مولانا وصی احمد صدیقی. شخصیت اور کارنامے                                             فکر جمیل

مولانا وصی احمد صدیقی. شخصیت اور کارنامے

فکر جمیل. آج پورے دن علماءکے سانحہ ارتحال کی خبریں پڑھ پڑھ کر بہت مایوس ہوچکا تھا اسلئے عشاء کے بعد ڈرتے ڈرتے موبائل ہاتھ میں لیا اور اہلیہ سے یہ کہتے ہوئے موبائل آن کیا کہ نہ جانے اب اور کن کے اٹھنے کی خبر آچکی ہو,مگر مجھے کیا معلوم کہ اگلی خبر ہمارے مشفق ومربی محسن حضرت مولانا وصی احمد صدیقی کے انتقال کی چل رہی ہے اس کے بعد جو دل کا حال ہوا ہے لفظوں میں بیان نہیں کر سکتا . بے تحاشا زبان سے نکلا یا اللہ رحم فرما اور یہاں وہاں ان سے ان سے فون کر کے تعزیت کرنے لگا مرحوم عہد ساز شخصیت کے مالک تھے ان کا اس طرح اچانک ہمارے درمیاں سے اٹھ جانا ناقابل تلافی نقصان ہے جس کا پورا ہونا اس دور انحطاط میں اب ناممکن ہے

میری ملاقات آج سے تقریبا پندرہ سال پہلے جب میں ایک مقدمہ کے سلسلے میں نگرانی ڈیپارٹمنٹ vigilance سے نبردآزما تھا انہی دنوں ہوئی. وہ آپ ہی کی عبقری شخصیت تھی جنہوں نے میری مضمحل وپریشان زندگی کو مطمئن وپر سکون بنادیا تھا اور مجھے ایسا ہمالیائی حوصلہ بخشا کہ میں نےنہ صرف مفسدین و

حاسدین کو چاروں خانے چت کردیئے بلکہ نگرانی محکمہ کے اہلکاروں officer کی نیند اڑا ڈالے یہ ان دنوں کی بات ہے جب خود حضرت بھی پولیس تفتیش investigation کا سامنا کر رہے تھے مجھے آپ رح کے معاملے کی نوعیت سے بہت کچھ واقفیت نہ ہو سکی مگر اسی افراتفری میں آپ کو بہت قریب سے دیکھنے اور سمجھنے کا موقع ملا میں نے آپ رح کی قابلیت،معاملہ فہمی ،صبر استقلال ،حکمت تدبر اور اخلاص و ایثار کےجذبہ کو دیکھا اور آپ کی گو نگوں شخصیت کا قائل ہوگیا آج آپ میرے لئے سماجی ومعاشرتی زندگی میں رول ماڈل ideal کا درجہ رکھتے ہیں

مولانا مرحوم زندگی کے ہر شعبے میں اپنی مثال آپ تھے ،تعلیمی ، سماجی اور معاشرتی میدان ہوں یا تحریکی ،تنظیمی جدو جہد, جس میدان میں اترے نہ محض اسے سر کیا بلکہ مثال قائم کردی, جسے رہتی دنیا تک یاد رکھا جائے گا اور جب مورخ متھلانچل کی تعلیمی سرگرمیوں کو سپرد قرطاس وقلم کرےگا تو پہلے آپ کا نام سنہری حرفوں میں درج کیا جائگا اور یہ لکھا جائے گا کہ اس مرد مجاہد نے نا مساعد وناموافق حالات میں بھی, ایک دور افتادہ دہی علاقہ میں تعلیم وتربیت کی ایسی شمع روشن کی جس نے نہ صرف متھلانچل بلکہ پورے بہار کو روشن کر دیا ,ایسی انقلابی تحریک چلائی جس کی دھمک ملک تو ملک بیرون ملک بھی محسوس کی گئ

آج مدرسہ چشمہ فیض ململ مدہوبنی کی تعلیمی خدمات اور فیوض وبرکات سے کون واقف نہیں ہے جس نے اپنی تعلیمی خدمات اورمسلسل ترقیات کی بدولت ملکی سطح پر ایک لائق افتخار مقام حاصل کر لیا ہے, یہ وہی مکتب ہے جو آج سے تقریبا چالیس سال پیشتر بے سروسامانی کے عالم میں آپ رح کے سپرد کیا گیا تھا , جس کوآپ رح نے ایک عظیم درسگاہ بنادیا

آپ رح اس عظیم الشان تعلیمی ادارہ کے بنیادی خد وخال infrastructure درست کرنے کیلئے پوری قوت سے اٹھ کھڑے ہوئے جس میں بڑی مشقت وجانفسانی کا سامنا کرنا پڑا ,آپ رح بڑی آزمائش وابتلا سے دوچار بھی ہوئے, آپ پر الزام تراشیاں بھی ہوئیں, تہمتیں لگیں, جو اب مدرسہ کی تاریخ کا محض ایک حصہ ہے, لیکن ان تمام نا مساعد حالات کے با وجود آپ نے ہمت نہیں ہاری آپ کا دل کبھی نہیں ٹوٹا قدم کبھی نہیں لڑکھڑائے اور ایک عظیم درسگاہ بنانے کا جذبہ کبھی سرد نہیں پڑا ,آپ سب کچھ ضبط وتحمل کے ساتھ برداشت کرتے رہے یہاں تک کہ اللہ نے آپ کو کامیابی سے ہمکنار کیا ثمرہ ہماری نظروں کے سامنے ہے

