بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا

✒️:عین الحق امینی قاسمی

بیتے دنوں میں کئی عظیم شخصیتیں ہم سے رخصت ہوگئیں ،ہر آنے والی صبح، موت کی ایک خبر کے ساتھ نمودار ہورہی ہے، اسی لئے متعدد علماء ربانین نے رواں برس کو "عام الحزن” قرار دیا ہے ۔ ان اللہ والوں کے سفر آخرت نے دلوں کو ہلا کر رکھ دیا ہے ،ایک کا غم غلط ہونے سے قبل دوسرے کی وفات حسرت آیات کی خبر سے جہاں ان کی یادیں تڑپاتی ہیں وہیں ان کے گذرجانے سے مختلف شعبوں میں ایک لانباخلا ہوتا جارہا ہے جو بظاہر پر ہوتا ہوا نظرنہیں آتا، جس سے صدموں کی کیفیت دوچند ہوتی جاتی ہے ۔ ان جدا ہونے والی شخصیتوں میں یوں تو کئی ایسی ہستیاں ہیں جن کی خوبیوں کو اگر گنا جائے تو احاطہ مشکل ہے ،مگر خاص طور پرجمعیہ علماء اتر پردیش کے صدر ، قاضی شہر کان پور ،ملت اسلامیہ کا جانباز خادم حضرت مولانا متین الحق اسامہ قاسمی علیہ الرحمہ اور داماد شیخ الحدیث ،ناظم اعلی جامعہ مظاہر علوم سہارن پور حضرت مولانا سید سلمان صاحب مظاہری علیہ الرحمہ کی وفات نے بہتوں کو سکتے میں ڈال دیا ،قضاء و قدر کے فیصلے نے اچھے اچھوں کو دم بخود کرتے ہوئے بے ساختہ یہ کہنے پر مجبور کردیا کہ۔الہی ماجرا کیا ہے ،ابھی جاگتے تھے ابھی سوگئے یہ ۔
ان دونوں شخصیتوں کی ایک مشترکہ خوبی پر اگر باریکی سے غور کریں تو معلوم ہوتا ہے کہ سمت سفر چاہے ان سبھوں کی الگ الگ رہی ہوںمگر منزل سب کی ایک تھی اور اس منزل کو پانے کے لئے ان دونوں بزرگوں میں ایک بڑی خوبی تھی ” کمال جہد وزہد ” جد وجہد انہوں نے کچھ پانے کے لئے بھی کی ، پاکر بچانے کے لئے بھی کی اور تادم آخر ملت اسلامیہ کو دینے اور انہیں دینے والا بنانے کے لئے بھی کرتے رہے ۔ اس عظیم راہ میں انہیں جو دشواریاں آئیں ان دشواریوں کو وہ اپنے مولی کو منانے کے لئے صبر و شکر کے ساتھ انگیز کرتے رہے ۔
مولانا اسامہ قاسمی صاحب جد و جہد اورزہد وقناعت کے حوالے سے نہایت ہی جانباز آدمی تھے اور دھن کے پکے لگن کے سچے تھے، کہیں سے بھی وہ آلسی نہیں تھے ، اگر مگر سے نکلنے کا قطعاً ذہن نہیں رکھتے تھے،کام اور طریقے کی حکمت ذہن میں بیٹھ جانے کے بعد وہ رکنے سونچنے اور ٹھٹھکنے کے قائل نہیں تھے، بات سمجھ میں آجانے کے بعدشش وپنج ان کے یہاں تھی ہی نہیں ، وہ سچ مچ اٹھ باندھ کمر کیوں ڈرتا ہے، پھر دیکھ خدا کیا کرتا ہے ،کا عملی نمونہ تھے ، جسم وجثہ اور مختلف امراض ،ان کے چٹانی عزائم کے سامنے دور سے بھی نہیں پھٹکتے ،وہ بلند حوصلگی کے ساتھ سفر بھی کرتے تھے اور لانبے سے لانبے سفر کے باوجود ان کی انقلاب آفریں گفتگو میں تعب وتھکن کا احساس تک نہیں ہوتا ،وہ جوبولتے تو باتیں سیدھے دل میں اتر تیں اور فوری عمل پر ابھارتیں ،ان کے حسن بیان سے ان کی فراست ،قابلیت ، عزیمت ، اسلامی دعوت اوربامقصد و باکمال نظامت کی پرتیں واہوتی رہتی تھیں۔
جہد وزہد کے حسین سنگم کے طور پر ان کی عملی زندگی خردوں کے لئے نمونہ ہے ،یقینا جب بندہ اللہ کی رضا اور اس کی خوشنودی کے لئے کام کرتا ہے تو اللہ کا بھی محبوب بن جاتا ہے اور اللہ والوں کے لئے بھی …. انسانوں میں نسبت بھی تبھی کام کرتی ہے جب نسبت کو بچانے کا جذبہ بھی ہو ،یہ الگ بات ہے کہ صاحب نسبت کے لئے مرحلوں سے جلد گذرنا اوروں کی بنسبت ذرا آسان ہوتا ہے ۔کمال کی بات یہ ہے کہ مولانا میں دونوں خوبیاں تھیں، انھیں نسبت بھی حاصل تھی اور اس کو بچانے کا عالی جذبہ بھی تھا ،اس لئے خود اعتمادی اور اعلی ظرفی سے میدان فتح کرجاتے تھے ۔خود اعتمادی ،اعلی ظرفی ، حوصلہ ،جذبہ جہد وزہد ہوتو عزیمت کی راہ ان کے لئے آسان ہوتی جاتی ہے ، اور وہ کہہ اٹھتا ہے میری نماز ،میری قربانی اور میری زندگی وموت سب اللہ کے لئے ہے اور اس کی مرضی کے تابع ہے ۔ایسے ہی لوگوں کے بارے میں کہا جاتا ہے :
