گلشن تیری یادوں کا مہکتا ہی رہے گا حضرت مولانا وصی احمد صدیقی قاسمی ۔۔۔۔ کچھ یادیں ۔۔۔کچھ باتیں نظام الدين محي الدين جامعة أم القرى مكة المكرمة

گلشن تیری یادوں کا مہکتا ہی رہے گا*
حضرت مولانا وصی احمد صدیقی قاسمی ۔۔۔۔ کچھ یادیں ۔۔۔کچھ باتیں

نظام الدين محي الدين
جامعة أم القرى مكة المكرمة

میری بستی کے لوگو! اب نہ روکو راستہ میرا
میں سب کچھ چھوڑ کر جاتا ہوں دیکھو حوصلہ میرا
میں جارہا ہوں میرا انتظار مت کرنا
میرے لئے کبھی دل سوگوار مت کرنا
انور جلال پوری

موت ایک تلخ حقیقت ہے ، جس سے کسی فرد بشر کو مفرنہیں، اس دنیائے فانی میں کسی کو بقا و دوام حاصل نہیں، کاتب تقدیر کے سوا ہر شے فانی ہے ، كل من عليها فان ويبقى وجه ربك ذو الجلال والإكرام ایک بدیہی حقیقت ہے ۔
موت سے کس کو رستگاری ہے
آج اس کی کل ہماری باری ہے

یوں تو آنے والی ہر نئی صبح اپنی نوعیت اور حادثات وواقعات کے اعتبار سے مختلف رنج والم اور خوشی وغمی لے کر طلوع ہوتی ہی ہے، مگر جو الم ناک حادثہ ہمیشہ کے لیے حیرت وافسوس کا نشان بن کر ہمار ی محرومی کی دنیا میں ایک اور غمِ فراق کا اضافہ کر گیا وہ ہم سب کے محبوب، مشفق ومہربان، عالم ربانی حضرت مولانا وصی احمد صدیقی قاسمی نور اللہ مرقدہ کی وفات حسرت آیات کا ہے ۔
مورخہ ٣٠ ذيقعدة ١٤٤١ هجري مطابق ٢١ جولائی ٢٠٢٠ بروز منگل مکہ مکرمہ کے وقت کے مطابق شام سات بجے یہ اندوہناک و جاں گسل خبر ملی کہ حضرت مولانا وصی احمد صدیقی قاسمی نور اللہ مرقدہ دار فانی سے دار بقا کی طرف کوچ کرگئے
إنا لله وإنا إليه راجعون

جو بادہ کش تھے پُرانے، وہ اُٹھتے جاتے ہیں
کہیں سے آبِ بقائے دوام لے ساقی!

جب حضرت کی وفات کی خبر سنی دل ودماغ پر جو بیتی وہ میں اور میرا رب جانتا ہے۔ پھر ماضی کی یادیں پُرنَم آنکھوں کے سامنے گردش کرنے لگیں اورمردِ حق گُو کی یادیں ایک ناختم ہونے والی داستان کی طرح تسلسل سے چلنے لگیں۔ حضرت کی قربت میں بیتے ایّام پھر سے یاد بن کر یکے بعد دیگرے آنکھوں کے سامنے آنے لگے ۔
رہنے کو سدا دہر میں آتا نہیں کوئی
تم جیسے گئے ایسے بھی جاتا نہیں کوئی

