آہ مولانا وصی صاحب رحمۃ اللہ علیہ 

یہ سال 2020 واقعی عام الحزن نہیں عام الاحزان ہے کوئی دن ایسا نہیں گزرتا کہ جس دن کوئی غمناک خبر نہ ملے ۔

آہ مولانا وصی صاحب رحمۃ اللہ علیہ

 

یہ سال 2020 واقعی عام الحزن نہیں عام الاحزان ہے کوئی دن ایسا نہیں گزرتا کہ جس دن کوئی غمناک خبر نہ ملے ۔رہے نام اللہ کا ۔

ابھی کئی حادثات سے دل رنجور اور ذہن ودماغ غموں سے چور چور تھا کہ عشاء کی نماز کے بعد حضرت مولانا وصی احمد صدیقی مظاہری صاحب کے انتقال کی خبر ذہن ودماغ پر بجلی بن کر گری۔

مولانا مرحوم نہ صرف ایک عالم تھے بلکہ مدرسہ چشمۂ فیض ململ کے ناظم تھے شمالی بہار کے نہایت متحرک وفعال عالم دین تھے، مولانا نے اپنی زندگی کو تعلیم و دعوت کے لئے وقف کردیا تھا۔

یاد پڑتا ہے کہ جب میں دارالعلوم ندوۃ العلماء میں درجہ حفظ کا طالبعلم تھا اس وقت میرے ساتھ صدیق محترم عزیز گرامی فاتح اقبال ندوی بھی میرے درجہ ہی میں تھے، فاتح اقبال ندوی مولانا مرحوم کے سب سے چھوٹے صاحبزادے ہیں، مولانا وصی صاحب ندوے آتے جاتے رہتے تھے اسی وقت سے ان سے ملاقات ہوئی میں نے مرحوم کو ہمیشہ ہشاش بشاش، ہنستا مسکراتا اور دوڑتے بھاگتے ہی دیکھا۔ ندوہ سے فراغت کے بعد فاتح اقبال ایک سال کے لئے دارالعلوم دیوبند چلے گئے اس کے بعد دوسال المعہد العالی الاسلامی حیدرآباد میں رہے اس دوران بھی مولانا وصی صاحب سے میرا برابر رابطہ رہا، کئی مرتبہ باہر کے سفروں میں بھی مولانا کا ساتھ ہوگیا مولانا مرحوم فاتح اقبال ہی کی طرح میرا بھی بے انتہا خیال رکھتے تھے مجھے ہمیشہ بابو کہہ کر ہی مخاطب کرتے ، جب بھی لکھنؤ آتے بار بار ملاقاتیں رہتیں، مختلف موضوعات پر باتیں ہوتیں، قیمتی مشورے بھی دیتے، ان سے مل کر مجھے بہت خوشی ہوتی تھی ۔

ابھی دو ڈھائی سال قبل نومبر 2017 میں مولانا مرحوم نے اپنے ادارہ مدرسہ چشمۂ فیض ململ کے زیر اہتمام آل متھلانچل مسابقۂ قرآن کے نام سے ایک نہایت عظیم الشان پروگرام منعقد کیا، مجھے بھی اس پروگرام میں شرکت کی سعادت نصیب ہوئی تقریبا تین دن ململ میں قیام رہا مولانا کی خوب شفقتیں ملیں ۔میرے خیال سے ململ بلکہ متھلانچل کی تاریخ میں ایسا عظیم الشان پروگرام اس سے پہلے نہیں منعقد ہوا ہوگا،مولانا وصی صاحب نے اس موقع پر ململ کے چھوٹے سے گاؤں میں علماء کرام وقائدین ملت کی ایک کہکشاں سجا دی تھی ۔تین دن تک ململ میں عید کا سا سماں محسوس ہوتا تھا ۔

مولانا وصی صاحب سے یہ میری آخری ملاقات تھی مولانا اس پیرانہ سالی میں بھی نہایت چاک و چوبند اور ہر دم رواں دواں نظر آتے تھے ۔مولانا نے مدرسہ چشمۂ فیض ململ کے لئے جو قربانیاں دیں، جو محنت کی اور جس طرح مدرسہ کو جمایا اس کی مثال نہیں ملتی، انھوں نے ململ کی سرزمین پر مسلم بچیوں کی تعلیم وتربیت کے لئے بھی ایک شاندار ادارہ جامعہ فاطمہ للبنات کے نام سے قائم کیا ،جو فاتح اقبال ندوی کی نظامت میں ترقی کی منزلیں طے کررہا ہے الحمدللہ ۔

مولانا مرحوم نے بے شمار اداروں کی مدد کی، بہت سی مساجد کی تعمیر میں حصہ لیا نہ جانے کتنے ادارے مولانا کی محنت کی وجہ سے وجود میں آئے ۔

کیا معلوم تھا اتنی جلدی مولانا ہم سے جدا ہوجائیں گے اور اچانک ان کے انتقال کی خبر ملے گی ۔ جس وقت سے انتقال کی خبر ملی بری طرح دل ودماغ متاثر ہیں پورا وجود صدمے سے دوچار ہے ،ایسا لگتا ہے کہ اپنے گھر میں ہی کوئی حادثہ پیش آگیا ہے ۔

سوچتا ہوں اپنی تعزیت کروں اپنے کو دلاسہ دوں یا فاتح اقبال کی تعزیت کروں اور اس کو تسلی دوں مگر اس وقت ہمت نہیں ہے فاتح اقبال کو فون کرنے کی کہ خود پر قابو نہیں رہے گا ۔

اے اللہ تو مولانا مرحوم کی مغفرت کے فیصلے فرمادے اور ان کو اعلی علیین میں جگہ عطا فرما دے ۔یقینا ان کے بچوں کے ساتھ ساتھ آج بہت سے ادارے اور بہت سے افراد بھی یتیم ہوگئے ہیں اللہ تو سب کو صبر جمیل عطا فرمااور سب کی مدد فرما ۔آمین

اٹھ گئی ہیں سامنے سے کیسی کیسی صورتیں

روئیے کس کے لئے کس کس کا ماتم کیجئے

نجیب الحسن صدیقی ندوی

21/7/20

Comments are closed.