صدراردوغان کے عزم وہمت کوسلام

عبدالرافع رسول
عزائم کوسینوں میں بیدارکردے
نگاہ مسلمان کوتلوارکردے
1299 میں قائم ہوئی سلطنت عثمانیہ’’خلافت عثمانیہ‘‘22ملین مربع کلومیٹر پر پھیلی ہوئی ایک مہتمم بالشان سلطنت تھی۔یہ سلطنت مصر، یونان، بلغاریہ، رومانیہ میسوڈونیا، ہنگری، فلسطین، اردن، لبنان، شام، عرب کے بیشتر علاقوں اور شمالی افریقہ کے بیشتر ساحلی علاقوں تک پھیلی ہوئی تھی۔لارنس آف عربیہ کے زیرقیادت صلیبیوں کی سازش اورشریف مکہ جیسے اپنوں کی غداری کے باعث یہ عظیم الجثہ سلطنت 1923میں ختم ہوئی یایوں کہہ لیجئے گاخلافت عثمانیہ کاسقوط ہوا۔2023میں پورے ایک سوسال ہونگے یایوں کہہ لیجئے کہ پوری ایک صدی مکمل ہوگی کہ جب مسلمانوں سے خلافت چھین لی گئی جوآج تک بحال نہ ہوسکی۔
خلافت عثمانیہ کے سقوط کے ساتھ ہی1924میں لادین نظریات کے حامل کمال اتاترک کوخلافت عثمانیہ کے وفاق اورمرکزترکی میں ایک بڑی اورگہری سازش کے ساتھ برسراقتدارلایاگیاتواس نے خلافت عثمانیہ کی راکھ پرایک لادین ترکی کی بنیادرکھی اورترکی سے اسلام کو العیاذ باللہ نکالااوراسے بے دخل کردیا۔ اتاترک نے خلافت کو برخاست کیا، دینی عدالتیں ختم کیں اور تعلیمی اداروں کولادین بنایا۔عربی میں اذان دینے پریہ کہتے ہوئے کہ یہ عربیوں کی زبان ہے پابندی عائدکردی، عربی رسم الخط کو ترک کر دیا اور ترکی کے لیے رومن رسم الخط کو اپنایا۔ حجاب کو ممنوع ممنوع قراردیا۔ ترکی کی بیٹیاںبا حجاب ہوکر یونیورسٹیزمیں داخلہ ملتاتھا۔خلافت کے حامی علماء ،مفتیان ،اسلامی اسکالرزاوردینی شخصیات کوسولی چڑھایاگیا۔ہرطرف لادینیت کادوردوہ شروع ہوا۔جس ترکی میں ہرطرف تلاوت قرآن کی محفلیں رحمت کے نزرول کاباعث بن رہی تھیں وہاں ننگی طوائف کے ناچ گانوں نے اودھم مچائے رکھی،جہاں دینی اجتماعات منعقدہواکرتے تھے ،وہاں شراب وشباب کی محفلوں نے ڈھیرے ڈال دیئے، جہاں شب بیداراورتہجدگذاررات کااکثروقت مساجدمیں گذارتے تھے،وہاں نائٹ کلبوںمیں رات بھربسیراہورہاتھا۔بدکاری اورشراب اس قدرعام ہواکہ گناہ سے بچنامحال تھا۔المختصر!ترکی میں ابلیس اوراسکے چیلوں کایہ ننگاناچ بلاروک ٹوک جاری رہااوراس کے باعث ترکی میں پوری طرح خاکم بدہن اسلام کی بیخ کنی ہوتی رہی اورایک دیندارمعاشرہ پوری طرح لادینیت کی آکاس بیل کی لپیٹ میں آگیا۔
