تلخیص :دینی مدارس: اہمیت، موجودہ دشواریاں اور حل

کسی ناظم یا مہتمم کے لیے یہ ہرگز جائز اور درست نہیں کہ وہ عوام و خواص سے تعاون حاصل کر کے اپنی تنخواہیں تو نکال لے!! مگر دیگر اساتذہ و عملہ کو مصیبت کے عالم میں فراموش کردے!

نتیجہ فکر:حضرت مولانا خالد سیف اللہ رحمانی مدظلہ العالی
تلخیص و ترجمانی:ڈاکٹر آصف لئیق ندوی
موبائل نمبر: 8801589585
حضرت مولانا خالد سیف اللہ رحمانی صاحب نے اپنی اصل اور طویل تحریر کے ذریعے جہاں دینی مدارس کی ڈیڑھ سو یا دو سو سالہ نمایاں خدمات، ان کی اہمیت و افادیت، ان کے شاندار رول و کردار اور ان کی شدید ضرورت پر روشنی ڈالی ہے۔ اور بتایا ہیکہ عیسائیت، قادیانیت اور مادیت پرستی کے ارتدادی فتنوں سے مسلمانوں کو بچائے رکھنے، شریعت اسلامیہ کی اہمیت، دینی جذبات، اسلامی شعور اور ایمانی حمیت مسلمانوں کے دلوں میں برقرار رکھنے، مسجدوں کو آباد کرنے، تمام دینی تحریکوں، جماعتوں اور مسلم تنظیموں کو ان سے غذا ملنے اور اسلام سے مسلمانوں کے رشتے کو قائم و دائم رکھنے میں ان مدارس اسلامیہ کا جو اہم کردار رہا ہے وہ کبھی فراموش نہیں کیا جاسکتا، نیز مولانا نے بتایا کہ آج مدارس سے نکلنے والے افراد ہی ہیں، جو ملک میں خدمت خلق، مظلوموں کی ہمدردی، فساد سے متأثر ہونے والے افراد کا تعاون، انکی اخلاقی مدد اور عدالتی پیروی جیسے کام انجام دینے میں پیش پیش ہیں، وہ مدارس کے فارغین ہی ہیں، جو مسلم معاشروں میں اتحاد و اتفاق، ایمان و عمل اور محاسن اخلاق جیسے اوصاف پیدا کرنے میں رات و دن انتھک فکر اور پیہم کوشش کر رہے ہیں حتی کہ برادران وطن تک ایمان کی دعوت پہنچانے میں بھی کوئی موقع نہیں چھوڑ رہے ہیں، اسی وجہ سے اگر یہ کہا جائے کہ ان مدارس کی حیثیت ملت اسلامیہ میں شہِ رگ کی مانند ہے تو کوئی مضائقہ اور مبالغہ نہیں ہوگا۔
اسی طرح سے مولانا نے مدارس کی موجودہ دشواریوں اور اس کے حل کا جو نسخہ پیش کیا ہے اور جس طرز و انداز سے افہام و تفہیم کی کوشش کی ہے اور ان کے اجزائے ترکیبی کو علیحدہ علیحدہ طور پر پیش کر کے ہر ایک جزء کو اپنی اپنی ذمہ داریوں کا احساس دلایا ہے حتی کہ انکی کوتاہیوں اور خامیوں سے بھی واقف کراکر انہیں متنبہ اور آگاہ کیا ہے اور مدارس کے چاروں عناصر میں حتی الوسع تال میل، اتحاد و اتفاق، اعتماد و وقار، صبر و استقامت، عدل و انصاف، شفقت و محبت، ہمدردی و غمخواری، اطاعت وفرمانبرداری اور ہر طرح کے نظم و نسق کو برقرار رکھنے کی جو سعی کی ہے وہ بہت عمدہ، حوصلہ افزا اور حالات حاضرہ سے بالکل موافقت اور مطابقت رکھتی ہے۔ کاش! کہ ہم لوگ مولانا کی اس قیمتی تحریر کے خلاصہ کو سمجھ جاتے اور انسانیت کے درد کے حقیقی درماں بن جاتے!!۔