آپ کی تشنگی مزید بڑھتی ہی گئ اور نوے کی دہائی میں آپ نے تعلیم نسواں کی طرف رخ کیا مسلمان عورتوں کو اعلی دینی تعلیم وتربیت کےزیور سے آراستہ کرنے اور ملت کی آدھی آبادی کو قرآن وحدیث کی تعلیمات سے روشناس کرانے کیلئےجامعہ فاطمہ الزہرا ململ کی بنا ڈالی ,جو آج صوبہ بہار میں مسلم بچیوں کی تعلیم وتربیت کا سب سے بڑا مرکز بن چکا ہے, آپ نے بہت جلد محسوس کرلیا تھا کہ تعلیمی ترقی کے اس انقلاب آفریں دور میں بھی مسلمان عورتوں میں تعلیم کا تناسب Ratio خطر ناک حد تک کم ہے دربھنگہ مدھوبنی ہی نہیں بلکہ پورے متھلانچل میں بڑی تعداد میں مسلم آبادیاں ہیں اور یہاں کے مسلمان اسباب کے فقدان کی وجہ کر اپنی بچیوں کو اسلامی وعصری اعلی تعلیمات سے آراستہ نہیں کر پا رہے ہیں ,اگر چہ اس علاقہ میں بہت سی عصری تعلیم گاہیں موجود ہیں اس کے با وجود چند دیرینہ وجوہات کے سبب لڑکیوں کو اعلی تعلیم حاصل کرنے کیلئے اسکول کالج بھیجنے کا رجحان بہت کم ہے, جس کی وجہ دو متضاد سماجی نظریات ہیں, مسلمانوں کا ایک بڑا طبقہ جو اپنی بچیوں کو پردہ پوشی کے ساتھ دینی وعصری تعلیم سے آراستہ کرنا چاہتا ہے, مگر مخلوط طرز تعلیم co education کی برائیوں کے پیش نظر انہیں اسکول کالج میں داخل نہیں کراتا , اور پرائمری سطح ہی پر انکی تعلیم روک دیتاہے .اس کے علاوہ ایک طبقہ ایسا بھی ہے جس نے اپنی بچیوں کو اسکول کالج سے اس لئے روک رکھا ہے کیونکہ انہیں ڈر ہے کہ جدید تعلیم modern education کیلئے اسکول کالج جانے کے بعد ان کی بچیاں تعلیمات اسلامی اور دینی قدروں spiritual thoughts سے محروم ہو جائینگی

آپ رح نے ان دونوں طبقوں کے احساسات و جذبات کو بہت جلد بھانپ لیا تھا اور مسلمان بچیوں کیلئے ایک ایسا تعلیمی ادارہ قائم کرنے کا عزم مصمم کیا جس میں وہ اسلامی خطوط پر شرعی حدود میں رہتے ہوئے دینی وعصری اعلی تعلیم حاصل کر سکیں اور زندگی کے ہر میدان میں اپنی اہلیت وقابلیت ثابت کرسکیں

انہیں مقاصد کے حصول کیلئے موصوف نے جامعہ فاطمہ الزہراء قائم کیا جس میں بیک وقت قرآن وحدیث فقہ وتفسیر اور اسلامی تاریخ وعقائد کے علاوہ ضروری عصری علوم اس حد تک پڑھائی جاتی ہیں کہ طالبات بہار اسکول اگزامینیشن بورڈ سے میٹرک matriculation کا امتحان اعلی نمبرات سے با آسانی پاس کر جاتی ہیں اور اپنے معاصر طالبات سے کسی بھی مضامین subjects میں خود کو کمتر محسوس نہیں کرتیں بلکہ اسلامی علوم سے مزین ہونے کا افتخار انہیں حاصل ہوجاتا ہے جو انہیں اپنے معاصر طالبات سے ممتاز کر دیتا ہے خدا کا شکر ہے آج جامعہ سے تحصیل علم کے بعد سیکڑوں مسلم لڑکیاں عملی زندگی میں اپنا لوہا منوا رہی ہیں

آپ رح ہی کی جہاں آرا شخصیت کا کمال تھا کہ بے انتہا مصروفیات ، کثرت کار ،ضعیف العمری کے باوجود کثرت اسفار کی صعوبت بھی آپ کو اپنے ارادے سے نہیں روک سکی ، آپ نے وہ کر دکھا یا جو ہم بزرگوں کی کہانی کتابوں میں پڑھتے آئے تھے اللہ رب العزت سے دعاء ہے کہ اللہ آپ کی قبر کو نور سے بھردے اور جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے بھائی فاتح اقبال و برادران اور دونوں مدرسے کے اساتذہ طلباء اور سبھی متعلقین لواحقین کو صبر جمیل عطا فرمائے

آمین یا رب العالمین

دل شکستہ

جمیل احمد قاسمی

خادم التدریس حکومت بہار( مدھوبنی)

Comments are closed.