تاریخ کے نئے دور میں دنیا کا داخلہ اورمسلم امہ کی مایوس کن صورت حال

قول سدید: مفتی احمدنادر القاسمی
باحث ورفیق اکیڈمک ڈپارٹمنٹ،اسلامک فقہ اکیڈمی انڈیا
رب کریم سے کوئی شکوہ کی گنجائش نہیں،رب ذوالجلال نے دنیا میں سیاسی اور معاشی طورپر ایک باشعور قوم کو شان وشوکت کے ساتھ زندہ رہنے کے لئے جن وسائل کی ضرورت ہوتی ہے ۔اس میں کوئی کمی نہیں کی،افراد کی قوت بھی دی ،انرجی اورپاور کی محیر العقول طاقت سے بھی نوازا اور دنیا کی دولت سے بھی مالامال کیا ،کسی زاویےسے اس مولائےکریم نےمحروم نہیں کیا، مگرآج جب دنیاکے عروج وزوال اورسیاسی منظرنامہ پرنظررکھنے والا ایک طالب ” امت کے کھونے اورپانے“ کاتجزیہ کرنے بیٹھتاہے تو سب سے زیادہ مسلم دنیا اورمسلم قوم کی بےچارگی،بے بسی، ناخواندگی ،افتراق وانتشار،لاشعوری،عدم معاملہ فہمی اورتمام تر وسائل سے بہرہ ورہونے کےباوجود امت مسلمہ کےرفتار حیات میں پیچھے رہ جانے پر اسے جتنی مایوسی ہوتی ہے شاید کسی اور چیزسے ہوتی ہووہ اپنے آپ سے سوال کرنے پر مجبورہوتاہےاور اندرسے ایک چیخ نکلتی ہے ”ہم مسلماں ہیں جنھیں دیکھ کرشرمائے یہود“۔
اوراگر یہ کہ دیجئے تو اور مناسب رہے گا کہ”ہم مسلماں ہیں جسے زور سے دھمکائے یہود“۔
1948سے آج تک کسی دن کاسورج ایساطلوع نہیں ہوا ،جس میں کوئی فلسطینی ناعاقبت اندیش اور سفاک یہودی کے ہاتھوں شہید نہ ہواہو۔ہائے ہماری لاشعوری اور ہائےعیش کوشی اور عدم معاملہ فہمی کہیں سے بھی یہ محسوس نہیں ہوتاکہ یہ کوئی ذمہ دار قوم اور یہ وہی مقدس انسانی گروہ ہے جسے یہ کہاگیاہے:”وکڈلک جعلناکم أمۃ وسطالتکونواشھدا ٕ علی الناس ویکون الرسول علیکم شھیدا“(سورہ بقرہ43)
اور یہی وہ ہدایت یافتہ انسانی جماعت ہے جس کو ملأ أعلی سے تسلی دی گئی اور یہ بھی کہاگیا:”ولاتھنواولاتحزنواوأنتم الأعلون إن کنتم مومنین“زندگی کےہرمیدان میں پسماندگی کی لمبی فہرست ہے ۔کس کس کو روئیں، کس کس کو چھوڑیں۔۔”تن ہمہ داغ داغ شد پنبہ کجاکجا نہم“۔
جب تاریخ کے اس بدلتے یابدلے یاپھر نئے دور میں داخل ہونے والی صورت حال کودیکھتے ہیں اور امت اوربطورخاص سے مسلم ملکوں اورمسلمانوں کے عمومی حالات کا جائزہ لیتے ہیں تو عجیب وغریب سی مایوسیاں چاروں طرف ذستی ہوئی نظر آتی ہیں،امید کی کوئی کرن نہیں دکھتی۔امت مسلمہ کے ہمہ گیر زوال کی اس دلخراش داستان پر یہ ایک سوال تیرونشترکی طرح چبھتاہے کہ آخر کیامجبوری تھی کہ امت نے گذشتہ سوسالوں میں اپنی کمزوریوں کی وجہ سے صرف سب کچھ کھویا ،پایا کچھ نہیں اور پیچھے رہ گئی ۔؟