ترکی جب مدت مدیدتک لادینیت میں لت پت رہاتواس غلاظت سے پناہ مانگنے والے نیک سیرت لوگوں کی دعائیں رب نے قبول فرمائی اورپہلے میندرس ان کے پھانسی چڑھنے کے بعد نجم الدین اربکان اورپھررجب طیب اردوان کی شکل میں وہ قائدین فراہم کئے کہ جنہوں نے لادین ترکی کوپھرسے اسلام کی چھائوں میں لانے کے لئے بے پناہ تگ ودواورقابل ستائش جدوجہدکی۔ترکی کی لادین نظریات کی حامل فوج نے جناب میندرس اورجناب نجم الدین کوقطعاََآگے بڑھنے نہیں دیا لیکن رب کاشکرہے کہ جناب اردوان کم وپیش18برسوں سے ترکی کوبتدریج اسلام کی رحمت کی چھائوں کی طرف کھنچتے چلے جارہے ہیں۔گرچہ انہیں بھی قدم قدم پرسخت ترین رکاوٹوں کاسامناہے لیکن لگ رہاہے کہ اللہ ان کاحامی ومددگارہے ۔جولوگ صدراردوان پریہ کہتے ہوئے تنقیدکررہے ہیں کہ ترکی نے کیوں اسرائیل کوتسلیم کیا،ترکی کیوں امریکہ کے نیٹو اتحادکاحصہ بناہواہے اورترکی میں اب بھی نائٹ کلب اورشراب خانے قائم ہیں ۔
اول تواس لعنت کوشروع کرنے والے جناب اردوان نہیں بلکہ وہی لادین نظریات کے حاملین ہیں کہ جواتاترک کے دست وبازوں بنے رہے اورجناب اردوان ان سے بتدریج ترکی کی جان چھڑارہے ہیں دوئم یہ کہ ایسے سوالات اٹھانے والوں کوان شدائدکاادارک نہیں جوکمال اتاترک اوراس کے دست وبازوبننے والی ترکی فوج کے ہاتھوں انجام پائے۔واضح رہے اتاترک کے کھونٹے اورکانٹے اب بھی ترکی میں پیوستہ ہیں اورنہایت گہرائی کے ساتھ پیوستہ ہیں انہیں نکالنے اوردفع کرنے میں صدراردوان اورانکی نیک سیرت ٹیم کوبہت وقت درکارہے ۔دعاکریں رب کے سامنے دامن پھیلائیں تاکہ رب الکریم انہیں یہ موقع عنایت فرمائے۔یہ سب رب الکریم کی عنایت اوراس کے فضل وکرم سے ہی ممکن ہے ،کیوںکہ اس حوالے سے پہلے ہی امریکہ اور یورپ کے پیٹ میں مروڑ پڑچکے ہیں لیکن اب انکے شانہ بشانہ عرب بادشاہتیں بھی صدرارداون کے دشمنی میں آگے بڑھ رہی ہیں اورصدراردوان کی تمام کاوشوں اورانکی محنت پرتیزآب پھیرناچاہتی ہیں۔لیکن ان سب کویادرکھناچاہئے کہ تر کی نے بالآخر اس مذہب دشمن سیکولر ازم سے نجات پالی آیا صوفیہ میں اللہ اکبر کی صدا گونجی تو رجب طیب اردوان نے یہ بھی اعلان کیا کہ اگلی منزل مسجد اقصی کی آزادی ہے۔
صلیبیوں،منگولوں کے ساتھ جنگوں پرمشتمل ڈرامہ ارطغرل کے اجرااوربالخصوص 86برس کی طویل مدت کے بعدمسجد آیاصوفیہ میں اللہ اکبراللہ اکبرکی صدائوں سے شروع ہونے والی اذان پوری دنیاکے دروبام سے ٹکرائی اورنمازجمعہ کی ادائیگی سے چاردانگ عالم مسلمانوںمیں خوشی کی لہردوڑی اوران میں دین پرمرمٹنے کے حوالے سے جوجوش اورجذبہ پیداہورہاہے تو سوال یہ ہے کیا ایسے بہادرانہ اقدام سے صدراردوان خلافت عثمانیہ اورترکی کی عظمت رفتہ کی بحالی کے لئے کمربستہ ہیں؟یقیناایساہی ہے۔اگرچہ فوری طورپریہ آسان نہیں لیکن یہ سب رب الکریم کی مہربانی سے ہی ممکن ہوسکے گا۔