصول فقہ کی اصطلاح میں محدد بالوقت یاملحق بالزمان کہاجاتاہے۔جیسے رمضان کریم کے روزے ۔اوررمضان کامہینہ ہرسال شعبان اور شوال کے درمیان ٢٩ یا٣٠/دنوں کے دورانیہ میں آتاہے۔۔رمضان اگر جون کے مہینہ میں آجاۓ۔جوسخت گرمی کاہوتاہے تو اسے معتدل موسم یاسردی کے موسم میں شفٹ نہیں کیاجاسکتا۔چونکہ یہ مقیدبالزمان ہے۔بلکہ اصولی زبان میں یہ کہٸے کہ روزے کی فرضیت اوروجوب کاسبب ہی وقت کا پایاجاناہےاور وہی اس کے معیارہے(دیکھٸے وقت اورظروف کی بحث:فواتح الرحموت شرح مسلم الثبوت۔جلد ١صفحہ نمبر١٨٣۔٧٣۔٦٩۔حسامی۔ونظامی صفحہ نمبر٣٠_٣٥۔کشف الاسرارجلد١ صفحہ ٢٥١۔الموجز صفحہ١١١۔۔١١٢)۔ایسے ہی عیدالاضحی کے ایام ۔حج کے ایام وغیرہ ہیں۔اسی طرح ان کی اداٸگی کی جوکیفیت شریعت سے منقول ہے اس میں بھی تبدیلی نہیں ہوسکتی۔ کہ جس شخص پر حج فرض ہے وہ حج میں آنے والے صرفہ کے بقدر رقم صدقہ کردے اور اس فریضہ کی اداٸگی سے اپنے آپ کو سبکدوش سمجھ لے۔ ایسے ہی قربانی جو اللہ کے نزدیک محبوب عمل ہے اس کی جگہ اتنی رقم غربإ ٕ میں تقسیم کردے ۔اور اس فریضہ سے خود کو آزاد سمجھنے لگے ایسانہیں۔اب اس کی حکمت اور مصلحت کیا ہے ؟ یہ اللہ کو معلوم ہے بندے کو نہ تومعلوم ہے اورنہ ہی بندہ ان کوجاننے کامکلف ہے۔بندے کی سمجھ اور عقل وادراک کاپیمانہ تو بس اتناہی ہے جس کا نقشہ قرآن نے کھینچاہے:۔”وعسی أن تکرھوا شیٸا وھوخیرلکم وعسی أن تحبواشیٸا وھوشرلکم ۔واللہ یعلم وأنتم لاتعلمون“(سورہ بقرہ ١١٦)[اورایساہوسکتاہے کہ کسی چیزکوتم ناپسندکرواوروہی تمہارے لٸیے بہترہو اور ایسا بھی ہوسکتاہے کہ کسی چیز تم پسندکرواوروہی تمہارے لٸیے نقصاندہ ہو۔اللہ تعالی ہی اس کی حقیقت سے باخبر ہے تمہیں نہیں معلوم]۔

