علوم فر ض کفا یہ

بسم اللہ الرحمن الرحیم
بقلم:مفتی محمد اشرف قاسمی
دارالافتاء: شہرمہد پور، اجین(ایم پی)
وماکان المؤمنون لینفروا کا فۃ فلو لا نفر من کل فر قۃ منھم طا ئفۃ لیتفقھوا فی الدین ولینذروا قومھم اذا رجعواالیھم لعلھم یحذرون(123) التوبۃ
”مسلمانوں کے لیے یہ بھی مناسب نہیں کہ سب کے سب نکل جائیں، پس ایسا کیوں نہ ہوا کہ ان کے بڑے گروہ میں سے ایک چھوٹا گروہ نکل جاتا تا کہ (جو لوگ رہ جائیں) وہ دین کا فہم حا صل کریں، اور جب (جہاد کرنے والے) ان کی طرف واپس آئیں، تووہ ا نہیں وا قف کرائیں؛ تاکہ وہ بھی(اللہ کی نا فرما نی سے) بچتے ر ہیں ۔“ (123)توبہ (آسان تفسیرج1 ص615)
”عام حالا ت میں جہاد فرض عین نہیں کہ سب مسلمانوں کو جہاد میں جانا فرض ہو، کیوں کہ جہاد کے علاوہ اسلام اور مسلمانوں کے اجتماعی مسائل اور مہما ت بھی ہیں، جو جہاد ہی کی طرح فرض کفایہ ہیں، ان کے لیے بھی مسلمانوں کی مختلف جما عتوں کو تقسیم کر کے اصول پر کام کرنا ہے….۔اس مضمون سے فر ض کفا یہ کی حقیقت بھی آ پ سمجھ سکتے ہیں کہ جوکام شخصی نہیں اجتما عی ہیں، اور سب مسلمانوں پر ان کے پورا کرنے کی ذمہ داری ہے۔ان کو شریعت میں فرض کفا یہ قرار دیاگیا ہے، تاکہ تقسیم کار کے اصول پر سب کا م دین کے اپنی جگہ چلتے رہیں اور یہ اجتماعی فرائض سب ادا ہوتے رہیں۔ مسلمان مُردوں پر نماز جنازہ اور اس کی تدفین، مساجد کی تعمیر ونگرانی، جہاد، اسلامی سر حدوں کی حفا ظت؛یہ سب اسی فرائض کفا یہ کے افراد ہیں کہ ان کی ذمہ داری تو پورے عالم کے مسلمانوں پر ہے ، مگر بقدر کفایت کچھ لوگ کرلیں تو دوسرے مسلمان بھی فرض کفا یہ سے سبکدوش ہوجاتے ہیں۔“ (معارف القر آن جلد 4ص488)
علا مہ ابن عابدین ؒشامی فرما تے ہیں کہ:
واما فرض الکفایۃ من العلم: فھو کل علم لا یستغنی عنہ فی قوام امور الدنیا،کالطب والحساب، والنحو،واللغۃ۔ (ردالمحتار ج1ص42 کراچی)
”یعنی ہر وہ علم جس کے بغیر دنیاوی کاموں کی ادائیگی دشوارہو، ان سب کا سیکھنا مسلمانوں پر فرض کفایہ ہے۔جیسے کہ علم طب(Medical education) اور ریاضی(Mathematics)، نحو (Longuage’s grammer)اور زبان(Longuage) کا علم حاصل کرنا مسلمانوں پر فرض کفایہ ہے۔“شامی
ہندوستان کے موجودہ حالات میں سنسکرت زبان سیکھنا علماء پر فرض کفایہ ہے۔(امداد الفتاوی ج4 ص72)
امام غزا لی ؒ فرما تے ہیں کہ:
”ہر وہ علم فرض کفایہ ہے جس سے ہم دنیا وی زندگی اور کارو بار کے قائم اور با قی رکھنے میں بے پروا نہیں ہو سکتے، جیسے علم طب(Medical education) ہے کہ اس کی تحصیل صحت کے با قی رکھنے کے لیے لا ز می ہے۔
یا علم حساب
(Mathematics)
کہ مختلف معاملوں، وصیتوں اور تر کہ کی تقسیم میں اس کی ضرورت ہوتی ہے، اگرکوئی شہر ان علموں کے جاننے والوں سے خا لی ہو جائے توشہر والوں کو دقت پیش آ ئے گی۔ اور جب کوئی ایک شخص بھی ان کا جا ننے والا ان کے درمیان پیدا ہو جائے، تواس کے ذریعہ شہر کی ضرورتیں پو ری ہوسکتی ہیں، اس لیے یہ فرض اس کی مو جود گی میں دوسروں کے ذمہ سے ساقط ہو جائے گا، اسی طرح مختلف پیشے کا شت کاری، با غبانی، پارچہ با فی، سایسی، حجامت اورخیاطی و غیرہ ہیں۔ کہ اگر ان میں سے کسی پیشہ والے سے کو ئی شہر خالی ہوجا ئے تو زحمت پیش آ ئے اور بعض پیشہ والوں کی عدم موجو دگی میں ہلا کت تک کی نوبت آ جائے، پس جس نے بیما ری اتاری اس نے دوا بھی بتا ئی اور ان کے استعمال کے طریقے بتا ئے اور ان کے مہیا کرنے کے اسبا ب پید اکیے، اس لیے ان پیشوں کو چھوڑناجائز نہ ہو گا۔ اور بعض علوم جن کا حا صل کرنا فرض نہیں مگر افضل ہے۔ وہ جیسے علم حساب و طب میں باریکیاں پیدا کرنا۔“ (احیا ء العلوم جلد اول صفحہ 40۔ اردو، دا رالکتاب۔اسلامی نظام تعلیم ص31 سید ریا ست علی ندوی)
