وزیر اعظم کے بعد وزیر دفاع کا دورۂ لداخ و جموں کشمیر- ڈاکٹر سلیم خان

وزیر اعظم کے بعد وزیر دفاع کا دورۂ لداخ و جموں کشمیر
ڈاکٹر سلیم خان
15جون (2020)کو ہند چینی سرحد پر گلوان کی وادی میں ایک اندوہناک سانحہ رونما ہوا ۔ اس کے بعد ۲ جولائی کو اعلان ہوا کہ وزیر دفاع راجناتھ سنگھ جمعہ 3 جولائی کو لداخ کا دورہ کریں گے ۔ اس دورے کا مقصد مذکورہ علاقہ میں چینی سپاہیوں کے ساتھ سخت محاذ آرائی کے تناظر میں ہندوستان کی فوجی تیاری کا جائزہ لینا تھا ۔ وزیر دفاع کی حیثیت سے یہ ان کی ذمہ داری تھی اور سرکاری ذرائع کے مطابق سربراہ افواج جنرل ایم ایم نروانے کو راجناتھ سنگھ کے ساتھ جانا تھا ۔ جنرل نروانے، ناردرن آرمی کمانڈر لفٹننٹ جنرل یوگش کمار جوشی، چودھویں کور کے کمانڈر لفٹننٹ جنرل ہریندرسنگھ اور دیگر سینئر فوجی عہدیداروں کے ساتھ اِس علاقہ کی سلامتی صورتحال کا، جامع انداز میں جائزہ پیش نظر تھا ۔ ہندوستان اور چین کی افواج کے درمیان چونکہ گذشتہ5 مئی سے جاری محاذ آرائی کو دوماہ ہونے والے تھے اس لیےفوجیوں کی حوصلہ افزائی کے حوالے سے وزیر دفاع کا یہ پہلا دورہ لداخ بہت اہمیت کا حامل تھا لیکن اچانک وہ منسوخ ہوگیا ۔ اس لیے کہ وزیر اعظم خود بغیر اعلان کے سرحد پر پہنچ گئے ۔ یہ تو بالکل اسلام آباد کی طرح کا چونکانے والا دورہ تھا لیکن اپنے ہی ملک کےاندر دورے کی بابت اس قدر رازداری کا برتا جانا 56 انچ کی چھاتی میں موجود بزدلی کی چغلی کھاتا ہے ۔
وزیر اعظم اپنے ساتھ وزیر دفاع کو بھی لے کر جاسکتے تھے لیکن ایسا لگتا ہے کہ نہ تو مودی کسی ساتھی کو اپنے ساتھ لے کرجانا چاہتے ہیں اور نہ کوئی ان کے ساتھ جانا چاہتا ہے۔ راجناتھ کے بجائے مودی کے جانے کی کوئی سرکاری وجہ نہیں بتائی گئی اس لیے اب گمان کے سوا کوئی چارۂ کار نہیں ہے۔ ایسا لگتا ہے مودی جی کو اچانک اندازہ ہوگیا کہ چینی فوجی کچھ علاقوں سے پیچھے ہٹنے کے لیے راضی ہوگئے ہیں ۔ یہ عمل اگر وزیر دفاع کے دورے کے بعد شروع ہو تا تو سارا کریڈٹ ان کے حصے میں چلا جاتا۔ اس معاملے وزیر اعظم کی حالت پہلے ہی سے پتلی چل رہی تھی۔ کل جماعتی اجلاس میں کیے جانے والے خطاب سے فائدے کے بجائے نقصان ہوچکا تھا اس لیے انہوں نے موقع غنیمت جان کر لداخ جانے کا پروگرام بنالیا تاکہ بھکت میڈیا کو ان کی تعریف و توصیف کا موقع ہاتھ آجائے۔ سرحد پر حملے کے دو دن بعد 17 جون کو وزیر اعظم نریندر مودی کہہ چکے تھے کہ وادی گلوان میں لڑائی کے دوران شہید 20 فوجیوں کی قربانی رائیگاں نہیں جائے گی۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ ہندوستان امن چاہتا ہے لیکن جب کااشتعال پیدا ہوتا ہے تو وہ اس کا مناسب جواب دے گا۔ اس لیے کہنے کو کچھ نیا نہیں تھا اس لیے توسیع پسندی اور ترقی پسندی کا پروچن سنا کر لوٹ آئے ۔
