زندگی میں جائیداد کی تقسیم

?دارالافتاء شہر مہدپور?
سوال:
*(1) کیا کوئی اپنی زندگی میں ہی اولاد کے درمیان جائیداد تقسیم کر سکتا ہے؟*
*(2) نیز جاری کاروبار (Running Business) جیسے کسی چیز کی دوکان یا ہسپتال وغیرہ کو اولاد کے درمیان کس طرح تقسیم کریں گے۔؟*
محمد طارق
بٹلہ ہاؤس، دہلی (انڈیا)
*الجواب حامدا و مصلیا و مسلما امابعد:*
(1) ہر شخص اپنی زندگی میں اپنی جائیداد کا خود مالک ومختار ہوتا ہے، وہ اپنی جائیداد میں ہرجائز تصرف کرسکتا ہے،اگرصاحبِ جائیداد اپنی زندگی میں اپنی جائیداد کوخوشی و رضا سے اولاد کے درمیان تقسیم کرنا چاہے تو کرسکتا ہے، اور زندگی میں جو جائیداد تقسیم کی جائے۔ وہ ہبہ (GIFT ) کہلاتی ہے اور اولاد کے درمیان ہبہ (GIFT ) کرنے میں برابری ضروری ہوتی ہے، رسول اللہ ﷺ نے اولاد کے درمیان ہبہ کرنے میں برابری کرنے کا حکم دیا؛ جیسا کہ:
"حضرت نعمان ابن بشیر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ان کے والد (حضرت بشیر رضی اللہ عنہ) انہیں رسول کریمﷺ کی خدمت میں لائے اور عرض کیا کہ میں نے اپنے اس بیٹے کو ایک غلام ہدیہ کیا ہے، آپ ﷺ نے فرمایا: کیا آپ نے اپنے سب بیٹوں کو اسی طرح ایک ایک غلام دیا ہے؟، انہوں نے کہا: ”نہیں “، آپ ﷺ نے فرمایا: تو پھر (نعمان سے بھی) اس غلام کو واپس لے لو۔”
ایک اور روایت میں آتا ہے کہ: آپ ﷺ نے فرمایا: اللہ تعالی سے ڈرو اور اپنی اولاد کے درمیان انصاف کرو۔ ” (1)
(مظاہر حق، 3/193، باب العطایا، ط: دارالاشاعت)
اگر کوئی شخص اپنی زندگی ہی میں اپنی جائیداد اپنی اولاد کے درمیان تقسیم کرنا چاہے تو اس کا طریقہ یہ ہے کہ اپنے اور اپنی اہلیہ کے لیے جتنا حصہ رکھنا چاہے اتنا رکھ لے کہ خدانخواستہ شدید ضرورت کے وقت محتاجی نہ ہو، اس کے بعد علماء امت کی صراحت کے مطابق ہبہ کے اصول سے باقی جائیداد کو تمام اولاد (بیٹے اور بیٹیوں) میں برابر برابر تقسیم کردے، بلا وجہ کسی کو کم اور کسی کو زیادہ نہ دے اور نہ ہی بیٹے اور بیٹیوں میں کسی قسم کا فرق کرے،(2)
عام مفتیان کرام کا یہی موقف ہے۔
البتہ کسی بیٹے یا بیٹی کو کسی معقول وجہ کی بنا پر دوسروں کی بہ نسبت کچھ زیادہ دینا چاہے تو دے سکتا ہے؛ یعنی کسی کے زیادہ غریب ہونے یا دینی وملی کاموں میں کسی کی زیادہ مصروفیت کی بنا پر اس کو دوسروں کی بہ نسبت کچھ زیادہ دے تو اس کی اجازت ہے۔(3)
جائیداد موہوبہ تقسیم کر کے ہر ایک کو اس کے حصے پر مکمل قبضہ اور تصرف کا اختیار بھی دے دے۔ اگر زندگی میں قبضہ نہیں دلایا تو والد کی موت کے بعد اس میں قانون میراث جاری ہوگا۔اور زندگی میں ہبہ یا ہدیہ دینے کا کوئی مطلب نہیں ہوگا۔ (4)
بعض محقق علماء کے نزدیک ہبہ اور ہدیہ( (GIFT ) میں لڑکی اور لڑکے کے درمیان برابری کا قانون جاری ہوگا، کہ ہدیہ اور ہبہ میں بلاوجہ لڑکی لڑکے کی بنیاد پر کمی زیادتی نہ کرے؛ لیکن اگر صلہ اور عطاء (GIFT ) کے بجائے اپنی زندگی میں اپنی ان مملوکہ اشیاء کو تقسیم کر رہا ہے جو عموما میراث کے طور پرتقسیم ہوتی ہیں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ اپنی میراث کو تقسیم کر رہا ہے؛ اس لیے مناسب یہ ہے کہ قانون ہبہ و ہدیہ کے بجائے قانون میراث کے مطابق لڑکی اور لڑکوں میں اپنی جائیداد کو تقسیم کرے۔( 5)
اس کی صورت یہ ہوگی کہ: مثلا ایک لڑکی اور ایک لڑکا ہے، تو اپنی جائیداد کو تین حصوں میں بانٹ کر ایک حصہ لڑکی کو دو حصے لڑکے کو دے۔ یا دو لڑکے اور دو لڑکیاں ہیں تو چھے حصوں میں جائیداد کو بانٹے، دو دو حصے دونوں لڑکوں کو اور ایک ایک حصہ دونوں لڑکیوں کو دے ۔ (6)