اسلٸے دینی احکام کے بارے میں بندے کا اختیار اتناہی ہے کہ۔ بس حکم ربی ایساہی ہے بندے کو انجام دیناہے۔۔اس میں قیل وقال تو بس وہ لوگ کرتے ہیں جن کے دل میں کھوٹ ہو یااس کی حقیقت سے آشنا نہ ہو۔جولوگ واقف ہیں وہ تو بس اتنی بات پر اکتفا کرتے ہیں کہ حکم ربی ہے ہمیں اس پر عمل کرناہے۔اس آیت کریمہ میں اسی بات کواجاگر کیاگیاہے: ”فأماالذین فی قلوبھم زیغ فیتبعون ماتشاہہ منہ ابتغا ٕالفتنة وابتغا ٕ تأویلہ ۔ ومایعلم تأویلہ إلا اللہ۔ والراسخون فی العلم یقولون آمنابہ کل من عندربنا ومایذکر إلاأولواالألباب“(سورہ آل عمران ٧)۔ ۔اگر کوٸی شخص ایساکرتاہے اوراس رقم کو صدقہ میں تبدیل کرتاہے تو گویا وہ شریعت کے احکام توقیفی اورتعبدی کو ہی بدلنے والا قرار پاۓ گا ۔البتہ بعض استثناٸی حالات میں از خود اسکی نوعیت متبادل کی طرف منتقل ہوجاتی ہے جیسے داٸمی مریض کا یا استطاعت نہ رکھنے والے بزرگ اشخاص کا روزہ فدیہ کی منتقل ہوجاۓ گا ۔ایسے قربانی کے ایام گزرنے کے بعد قربانی کے لٸے خریدے گٸے جانورکا بجاۓ ذبح کرنے کے زندہ جانور کا وجوبی طورپر صدقہ میں تبدیل ہونا۔۔۔

جب یہ بات واضح ہوگٸی۔کہ شریعت اسلامی میں عبادات امر توقیفی ہے جس میں حج بیت اللہ اورقربانی سرفہرست ہےتو معاشرے کے بدحال لوگوں کے ساتھ ہمدری کے جذبے سے اسے صدقہ اورمالی امداد میں تبدیل نہیں کیا جاسکتاہے ۔

یہ بھی ذہن میں رہے کہ اگر کوٸی شخص قربانی کے ایام شروع ہونے سے پہلے یا حج بیت اللہ کی تاریخ سے پہلے اپنے سارے پیسے کسی غریب اورضرورت مند کوصدقہ کردے تو ایسی صورت میں ظاہر ہےوقت سے پہلے مفلس ہوجانے کی وجہ سے اس پر قربانی اور حج واجب نہیں ہوگا۔۔لیکن اگر وہ یہ عمل حج اورقربانی کو صدقہ سے کم تر سمجھتے ہوۓ اور صدقہ کو زیادہ اہمیت دیتے ہوۓ کرتاہے تودین کےایک واجب اورفرض حکم کوکمتر سمجھنے کی وجہ سے وہ استخفاف دین کا مرتکب اورگناہگار ہوگا۔اوراگرقربانی کے ایام میں ایسا کرتاہے اورمال دارہے توقربانی کاوجوب علی حالہ اس پر باقی رہے گا ۔۔اور قربانی کے گذر نے پر شریعت کی نظر میں ایک واجب عمل ترک کرنے کا مجرم اور گناہ گار ہوگا ۔اور اگر غریب ہے اور اسکے پاس قربانی جوواجب نہیں نفل ہے اس کے باوجود وہ قربانی کے جانور یاحصہ کے بقدر صدقہ کرنے کو افضل سمجھتاہے توبھی گناہ گار ہوگا۔۔کیونکہ حدیث میں یہ بات آٸی ہے کہ قربانی کے ایام میں اللہ تعالی کے نزدیک سب سے محبوب عمل جانورقربان کرنا ہے ۔اس سے زیادہ کوٸی نفلی عمل ان ایام میں پسندیدہ نہیں ہے۔(حدیث)اوردوسری حدیث میں یہ صراحت بھی ہے:”من کان لہ سعة أن یضحی ولم یضح۔فلایقربن مصلانا“۔(عن أبی ھریرة۔مسند احمد رقم ٨٢٥٦۔ابن ماجہ۔کتاب الأضاحی۔رقم٣١٢٣۔دارقطنی۔رقم٤٧٦٢۔بیہقی۔رقم٥٢٦٨){۔کہ کسی شخص کے پاس قربانی کرنے کی استطاعت ہو اور پھربھی قربانی نہ کرے تو ایسا شخص عید قربان کی مسرت حاصل کرنے کے لٸے ہماری عیدگاہوں کے قریب بھی نہ بھٹکے}۔

