وبا کے دور میں آن لائن تعلیم کا مثالی مرکز : مرکز المعارف ممبئی

 

نعمان مفتی، متعلم مرکزالمعارف ممبئی

کورونا وائرس (کووڈ19) سے پوری دنیا دوچار ہے.ایک طرف اس کی وجہ سے اموات میں اضافہ ہی ہوتا جا رہا ہے تو دوسری طرف اس پر قابو پانے کے لئے لاک ڈاؤن کے نفاذ کی بنا پر ملک معاشی بحران کا شکار ہے، نیز صرف ہندوستان ہی نہیں بلکہ سپر پاور اور ایٹمی اسلحہ جات سے لیس ممالک بھی ایسی ہی صورتِ حال میں مبتلا ہے۔

لیکن مشہور ہے کہ ہر شر میں ایک خیر کا پہلو مضمر ہوتا ہے ، ضرورت ہوتی ہے تو اس بات کی کہ حالات کے بہاؤ میں نہ بہہ کر خود اپنی راہ بنائی جائے اور دوسروں میں بھی ان حالات سے نمٹنے کا حوصلہ پیدا کیا جائے۔

لاک ڈاؤن اور سوشل ڈسٹینسنگ کے نفاذ کی صورت میں اسکولس اور کالجز تعطلی کا شکار ہیں تو وہیں مدارس ومکاتب بھی درس بندی سے دوچار ہیں، لیکن اس صورت حال سے نمٹنے کے لئے پہل کرنے والوں میں ایک نام ‘مرکز المعارف ایجوکیشن اینڈ ریسرچ سینٹر ممبئی’ کا بھی ہے۔
مرکز المعارف کہ جس کے قیام کا مقصد ہی علما برادری کو نئے چلینجز کا مقابلہ کرنے کے لیےموڈرن ایجوکیشن سے متعارف کرانا اور نت نئی ٹیکنالوجی سے روشناس کرانا ہے۔
اس ادارے کا قیام اسی مقصد آوری کے لیے مولانا بدرالدین اجمل القاسمی حفظہ اللہ کی نگرانی میں 1994ء میں عمل میں آیا اور الحمد للہ اب تک یہ ادارہ اپنے مقصد کے حصول میں مکمل کامیاب ہے۔

مرکز المعارف خالص دینی ماحول اور علما برادری کی نگرانی میں چلنے کے باوجود نئی ٹیکنالوجی سے بھرپور استفادہ کا قائل ہے، یہی وجہ ہے کہ مدارس میں سب سے پہلے آن لائن تعلیم کو اسی نے متعارف کیا، اور ‘کچھ بھی نہ کرنے سے کچھ کرنا بہتر ہے’ کے فارمولے پر عمل پیرا ہوتے 15 شوال المکرم سے باقاعدہ آن لائن کلاسیز شروع کر دی گئی۔

یہ بھی امر مسلم ہے کہ نئی راہ اپنانے میں بہت سی مشکلات کا سامنا ہوتا ہے، ایسی ہی کچھ مشکلات ابتدا میں پیش آئیں کچھ نئی ٹیکنالوجی سے نا بلد ہونے اور کچھ 4G کے نام پر دیے گئے دھوکے کی وجہ سے، بہر کیف اب بحمد الله تعلیم زور و شور سے جاری ہے اور کچھ ایسے فائدے بھی دیکھنے کو ملے کہ جو آف لائن تعلیم میں مفقود ضرور تھے، مثلاً :

(1) ایک فائدہ یہ ہوا کہ مرکز المعارف کے وہ ابنائے قدیم جو ملک یا بیرون ملک اپنی فیلڈ میں ماہر ہیں اور کسی نہ کسی صورت مرکز کی خدمت کرنا چاہتے ہیں نیز طلبہ بھی ان سے استفادہ کے خواہش مند ہیں ان ابنائے قدیم سے استفادہ کی صورت اس آن لائن نظام میں ممکن ہوئی، جن میں سرفہرست حضرت مولانا افضل صاحب UK اور مولانا حفظ الرحمان صاحب دہلی ہیں۔

(2) ایک فائدہ یہ بھی ہوا کہ مرکز سے ملحقہ اداروں کے وہ طلبہ کہ جن کی شدید خواہش ہوتی کہ وہ مرکز المعارف کے کسی استاذ سے استفادہ کرسکیں وہ بھی اسی نظام سے ممکن ہوسکا۔

(3) مزید ایک فائدہ یہ ہوا کہ ہم کہ جنہیں کنزرویٹو ہونے کا طعنہ دیا جاتا رہا تھا وہ نت نئی ٹیکنالوجی کے اسلامائزیشن کے توسط سے بھرپور مستفید ہورہے ہیں۔

لیکن یہ بھی سچ ہے کہ ہر نیا فائدہ اپنے ساتھ کچھ نقصان بھی لاتا ہے۔ ایک بڑا نقصان یہ ہوا کہ مرکز کی جانب سے شائع کردہ جو چوبیس گھنٹوں کا نظام الاوقات تھا کہ جو مقصد کی تکمیل میں اساتذہ اور طلبہ ہر دو کے لئے مفید تھا اس پر عمل ممکن نہ ہو سکا نیز جو ڈسپلن استاذ کے روبرو ہونے کی صورت میں ہوا کرتی تھی وہ بھی اس نظام میں مفقود ہوگئی ، لیکن ‘مجبوری کا نام آن لائن تعلیم ہے’ کی بنا پر ہم اس پر بھی راضی اور خوش ہیں اور رب کریم سے دعا گو ہیں کہ اس وبا سے تمام انسانیت کو محفوظ فرمائے آمین.

Comments are closed.