*سوانحی خاکہ کے اجمالی نقوش*

کیا لوگ تھے جو راہ وفا سے گزر گئے
جی چاہتا ہے نقش قدم چومتے چلیں

حضرت مولانا وصی احمد صدیقی قاسمی رحمة الله عليه نے شمالی بہار کے ضلع مدھوبنی کی علمی ، ادبی ، تہذیبی و ثقافتی بستی ململ میں 1945 میں اپنی آنکھیں کھولی ، آپ کی نشو و نما ایک متوسط گھرانے اور علمی ماحول میں ہوئی ،
آپ نے ابتدائی تعلیم گاوں کے ہی ایک قدیم مکتب چشمہ فیض میں حاصل کی، آپ کے ابتدائی اساتذہ میں گاوں کے ہی ایک نامور اور مشہور زمانہ شاعر حافظ محمد عقیل صاحب عاقل ، اور حافظ محمد اسماعیل صاحب رحمہم اللہ کے نام قابل ذکر ہیں، ابتدائی تعلیم کے بعد حفظ قرآن پاک کے لئے مونگیر تشریف لے گئے، اور جناب قاری بخاری صاحب رحمہ اللہ کے زیر نگرانی آپ نے حفظ قرآن پاک کی تکمیل کی ، جبکہ اس وقت آپ کی عمر صرف 12 سال کی تھی،
تکمیل حفظ قرآن پاک کے بعد عربی تعلیم کے حصول کے لیے آپ نے جامعہ رحمانی خانقاہ مونگیر کا ارادہ فرمایا، اور وہاں آپ نے ابتدائی ششم سے عربی سوم تک کی تعلیم حاصل کی ، مشہور زمانہ اور نابغہ روزگار شخصیات کے سایے عاطفت میں رہ کر علمی و ادبی تشنگی کو دور کرتے رہے ،
مونگیر کے زمانہ طالبعلمی میں آپ کے مشہور اساتذہ کرام میں عالمی شہرت یافتہ فقیہ، عالمی ربانی حضرت مولانا قاضی مجاہد الاسلام قاسمی نور اللہ مرقدہ کے علاوہ مولانا یحی صاحب رحمہ اللہ اور مولانا ابو اختر قاسمی کے نام شامل ہیں، مونگیر کے قیام کے دوران امیر شریعت رابع حضرت مولانا منت اللہ رحمانی رحمہ اللہ آپ پر اپنی خاص توجہ و عنایت فرما تے تھے ،آپ انکے منظور نظر رہے ، جامعہ رحمانی خانقاہ مونگیر کے بعد ایک سال آپ نے مدرسہ امدادیہ دربھنگہ میں بھی تعلیم حاصل کی ۔

1962 میں آپ حضرت مولانا قاضی مجاہد الاسلام قاسمی نور اللہ مرقدہ کے مشورہ پر ازہر ہند دارالعلوم دیو بند تشریف لے گئے اور مکمل پانچ سالوں تک وہاں رہ کر جلیل القدر علماء، اجلہ اساتذہ کرام سے تعلیم حاصل کی اور 1967 میں دارالعلوم سے سند فراغت حاصل کی ،

سنہ1969 کی بات ہے جب آپ نے گاوں کے ایک قدیم مکتب چشمہ فیض میں تدریسی زندگی کا آغاز کیا ، دو سال تک آپ اس مکتب میں بحیثیت ایک مدرس پڑھاتے رہے ، پھر 1971 میں آپ کو اس مکتب کا صدر مدرس مقرر کردیا گیا،
مکتب چشمہ فیض گاوں کا ایک قدیم مکتب تھا ،جسے مچھلی شہر جونپور کے ایک بزرگ صفت عالم دین حضرت مولانا عبد الباری مچھلی شہری جونپوری رحمہ اللہ نے 1246 ہجری مطابق 1823 میں بنیاد ڈالی تھی ، اور سالوں سے یہ مکتب ابتدائی تعلیم کا ٹمٹماتا چراغ تھا ،
سنہ 1975 میں ململ کے دور رس بزرگوں نے اس وقت کے فعال و متحرک نوجوان مولانا وصی احمد صدیقی قاسمی نور اللہ مرقدہ کو مہتمم کی غیر معمولی ذمداری سر پر ڈال دی،
یہ وہ سال تھا جب چراغ سحر کی طرح ٹمٹماتے چراغ کی شکل میں موجود یہ قدیم ترین مکتب چشمہ فیض کی لو اچانک تیز ہوگئی اور انکے مقدر کا ستارہ طلوع ہوا، جب مولانا وصی احمد صدیقی قاسمی کی روز اول ہی سے شبانہ روز محنت کی وجہ سے چشمہ فیض ململ کی نشأة ثانية کا عمل شروع ہوا ،
مہتمم کی ذمداری سنبھالتے ہی آپ نے اس کی تعمیر و ترقی کے لئے اپنے آپ کو وقف کردیا ، علاقے کا دورہ کرکے لوگوں کو علوم اسلامیہ اور مدراس کی اہمیت و ضرورت کو اجاگر کیا ، اسکے حلقے بڑھائے، اہل رائے اور بہی خواہوں سے رائے طلب کی ، اور مختلف زاویوں سے اسکی ترویج و اشاعت کے ساتھ تعلیمی معیار کو بڑھایا ، اور قاضی مجاہد الاسلام قاسمی نور اللہ مرقدہ کے اشارے پر عربی درجات کا سلسلہ شروع فرمایا ۔
سنہ 1992 پورے میتھلانچل کے لئے خصوصا اور پورے بہار کے لئے عموما ایک تاریخی دن تھا ، جب آپ نے مدرسہ چشمہ فیض ململ کا باضابطہ تعلیمی الحاق عالمی شہرت یافتہ ادارہ دارالعلوم ندوہ العلماء سے کرایا ، جس کے بعد ۔مدرسہ چشمہ فیض ململ ریاست بہار کا روشن و تابناک منارہ علم و عرفاں بن گیا ، بہار سمیت سمیت نیپال و بنگال سے بڑی تعداد میں طالبان علوم نبوت جوق در جوق یہاں آنے لگے، اور پھر یہ ادارہ ایسا جیتا جاگتا علم و آگہی کا مرکز بنا کہ پورا علاقہ اسکی روشنی سے جگمگا اٹھا، موجودہ وقت میں یہ ادارہ تحفیظ قرآن پاک کے علاوہ عالیہ ثانیہ( عربی ششم ) تک کی تعلیم کا اہتمام کرکے نسل نو کو سنوارنے اور سجانے میں مشغول ہے ۔

