وزیراعظم کے پی اولی شرما کےحالیہ بیان سے ،ہندوستانی ہندو ہوئےچراغ پا!!

بسم اللہ الرحمن الرحیم
ازقلم:انوار الحق قاسمی،نیپالی
رابطہ نمبر 9779811107682+
13 /جولائی بروز پیر نیپال کی راجدھانی کاٹھمانڈو میں ،وزیراعظم کی رہائش گاہ پر،ایک شاعر بنام بھنوبھکتا کے یوم پیدائش کے موقع پر، وزیراعظم کے پی اولی شرما نے محیر العقول بیان دےکر ،جہاں نیپالی ہندوؤں کے لیےباعث فرحت و شادمانی کا سامان پیدا کیا ہے ،تو وہیں دوسری طرف پڑوسی ملک ہندوستان{جن سے نیپال کی صدیوں سے گرم اختلاط رہی ہے، اسے یک قلم اور چشم زدن میں ختم کرنے کا کام کیا ہے} کے ہندوؤں کے لیے بے چینی و اضطراب اور شتابی کا سامان مہیا کیا ہے، وہ حیرت انگیز بیان کیا ہے؟(کہ جس سے ہندو نیپال میں ہلچل مچی ہوئی ہے، نیپالی ہندو جس سے فرحاں وشاداں ہیں ،اور ہندوستانی ہندو جس سے سخت چراغ پا،اور بے حد اذیت والم محسوس کر رہے ہیں) وہ یہ ہے، کہ کے پی او لی شرمانےاپنی خطابت کے دوران دعوی کیا ہے، کہ "بھگوان رام” کی جائے پیدائش اجودھیا نہیں ؛بل کہ نیپال ہے، اور یہ بھی دعویٰ کیا ہے،کہ اصل اجودھیا ہندوستان کے ضلع فیض آباد میں نہیں ہے؛بل کہ بیرگنج کے قریب واقع تھوڑی میں ہے، اسی پر بس نہیں رہے، بل کہ مزید انہوں نے ہندوستان پر الزام عائد کرتے ہوئے کہا ،کہ ہندوستان کے ہندوؤں نے نیپال کی اصل تاریخ سے چھیڑچھاڑ کی ہے، بھگوان رام کی جائے پیدائش ملک نیپال ہے، اس پر برہان و دلیل پیش کرتے ہوئے، وزیراعظم نے کہا :کہ: بھگوان رام” کے والد دشرتھ نیپال کے حکمراں تھے، جب والد نیپالی حکمراں تھے،تو ظاہر سی بات ہے کہ فرزند بھی نیپال ہی میں پیدا ہوئے ہوں گے،نہ کہ ہندوستان میں، اس دلیل کو مزید مستحکم اور مضبوط کرنے کے لیے ،وزیر اعظم کے پی او لی شرما نے ہندوستانیوں سے سوال کیاکہ اگر بھگوان رام ہندوستانی ہیں، اور اصل اجودھیا ہندوستان میں ہے،توایک ایسے وقت میں، جب کہ سواری کا کوئی انتظام نہیں تھا،نہ ٹرینیں تھیں، نہ بسیں تھیں؛حتی کہ موٹر سائیکلیں،سائکلیں تک بھی نہیں تھیں ،اور نہ ہی اس وقت ان اشیاء کاکوئی تصور تھا،تو پھر کیسے ہندوستان کاشہزادہ” بھگوان رام” محض” سیتا”سے شادی کےلیے،اتنے دور دراز سے کیسے”جنک پور نیپال” آسکتاہے؟بھلا کیا یہ بھی ممکن ہے؟
صحیح بات یہ ہے کہ اصل” اجودھیا” نیپال میں ہے،اور ہندوستان میں نقل "اجودھیا "ہے،
اور ہندوستان میں اجودھیا کےبارے میں شدید نزاع واختلاف ہے؛ لیکن ہمارے ملک میں اجودھیا کے تئیں خشخاش کے دانے کے برابر بھی اختلاف و انتشار نہیں ہے۔
بالفرض اگر وزیراعظم کے پی اولی شرما کے اس دعوی کو تسلیم کر لیا جائے، تو پھر” بابری مسجد: کے خلاف چلائی جانے والی ساری تحریکیں ناقص ثابت ہوجائیں گی،اور” رام مندر”کا دعوی ہی باطل ہوجائے گا، اور”بابری مسجد "کا دعوٰی، جو کہ واقعی "دعوی صحیح” ہے،جس کامعاندین اسلام انکار کرتے ہیں، ان کی نظروں میں بھی ثابت ہو جائے گا۔