درحقیقت دور حاضر میں نئی نئی دشواریوں کے پیش نظر مدارس کے عناصر اربعہ: انتظامیہ، اساتذہ، طلباء اور عوام کے لیے یہ تحریر قندیل رہبانی کی مانند ہے، جس میں انہوں نے موجودہ دشواریوں کو سلجھانے کا بہترین طریقہ پیش کر دیا ہے جو امت کو انتشار سے بچانے، دین کے تحفظ و بقا کے لیے اٹھ کھڑے ہونے، دینی شعائر کو کسی بھی طرح سے بکھرنے سے محفوظ رکھنے کے لیے یہ تحریر بہت مفید اور کارآمد ثابت ہوگی، جو نہی عن المنکر کے فریضے سے بھی زیادہ اہمیت کی حامل ہے، جس میں انتظامیہ کو اساتذہ مدارس کے ساتھ ہمدردانہ سلوک اور اساتذہ کو ذمہ داران کے بارے میں حسن ظن اور حسن اخلاق کا برتاؤ رکھنے کی ترغیب بھی آگئی ہے اور عمدہ تدبیر سے کام لیتے ہوئے مصیبت کے زمانے میں مسائل و مشکلات کو حل کرنے کی پرزور اپیل بھی شامل ہوگئی ہے، ان شاء اللہ مولانا کی یہ تحریر ہم تمام اہل مدارس اور خصوصا انکے چاروں عناصر کے لیے مشعلِ راہ ثابت ہوگی۔۔
ساتھ ہی ساتھ مولانا نے موجودہ حالات اور مدارس کا جائزہ لیتے ہوئے جن تین اہم طبقوں کا بالخصوص ذکر کیا ہے جنکے باہمی تعاون سے کوئی ادارہ چلتا اور ترقی کا سفر کرتا ہے، اداروں کی فلاح و بہبود کا معاملہ ان تینوں سے زیادہ مربوط ہوتا ہے، وہ تینوں طبقے اپنی اپنی جگہ فی الحال سخت دشواریوں سے دوچار ہیں، مگر ایک طبقہ کا دوسرے طبقہ کی مصیبتوں کو سمجھنا، ان کے دکھ، درد میں کام آنا یہی مولانا کی تحریر کا لب لباب اور خلاصہ ہے۔ اساتذہ مدارس کا درجہ مدارس کے ماحول میں ریڑھ کی ہڈی جیسی ہے، کیوں کہ مدارس کا بنیادی مقصد بہترین تعلیم و تربیت فراہم کرنا ہے جو بغیر اساتذہ کرام کے ناممکن اور محال ہے، اس لیے اساتذہ کو ان کا کما حقہ مقام و مرتبہ دینا ہم سب کا دینی اور اخلاقی فریضہ ہے اور اسلئے بھی کہ عام طور پر اساتذہ معمولی تنخواہ پر، دین کی خدمت کے جذبے کے تحت، اللہ تعالی کی رضا کے لیے مدرسوں میں اپنے فرائض انجام دیتے ہیں، ان کی اس قربانی کا جتنا بھی شکریہ ادا کیا جائے، کم ہے، ظاہر ہے وہ بھی تقاضائے بشری کے تحت پریشانی کے دور سے گزر رہے ہیں، کیونکہ ان کی تنخواہ اتنی ہی ہوتی ہے کہ کسی طرح اپنے بنائے ہوئے نظام کے مطابق ماہ بہ ماہ اپنی ضرورت پوری کر سکیں، ان کا نہ تو کوئی بینک بیلنس ہوتا ہے کہ وہ بغیر تنخواہ کے طویل مدت تک اپنے حوائج بشریہ پورا سکیں، اس وقت ٹیوشن وغیرہ کا نظام بھی تقریباً مسدود و مقفّل ہو کر رہ گیا ھے، اگر کوئی ذمہ دار یہ کہے کہ اتنے مہینے ہم انہیں گھر بیٹھے تنخواہیں دیتے رہیں؟ کیا ہمارے پاس حرام کے پیسے آتے ہیں؟؟ وغیرہ وغیرہ۔ ایسی باتوں کو مولانا نے بہت نامناسب، تکلیف دہ اور ناپسندیدہ قرار دیا ہے اور کہا ہے کہ یہ بہت بری بات ہے جو ہماری زبانوں سے انسانیت کے رہنماؤں کے خلاف نکل رہی ہے، بلکہ انہوں نے یہانتک کہا ہے کہ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ ایسے مواقع پر ہم اپنے دینی رہنماؤں اور اساتذہ کی ہمدردی، انسانیت کے جذبات اور زیادہ پیدا کرتے!! اور انکی مصیبت کی گھڑی میں ان کے خوب کام آتے!! مگر افسوس! فنڈ کی کمی اور تنخواہوں کی ادائیگی کے خوف سے ہم انہیں مدارس اور ملازمت سے ہی فارغ کر رہے ہیں جو نہایت قابل افسوس اور انصاف کے تقاضے کے سراسر خلاف بات ہے!!