سنہ 1992میں ہی آپ نے اپنی ہمہ جہت صلاحیتوں اور تجربوں کے بعد صنف نازک کی تعلیم و تربیت کی طرف توجہ فرمائی ، اور جامعہ فاطمہ الزہرا کے نام سے ایک مستقل ادارہ کا قیام فرمایا، جو علاقہ کا سب سے پہلا عورتوں کی تعلیم و تربیت کا مرکز بنا ، آپ نے دینی و عصری علوم کا ایسا سنگم تیار کیا کہ سینکڑوں کی تعداد میں بچیاں یہاں رہ کر کسب فیض کرتی ہیں،
موجودہ وقت میں جامعہ فاطمہ الزہرا ململ ابتدائی تعلیم سے بخاری شریف تک کی تعلیم کا اہتمام کرتا ہے ۔
اب تک سینکڑوں کی تعداد میں بچیاں ردائےفضیلت حاصل کرچکی ہیں ۔
یہ دونوں ادارے مولانا وصی احمد صدیقی قاسمی نور اللہ مرقدہ کی نمایاں خدمات میں سے ہیں، جن کی آپ نے زندگی بھر آبیاری کی ،اور لہلہاتا ، پھلتا پھولتا چھوڑ کر اس دنیا سے رخصت ہوئے ۔
اللہ پاک آپ کو اس کا بہترین بدلہ عطا فرمائے ، اور آپ کے لئے صدقہ جاریہ بنائے ۔
اب یہ ادارے قوم و ملت کی امانت ہیں جسے حضرت مرحوم نے سپرد کر کے دنیا کو الوداع کہا ۔

کیفیتِ چشم اس کی مجھے یاد ہے سودا
ساغر کو مرے ہاتھ سے لینا کہ چلا میں

*اوصاف و کمالات*

ہزاروں سال نرگس اپنی بے نوری پہ روتی ہے
بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا

مت سہل ہمیں جانوں پھرتا ہے فلک برسوں
تب خاک کے پردے سے انسان نکلتے ہیں

حضرت مولانا وصی احمد صدیقی قاسمی نور اللہ مرقدہ ایک شخص نہیں، شخصیت تھے، انفرادیت و لاثانیت کے حامل تھے، شجر سایہ دار تھے، جوہر شناس تھے ، اپنی حیات مستعار کے شب و روز صداقت کا، عدالت کا، شجاعت کا، داعی تھے، خودی کا رازداں ، خدا کا ترجماں تھے ، اخوت کا بیاں، محبت کی زباں تھے، نرم دم گفتگو ، گرم دم جستجو تھے ، حلقہ یاراں میں ریشم کی طرح نرم وگداز، رزم گاہ حق و باطل میں فولاد کی طرح تند و گرم تھے ،
اخلاص کا روشن و تابناک آفتاب و ماہتاب تھے ، محبت و عنایت کی مجسم تصویر تھے ۔