*ارکانِ جمہوریت کاعلم حاصل کرنااورہرہرخطے میں اس کاحصہ بننا مسلمانوں پر فر ض کفا یہ ہے*
جس ملک میں ہم رہتے ہیں۔ وہ ایک جمہو ری ملک ہے۔ بنیا دی طورپر جمہو ریت میں اگر کچھ مفاسد اورکمزو ریاں ہیں، تو دوسری طرف بے شمار اچھا ئیاں بھی ہیں۔ اس نظام کے تحت ہما رے ملک میں ہر با شندے کے بنیادی حقوق محفوظ ہیں۔خاص طور پرجان،مال، معاش، عزت، مذہب اور مذہب کی اشاعت وتبلیغ کے حقوق۔ یہ بنیادی حقوق سلسلہ بہ سلسلہ جمہوریت کے چاروں ارکان (1۔مقننہ2۔ عدلیہ۔3۔میڈیا۔4۔ منتظمہ)سے ہی حا صل ہو سکتے ہیں۔ اس لیے چاروں ارکان کو جا ننا اور ان کا حصہ بننا اور پھر ان ارکان کی مدد سے اپنے حقوق کوحاصل کرنا بھی دین کا حصہ ہے۔ خاص طورپرمذہب اور مذہب کی اشا عت کاحق؛مسلمان کے لیے شہہ رگ کی حیثیت رکھتا ہے۔ اس کو باقی وجاری رکھناانتہا ئی ضروری ہے۔ کیوں کہ یہ دنیاو آخرت کے لیے فتوحا ت کی کلید ہے۔
ان ارکان اربعہ کی ترتیب اس طرح ہے۔
(1) مقننہ(legislative system or Parliament)
(2) عدلیہ(Judicature)۔
(3) میڈیا(Media)۔ (4)منتظمہ
(Adminastration)
اس لیے قانونی بیداری (Legal awareness) کے ساتھ ہی اس نظام کا حصہ بننا مسلمانو ں پر فرض کفایہ کے درجے میں ضروری ہے۔ کسی پارٹی کا جھنڈا اٹھا ئے پھرنے سے نہ ہم ماہر سیاست(Expert Politition ) بن کر قانون ساز ادارہ (legislative system ، parliament ) کا حصہ بن سکتے ہیں، نہ سماج میں عزت حاصل کر سکتے ہیں۔ بلکہ یہ تمام چیزیں تعلیم کے ساتھ مربوط ومشروط ہیں۔ اگرکسی خطے میں مسلمان اس پوزیشن میں ہوں کہ اپنا سیا سی لیڈر کھڑا کرسکتے ہوں،زیور تعلیم سے آ راستہ کر کے عد لیہ، میڈیا، منتظمہ میں اپنا آ دمی پہو نچا سکتے ہیں، اوراس خطے میں ان میدانوں میں دینی جذبے کے حامل مسلم نما ئندوں کو پہونچانے کی کوششیں مسلمانوں کی طرف سے نہ ہوں،تو اس خطے کے تمام مسلمان گنہ گار ہوں گے۔
جولوگ مسلم پولیٹکس کی مخالفت کرتے ہیں، وہ صریح مغالطے میں ہیں یا پھر منو وادی مزاج کے مطابق اپنے نامناسب تحفظات، خاندانی چودھراہت کو باقی رکھنے کے لئے لائق مند مسلم لیڈر شپ کی مخالفت کرتےہیں۔ ان کی باتوں میں دینی لحاظ سے نہ کچھ قوت ہے اور نہ ہی سیاسی لحاظ سے کوئی بہتری ہے۔ کیوں کہ ملک کی اکثریت انصاف پسند حکمراں کی منتظر ہے۔
یہاں یہ بھی وضا حت ضروری ہے کہ جائز مفادات کے تحفظ وحصول کے لئے انتخابات اورجمہوری طریقۂ تقابل ایک قسم کی لڑائی ہے۔
(”نئے مسائل اور فقہ اکیڈمی کے فیصلے“ ص 189دفعہ 1و3و6سن طباعت 2017ایفا،دہلی)
اس لئے تمام طبقوں میں در اندازی کرکے اپنی جگہ بنانے کے لئے اسی اصول کے مطابق اردو عربی کے بجائے اپنی پا رٹیوں کے نام خا لص ہندی یا انگریزی میں رکھنا چاہئے۔ اور یسے ناموں سے بچنا چاہئے جس صرف مسلمانوں کی نمائندگی ہوتی ہو۔
کتبہ: محمد اشرف قاسمی
خادم الافتاء: شہرمہدپور، اجین(ایم پی)
مورخہ19جون2020ء مطابق 26شوال المکرم 1441ھ
[email protected]
Comments are closed.