اس حوالے سے واشنگٹن انسٹیٹیوٹ کے سکالر سونر کوگاپتے نے’’ دی نیو سلطان‘‘ کے نام سے جناب اردوان کی سوانح عمری لکھی ہے۔اس سوانح حیات میں انھوں نے لکھا ترک صدر کی خارجہ امور کی حکمت عملی کا ہدف یہ ہے کہ وہ مسلمان ہونے کے احساس تفاخر کو واپس لائیں۔ وہ سلطنتِ عثمانیہ کی ایک جدید شکل لانا چاہتے ہیں تاکہ ترکی اسلامی عظمت کا قائد بن سکے۔وہ لکھتے ہیں کہ جناب اردوان کی خواہش کے پیچھے ایک طویل ماضی ہے۔ ترکی کا سلطان چار صدیوں سے پوری اسلامی دنیا کا خلیفہ تھا۔ ان کی مذہبی قیادت کو سلطنت عثمانیہ سے باہرکی اسلامی طاقتیں بھی مانتی تھی۔لیکن جب پہلی جنگ عظیم میں برطانیہ کی مدد سے عرب میں سلطنت عثمانیہ کے خلاف بغاوت ہوئی تواس خلافت کے اس عظیم نظام کاخاتمہ ہو گیا۔
جناب اردوان 1994 میں اسلامی اقدارکی بحالی کے لئے استنبول کے پہلے میئر منتخب ہوئے ۔ اس کے بعد سے اپنے جلسوں میں وہ اکثر ترک قوم پرست مفکر ضیا گوکئی کے اس بیان کو دہراتے تھے کہ مساجد ہماری چھائونیاں ہیں، گنبد ہماری حفاظتی ڈھالیں ہیں، مینار ہماری تلواریں ہیں اور اسلام کے پیروکار ہمارے فوجی ہیں۔2016میں استنبول میں ایک تقریر کے دوران اردوغان نے کہا یہ خواتین کی ذمہ داری ہے کہ وہ ترک آبادی کو فٹ رکھیں۔ ہمیں اپنی اولادوں کی تعداد بڑھانے کی ضرورت ہے۔ لوگ آبادی میں کمی اور خاندانی منصوبہ بندی کی بات کرتے ہیں لیکن مسلمان اسے قبول نہیں کر سکتا۔ ہمارے اللہ اور نبی نے یہی کہا اور ہم اس راستے پر چلیں گے۔2003میں پہلی مرتبہ ترکی کے وزیراعظم بننے کے بعد اردوان نے نیو یارک ٹائمز کو دیئے گئے ایک انٹرویو میں کہا تھا میں کچھ بھی ہونے سے پہلے مسلمان ہوں اور بحیثیت مسلمان، میں اپنے مذہب پر عمل کرتا ہوں اور یہ میرا فرض ہے اور میں اپنے اس فرض اور ذمہ داری کو پورا کرنے کی کوشش کرتا رہوں۔کیسی دلربابات ہے کہ صدراردوان نے ترکی کوپھرسے اسلام کے باغ وبہارسے عطربیزکرنے کے لئے اپنے گھرسے شعائردین پرعمل کرنا شروع کیاان کی اہلیہ باحجاب ہیں جبکہ اپنی بیٹیوں کو تعلیم کے لیے انڈیانا یونیورسٹی بھیجا کیونکہ وہاں وہ حجاب پہن سکتی تھیں۔آج ترکی کے عوام مدت گذرجانے کے بعد ہی سہی لیکن اپنے اصل کی طرف لوٹ آئے اوراسلام کے شجرسایہ دارکے نیچے آکرسکھ کاسانس لیا۔