وہ اپنی ذات میں ایک انجمن تھے ، ایک تحریک تھے۔ مجلسِ علم وعمل میں میرِ مجلس تھے ، کاروانِ حیات میں میر کارواں تھے ، دن رات جدوجھد کرتےدکھائی دیتےتھے۔صبح شام مستعد و متحرک رہتے تھے۔ استقامت و استقلال کا پھاڑ تھے۔ مقدر کا سکندر تھے۔ علاقے کے ہر فرد کی آنکھ کا تارا تھے۔
غریبوں کے درد کا درماں تھے ، انسانیت کا درد اپنے جگر میں رکھنے والے تھے ، معمار قوم و ملت تھے ، نمونہ اسلاف فرشتہ صفت عالم دین تھے،
ان کی راتیں خالقِ کائنات ارض و سماء کی تعریف و تسبیح اور تحمید و توصیف بیان کرنے میں سربسجود گذرتی تھیں وہ دن کی روشنی میں خادم بن کر مخلوقِ خدا کی خدمت و اصلاح ، دین اسلام کی ترویج و اشاعت، شریعتِ محمدی کی تبلیغ و اشاعت کرتے دکھائی دیتے تھے۔
وہ بلا کے ذہین و فطین تھے ، دور رس تھے ، مردم شناس تھے ، خود داری، دلیری، بے باکی انکی نس نس میں خون کیطرح گردش کرتی تھی ۔
ہر لمحہ چشمہ فیض کی ترقی و آبیاری، طلبہ و اساتذہ کی فکر انہیں بے چین رکھتی تھیں،
چشمہ فیض کی خاطر رات بھر جاگنا ، دن نذر سفر کردینا انکی زندگی کا مقصد تھا ، زبان حال سے ہمیشہ اظہار فرما تے تھے

میری زندگی کا مقصد تیرے دیں کی سرفرازی
میں اسی لئے مسلماں ،میں اسی لئے نمازی

انکے تابندہ و درخشندہ علمی تربیتی ثقافتی ملی سماجی خدمات ہمیشہ یاد رکھے جائیں گے

کلیوں کو میں خون جگر دے کے چلا ہوں
صدیوں مجھے گلشن کی فضا یاد کرے گی

حضرت مولانا وصی احمد صدیقی قاسمی نور اللہ مرقدہ کام کے آدمی تھے ،کام کرتے تھے ،کام پر یقین رکھتے تھے ، انکی زندگی میں جمود و تعطل نام کی کوئی چیز نہیں تھی،
جاوداں ، پیہم دواں، ہر دم جواں ہے زندگی

کی مجسم تصویر تھے ، نسل نو کو عزم پیہم اور جہد مسلسل کی دعوت دیتے تھے ، علم و فن کے میدان میں ابھرتے نوجوانوں کو شاہین کا سبق دیتے تھے، طلبہ کو خود اعتمادی، پر عزم و پردم رہنے کا فن سکھاتے تھے اور ہمیشہ طلبہ و اساتذہ کی مجلس میں اقبال کا یہ شعر سناتے تھے
شاہیں کبھی پرواز سے تھک کر نہیں گرتا
پردم ہے اگر تو ، تو نہیں خطرہ افتاد

حضرت علیہ الرحمہ کی دینی خدمات اور کسر نفسی وسادگی ہم لوگوں کے لئے مشعل راہ ہے، مرحوم نے اپنی زندگی تعلیم و تعلم اور اشاعت دین میں گذار دی،حضرت والا کفایت شعاری اور سادگی کا اعلی نمونہ تھے،زندگی میں کہیں بھی تصنع اور بناوٹ نہیں تھی ،مرحوم اپنے وسیع و عمیق علم و فکر، زہد و تقوی، اخلاص و عمل، دینی وملی نصرت اور اصلاحی خدمات کی وجہ کر علماء اور عامۃ المسلمین کے درمیان مقبول ہی نہیں بلکہ عقیدت کی نگاہ سے دیکھے جاتے تھے۔ہمارے درمیان سے ایسے مشفق ومربی اور مخلص فعال و جلیل القدر عالم دین کا ایسے نازک اور پر آشوب دور میں اٹھ جانا جب کہ ماضی سے زیادہ مستقبل میں ان کی ضرورت تھی،ملت اسلامیہ کے لئے بڑا خسارہ ہے، یہ وقت امت مسلمہ کے لئے بڑی آزمائش اور امتحان کا ہے، حضرت کے داغ مفارقت پر یقینا پورا علاقہ متفکر ہوگا،لیکن حضرت علیہ الرحمہ نے اپنی پوری زندگی دین و ملت کی خدمات فرماکر جو خیر کی بیج بو دی ہے،اس سے پوری امید ہے کہ میٹھا پھل ضرور ملے گا۔
طاب اللہ ثراه وجعل الجنة مثواه

رہ رہ کے تیرا درد چمکتا ہی رہے گا
یہ شعلہ بے تاب لپکتا ہی رہے گا دیوانےگزر جائیں گے ہر منزل غم سے حیرت سے زمانہ انہیں تکتا ہی رہے گا

آتی ہی رہے گی تیرے انفاس کی خوشبو
گلشن تیری یادوں کا مہکتا ہی رہے گا
*مدرسہ چشمہ فیض ۔ تدریس سے اہتمام تک*

