احسان کیجئے مگر تذلیل نہیں!محمداطہرالقاسمی جنرل سکریٹری جمعیت علماء ارریہ

احسان کیجئے مگر تذلیل نہیں!

______________________

جامعہ دارالاحسان بنگلور کی طرف سے اجتماعی قربانی کا ایک اشتہار نظر نواز ہوا۔

اشتہار کی پیشانی پر کسی بڑے اللہ والے کی سرپرستی ونگرانی کا حوالہ دیا گیا ہے۔

اور نیچے تین سطر میں جو اپیل کی گئی ہے۔وہ کچھ اس طرح ہے:

*اجتماعی قربانی کا نظم ریاست بہار کے بہت ہی غریب علاقے کشن گنج اور ارریہ میں کیا گیا ہے۔*

اور آگے کا حیرت انگیز انکشاف دیکھئیے:

*یہ جان کر آپ کو حیرت ہوگی کہ وہاں کے بعض علاقوں میں لوگوں کو قربانی کے گوشت کے علاوہ پورا سال گوشت نصیب نہیں ھوتا*۔۔۔۔۔۔وغیرہ۔

لاحول ولا قوۃ الاباللہ۔

یہ کیا ہے؟برما کے مہاجر کیمپوں میں بھی غالباً ایسا نہیں ہوگا۔

یہ مکمل سفید جھوٹ ہے۔

یہ ریاست بہار کے ضلع کشن گنج اور ارریہ کے باغیرت انسانوں اور مسلمانوں کی سراسر توہین و تذلیل ہے۔

کون کہتا ہے کہ کشن گنج اور ارریہ کے بعض علاقوں میں قربانی کے گوشت کے علاوہ لوگوں کو سال بھر گوشت نصیب نہیں ہوتا؟

ایسا اشتہار چھاپنے والے انسانیت اور آخری رسول حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی امت کی سرعام تذلیل و توہین کرنے پر کل اپنے نبی کو کیسے منہ دکھائیں گے؟

میں ریاست بہار کے ضلع ارریہ کا باشندہ ہوں اور تقریباً 12/سال سے جمعیت علماء ارریہ کے پلیٹ فارم سے کسی نہ کسی شکل میں ضلع ارریہ کے گاؤں گاؤں کے ساتھ پڑوسی ضلع کشن گنج بارہا جانے کے مواقع ملتے رہے ہیں۔

مگر جو ضیافت ریاست بہار کے لوگ اور ان میں اہل ارریہ و کشن گنج باہر سے تشریف لانے والے مہمانوں کی کرتے ہیں وہ ایسے اشتہار بازوں کو خواب و خیال میں بھی نصیب نہیں ہوگا!لوگ غریب ضرور ہیں مگر نصرت الہی اور اپنی جفاکشی سے آسودہ حال ہیں۔

ہمیں یہ تسلیم کرنے میں ذرہ برابر شرم یا عار نہیں کہ ھمارا علاقہ غربت زدہ اور پس ماندہ ہے۔مگر ایسی غربت ہرگز نہیں کہ سال بھر کسی کو باہر کی قربانی کے گوشت کے علاوہ گوشت نصیب نہ ہو!

استغفراللہ۔

میں ممبئی گیا ہوں،حیدرآباد گھوما ہوں،دہلی میرا سفر ہوا ہےاور بنگلور جاتا رہتا ہوں۔۔۔۔۔۔۔۔۔

میں نے اپنی ان آنکھوں سے وہاں کی فلک بوس عمارتوں کے چاروں کنارے غربت کے وہ گھنیرے ڈیرے دیکھے ہیں کہ الامان و الحفیظ۔

تو کیا ہوا؟

ہمیں توفیق ملی تو ہم بہار اور ارریہ و کشن گنج میں ان کے لئے یہی اشتہار چھاپ کر ان کا تعاون کریں گے؟

ہم بنگلور سمیت پورے ملک کے تمام بڑے شہروں کے اصحابِ ثروت اور اہل دل کے احسان مند ہیں کہ وہ بحمداللہ اس ریاست اور بطورِ خاص سیمانچل پر ہمیشہ اپنی نظر عنایت رکھتے ہیں۔اللہ تعالیٰ اس کارخیر کا بدلہ انہیں دنیا و آخرت دونوں جہان میں عطافرمائے گا۔

لیکن اس کا مطلب ہرگز یہ نہیں کہ ہم کسی ریاست یا اس کے بعض علاقے کا نام لے کر باضابطہ اشتہار کے ذریعہ وہاں کے انسانوں اور مسلمانوں کی توہین کریں۔

اہل دولت اور اصحابِ ثروت کو ہمیشہ یہ بات یاد رکھنی چاہئے کہ یہ دولت و ثروت بھی آپ کے پاس اپنی نہیں بلکہ آپ کے رب کی امانت ہیں۔ویسے ہی جیسے ایک پوسٹ مین کے جھولے میں لاکھوں لاکھ روپے ہوتے ہیں مگر اس میں ایک پائ بھی اس کا اپنا نہیں ہوتا۔

اگر یہ زکوٰۃ و صدقات و خیرات یہاں خرچ نہیں ہوں گے توآخر کہیں تو خرچ کرنے پڑیں گے نا۔

تو توفیق الٰہی سے جن کا جو مال دنیا کے جس حصے میں جتنا لگ جائے وہ خوش نصیب ہے۔خدا کے یہاں وہ اجر عظیم کا مستحق ہے۔

مگر کسی بھی زاویہ سے کسی مستحق کی کبھی توہین نہ ہونے پائے کہ خدا کو ایسی خدمت کی ضرورت نہیں۔۔

اب وہ دینے والے ہوں یا لینے والے یا لے کر دینے والے۔

خداوندعالم ہم سب کو معاف فرمائے۔

انشاءاللہ پھر گفتگو ہوگی۔

محمداطہرالقاسمی

جنرل سکریٹری

جمعیت علماء ارریہ

19/جولائی 2020

Comments are closed.