عالم ربانی مولانا متین الحق اسامہ قاسمی کا انتقال ملی خسارہ

✒️ عین الحق امینی قاسمی
عالم جلیل حضرت مولانا مبین الحق کان پوری مرحوم کے صاحبزادہ گرامی حضرت مولانا متین الحق اسامہ قاسمی کے انتقال پر ملال سے آج دل بہت رنجیدہ ہے ،ذاتی طور پر مجھے مولانا کی شاگردیت حاصل نہیں رہی ،مگر ان کی علمی بصیرت، الو العزم جد وجہد، انقلاب آفریں گفتگو،کا م کا سلیقہ اور طریقہ ،میرے لئے ان کی طرف کشش کا ذریعہ بنا رہا ،یہ وہ چیزیں تھیں ،جو مجھے ان کے تئیں متآثر کرتی رہیں اور میں ان کا شیدائی بنا رہا ۔آج جب ان کے انتقال کی خبر ملی ہے تو یقین سا نہیں ہورہا ہے ،مگر موت برحق ہے ،سبھوں کو بے ترتیب آگے پیچھے جانا ہے ،آخرآج وہ بھی چلے گئے ،لیکن چلے جانے سے زیادہ غم اس بات کا ہے کہ ہر جانے والا اپنے پیچھے خلا چھوڑ جارہا ہے ۔
مولانا مرحوم جن خوبیوں کے مالک تھے ،ایسا لگتا ہے وہ اپنے دائرہ عمل میں بالکل فٹ تھے ،وہ دوررس تھے ،ان کے اندر علم وعمل کی توانائی تھی ،صرف بڑے باپ کے فرزند ہی نہ تھے ،کام کا ہنر ،سلیقہ اور طریقہ سے بھی واقف تھے ،اپنی علمی بصیرت ،بلند فکر اور الوالعزمی کی وجہ سے ” بے خطر کود پڑا آتش نمرود میں عشق” کے یقین کے ساتھ قدم بڑھاتے تھے،وہ طبقہ علماء میں غیر معمولی بھروسہ مند تھے ، بہت سے اجتماعی کام انہیں اس جذبے سے سونپے جاتے تھےکہ وہ باطل کو ” کلیجہ تھام کر بیٹھو ،اب میری باری ہے ” جیسی جرئتوں سے للکارنے کا فن جانتے تھے اور لاکھوں لاکھ کی بھیڑ میں وہ تنہا”حسین ” معلوم پڑتے تھے ،رب نے وجیہ وشکیل چہرہ مہرہ اورجسم وجثہ کے ساتھ قد وقامت سےبھی نوازاتھا ، جب وہ ہزاروں کے مجمع میں دہاڑتے تھے توہم خردوں کو نیا حوصلہ ملتا تھا ،آواز وانداز ان کا اپنا ہوتاتھا ،اس لیے باتوں میں تاثیر تھی ،لوگ قبولیت کے کان سے ان کی پوری بات سنتے تھے ۔
یاد پڑتا ہے میرے رفیق درس مولانا محمد خالد حسین صاحب قاسمی،ناظم جامعہ قاسمیہ پبڑا جب وہ سید پور میں مدرسہ نورالعلوم نور نگر کے صدر المدرسین تھے ،ان کی ماتحتی میں سید پور میں دستار بندی کا ایک جلسہ رکھا گیا تھا ، مولانا مرحوم اس اجلاس کے مہمان خصوصی تھے، اجلاس کے اسپیکر کسی اور کو بنایا گیا تھا ،جب خطاب کی باری حضرت مرحوم کے لئے آئی تومولانا خالد صاحب زید مجدہ نے اس عاجز سے کہا کہ مولانا کو آپ اپنے انداز سے خطا ب کے لئے مدعو کیجئے گا ،چنانچہ بندہ مولانا مرحوم کے تعارف کے بجائے ان کے والد بزرگوار مولانا مبین الحق قاسمی کی چند خوبیوں کے تذکرے کے ساتھ انہیں دعوت اسٹیج دیا ،مولانا اسامہ مرحوم اناؤنسری کے اس انداز کی حوصلہ افزائی فرمائی اور دستر خوان پر اس امر کا اظہار فرماکر عاجز کی ہمت بڑھائی۔مولانا کوئی ایک سے سوا گھنٹہ موضوع سے متعلق مختلف زاویوں سے گفتگو کرتے رہے اور مجمع جوں کا توں یوں جما رہا ۔بیگوسرائے سے انہیں چند ہونہار طلبا کی وجہ سے قلبی لگاؤ رہا ،یہ خوش قسمتی ہے بیگوسراے کی کے یہاں مہمانوں کی قدردانی ہوتی ہے اور اپنے جائے وقوع کے لحاظ سے بھی اکابرین تشریف لاتے رہتے ہیں ،چنانچہ مولانا مرحوم بھی بارہا یہاں تشریف لاتے رہے ہیں۔
اسی طرح ایک مرتبہ دارالعلوم سجاد نگرلڑوارہ میں وفاق المدارس اسلامیہ امارت شرعیہ کے زیر نگرانی نظام تعلیم و تربیت کو مستحکم و مؤثر بنانے کی غرض سے 2/3/4اپریل 2013ء کو سہ روزہ اجتماع منعقد ہوا تھا، جس میں دارالعلو کے ناظم اعلی محترم قاضی ارشد صاحب قاسمی کی خصوصی دعوت پر تشریف لائے تھے اور اجلاس کی پہلی نشست میں آپ کا کلیدی خطاب بھی ہوا تھا ،مدارس کے مستقبل اور اس کی فطری صلاحیتوں اور نظام مدارس کو مظبوط و افعال بنانے جیسے موضوع پر کرک دار لہجے میں سنجیدہ اور مفید تر گفتگوتقریبا 45/منٹ تک ہوتی رہی جس میں سامعین کے لئے بہت کچھ سونچنے اور کرنے کے تعلق سے مواد پیش کیا گیا تھا (یہاں تحریر کےطویل تر ہونےکے خدشے سے اقتباسات نقل کرنے سے پرہیز برتا جارہا ہے )
انتقال کی خبر سن کراس موقع پریہاں ضلع کے معزز علماء کرام نے اپنی طرف سے تعزیت میں دردو غم اور مولانا سے اپنے دیرینہ تعلقات کا اظہار کیا ہے : جن میں صدرجمعیۃعلماء بیگوسراے حضرت اقدس مفتی محمد خالد حسین نیموی قاسمی مدظلہ،الحاج مولانا محمد صابر نظامی قاسمی دامت برکاتہم ، جنرل سکریٹری ضلع جمعیۃ بیگوسراے ، جناب قاضی آرشد صاحب قاسمی زید مجدہ،مہتمم دارالعلوم سجاد نگر لڑوارہ، مولانا محمد خالد حسین قاسمی مہتمم جامعہ قاسمیہ پبڑا،مولانا شاداب قاسمی ،قاری ارمان عالم جامعی ،مفتی فخر عالم نعمانی ،مولانا مظہر الحق قاسمی اور راقم الحروف عین ا لحق امینی قاسمی وغیرہ کے نام شامل ہیں ۔
…………………………………………..* نائب صدر جمعیہ علماء بیگوسراے ،بہار
Comments are closed.