مولانا وصی احمد صدیقی قاسمی نور اللہ مرقدہ 1975 میں چشمہ فیض کے مہتمم بنائے گئے ،اور پھر انہوں نے اسکے فروغ کے لئے اپنی پوری زندگی وقف کردی ۔
مدرسہ چشمہ فیض ململ انکا عشق تھا، اسی کے فروغ کے لئے جیتے تھے ، اسی کی ترویج کے لئے مرتے تھے ، اسکی تعمیر و ترقی کے لئے اپنا تن من دھن قربان کردیتے تھے ، ہر مجلس میں اس کو زندہ تابندہ و درخشندہ رکھنے کے لئے بات کرتے تھے ، اپنی جواں مردی، تگ و دو، جہد مسلسل، اور جامع صفات و کمالات سے چشمہ فیض ململ کو تعلیمی تربیتی ثقافتی قدیم صالح اور جدید نافع کا منبع اور مرکز بنا کر رخصت ہوئے ،
ہمیشہ محبت بھرے لہجے میں بولتے تھے کہ اللہ پاک مجھ سے پوچھیں گے کہ کیا لیکر آئے ہو ، تو میں جواب دونگا،
"تیرے حضور مدرسہ چشمہ فیض لایا ہوں ”
موجودہ وقت میں مدرسہ چشمہ فیض ململ ہند و نیپال کی سرحد پر شمالی بہار کا جیتا جاگتا ،روشن و تابناک منارہ علم و عرفاں ہے ، جو یقینا حضرت مرحوم کےلئے صدقہ جاریہ ہے
پھونک کر اپنے آشیانے کو
بخش دی روشنی زمانے کو

پوری نصف صدی تک اپنے خون جگر سے چشمہ فیض اور پورے خطے کی آبیاری فرماتے رہے ، تعلیم دیں اور تحفیظ قرآن کو اپنا میدان عمل بنایا، اور پھر خلوص و للہیت کو بنیاد بنا کر علم و آگہی کا ایسا تاباں و درخشاں، چمکتا دمکتا چراغ روشن کردیا جسکی روشنی ان شا ء اللہ کبھی مدھم نہیں ہوگی ،اور مرور ایام کے ساتھ اسکی لو تیز تر ہوتی چلی جائے گی، اور چشمہ فیض کا چشمہ سدا جاری و ساری رہے گا ۔
جب بھی رب کریم کے دربار میں دست بدعا ہوتے، آنسوؤں کی جھری لگ جاتی اور گلشن علمی کی بقا کیلئے بول اٹھتے ۔
پھلا پھولا رہے یا رب چمن میری امیدوں کا
جگر کا خون خون دے دے کر یہ بوٹے ہم نے پا لے ہیں

*حضرت رحمہ اللہ سے پہلی ملاقات*

نہ زمین ہے میری قرار گاہ نہ فلک ہے منزل جذب دل
بڑی دیر سے ہے سفر میرا تیر ی یاد سے تیری یاد تک

مدرسہ چشمہ فیض ململ شاخ دارالعلوم ندوة العلماء لکھنو ہند و نیپال کی سرحد پر شمالی بہار کا ایک عظیم، بے مثال، تعلیمی، تربیتی، ثقافتی دینی درسگاہ ہے ، جو موجودہ وقت میں قدیم صالح اور جدید نافع کا منبع و مرکز ہے ، "خذ ما صفا ودع ما كدر ” کے اصول پر گامزن یہ ادارہ تحفیظ قرآن پاک اور دینی و عصری علوم کا رواں دواں چشمہ صافی ہے ، علم و عرفاں کا وہ منارہ نور ہے جسکی روشنی سے پونے دو سو سال سے پورا خطہ روشن و تابناک ہے ، ایسا شجر سایہ دار اور ثمردار درخت ہے جس سے فیض یافتہ ہوکر ہزاروں ہزار کی تعداد میں علماء اور حفاظ اپنی دینی ،ملی ،تعلیمی خدمات انجام دے رہے ہیں ۔
1975 سے قبل یہ ادارہ مکتب کی شکل میں تھا ، لیکن حضرت مولانا وصی احمد صدیقی قاسمی نور اللہ مرقدہ نے اسے خون جگر سے سینچ کر تناور درخت کی شکل دیا ، شب و روز کی جانفشانی، جنون کی حد تک شوق، بے پناہ محبت و عنایت اور جذبہ دروں نے اسے تاباں و درخشاں ماہ کامل بنادیا، چیونٹی کے منہ سے شکر کا ایک ایک دانہ جمع فرما کر علم و فن اور تہذیب و ثقافت کا حسین تاج محل بنا دیا ۔ یہ کہنا بجا ہوگا کہ ململ اور اطراف میں ۔۔۔
بہار جو اب آئی ہوئی ہے
یہ سب پود انہی کی لگائی ہوئی ہے

