مولانا سلمان مظاہری: بیدار مغز منتظم، صاحبِ کمال محدث لقمان عثمانی

مولانا سلمان مظاہری: بیدار مغز منتظم، صاحبِ کمال محدث
لقمان عثمانی
انسانوں کے اس ہجوم میں اپنے علم و فضل کا لوہا منوا لینا اور شخصیتوں کے اس انبوہ میں اپنا اعتماد بحال کرلینا ذرے سے آفتاب ہونے کے مرادف ہے؛ چناں چہ مولانا محمد سلمان مظاہری ؒ (2020-1946) بھی انہیں ممتاز ترین شخصیتوں میں سے ایک تھے جو شب تاب کرنوں کی طرح طلوع ہوئے اور کائنات کے ہر گوشے پر چھاگئے ـ آپکی شخصیت کی تعمیر حضرت شیخ زکریا رحمۃ اللہ علیہ کے زیرِ تربیت شروع ہوئی اور حضرت مولانا مفتی مظفر حسین ؒ، مولانا منور حسین ؒ اور مولانا اسعداللہ رامپوری ؒ جیسے جبالِ علم کے زیرِ سایہ پروان چڑھی اور اپنی ذہانت و فطانت اور صلاحیت و صالحیت کی وجہ سے ہر ایک کے منظورِ نظر رہے؛ لیکن حضرت شیخ زکریاؒ کے خاص فیض یافتہ تھے، چناں چہ ان کے معتمد تلامذہ اور چنیدہ شاگردوں میں ایک نام مولانا محمد سلمان مظاہری ؒ کا بھی ہے ـ
انہوں نے مظاہر علوم سہارنپور میں 1962 میں داخلہ لے کر 1967 میں مظاہر سے ہی فراغت حاصل کی اور فراغت کے بعد مظاہر کے ہی مسندِ درس و تدریس پر فائز ہوگئے اور ابتداء جلالین شریف و مشکوٰۃ شریف سمیت متعدد کتابیں پڑھاتے رہے، کچھ عرصے کے بعد دورۂ حدیث شریف کی کتابیں بھی پڑھانے لگے اور صحیح مسلم، سنن ابو داؤود اور نسائی شریف جیسی اہم کتابیں بھی آپ کے ذیرِ درس رہیں اور اسی طرح تقریبا پچاس سالوں تک تشنگانِ علومِ دینیہ کو سیراب کرتے اور اپنے رسوخِ علمی و نبوغِ ذہنی سے فیض یاب کرتے رہے ـ
وہ ایک عظیم محدث، باکمال معلم، بے باک مقرر، بیدار مغز منتظم، ہوش مند مربی اور کئی کتابوں کے مصنف تھے؛ جس میں درسی افادات خصوصی طور پر قابلِ ذکر ہیں، نیز 1996 سے ہی مظاہر علوم سہارنپور کی مسندِ نظامت پر رونق افروز تھے اور تا دمِ اخیر مظاہر علوم کے ناظم اعلی رہے ـ
انکی زنگی ورع و تقوی سے معمور، انکا دل خشیتِ الہی سے چور اور انکا سراپا ہر طرح کے تصنع سے کوسوں دور تھا؛ یہی وجہ ہے کہ اتنے بلند مقام پر فائز ہونے کے با وصف میں نے بارہا انکو پھل وغیرہ بھی خود سے ہی خریدتے دیکھا ہے، یقینا ایسی شخصیتیں کہ جن کی خدمت کرنا بھی طلبہ اپنے لیے باعثِ شرف سمجھتے ہیں اسکے باوجود بھی اپنا کام از خود کرنا سادگی کا ہی اعلی ترین معیار ہے نیز تقریبا پانچ سال پہلے تک آپ کی والدہ بھی حیات سے تھیں؛ چناں چہ آپ جب گھر تشریف لے جاتے تو اپنی والدہ مرحومہ کے پاؤں دبائے بغیر سونا گوارہ نہ فرماتے، جبکہ اپنی عمر کے آخری پڑاؤ میں وہ خود بہت معذور ہوچکے تھے ـ
وہ انتظامی امور میں انتہائی سخت اور طلبہ کے تئیں بہت ہی نرم تھے، یہی وجہ ہے کہ طلبہ کو تمام سہولتیں بہم پہنچانے کی ہر ممکن کوشش کرتے، انکا معمول تھا کہ ہر دس پندرہ دن میں مطبخ کا چکر لگا کر از خود کھانے کا جائزہ لیتے اور اگر کوئی کمی نظر آتی تو سختی کے ساتھ اصلاح کی تلقین فرمایا کرتے تھے نیز بہاری، بنگالی اور آسامی طلبہ چوں کہ چاول کے عادی ہوتے ہیں اور اکثر طلبہ خود سے بنا کر کھاتے ہیں جس سے نہ صرف یہ کہ صفائی میں لاپروائی ہوتی ہے، بلکہ وقت کا ضیاع بھی ہوتا ہے؛ اسلیے تمام طلبہ کو یہ اختیار دے دیا تھا کہ اگر کوئی چاول کھانا چاہے تو اسکے لیے دفتر میں درخواست دے کر کھانے میں چاول جاری کرا سکتا ہے ـ
مولانا محمد سلمان مظاہری ؒ اسلاف و اکابر کا پرتو بھی تھے اور اخلاف و اصاغر کیلیے نمونۂ عمل بھی، وہ جہاں مدرسہ و خانقاہ کا امتزاج تھے وہیں علم و حکمت کا سنگم بھی؛ ہر کس و ناکس سے خندہ پیشانی کے ساتھ ملنا انکا طرۂ امتیاز تھا، راقم الحروف بھی جب کبھی حاضرِ خدمت ہوتا تو بہت ہی شفقت کے ساتھ پیش آتے اور میرے جد امجد حضرت علامہ مولانا محمد عثمان غنی ؒ (سابق شیخ الحدیث مظاہر علوم وقف) کی وجہ سے بہت محبت بھی فرماتے تھے….. وہ ایک مرنجاں مرنج شخصیت کے مالک تھے ساتھ ہی بے پناہ صلاحیتوں کے حامل بھی؛ وہ جہاں خطیب تھے وہیں مدرس بھی، جہاں محدث تھے وہیں محقق بھی؛ خطیب ایسے کہ جب بولتے تو گویا سامعین کے کانوں میں رس گھولتے تھے، مدرس وہ کہ دورانِ درس طلبہ کے اذہان پر چھا جاتے تھے، شانِ محدثانہ ایسی کہ سند و متن کو چشمِ زدن میں حل فرما کر ذہن میں در آنے والے سوالوں کو بھی دور فرمادیتے تھے، بحرِ تحقیق کے شناور ایسے کہ جب تحقیق و تدقیق کے سمندر میں غوطہ لگاتے تو طلبہ کے سامنے علم و آگہی کے جواہر اور حکمت و دانائی کے لآلی بکھیر دیتے تھے…….. یقینا ایسی ہفت رنگ شخصیتیں خال خال ہی نظر آتی ہیں ـ شاید ایسے ہی نابغۂ روزگار شخصیتوں کے بارے میں محمد رفیع سودا نے کہا تھا کہ:
وے صورتیں الٰہی کس مُلک بستیاں ہیں
اب دیکھنے کو جن کے آنکھیں ترستیاں ہیں
Comments are closed.