وزیراعظم کے پی او لی شرما کے اس تحیر خیز،مبہوت العقول بیان کو لےکر،ہندوستانی ہندوؤں اور سنتوں میں کافی غم و غصہ کا ماحول پایا جارہا ہے؛ چناں چہ رام ٹرسٹ کے صدر رام دلاس مہاراج نے اپنے غم و غصہ اور خفگی کا اظہار کرتے ہوئے کہا: کہ” کے پی او لی شرما” من گھڑت باتیں کر رہے ہیں، لگتا ہے کہ کسی کے دباؤ میں آکر مصنوعی دعوی کر رہے ہیں، جب کہ یہ ایک حقیقت ہے، آج تک کسی نیپالی نے اس طرح کاکوئی دعوی نہیں کیا ہے، آج جب کہ ہندو نیپال کی سرحدوں پر باہم کشیدگی اور تناؤ ہے، ایسے ناگفتہ بھی حالات میں اس طرح کا بیان جاری کرکے، مزید کشیدگی میں اضافے کا سبب پیداکرنا ،ضرور کسی سیاسی مفادات کےتحت جاری کردہ بیان ہے، انہوں نے کہا: کہ اجودھیا وہاں ہے، جہاں سریو ہے اور نیپال میں کوئی سر یوں ہی ہےنہیں ، تو بھلا نیپال میں اجودھیا کا وجود کیسے ممکن ہے؟ معلوم ہوا کہ وزیر اعظم پی او لی شر ما کا "اصل اجودھیا” کے نیپال میں ہونے کا دعوی کرنا، ایک ایسا دعوی ہے، کہ جس کی نہ ہی کوئی دلیل ہے اور نہ ہی اصل، رام دلاس مہاراج نے،کے اولی سرکار پر حملہ کرتے ہوئے بولا :کہ نیپال میں ہمارے ہزاروں شاگرد ہیں ،عنقریب ہی سب کےسب کے پی او لی حکومت کے خلاف مظاہرہ کے لیے سڑکوں پر نکلیں گے اور ایک مہینے کے اندر ہی،انہیں حکومت سے دست بردار اور معزول کر دیں گے۔
رام دلاس مہاراج کا یہ بیان کافی خطرناک بیان ہے، مجھے لگتا ہے کہ نیپال میں بھی، اب ہندو مسلم کے مابین ماقبل اور پہلی جیسی محبت و مودت قائم نہ ہونے ، اور معمولی معمولی باتوں پر باہمی تنازع و لڑائی ہو جانے کی ایک اہم وجہ،ہندوستان میں موجود دشمنان اسلام کابھڑکاؤبیان ہے، اور اسی طرح اپنے نیپالی شاگردوں کو مسلمانوں کے خلاف اکسانا ہے۔
میں تو کہتا ہوں، کہ اچھا ہوا کہ ہندوستان کے ہندوؤں نے نیپال سے”اصل اجودھیا”ہندوستان لے گئے،گرچہ انتقال کی وجہ سے، اس کی حیثیت اصل کی نہیں، بل کہ نقل کی ہے؛ مگر بہرحال ہم نیپالی مسلمانوں کے حق میں، انہوں نے بہت ہی اچھا کیا کہ اٹھا لے گئے ،ورنہ کوئی بعید نہیں تھا ،کہ نیپال میں بھی” اجودھیا” کو لے کر ہندو مسلم کے مابین دائمی کشیدگی اورچشمک رہتی،اور ایسے بھی نیپال میں مسلمانوں کی تعداد بہت ہی کم ہے؛اس لیے یہاں مسلمانوں کے لیے مقابلہ کرنا بہت ہی مشکل ہوتا۔
اور کانگریس کے رہنما ابھیشیک منو سنگھوی نے ٹویٹ کیا: کہ نیپال کے وزیراعظم کے پی او لی شرما نے اپنا ذہنی توازن کھو دیا ہے ،اور چین کی لائنوں کو بولنے لگے ہیں۔
بہرحال حقیقت جو بھی ہو، اس سے قطع نظر ہمارے وزیراعظم کے پی او لی شرما کے” بھگوان رام "کے نیپالی ہونے اور” اجودھیا "کے نیپال میں ہونے کے تئیں دعوی کرنے سے، یقین نہیں تو کم ازکم شک ضرور لوگوں کے دلوں میں پیدا ہو گیا ہے، کہ ممکن ہے کہ بھگوان رام نیپالی ہوں ،اور اصل اجودھیا نیپال ہی میں ہو،اب رہی بات کہ اس تنازعہ اور جھگڑے کوکیسے ختم کیا جائے،تو اس کی وہ صورت بالکل ہی نامناسب ہے، جومتعصب ہندوستانی اختیار کر رہے ہیں، یعنی نامناسب تبصرہ کرنا،اور جو زبان میں آئے، اسے بول دینا،بل کہ اس کی بہتراور موزوں شکل وصورت یہ ہے ،کہ سنجیدہ ہندوستانیوں کی ایک جماعت تشکیل دی جائے، جو اپنے دائرے میں رہتے ہوئے ہمارے وزیر اعظم کے پی او لی شرما سے "بھگوان رام” کے نیپالی ہونے،اور اصل "اجودھیا "کے نیپال میں ہونے کی صحیح اور مضبوط دلائل کامطالبہ کرے،اگر وزیراعظم صاحب، صحیح اورقوی دلائل وبراہین پیش کردیتے ہیں، تو پھر اس جماعت کاہرہرفرد بسروچشم، وزیراعظم کے پی او لی شرما کی فتح اور اپنی شکست تسلیم کرے،اور اگر دلائل پیش کرنے سےقاصروعاجزہوجاتے ہیں، تو پھر وزیر اعظم کے پی او لی، اپنی شکست اور ان کی فتح تسلیم کرے۔
Comments are closed.