اللہ پاک حضرت مرحوم کو اس کا بھر پور بدلہ عطا فرمائے

سال 2011 یہ وہ سال تھا ، جب میرے والد مکرم حضرت مولانا محی الدین صاحب أطال الله بقاءه نے میرے میدانِ عمل کے لئے مدرسہ چشمہ فیض ململ کا انتخاب فرمایا ،
زمانہ طالب علمی سے نیا فارغ ، نہ تجربہ، نہ مشق و تمرین، نہ اندازِ گفتگو ، نہ بات کرنے کا سلیقہ ، نہ رنگ و آہنگ، نہ اسلوب ، نہ طرزِ ادا ،
تحریر و تقریر کے رموز و اسرار سے نا آشنا، تدریس کے فرائضِ منصبی سے نابلد ، یہ حقیر ، ادارہ کی شہرت سے متاثر ہو کر قدم آگے بڑھانا اپنی سعادتمندی اور نصیبہ وری سمجھا ، اور بالآخر ململ کے لئے روانہ ہوگیا ، جو اب میرے لئے باعث فخر ہے ۔

یہی کیا کم ہے کہ نسبت مجھےاس خاک سے ہے ۔۔

سال 2011 ، ماہ اپریل بروز جمعرات مدرسہ چشمہ فیض ململ پہونچا، خوبصورت و محراب نما دروازہ، علم و فن، تہذیب و ثقافت کی نشاں ، بقامت کہتر بقیمت بہتر دو منزلہ پرشکوہ عمارت، دایاں سمت وسیع و عریض، جامع مسجد اور سامنے چاروں طرف سے گھیرے ہوئے راستوں کے بیج لبالب بھرا ہوا تالاب انتہائی جاذب نظر، پرکشش اور دلفریب منظر پیش کررہا تھا ۔
ایک طالب علم کی رہبری میں حضرت رحمہ اللہ کے دولت خانہ پر پہونچا، حضرت مرحوم اپنے دانش کدہ کے مہمان خانہ میں تشریف فرما تھے ،
میری پہلی نظر حضرت مرحوم کےاوپر پڑی، دل سے آواز نکلی

سر سے پاوں تک گلابوں کا شجرلگتا ہے
با وضو ہو کے بھی چھوتے ہوئے ڈر لگتا ہے

طویل القامت، معتدل جسم،گورا اور صاف چہرہ، روشن پیشانی، آنکھوں میں فراست ایمانی کی چمک، ناک متوسط، ڈاڑھی بھری ہوئی نہ بہت ہلکی پھلکی اور نہ ہی بہت گھنی، سر پر عربی سفید رومال،
جسم پر سفید پوشاک ،گفتگو میں ٹھہراؤ، طبیعت متانت وسنجیدگی کا نمونہ، محبت بھری آنکھیں، شہد ٹپکاتی باتیں، گرویدہ بنانے والے اخلاق اور خوشبو بکھیرتے سیرت و کردار، بزرگوں کی نشانی ، اعلی اقدار کے حامل ۔

ملاقات پہلی تھی ، مگر حضرت کی باتوں سے لگتا تھا کہ سالوں سے جانتے ہوں، دیر تک محبت کے شگوفے، خلوص و وفا کا جام اور عقیدت و عنایت کے پھول برساتے رہے ، اور اپنی محبت کے جادو سے مسحور کرگئے، اپنا اسیر اور گرویدہ بنا لیا ، پرتکلف مہمان نوازی کی اور پھر اس ناچیز کو اپنی شفقت و محبت کے شامیانے تلے بلند نگاہی، جاں پرسوزی، عزم و ارادے، ہمت و حوصلے کی بازیابی کی لئے جگہ عنایت فرمادی، پھر کیا تھا مدرسہ چشمہ فیض ململ سے باقاعدہ نام جڑگیا ،

میری اول ملاقات تھی ، پر حضرت رحمہ اللہ کا انداز دلبرانہ تھا ، کردار قاہرانہ تھا ، سلوک محبتانہ تھا ، اسلوب ہمدردانہ تھا ، جب تک حضرت کی مجلس میں رہا ،میرے ذہن و دماغ میں انکے اخلاص و للہیت، تواضع ، خاکساری، ملنساری ،بلند اخلاقی کو دیکھ کر اقبال کا یہ شعر گردش کرتا رہا ۔