مولانا نے مزید کہا کہ انتظامیہ کسی ادارے کے لیے دماغ کی مانند ہوتی ہے! وہ عوام کی طرف سے ان کے تعاون کو خرچ کرنے اور مدارس کے نظم و نسق کو قائم رکھنے کی وکیل ہوتی ہے! مدارس میں ذمہ دار کی حیثیت بھی ایک منتظم اور ملازم کی ہوتی ہے! کسی ناظم یا مہتمم کے لیے یہ ہرگز جائز اور درست نہیں کہ وہ عوام و خواص سے تعاون حاصل کر کے اپنی تنخواہیں تو نکال لے!! مگر دیگر اساتذہ و عملہ کو مصیبت کے عالم میں فراموش کردے! ہاں! اگر مدرسے کے پاس واقعتاً فنڈ کی کمی ہو اور دینے کے لیے کچھ بھی نہیں ہو تو وہ اس صورت میں وہ مجبور ہے اور جب کوئی شخص مجبور ہوتا ہے تو کسی عمل کو انجام نہ دینے پر اس کو مطعون بھی نہیں کیا جا سکتا۔۔۔!!
خلاصہ یہ ہے کہ جن چار عناصر سے مدرسہ بنتا اور چلتا ہے، ان چاروں کا آپس میں جتنا زیادہ تعاون ہوگا، ایک دوسرے کا جتنا احترام اور رعایت و محبت کی مقدار جتنی زیادہ ہوگی، مدرسہ اسی کے بقدر بہتر طور پر تعمیر و ترقی کا سفر طے کر سکے گا، اس لیے عوام اور اہل خیر حضرات کا رویہ مدارس کے ذمہ داران، اساتذہ اور طلبہ کے ساتھ بہت بہتر ہونا چاہیے! مثال کے طور پر آپ دوسری قوموں کو دیکھیں!! خاص طور پر یہودیوں اور عیسائیوں کے یہاں ان کے مذہبی پیشواؤں کو کتنی زیادہ رعایتیں دی جاتی ہیں اور اکثر وہ عوام کے مقابلے میں بہتر اور خوشحال زندگی گزارتے ہیں!! اس لیے مسلم تجار و عوام اور بالخصوص اہل خیر حضرات سے پرزور گزارش ہے کہ وہ اپنے مذہبی پیشواؤں اور اساتذہ مدارس، طلباء اور انتظامیہ کا بھرپور خیال رکھیں اور ذمہ داران کو چاہئے کہ وہ مدارس کے اساتذہ کو فنڈ کی کمی اور تنخواہ کی ادائیگی کے خوف سے ہرگز فارغ یا برخواست نہ کریں اور اس عمل سے فی الوقت احتراز کریں اور اساتذہ کی مکمل تنخواہ کااگر بندوبست نہ ہوسکے توکم از کم نصف تنخواہ سے تو محروم نہ کریں۔امید کہ اہل مدارس اساتذہ اور انسانیت کے درد کا درماں بنیں گے۔ ان اللہ لایضیع اجر المحسنین۔

Comments are closed.