مولانا وصی احمد قاسمی رحمۃ اللہ علیہ:یادیں اور کچھ باتیں ۔۔۔۔۔۔

مفتی احمدنادرالقاسمی
اسلامک فقہ اکیڈمی انڈیا
آج جس اخلاق وکردار کے پیکر اور سراپا خلوص ومحبت شخصیت کی یاد میں یہ چند سطور سپرد قرطاس کررہاہوں،ان سے میری شناسائی ۲۲سال پرانی تھی۔ان کو پہلی بارمیں نے۱۹۹۹میں ذاکرباغ ۱۶۶۔بی نئی دہلی میں جہاں وقت کے مایہ ناز فقیہ قاضی مجاہدالاسلام قاسمی رحمۃ اللہ علیہ بانی و جنرل سکریٹری اسلامک فقہ اکیڈمی انڈیا وصدر آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ مقیم تھے ،دیکھاجب وہ حضرت سے بغرض ملاقات ومزاج پرسی تشریف لائے اور باہر کے کمرے میں تشریف فرما ہوئے۔ ان دنوں فقہ قضائی اور اسلامی قانون کی مغلیہ دور کی اس زمانے کےمشہور قاضی اشفورقانی کی مشہور کتاب ”صنوان القضا وعنوان الافتا “ کے قلمی نسخہ پر تحقیق وتحشیہ کا کام چل رہاتھا اوراس کی چاروں جلدیں قریب التکمیل تھیں ،ہم لوگ چند رفقا اکیڈمی اس کام میں مصروف تھےجوکتاب مکمل ہونے کے بعد ”وزارت اوقاف کویت“ سے شائع ہوئی ۔
وہاں مہمانوں کا آناجانا تو لگاہی رہتاتھا۔جب کوئی مہمان آتا تو حضرت کو اطلاع دی جاتی اورپھر اندر سے بلاوا آتاتو مہمان حضرت سے ملنے تشریف لے جاتے ۔اس سے پہلے وہیں بیٹھ کر انتظار کرتے اور وہیں ایک کنارے ہم لوگ بھی مصروف کار رہتے ۔جب تک اندر سے حضرت کے خادم آتے یا انتظار کے لئے کہاجاتا اس درمیان بہت سے مہمان سے ہم لوگوں کا بھی تعارف ہوجاتا ۔جو مہمان اس کتاب کے بارے میں دریافت کرتے توہم لوگ اس کتاب کا مختصر تعارف اور بایوگرافی مہمان کے سامنے رکھ دیتےاور ہم لوگوں کا تعارف چاہتے تو اپنے بارے میں بتادیتےاور پھر ماشا ءاللہ الحمدللہ پر بات تمام ہوتی ۔قصہ مختصر یہ کہ اس طرح ایک دن مولاناممدوح سے بھی ملاقات اور تعارف کا شرف حاصل ہوا ۔اس کے بعد جب بھی دہلی آتے اور فقہ اکیڈمی کے دفتر میں آناہوتاتو ملاقاتیں ہوتی رہتیں ۔
مولانا سے ملاقات اور گفتگو سے اندازہ ہواکہ مولانا بڑے خوش اخلاق ،نرم مزاج اور بڑے وسیع القلب تھے اور طبیعت میں بڑی سخاوت تھی ۔ان کی ان خوبیوں سے تو میں پہلی ملاقات میں ہی آشناہوگیاتھا اور میرے ذہن ودماغ میں ان کی مقناطیسی شخصیت نے کافی جگہ حاصل کرلی تھی اورتعلقات استوار ہوگئے تھے جومزید پختہ سے پختہ ترہوتے گئے۔میں بھی ان سے اچھی طرح واقف ہوگیا اور وہ بھی مجھے نام سے جاننے اور پہچاننے لگےجومیرے لئےبڑی خوش بختی کی بات تھی کہ اتنا عظیم اور مصروف شخص جن کی ملاقت ہرروز ان گنت لوگوں سے ہوتی ہو وہ ہم جیسے طالب علم کو نام ونسب کے ساتھ دل میں جگہ دئے ہوئے ہیں۔یہ میرے لئےسعادت سے کم نہیں تھا۔
ملیشیا میں مولاناسے ملاقات:
حضرت سیدنا عمر فاروق رضی اللہ تعالی عنہ کا یہ قول بطور اصول مشہورومعروف ہے ’’جب عدالت انصاف میں کسی شخص کے اچھے ہونے کی شہادت دی تو آپ نے جرح کرتے ہوئے پوچھا کہ آپ نے اس کے ساتھ سفر کیا ہے۔؟ اور اسکے بعد پھرمسجد میں حاضری سے متعلق سوال اور پھر یہ سوال کہ آپ نے کوئی لین دین کا معاملہ کیاہے ؟گویایہ سوال ایک پیرامیٹر کا اظہار تھا۔خلیفہ دوم رضی اللہ عنہ کے اس سوال نے قانون و انصاف اوردنیاکے عدالتی نظام کو جرم کی تہ تک جانے اور انصاف کے تقاضے کو پوراکرنے کا اصول دیا جوآج بھی وکیل استغاثہ کی طرف سے گواہان سے جرح کی شکل میں رائج ہے۔
خیر بات سفر کی تھی ۔اب سے کوئی چارسال قبل میں بکار آفس سنگاپور اور ملیشیا کے سفر پہ تھا اور وہ بھی ان دنوں ملیشیا آئے ہوئے تھے۔جب ان کو معلوم ہوا کہ میں بھی اس وقت ملیشیا میں ہوںتو انھوں نے بڑی فکر مندی کے ساتھ مجھ سے ملنے اور حالات دریافت کرنے کی کوشش کی ۔میرے ایک اور دوست جو دہلی ہی میں ہوتے ہیں ان سے حضرت کی دید شنید تھی ۔ان سے دریافت کیا ۔انھوں نے میرے بارے میں بتایا کہ مسجد انڈیا میں نماز کے لئے آتے ہیں ۔چنانچہ ظہر کی نماز میں مسجد انڈیا وہ آئے اور میں بھی آیا ۔نماز کے بعد مسجد میں تو ملاقات نہیں ہوسکی البتہ مسجد کے باہر جب میں نکلا تو نہایت صاف ستھرے کرتے پاجامے جالی دار دھاگے کی ٹوپی اور اس پر سفید رومال ،چہرے کا پرنور گورارنگ،جودھوپ کی کرنوں کی وجہ سے کچھ زیادہ ہی جاذب نظر لگ رہاتھا۔ایسا محسوس ہوا جیسے کوئی نوری فرشتہ مسکرا تا ہوا میری نظر کے سامنے ہے۔میں نے سلام میں پہل کی۔انھوں نے پہچان تو دیکھتے ہی لیاتھا۔بڑے پرمسرت انداز میں جواب دیا ۔معانقہ کیا اور پھر ہم دونوں ایک دوسرے کی خیریت دریافت کرنے میں مصروف ہوگئے۔انھوں نے اکیڈمی اور رفقا کے حالات دریافت کئے ۔حضرت جنرل سکریٹری مولاناخالد سیف اللہ رحمانی صاحب دامت فیوضہم کی خیریت باری باری سے پوچھتے گئے اور میں نے بھی بتانے میں کوئی بخالت نہیں کی۔انھوںنے اپنی مخلصانہ خواہش کااظہار کیا کہ میں ان شا ء اللہ اپنے متعارف حلقہ میں آپ کا اور اکیڈمی کا تعارف کراؤں گا ۔ان شاءاللہ ۔
مولاناکے اس حسن اخلاق کا فوری فائدہ تو یہ ہواکہ طبیعت پر جو اجنبیت اور مایوسی کا بوجھ تھا وہ ہلکا ہوا اوراجنبیت کا احساس جاتارہا۔ ساتھ ہی میں اس بات سے متاثر ہواکہ اجنبی جگہ پر اور خاص کر ملک سے باہر ہرشخص کو اپنی فکر رہتی ہے ۔لوگ نظریں چراتے ہیں۔مگر انھوں نے میرے ساتھ نہایت ہی فراخ دلی کامظاہرہ کیا۔اس سے یہ بھی اندازہ ہواکہ ان کے اندر ہر دینی ادارے کی ترقی کا خیرخواہانہ جذبہ تھا ۔وہ ہر ادارےکو ترقی کرتاہوا دیکھنا پسند کرتے تھے۔وہ دن ہے اور آج کا دن ہے ۔میری ہمیشہ خواہش رہتی تھی کہ وہ جب بھی دہلی آئیں تو مجھے ملاقت کا شرف بخشیں مگر اس کے بعد دوبارہ یہ سعادت میرے حصہ میں نہ آسکی اور آخر قضا نے اپنا کام کیا اور حسن اخلاق کا یہ پیکرہمیشہ کےلئے اپنے چاہنے والوں کو داغ مفارقت دے گیا۔اور میری یہ تمنا ادھوری رہ گئی ۔