انوکھی وضع ہے سارے زمانے سے نرالے ہیں
یہ عاشق کونسی بستی کے یا رب رہنے والے ہیں

پھر ایک ہفتہ کے بعد حضرت رحمہ اللہ کی سایہ عاطفت میں تدریسی سفر کا آغاز ہوا ،

راقم سے حضرت مرحوم کو گہرا ربط تھا ، بہت محبت کرتے تھے، غایت درجہ خیال فرماتے تھے، ہر لمحہ پدرانہ شفقت و عنایت کے پھول نچھاور کرتے تھے ، چلتے پھرتے، گھومتے، دن رات حالات دریافت فرما تے تھے ، بڑی ہمدردی رکھتے تھے ، ہر موقعہ پر حوصلہ افزائی کے کلمات کہتے تھے، دعاوں سے نوازتے تھے، جب بھی گھر یا مدرسہ میں ہوتے، اپنے ساتھ ضرور کھانے میں شریک کرتے، جب بھی ملتے ، مسکرا کر ملتے ، جب بھی باتیں کرتے، محبت بھرے لہجے میں کرتے، ہمیشہ پر عزم و پردم رہنے کے لئے فرماتے،
میں نے تقریبا پانچ سالوں تک حضرت مرحوم کی قیادت و سیادت میں وقت گزارے، جب بھی کسی دینی ،علمی ،سیاسی، اصلاحی پروگرام میں تشریف لے جاتے، مجھے اپنے ساتھ رکھتے، مجلس چھوٹی ہو یا بڑی، علمی ہو یا اصلاحی، عوامی ہو یا خالص علمی ، مجھے خطابت کے لئے آگئے بڑھاتے، مجھ سے تقریریں کرواتے اور پھر فرط محبت میں حوصلہ افزائی اور دعاوں کی بارش فرماتے تھے، شاید مدرسہ یا مدرسہ سے باہر کوئی پروگرام ہو اور حضرت مجھ سے تقریر نہ کرواتے ہوں ،
حضرت رحمہ اللہ کی ذرہ نوازی اور کرم فرمائی ہے کہ مجلسوں میں، محفلوں میں، مسجدوں میں ، بات کرنے کا سلیقہ آیا ، اسلوب و آہنگ آیا ،
ورنہ کہاں میں اور کہاں یہ نکہت گل
نسیمِ صبح تیری مہربانی

حضرت رحمہ اللہ جب گھر سے باہر سفر پر ہوتے تو فون سے حالات دریافت فرما تھے ، دور رہکر بھی نظر کرم فرماتے، جب بھی میں انکے ساتھ ہوتا تو یہ دعا ضرور دیتے کہ اللہ پاک آپ کو زیارت حرمین کی سعادت نصیب فرمائے، اور انہیں دعاوں کا نتیجہ کہ آج مھبط وحی دنیا کی مقدس ترین سرزمین میں اللہ پاک نے تعلیم کے حصول کے لیے قبول فرمایا ہے ۔
اللہ پاک اس احسان کے بدلے حضرت مرحوم کو خوب خوب بدلہ عطا فرمائے ۔

*حضرت رحمہ اللہ کی شفقت و محبت کے چند خوبصورت واقعات ۔*
مشتے نمونہ از خروارے:
1- چشمہ فیض ململ کے قیام کے دوران ہی میں نے اعلی تعلیم کے حصول کے لئے جامعہ ام القری مکہ مکرمہ میں اپنے تعلیمی کاغذات جمع کیا تھا ، اور میں نے حضرت مرحوم سے تذکرہ کیا تھا ، حضرت رحمہ اللہ ہمیشہ دعا دیتے تھے، قبولیت کے لئے، علمی پختگی کے لئے ، دل کی گہرائی سے اظہار بھی فرماتے تھے،
جب فروری 2017 کو جامعہ ام القری مکہ مکرمہ میں میری منظوری ہوگئی، تو میں نے حضرت کو اطلاع دی ، حضرت رحمہ اللہ اس وقت سفر میں تھے ، یہ خبر سنکر چھوم گئے ، خوشی کی انتہا نہ رہی ، زبان سے دعاوں کا لامتناہی سلسلہ شروع ہوگیا، خیرو برکت کی دعاوں سے نوازتے رہے ، اور اپنے رفیق کار حضرت مولانا مکین احمد رحمانی سے فرمایا کہ ایک ماہ کی اضافی تنخواہ دیکر چشمہ فیض سے رخصت کریں، اور پھر میں حضرت کی دعاوں کے صدقے مکہ مکرمہ پہونچ گیا ۔