صدراردوان کے دوکام اوردو اقدام بڑے بامعنی ہیں ایک سلطنت عثمانیہ کے قیام پر مبنی ڈرامہ ارطغرل کوترکی کے سرکاری ٹی وی ’’TR1‘‘ پر نشر کرناجس کے پانچ سیزن آ چکے ہیں اور کل 448اقساط ہیں۔پہلے سیزن میں اناطولیہ میں صلیبیوں کے خلاف مہم ہے۔ دوسرے میں منگولوں کے خلاف مقابلہ، تیسرے میں مسیحی بازنطینیوں کے خلاف مقابلہ ہے۔ چوتھے سیریز میں سلجوق کی باہمی لڑائی اور پھر عثمانیہ کی تشکیل ہے۔پوری سیریز تاریخی حقائق سے قریب ترہے۔یہی وجہ ہے کہ مغربی میڈیا میں کہا جاتا ہے کہ ترکی کے قومی مزاج کو اس وقت کے مشہور ٹی وی شو سے سمجھا جا سکتا ہے۔ اہل ترکی کے ساتھ ساتھ چاردانگ عالم مسلمانوں کی طرف سے اس ڈرامہ کوپذیرائی ملی۔آج آپ کسی سے بھی یہ سوال کریں کہ ڈرامہ اارطغرل کے حوالے سے اگر آپ تین الفاظ میں بتائیں تو یہ تین لفظ اسلام کی عظمت، گھوڑے کی جہادی میدانوں میںٹاپ اور دشمنان اسلام کی گردنوں پرتلوار جواب دیں گے ۔ اس ڈرامہ میں یہ بتانے کی کوشش کی گئی ہے کہ ارطغرل اللہ کی راہ پر گامزن ہے اور اس پر عمل پیرا ہونا اللہ کے حکم پر عمل پیرا ہونا ہے۔ارطغرل عثمان، سلطنت عثمانیہ کے 45ویں سربراہ اور عبدالحمید دوم کے پوتے تھے، جو 1876سے1909تک سلطنت کے حکمران تھے۔ اگر 1923میں سلطنت عثمانیہ کا خاتمہ نہ ہوتا یا اس کی از سر نو تشکیل ہوتی تو ارطغرل عثمان اس سلطنت کے نئے سلطان ہوتے۔ترکی کے اس ٹی وی ڈرامہ میں عثمانیہ سلطنت کو اسلامی فخر اور کامیابی کے طور پر دکھایا گیا ہے۔
دوئم آیاصوفیہ کو86برس کے بعد پھرسے مسجدمیں بدل کر24جولائی 2020جمعہ المبارک کو اس عظیم الشان مسجدمیں جمعہ نمازکی ادائیگی۔جس انہماک کے ساتھ صدراردوان اس انتہائی دل آویز اورمقدس مجلس میں شریک رہے اس نے مسلمانان عالم کے جذبات کومہمیزبخشی۔ ایسے وقت میں جب عالم اسلام میں ایسی کوئی چیز نہیں جس پر امہ مسلمان فخر کر سکیں۔ ایک طرف مغربی ممالک کا تسلط بڑھتا گیا اور دوسری طرف مسلمانوں کو دہشتگردی سے جوڑ دیا گیا اور پوری دنیا میں اسلامو فوبیا مضبوطی سے ابھراتواس کشمکش میں بلاشبہ صدر اردوان نہ صرف اسلامی دنیا کی رہنمائی کرنا چاہتے ہیں بلکہ وہ یہ بتانے کی کوشش کر رہے ہیں کہ اسلام بہترین مذہب ہے۔
آیا صوفیہ کے حوالے سے عدالتی فیصلہ آنے کے بعد مسیحی آبادی میں ارتعاش پیدا ہوا مگر اس کی خوشنودی اور امریکہ و یورپ کے دبائو مدنظر رکھنے کے بجائے ترک صدر نے اپنا انتخابی وعدہ یاد رکھا اور فرمان رسول ص کی پیروی کی کہ کررہ ارض پر جہاں ایک بار سجدہ گاہ بن جائے تاقیامت مسجد ہی رہے گی اس کی حیثیت کو تبدیل نہیں کیا جا سکتا۔ ویسے بھی مسلمان کبھی اقتدار و دینوی مفادکے لئے دینی تقاضوں کو پس پشت ڈالتا ہے نہ بت شکنی چھوڑ کر بت گری پیشہ کرتا ہے۔ بیت المال کا پیسہ ایسی عمارتوں کی تعمیر پر ضائع نہیں کرتا جہاں بتوں کی پوجا ہو اور اللہ اکبر کی بجائے صدائے ناقوس گونجے ۔اقبال نے کہا تو قرطبہ کے بارے میں تھا مگر یہ صادق آیا صوفیہ پر بھی آتا ہے۔ پوشیدہ تری خاک میں سجدوں کے نشاں ہیں خاموش اذانیں ہیں تری باد سحر میں۔ آیا صوفیہ میں اللہ اکبر کی صدا گونجی تو توامریکہ سے یورپ اورنام نہادسیکولرمسلمانوں میںصف ماتم بچھ گئی رجب طیب اردوان کی مذمت کا آغاز ہو گیا۔لیکن وہ یہ بات یادرکھیں ترکی صدیوں سے مسلم ریاست ہے اور تا قیامت پنا اسلامی تشخص قائم رکھے گی ۔ان شاء اللہ
خلافت عثمانیہ پرتاریخ کے طالب علموں کے اذہان میںاٹھنے والے پیچیدہ سوالات پر اس امرکی نشاندہی ضروری ہے کہ ’’خلافت عثمانیہ ‘‘ عصری تقاضوں سے بے خبری اور اندرونی سازشوں سے زوال آشنا ہوئی شاہی محل سازشوں کا گڑھ تھا آخری امرا ء عیش و عشرت میں غرق اور سلطان امرا کے ہاتھوں یرغمال جن جرائم پیشہ یہودیوں کو مختلف ریاستوں نے عیاری اور مکاری سے تنگ آ کر جلا وطن کیا انہیں عثمانی سلطانوں نے پناہ دی اور یہ احسان فراموش ریاست کے خلاف سازشوں میں سرفہرست تھے مگر برطانیہ کی طرح خلافت کو رسمی اور نمائشی حیثیت میں برقرار رکھ کر جدید ریاستی نظام وضع کیا جا سکتا تھا کہ مسلمانوں کے اتحاد کی یہ علامت برقرار رہتی اورممکن تھاکہ اس میں سدھارآجاتاکیونکہ اب مسلمان پہلے سے زیادہ دین کی طرف راغب نظرآرہے تھے ۔لیکن کمال اتاترک اور ان کے ساتھیوں نے نہ ناصرف خلافت کی ہر علامت کو برباد کیا۔
کمال اتاترک کے ایڈیشن کے اجرا کے لئے اس خطے کے اہم مسلمان ملک پاکستان میں دومرتبہ کوششیں ہوئیں لیکن ناکام ہوئیں۔سکندر مرزا سے لے کر جنرل پرویز مشرف تک مختلف حکمرانوں نے حیلوں بہانوں سے مذہب کو طاقت کے ایوانوں سے بے دخل کرنے کے لئے ترکی کے کمال ازم کا ڈنکا بجایا مگرپاکستان باقی اورموجود ہیں۔مشرف نے صاف الفاظ میں اعلان کیاکہ ’’اتارک اس کآئیڈیل ہے‘‘ لیکن اس کے ساتھ ہی مشرف بربادہوا،ایسابربادہواکہ جس پاکستان کے وہ آرمی چیف اورصدررہے اس میں اس کے رہنے کے لئے کوئی جگہ نہیں حتیٰ کہ چارگزقبربھی اس لئے دستیاب نہیں۔ اس ملک کے غیور جج صاحبان نے انہیں سومرتبہ پھانسی پردینے اورپھراسکی لاش اسلام آبادکے ڈی چوک میں لٹکائے رکھنے کے احکامات صادر کئے ہوئے ہیں۔ یہ اس امرپرگاہی ہے کہ پاکستان ترکی نہیں بن سکتاکیونکہ اس ملک کی جڑ کلمہ طیبہ سے جڑی ہوئی ہے اس طرح اس کے خمیر اور عوام کے ضمیر میں اسلام رچا بسا ہے اور گناہ گار سے گناہ گار مسلمان بھی توہین دین ،توہین رسالت پرجان دینے کے لئے ہمہ وقت تیارہے اورپاکستان کو ریاست مدینہ کے طرزپراستوارکرنے کا خواہاں اورخواہش مند ہے۔وقت لگ سکتاہے لیکن یہ خواب ضرورشرمندہ تعبیرہوکرہے گا۔ان شاء اللہ العزیز
Comments are closed.