وزیر دفاع راج ناتھ سنگھ نے اس کے باوجود وزیر اعظم مودی کے دورے کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا تھا کہ فوجی جوانوں سے ملاقات اور ان کی ہمت افزائی نے یقینی طور پر فوج کی کا حوصلہ بلند کیا ہے ۔ میں وزیر اعظم کے اس اقدام کی تعریف اور ان کا شکریہ ادا کرتا ہوں۔ اس طرح ایک معنیٰ میں وزیر دفاع نے یہ احساس دلایا چونکہ یہ ان کا کام تھا جو وزیر اعظم نے کیا اس لیے وہ ممنون ہیں ۔وزیر اعظم کے نوٹنکی دورے کے 13 بعد وزیر دفاع راج ناتھ سنگھ نے 17 اور 18 جولائی کو لداخ کے ساتھ جموں و کشمیر کا بھی دورہ کیا ۔ اس دوران وہی فوجی سربراہ، جنرل ایم ایم نروَنے ان کے ساتھ تھے پہلے ہمراہ جانے والے تھے اور ان لوگوں نے اسی سکیورٹی کی صورتحال کا جائزہ لیا جو پہلے لینے والے تھے ۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب یہ سب وزیر دفاع اب کررہے ہیں تو کیا وزیر اعظم صرف تصویر کھنچوانے کے لیے گئے تھے ؟
وزیر اعظم اور وزیر دفاع کے دورے میں کئی فرق ہیں مثلاً راجناتھ سنگھ کا دوری علی الاعلان ہوا نیز مودی جی پورے دورے کے دوران چہرے پر ماسک لگائے ہوئے تھے لیکن راجناتھ کسی ایک بھی تصویر میں ماسک لگائے نہیں نظر آئے ۔ راجناتھ سنگھ نے ٹینک کے ساتھ تصویر کھنچوائی بندوق ہاتھ میں لے کر چلائی اور فوجیوں کو پیرا شوٹ سے اترتے دیکھا جبکہ وزیر اعظم نے صرف عیادت اور تقریر پر اکتفاء کیا تھا ۔ راجناتھ سنگھ نے اپنے دو روزہ دورے کے پہلے روز حقیقی کنٹرول لائن کی تازہ سیکورٹی صورتحال کا جائزہ لیا اور فوجی افسروں سے تازہ صورتحال کی تفصیلی بریفنگ حاصل کی۔یہ کام دو ہفتہ پہلے ہونا تھا۔ اس دورے سے ایک دن پہلے ہندوستان اور چین کے درمیان فی الحال کور کمانڈر کی سطح پرچوتھے مرحلے کی بات چیت ختم ہوئی ۔ ہندوستانی فوج کے ترجمان نے چینی فوجی حکام سے ملاقات کے بعد اپنے ایک بیان میں کہا کہ فریقین سرحد پر کشیدگی کم کرنے کے لیے پر عزم ہیں لیکن یہ، ’’عمل قدر ے پیچیدہ ہے اور اس کی مسلسل توثیق کی ضرورت ہے۔‘‘ْ اس بیان میں اشارہ ملتا ہے چونکہ لداخ میں ایل اے سی پر صورت حال پیچیدہ ہے اس لیے کشیدگی میں کمی فوری طور پر ممکن نہیں اور تعطل کو دور کرنے میں وقت لگے گا ۔ اس لیے کہا گیا کہ ’’ فریقین کے درمیان اس معاملے میں پیش رفت کے لیے، فوجی اور سفارتی سطح پر مسلسل ملاقاتیں کر رہے ہیں‘‘۔