یاد رہے کہ جائیداد کی تقسیم میں کسی وارث کو محروم کرنے کا ارادہ ہر گز نہ ہو، ورنہ یہ تقسیم آخرت کی تباہی کا ذریعہ ثابت ہوگی۔ اللہ کے رسول صلى الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ جس نے اپنے وارث کو محروم کیا اسے اللہ جنت سے محروم فرمائیں گے۔(7)
(2) جاری کاروبار
(Running Business)
میں ہبہ اور ہدیہ درست اور نافذ نہیں ہوگا۔ (8)
اگر کاروبار میں باپ کا سرمایہ(Investment) لگا ہوا ہے، اوراولاد باپ کے ساتھ کھانا رہنا کرتی ہے اور باپ کے کاروبار میں اولاد شریک ہوکر کام کرتی ہے۔ تب بھی جملہ آمدنی باپ ہی کی ہوگی۔(9)
(1) "وعن النعمان بن بشير أن أباه أتى به إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم فقال: إني نحلت ابني هذا غلاماً، فقال: «أكل ولدك نحلت مثله؟» قال: لا قال: «فأرجعه» . وفي رواية …… قال: «فاتقوا الله واعدلوا بين أولادكم»”. (مشکاۃ المصابیح، 1/261، باب العطایا، ط: قدیمی)
(2) قال (النبی ﷺ) الک بنون سواہ؟ قال نعم، قال: فکلھم اعطیت مثل ھذا، قال:لا، قال: فلا اشھد علی جور. (صحیح مسلم: ج2؍ ص37، رقم الحدیث: 623)
(3) قال فی الہندیة: لو وہب شئیاً لأولادہ فی الصحة، وأراد تفضیل البعض علی البعض ، عن أبی حنیفة رحمہ اللّٰہ تعالی: لابأس بہ اذا کان التفضیل لزیادة فضل فی الدین ، وان کانا سواء، یکرہ، وروی المعلی عن أبی یوسف رحمہ اللّٰہ تعالی أنہ لابأس نہ اذا لم یقصد بہ الاضرار ، وان قصد بہ الاضرار ، سوی بینہم وہو المختار۔۔۔ ولو کانا لولد مشتغلاً بالعلم لا بالکسب ، فلا بأس بأن یفضلہ علی غیرہ۔ (الفتاوی الہندیة: 4/ 391، کتاب الہبة، الباب السادس)
(4) عن الثوری عن منصور عن ابراھیم قال:الھبۃ لاتجوز حتی تقبض.(مصنف عبدالرزاق: ج9 ص107)۔
وحجتنا فی ذالک ماروی عن النبی ﷺ:لاتجوز الھبۃ، معناہ لایثبت الحکم وھوالملک. (المبسوط لسرخسی: ج 12ص57)
اقول الاثار المذکورۃ تدل علی ان الھبۃ لایصح الا مقبوضۃ، والدلالۃ ظاھرۃ لاتحتاج الی التقریر، (اعلاء السنن: ج16، ص71)
(5) للذکر مثل حظ الانثیین. (سورۃ النساء، الآیۃ:11)
(6) قال العبد الضعیف عفا اللہ عنہ: قد ثبت بماذکرنا ان مذھب الجمھورفی التسویۃ بین الذکر والانثی فی حالۃ الحیاۃ اقوی وارجح من حیث الدلیل ولکن ربما یخطر بالبال ان ھذا فیما قصد فیہ الاب العطیۃ والصلۃ، والا اذا ارادا الرجل ان یقسم املاکہ فیما بین اولادہ فی حیاتہ، لئلا یقع بینھم نزاع بعد موتہ، فانہ وان کان ھبۃ، لکنہ فی الحقیقۃ والمقصود استعجال بما یکون بعد الموت، وحینئذ ینبغی ان یکون سبیلہ سبیل المیراث، (تکملۃ فتح الملھم: ج2/ ص75، المفتی محمد تقی العثمانی)
(7) من قطع میراث وارثہ، قطع اللہ میراثہ من الجنة یوم القیامۃ۔ رواہ ابن ماجہ۔(مشکوۃ برقم الحدیث: 266)
(8) فی الدر المختار: وشرائط صحتھا فی الموھوب:ان یکون مقبوضا غیر مشاع.
وفی الردالمحتار: قولہ مشاع؛ ای فیمایقسم.(الردالمحتار: ج4/ص567)
ومن وھب شقصا مشاعا فالھبۃ فاسدۃ، لما ذکرنا، فان قسمہ وسلمہ جاز، لان تمامہ بالقبض وعندہ لاشیوع۔(ھدایۃ آخرین: ص288)
(9) الاب وابنہ یکتسبان فی صنعۃ واحدۃ ولم یکن لھما شیئ فالکسب کلہ للاب ان کان الابن فی عیالہ لکونہ معینا. (رد المحتار: ج6/ص506. زکریا) فقط
واللہ اعلم بالصواب
کتبہ: (مفتی) محمد اشرف قاسمی
خادم الافتاء شہر مہدپور ضلع اجین (ایم پی)
۲۷؍ذیقعدہ ۱۴۴۱ھ
19؍جولائی 2020
[email protected]
ناقل: (مفتی) محمد توصیف صدیقی
(معین مفتی: دارالافتاء شہر مہدپور)
[email protected]
Comments are closed.