اتنی واضح ہدایات کے بعد یہ بات بے غبار ہوجاتی ہے کہ کسی بھی صاحب استطاعت شخص کے لٸے ایساکرنا درست نہیں ہوگاکہ وہ قربانی کے ایام میں ۔قربانی کاعمل انجام دینے کی بجاۓ۔غربإ کی ہمدری اپنا مال صدقہ کردے اورقربانی نہ کرے۔۔۔یہ ایک لیبرل فتنہ ہے جو وقفہ وقفہ سے سر اٹھاتارہتا ہے۔

صدقات وخیرات اور ضرورت مندوں کی امداد:

اسلام اللہ کاوہ آخری دین ہے جس کی یہ خصوصیت ہے کہ چیریٹی اور معاشرے کے ضرورت مندوں کی حاجت رواٸی ۔اس کےبنیادی مینوفیسٹو اورارکان میں شامل ہے ۔اوراس پرایمان لاٸیے بغیر کوٸی شخص مومن ہی نہیں ہوسکتا۔جسے زکوة کہا جاتاہے۔اس کے علاوہ۔صدقة الفطر۔عشروخراج۔فدیہ ۔قربانی قسم کاکفارہ۔۔یہ سب واجبی احکام ہیں جن سے مالی فواٸد ضرورت مندوں کو براہ راست پہونچتے ہیں۔ان کے علاوہ ۔نفلی صدقات پر قرآن کریم اور احادیث نبویہ ﷺ۔میں غریب یتیم۔مسکین فقیر ۔اورمعاشرے کے مفلس ونادار لوگ۔ خواہ کسی بھی مذھب سے تعلق رکھتے ہوں۔محض انسانی رشتہ کو مدنظر رکھتے ہوٸیے ان کی امدادپر جتناابھاراگیاہے۔دنیا میں موجود مذاھب اورغیر مسلم ممالک میں سےکسی کوبھی یہ مقام حاصل نہیں۔ہے۔بلکہ مجھے کہنے دیجٸے آج دنیا کے مختلف ممالک اورکمیونٹی میں جوچیریٹی کارجحان پایا جاتاہے وہ بھی اسلام سے مستعار لیاہواہے۔۔اسکے علاوہ بماز کو چھوڑ کر تقریبا تمام ہی اسلامی عبادات کسی نہ کسی طرح ۔ضرورت مندوں کی مالی امداد کے منفعت سے وابسطہ دکھا ٸی دیتاہے۔ اورتواور اسلامی اعتبار سے ضرورت مندوں کی کفالت منسٹری ۔اوقاف کے نام سے موجود ہے ۔ جس پربغیرکسی ترددکے یہ بات کہی جاسکتی ہے ۔یہ شرف دنیاکے کسی نظام اور موجود مذاھب کو حاصل نہیں ہے۔۔

اب ذراغور فرماٸیے۔جس مذھب میں صدقات وخیرات اورویلفیر کا اتنابڑا نظام فراٸض سے لیکر نوافل تک کا موجود ہو اسکے ماننے والوں کو یہ مشورہ دینا یا اس پر سوال اٹھاناکہ حج اور قربانی سے بہتر ان رقومات کاصدقہ کرنا ہے ایک مضحکہ خیز بات نہیں ہے؟۔اورعبادت کی حیثیت کو کم کرنے کے مترادف ۔اورایساسوچنا اورلوگوں کے دل ودماغ میں اس طرح کی بات ڈالنا۔ دینی احکام کے تعلق سے شک کی سوٸی چبھونے کے برابر نہیں ہے؟۔یقینا ہے۔

اللہ رب العالمین مسلمانوں کو اسی طرح اور اسی کیفیت کےساتھ دینی احکام پر عمل کی توفیق عطافرماۓ ۔جس طرح لوح محفوظ اور دربار رسالت مآب ﷺ سے ملاہے۔

Comments are closed.