”پھرنہ آیاوہ کبھی لوٹ کے جانے والا“
”فاإناللہ وإناإلیہ راجعون“۔
خوبیاں اور کارنامے:
مولانا اپنی ذات میں ایک انجمن تھے ۔قوم کے بچوں کے بڑے خیرخواہ اور شفیق تھے۔عزم وحوصلہ کے کوہ گراں تھے۔ہر سمت مخالف سے آنے والے طوفان بلاخیز کا پوری قوت کے ساتھ مقابلہ کرنے کی ہمت رکھتے تھے۔وہ گردش ایام کے تھپیروں کے آگے سینہ سپر نہیں ہوتےتھے۔جس کاجیتاجاگتا ثبوت چشمہ فیض ململ اور لڑکیوں کا اقامتی مدرسہ ہے۔
مولانا کے اندر جہاں یہ مردانہ اور مومنانہ خوبیاں تھیں وہیں اپنی بات منوانے اورسامنے والے کوقائل کردینے کا غضب کا ملکہ تھا۔جن سے ایک بار ملتے ان کے دل ودماغ پر اپنی طلسمی شخصیت کی چھاپ چھوڑ جاتے تھے۔ وہ ادارے کو مخلصانہ جذبہ سے بلندیوں کی اونچائی تک لےجاناچاہتے تھےمگران کی عمر نے وفانہیں کیا۔ان تمام چیزوں کے ساتھ ساتھ کریمانہ اخلاق،تقوی و للہیت اور استغنا اس پر چارچاندلگادیتے تھے۔ململ اور اسکے اطراف کے لوگ اور مدرسہ چشمہ فیض کا ذرہ ذرہ ان کی جدائی میں برسوں روئیں گے،مگر ہماراایمان ہے کہ جتنااللہ تعالی جس شخص سے کام لینامقدر کردیاہے وہ ضرورہوتاہے۔اس بات سے تسلی ہوئی کہ انھوں نے اپنے حصہ کاکام کردیا اورباقی آنے والی تازہ نسل کے حوالہ کرتے ہوئے یہ کہ کر اپنی آنکھ ہمیشہ کےلئے بند کرلی۔:
”اے اہل ہنر آؤ یہ جاگیر سنبھالو
میں جذبہ تعمیر چمن بانٹ رہاہوں“
آج جب میں مولاناکی یاد میں یہ تحریر سپردقرطاس کررہاہوں ،میرے دل ودماغ پریہ بات ردش کررہی ہے کہ واقعی یہ۲۰۲۰ ۔اور۱۴۴۱ ھ کا سال امت مسلمہ کے لئے حزن وملال اور خسارے کاسال ہے ۔اس تین ماہ کے قلیل عرصہ میں برصغیر میں سوسے زیادہ علمی،عبقری اورروحانی شخصیات اس دار فانی سے رخصت ہوئیں ۔دیگر ملی اور دینی شخصیات الگ ہیں ۔اورحدیث رسولﷺ”إن اللہ لایقبض العلم انتزاعا ینتزعہ۔من العباد ولکن یقبض العلم بقبض العلما ٕ۔حتی إذا لم یبق عالما اتخذ الناس رٶسا جھالا۔فسٸلوا فأفتوا بغیر علم فضلوا وأضلوا“۔(بخاری۔حدیث نمبر ١٠٠۔مسلم حدیث نمبر ٦٩٧٤)لفظ بہ لفظ ثابت ہوتے دکھائی دے رہے ہیں ۔اللہ اس امت کی حفاظت فرما۔
علما ءبہار کی دینی جد وجہد:
آزاد بھارت کا صوبہ بہار یوں تو اپنی دینی وایمانی غیرت اورملی حمیت میں نمایاں نام رکھتاہے کسی سے پیچھے نہیں ہےاوراس نے ملت کو بڑے قدآور علما اور رجال کار دیے ہیں مگر کرب کے ساتھ یہ کہ رہاہوں کہ یہ ریاست جتنی مردم خیزہے اتنی ہی رجال خور بھی ہے۔اس سرزمین پر بڑے بڑے باصلاحیت علما اور اہل علم ناقدری،وسائل کی کمی اور معاشی بدحالی سے دوچار ہوکر خاک ہوگئےاور ملت کو اپنی گو نا گوں صلاحیت سے فیضیاب اور سیراب نہ کرسکےبلکہ بہت سی امنگیں ،تمنائیں اوراعلی نفیس جذبات اپنے سینوں میں لئے دفن ہوگئے۔