اس تناظر میں وزیر دفاع راجناتھ سنگھ کا خطاب حقیقت پسندانہ معلوم ہوتا ہے کہ’’سرحدی تنازعہ کے حل کے لیے بات چیت چل رہی ہے لیکن اس سے کس حد تک معاملہ حل ہوگا وہ اس بات کی کوئی ضمانت نہیں دے سکتے‘‘۔ راجناتھ سنگھ نے اپنے فوجیوں کا حوصلہ بڑھاتے ہوئے یہ بھی کہا ’’ میں آپ کو اس بات کی یقین دہانی کراسکتا ہوں کہ دنیا کی کوئی بھی طاقت بھارت کی ایک انچ بھی زمین نہیں لے سکتی ہے۔ اگر بات چیت کے ذریعے حل نکل آئے تو اس سے بہتر کچھ نہیں ہوگا‘‘۔ وزیر دفاع لداخ سے واپسی پر اگلے دن جموں و کشمیر کا بھی دورہ کریں گے اورفوجی کمانڈروں کے ساتھ پاکستانی سرحدی علاقوں کی سکیورٹی کا جائزہ لیں گے۔ وزیر دفاع کو چاہیے کہ وہ فوجیوں کے علاوہ عوام کے مسائل کی خاطر بھی سیاسی رہنماوں سے گفت و شنید کریں ۔ درحقیقت یہ ان کی نہیں بلکہ وزیر داخلہ کی ذمہ داری ہے لیکن امیت شاہ نے اس بابت مکمل چپی سادھ رکھی ہے۔وزیر داخلہ نے کشمیر کی بابت جو بلند بانگ دعویٰ کیا تھا وہ سب بے معنی ہوچکا ہے۔ وہ ساری دنیا کے سرمایہ کاروں وہاں بلانا چاہتے تھے لیکن ابھی تک وہ خود کشمیر کا دورہ نہیں کرپائے ہیں ۔ ابتداء میں اجیت دوبھال کو بھیجا گیا تھا لیکن وہ بھی لوٹے تو پھر نہیں پلٹے ۔
حکومت ہند کی یہ شتر مرغ والی ریت میں منہ دبا کر چین کا سانس لینے کی پالیسی قومی اور عالمی سطح پر نقصان دہ ہے۔ امیت شاہ تو ویسے بھی انتخابی جوڑ توڑ کے علاوہ کوئی اور صلاحیت اپنے اندر نہیں رکھتے اس لیے کشمیر جیسے نازک معاملے میں انہیں اپنے پیش رو راجناتھ سنگھ سے تعاون لینا چاہیے تھا ۔وہ ایک سال پہلے تک ملک وزیر داخلہ تھے اس لیے ان کے کشمیری رہنماوں سے بہترین تعلقات ہیں ۔ یہ اچھا موقع تھا کہ وہ فوج کے ساتھ عوام کی جانب انہیں توجہ دیتے اور مقامی رہنماوں کا اعتماد بحال کرنے کی سعی کرتے ۔ سرحد پر فوج کا مسائل سے زیادہ سنگین مشکلات سے جموں اور کشمیر کے عوام نبردآزما ہیں۔ جموں کشمیر فی الحال کسی صوبائی حکومت کے بجائے براہِ راست دہلی کی نگرانی میں ہے اس لیےوہاں کے حالات کو بہتر بنانے کی ذمہ داری مرکزی حکومت پر ہے مگر افسوس کہ اس جانب کوئی خاص توجہ نظر نہیں آتی ۔ اس بابت جلد یا بہ دیر وزیر اعظم ، وزیر داخلہ اور وزیر دفاع کو سر جوڑ کر بیٹھنا ہی ہوگا ۔ اس لیے کہ کشمیر محض ایک خطۂ زمین کا تنازع نہیں ہے ۔ وزیر دفاع سرحد اور امرناتھ یاترا پر توجہ دے رہے ہیں لیکن کشمیری عوام کا مسئلہ ان دونوں سے زیادہ اہمیت کا حامل ہے۔
Comments are closed.