وہ ہند میں سرمایہ ملت کا نگہباں۔
مولانا سیدسلمان صاحب مظاہر ی علیہ الرحمہ ناظم اعلی مدرسہ مظاہر علوم سہارن پور بھی بہت سی خوبیوں کے مالک تھے ،ان کی ایک بڑی خوبی یہ تھی کہ وہ بھروسہ مند انسان تھے ،ان کی بھروسہ مندی کی واضح علامت یہ تھی کہ وہ حضرت شیخ کے معتمد خاص تھے ، بھروسہ مند ہونے کے لئے بھی زندگی میں مختلف مرحلوں سے گزرنا پڑتاہے اس درمیان ایک دشوار گذار مرحلہ وفاداری کا بھی آتا ہے ،اس سے گذرے بغیر "معتمد خاص اور تعلق خاص” کا مرحلہ آتا ہی نہیں ،وفاداری کا لفظ جتنا بولنے میں آسان اور خوبصورت ہے ،عملا اس سے زیادہ مشکل ہے اور تکلیف دہ ہے ، اسی لئے کم لوگ ہی انسانوں کے بیچ اس منزل کو طئے کرپاتے ہیں ،حالاں کہ یہی راہ افادہ اور استفادہ کے لئے سب سے سہل ہے ۔اندازہ نہیں ہوپاتا ہے کہ مولانا سلمان صاحب نے اس منزل کو پانے کے لئے زندگی میں کتنی مشکلات کا سامنا کیا ہوگا ،کتنی بار انا اورخواہشات کو کچلا ہوگا اور دلوں کو راضی برضا کیا ہوگا ،چوں کہ بہت آساں نہیں ہے رازداں بننا ،ناممکن نہیں تو مشکل ضرور ہے وفادار ہونا اور بہت صبر آزما دور ہے املا نویسی کا کام کرنا ،خوش قسمت ہوتے ہیں ایسے لوگ جو بڑوں کی پیشانی کی لکیریں دیکھ کر نہاں خانہ دل میں اتر نے کی صلاحیت پالےتے ہیں اور وہ تربیت وبصیرت کی نگاہ سے محبوب کےدل کی کتاب پڑھ جاتے ہیں ،بلاشبہ مولانا سلمان صاحب نے ان تمام مرحلوں سے گذرنے کی صلاحیت اپنے اندر پیدا کی اور عملا نئی نسل کو بتا گئے کہ: منزل کو میری دیکھ کر حیراں تو ہیں سب لوگ ،دیکھے نہ کسی نے بھی مرے پاؤں کے چھالے۔
مگر ناظم صاحب نے ہزاروں مشکلات کا گھونٹ پی کر بھی بالآ خر اعتماد کی وہ منزل پالی تھی ،جہاں شیخ نے بھی خوش ہوکر اپنی نور نظر کو ان کے عقد نکاح میں دے کر ان کی وفاداری کا نہ صرف حق ادا کردیا ،بلکہ جمال روحانیت ا ورکمال علم وعرفاں کا وہ کلاہ افتخار بھی بخش دیا جس نے ” لاکھوں میں انتخاب کے قابل بنا دیا ” احیات مستعار کے آخر لمحےتک وہ حضرت شیخ کے علمی وروحانی جانشیں بھی رہے اور جامعہ مظاہر علوم کے باغباں اور ناظم اعلی بھی …
نئی نسل کو ان شخصیتوں کے نقوش کا حامل ہونا وقت کی ضرورت ہے ،ان کے چلے جانے سے جو خلا پیدا ہوگیا ہے ،اس کی بھر پائی تبھی ممکن ہے جب ہم ان کے کاموں ،عادتوں اور منصوبوں کو عملی زندگی میں لائیں گے ، اور جس طرح انہوں جد وجہد اور زہد و قناعت کے ذریعے آسماں کی بلندیوں کو چھونے میں حکمت ،دانائی ،صبر وتحمل ، وفاداری ،علم ومطالعہ اور فکر ولگن سے کام لیا ہے ،ہمیں بھی عیش پسندی ، خاطر داری ، ذاتی منمانی ، ترش مزاجی، بدخیالی ،خود پسندی، دل بیزاری کے خول سے نکل کر اہل اللہ واساطین علم وفن کی قدرو منزلت اور تواضع وانکساری کی خوبیوں میں ڈھلنا ہوگا اور مرشد گرامی قدر، امیر شریعت بہار اڑیسہ جھارکھنڈ ،مفکر اسلام حضرت مولانا سید محمد ولی رحمانی صاحب( دامت برکاتہم جنرل سکریٹری آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ) کی زبان میں” انسان کھو کر پاتا ہے، انسان جب اپنی یاد، دنیا کی یاد،دنیا والوں کی یاد، نعمتوں کی یاد، راحتوں اور کلفتوں کی یاد، ساری یادوں کو دل سے نکالتا ہے اور خدا کی یاد سے دل آباد کرتا ہے تو یقین کیجئے! دنیا اس کے قدموں میں ہوتی ہے اور وہ خدا کے در پہ سجدہ ریز ہوتا ہے۔میرے ساتھ ساتھ چلے وہی جو خار راہ کو چوم لے ۔جسے کلفتوں سے گریز ہو ،وہ میرا شریک سفر نہ ہو”……
…………………………………………..
* ناظم معہد عائشہ الصدیقہ ،رحمانی نگر ،کھاتو پور بیگوسراے بہار

Comments are closed.