یہ اعتراف حقیقت ہے کہ اگر آپ ۸/۹۔دہائیوں کاجائزہ لیں تو آپ کو معلوم ہوجائےگاکہ تقریبا ۹۰ فیصد علما اور اس سرزمین سے تعلق رکھنے والی علمی شخصیات کے علم وصلاحیت اور کام میں نکھار دوسری ریاستوں میں رہ کر آیا ۔ان کو عوامی خدمت کامیدان بھی ملا اور خوابیدہ صلاحیتوں میں جلاپیداکرنے کے مواقع بھی میسر ہوئے۔اس لئے آپ دیکھتے ہوں گے کہ ملک کے اکثر صوبوں میں مدرسین سے لیکر مساجد کے أئمہ اور مؤذنین اور گھروں میں بچوں کو قران ودینیات کے ٹیوشن تک پڑھانے والے افراد اسی ریاست بہار کے ملیں گے۔۔اور ان شخصیت سے جوفیض خود ان کی ریاست کے ملی وقومی افراد کوپہونچناچاہیے وہ دوسری جگہوں پر پہونچ رہاہے ۔اور مدارس میں تیار ہونے والے افراد کی تیاری اور تربیت کا مقصد ہی فوت ہورہاہے نہ تو مدارس اپنی صحیح سمت جارہے ہیں اورنہ مدارس کے فارغین ۔اس لئےاکثر آپ یہ بحث پڑھتے ہوں گے کہ مدارس کا نصاب بدل دیاجائے، ان کو یونیورسٹی سے ہم آہنگ کیا جائے۔چونکہ مقصد سے ہم ہٹے ہو ئے ہیں اور مدارس کی تعلیم کوبھی اسی آینے میں دیکھے کی کوشش کررہے ہیں ۔یعنی سرکاری ملازمت کا حصول ،تعلیم اور صلاحیت میں اضافہ اور نکھار کے نقطہ نظر سے بات نہیں کہ رہے ہیںبلکہ حصول معاش کے مواقع کے مدنظر کہ رہے ہیں۔اب ایک طرف جبکہ یہ رجحان تیزی کے ساتھ آگے بڑھ رہاہے۔اور مدارس کا اصلاحی اورتعمیری نظریہ کمزور ہوتاہوا دکھائی دے رہاہے ۔اور حکومت کی ایجنسیاں بھی یہی چاہ رہی ہیں کہ مدارس کی اس اصلاحی سوچ کوتبدیل کرکے معاش کے حصول کی ڈگر پہ لایاجائےاور مسلمانوں کے ایک طبقہ کی طرف سےاسے تقویت اورمورل سپورٹ بھی مل رہاہے ۔مستقبل میں یہ رجحان کیا گل کھلائےگا ۔مدارس cbsceسے جڑجائے گا یا اس کا مذھبی اور اصلاحی کیریکٹر باقی رہے گا یانہیں ۔اللہ ہی علیم وخبیر کومعلوم مگر آثار اچھے نہیں ہیں۔اللہ حفاظت فرمائے۔
ایسے حالات میں ملت کے وہ افراد خواہ کسی بھی صوبہ میں ہوں اگر مدارس کوزندہ رکھنے کی جدجہد کررہے ہیں تو یقینا اس دورانحطاط میں عظیم کارنامہ انجام دے رہے ہیں۔لوگوں کو اپنے دل ودماغ سے اس خیال کو نکال دیناچاہیے کہ یہ علما کی مجبوری ہے ۔نہیں یہ ان کا اضطراری عمل نہیں بلکہ اختیاری اور دین کی بقا وتحفظ کے جذبہ سے ہے اور اس کسمپرسی میں بہار جیسے ہرلحاظ سے پسماندہ علاقے میں مدارس قائم کرنا اور ان کو باقی رکھنے،چلانے اور ملت کے نونہالوں کو دین وایمان سے جوڑنے ،ان کی دینی آبیاری کرنے اورایک زندہ قوم کی طرح زندہ رہنے کی تربیت کرنا یہ ایسی زندگی کی قیمتی جدوجہد اورقربانی ہے جس کا کوئی بدل نہیں ۔اللہ تعالی دین کے ان قلعوں کو ترقی دے اور اس کے مشن کو دوام وثبات عطاکرے اور علما اوردینی شخصیات کی عمر میں برکتیں مقدر کرے،ان کی ہرشر سے حفاظت فرمائے،ان کی خدمات کو شرف قبولیت بخشے۔ آمین لا أسئلک علیہ أجرا إن اجری إلاعلی اللہ ۔وصلی اللہ تعالی علیہ وسلم۔وآلہ وصحبہ اجمعین۔
Comments are closed.