کوئی امت میں تعلیم کی کمی کا شکوہ کرتاہے اور اسی کو وجہ تأخر بتاتاہے۔ کوئی امت کی بزدلی کواس کی بنیادی وجہ گردانتاہے ،کوئی ارباب اقتدار اور اہل ثروت کی عیش کوشی کو ذمہ دار ٹھہراتاہے ،کوئی علما ٕ کی نااہلی کو اصل وجہ گردانتاہے اوراسی کےسرساری ذمہ داریاں تھوپتاہے، ایک طبقہ اس کو بھی وجہ ثابت کرنے کی کوشش کرتاہے کہ چونکہ مسلمانوں نے اپنی عورتوں کو پردے اورگھروں میں قید کررکھاہے اس لئے یہ صورت حال پیدا ہوئی اورکوئی مخلص قیادت کے فقدان کو اس کاسبب قراردیتاہے ۔ایک طبقہ مسلمانوں کے دین سے دوری کوہی صرف حقیقی وجہ ثابت کرنے پر اپنی طاقت صرف کرتارہاہے۔کچھ حضرات امت میں آپسی مسلکی اور گروہی اختلافات کو اسباب زوال امت لکھتاہے اورایک طبقہ مسلمانوں میں اسکول ،کالج اور یونیورسٹیز کی تعلیم نہ حاصل کرکے صرف مدرسہ میں دینی تعلیم حاصل کرنے کو ہی اس پچھڑے پن کی وجہ کہتاہے۔بعض سیاسی حلقے کی طرف سے امت اور تمام مسلم ممالک کے درمیان سیاسی اورعسکری اتحاد نہ ہونے کو وجہ بتایاجاتاہے، مگراس کمی اور کوتاہی کی ذمہ داری اجتماعی طور پرقبول کرنے کوکو ٸئی تیار نہیں ہےجہاں اتنی ساری وجوہات گنوائی جاتی ہوں ،اس کامطلب یہ ہے کہ امت کے اسباب زوال یاتو ہمہ جہت ہیں یاپھر صحیح طور پر اصل وجوہات کے ادراک تک ہی نہیں پہونچ پائی۔ ان تمام باتوں کےدرمیان سوال اپنی جگہ اب بھی قائم ہےکہ ؎
توادھرادھرکی نہ بات کر یہ بتاکہ قافلہ کیوں لٹا
مجھے رہزنوں سے گلہ نہیں تری رہبری کاسوال ہے
زوال امت کی اصل وجہ:
میں اس نتیجہ پر پہونچاہوں کہ امت کے قائدین اور ارباب اقتدار کو امت کی اجتماعی ضرورت کے مطابق مشورہ نہ دینا یانہ لینا ۔”وشاورھم فی الأمر “سے راہ فرار اختیار کرنا اور ارباب اقتدار کا اپنے آپ کو عقل کل تصور کرنا یااستعمال ہوتے رہنا یہ سب سے بنیادی وجہ ہے زوال امت کی۔میں دیکھتاہوں کہ جب تک امت میں مشاورت کاچلن رہا اور امت ”وأمرھم شوری بینھم“پر مکمل عمل پیرا رہی ۔امت کے اجتماعی معاملات بہت مستحکم اور منظم رہے ۔امت ہرلحاظ سے مظبوط رہی اور اجتماعی ضرورتوں کا خیال رکھاگیا اور حالات کے مطابق جوضرورت تھی امت ان کوپوراکرتی رہی۔ دوسروں کے دست نگر نہیں رہی اورسیاسی ،سماجی ،عسکری اورمعاشی ہرلحاظ سے امت نہ صرف یہ کہ مظبوط رہی بلکہ زمانے کی قیادت کرتی رہی ،آج اسی کا فقدان ہے۔
اللہ تعالی سے دعاہے کہ امت کو استحکام کی راہ پرگامزن فرمائے۔آمین
Comments are closed.