امید اور خوف کے درمیان ایم ودود ساجد

امید اور خوف کے درمیان
ایم ودود ساجد
اپنی ہوش کی چار دہائیوں سے زیادہ عرصہ میں بڑے بڑے طوفان دیکھے’ مصائب جھیلے’ انفرادی طور پر بھی پریشانیاں اٹھائیں اور ملک وملت کو اجتماعی طور پر بھی ابتلائے آزمائش دیکھا۔۔۔ لیکن گھر اور شہر کی سطح سے لے کر قومی اور عالمی سطح تک مصائب وآلام کی ایسی مہیب و مسلسل لہر کبھی نہیں دیکھی۔۔۔
پچھلے چار ماہ میں 99 نابغئہ روزگار علمی شخصیات اس دار فانی سے رخصت ہوگئیں ۔۔۔ انا للہ واناالیہ راجعون ۔ خدا کی مشیت کے آگے کسی کا بس نہیں ۔ اسی کی مشیت برتر و اعلی ہے۔۔۔
گزشتہ شام مولانا محمد سلمان مظاہری کے انتقال کی خبر ملی تو 100 کا عدد بھی پورا ہوگیا ۔۔۔ وہ متحدہ مظاہر علوم کے زمانے میں علم حدیث کی مشہور کتاب بیضاوی شریف کے مشہور استاذ تھے۔۔۔ بعد میں وہ مظاہر علوم رجسٹرڈ کے ناظم اعلی بھی مقرر ہوگئے تھے اور تا دمِ آخر اسی منصب پر فائز رہے۔۔۔مظاہر کی تقسیم سے قبل ان کے دولت کدہ پر ان کے ساتھ دستر خوان پر بیٹھنے کی سعادت بھی ملی لیکن تقسیم کے واقعہ کے بعد بس ان سے صرف ایک بار ہنگامی ملاقات ہوئی جب میں ہفت روزہ نئی دنیا میں برسرکار تھا۔۔۔
وہ ایک عرصہ تک سہارنپور کی جامع مسجد میں جمعہ کے روز خطاب بھی کرتے رہے۔۔۔ ان کا خطاب سننے کے لئے دور دور سے لوگ اور متلاشیان علم حدیث آتے تھے۔۔۔ طلبہ تو ان کی تقریر کو جلدی جلدی کاغذ پر لکھا کرتے تھے۔۔۔ طویل لاک ڈاؤن کے دوران وہ بالکل چاق وچوبند اور صحت مند تھے اور کورونا کے بحران کے دوران انہوں نے ایک آڈیو بیان جاری کرکے مدرسے میں پھنس جانے والے طلبہ کو تسلی وتشفی بھی دی تھی۔۔۔ ان کی آواز میں وہی گرج اور کھنک تھی جو 40 برس پہلے تھی۔۔۔
مجھے یاد ہے کہ 70 کی دہائی کے نصف ثانی میں انہوں نے سہارنپور کی جامع مسجد میں جمعہ کے روز کا ایک خطاب اس حدیث مبارک کی روشنی میں کیا تھا: الایمانُ بینَ الرجاءِ والخوف۔۔۔ ایمان امید اور ڈر کے درمیان ہے۔۔۔ اس حدیث کی جو تشریح مولانا نے کی تھی وہ آج تک دل پر نقش ہے۔۔۔ یہ حدیث دین اسلام کے اعتدال کے مزاج کی بہترین مثال ہے۔۔۔ یہ صرف ایمان پر ہی نافذ نہیں ہوتی بلکہ مسلمان کے ہر عمل پر بھی لاگو ہوتی ہے۔۔۔ آج ہم اُسی اعتدال سے کوسوں دور ہیں ۔۔ اوپر سے ایسے اولیاء واتقیاء ایک ایک کرکے جارہے ہیں ۔۔۔ اللهُ باقی من کلّ فانی۔۔۔
Comments are closed.