2- جب بھی اساتذہ کرام کی محنتانہ اور تنخواہ کی بات آتی، تو مجھے اول نمبر پر رکھتے، طے شدہ سے دو گنا تین گنا مجھے زیادہ عنایت فرماتے ۔
3-جب بھی کسی چھوٹی یا بڑی مجلس میں ساتھ لے جاتے، تو تقریریں کرواتے تھے ، مجھے نکھارتے تھے ، اور ہمیشہ اپنے پہلو میں بیٹھاتے تھے ۔

4- حضرت رحمہ اللہ مجھے حد سے سے زیادہ انعام و اکرام سے نوازتے رہتے تھے ، کبھی تحریر کا بہانہ بنا کر ،کبھی تقریر کے نام پر ، کبھی محبت سے غالب اگر ۔
جب طلاق ثلاثہ کا مسئلہ زوروں پر تھا تو انہی دنوں جامع مسجد ململ میں جمعہ کا خطاب حضرت کے حکم پر مجھے کرنا پڑا، حضرت رحمہ اللہ پوری تقریر کے دوران میرے چہرے کی طرف دیکھتے رہے ، مسکراتے رہے ، دعائیں دیتے رہے ، اور نماز کے بعد مسجد ہی میں گرانقدر انعام سے نوازا، جو میری زندگی کا سب سے بڑا سرمایہ ہے ۔

5- مدرسہ چشمہ فیض ململ میں روز اول ہی سے عالیہ درجوں کی کتابیں میرے ذمے کردی ،اور پھر انکی سایہ عاطفت کی بدولت اس کا حق بھی ادا کیا ۔
6- حضرت رحمہ اللہ کی سب سے نمایاں خوبی یہ تھی کہ وہ مردم شناس تھے ، ایک نظر میں پہچان لیتے تھے ،
مجھ پر اعتماد کرتے تھے ، طریقہ تعلیم اور کار کردگی سے خوش ہوتے تھے ، جسکے نتیجے میں انہوں نے مجھے نائب ناظم تعلیمات بھی مقرر فرمائے تھے ۔
الغرض :
جس درد سے وہ مجھ کو دیا کرتے تھے آواز
بلبل نے بھی یوں گل کو پکارا نہیں ہوگا

یہ وہ چند بھولی بسریی یادیں ہیں، جنکو سپرد قلم کردیا ہوں، ورنہ حضرت رحمہ اللہ کی جامع صفات و کمالات کے آگے دبیز کتاب بھی کم ہے

ورق تمام ہوا اور مدح باقی ہے
سفینہ چاہیے اس بحرِ بے کراں کے لئے
ادائے خاص سے غالبؔ ہوا ہے نکتہ سرا
صلائے عام ہے یارانِ نکتہ داں کے لئے

*آخری ملاقات:*

جامعہ ام القری مکہ مکرمہ آنے کے بعد بھی تعلقات میں کوئی کمی نہیں آئی ، جب بھی بذریعہ فون گفتگو ہوتی ، وہی پیار بھرا انداز، نرالا اسلوب، دعا و ذکر میں رطب اللسان،
باتوں کے دوران دعائیں ہیں دیتے رہتے،
جنوری 2018 کو چھٹی میں گھر گیا ، تو حضرت اس وقت ہی پر تھے ، ملاقات اور دعا کے لئے حاضری ہوئی، لگتا تھا کہ محبت ابھی زندہ ہے ، خلوص ابھی باقی ہے ، بہت دیر تک محبت و عنایت سے لبریز باتیں اور دعاوں کا سلسلہ رہا ، اپنے ساتھ چشمہ فیض ململ، جامعہ فاطمہ الزہرا ململ اور دیگر چیزوں کی زیارت کروائی، پرتکلف مہمان نوازی کی اور پھر سہ پہر میرے سر اپنا دست شفقت رکھ کر الوداع کیا ۔
وہی آخری ملاقات رہی ، حضرت رحمہ اللہ رو پوش ہوگئے لیکن انکی یادیں، باتیں تابندہ و درخشندہ رہیں گی ۔

اللہ پاک آپ کی مغفرت فرمائے اور جنت الفردوس میں اعلی مقام عطا فرمائے

ویراں ہے میکدہ، خم و ساغر اداس ہیں
تم کیا گئے کہ روٹھ گئے دن بہار کے

Comments are closed.