بزرگان دین سے وابستگی دنیا وآخرت کی فلاح

بقلم محمد علی عبدالغنی قاسمی

سنہ 2004 کی بات ہے کسی بات کہا سنی کو لیکر ایک معاملہ پیش آیا تہا اسمیں چند لوگوں کو سزائیں ہوئ ۔جن میں میرے خاص بھی تھے ۔دو مہینے سہارنپور جیل سے انکا ٹرانسفر آگرہ جیل کردیا گیا ۔الہ آباد ہائ کورٹ سے 4 لوگوں کی رہائ ہوگئ ۔ایک کو سات سال کی سزا کا حکم صادر کر دیا گیا ۔مقدمہ چلتا رہا گھر کے حالات بھی بہت خراب تھے ۔ایک روز میرے تایا کہنے لگے پانی پت میں کوئ بزرگ ہیں انکے پاس دعا کے لئے چلتے ہیں ۔جمعرات میں وہاں مجلس لگتی تھی ۔ہم لوگ پانی پت پہونچ گئے ۔میں نے وہاں جاکر معلومات کی تو پتہ چلا کہ حضرت مولانا افتخار الحسن صاحب مرحوم ہر ہفتے یہاں آتے ہیں ۔انکے انتظار میں میں بھی مجلس میں شریک ہوگیا ۔جس دعا کا ورد ہورہا تھا وہ مجھے زبانی یاد نہیں تھی مجھے ایک پرچہ یاد کرنے کے لیے دیدیا گیا اور فجر تک ورد چلتا رہا ۔ہوا یہ کہ اس روز حضرت کی طبیعت ٹھیک نہیں تھی حضرت تشریف نہیں لائے انکی جگہ پر حضرت کے بہنوئی یا داماد (صحیح سے یاد نہیں وہ )آئیں میں نے رو رو کر آنے کا سبب بتایا اور حضرت سے ملاقات کی خواہش ظاہر کی ۔انہوں نے مجھے کاندھلہ آنے کا مشورہ دیتے ہوئے اپنے گھر آنے کے لئے کہا۔خیر میں اپنے تایا کے ساتھ انکے گھر پہونچ گیا ۔انہوں نے پوچھا بیٹا کیا کرتے ہو میں نے اپنی فراغت کا بتایا اور یہ کہا کہ کل سے ایک مدرسہ میں بطور مدرس پہلا سبق پڑھاونگا ۔انہوں نے دعائیں دیں اور پڑھانے کے چند آداب بتائے ۔پھر اپنے کسی خادم کو بلا کر حضرت مرحوم کے بارے میں معلوم کرایا ۔حضرت کی طبیعت ناساز ہونے کے با وجود مجھے ملنے کی اجازت دیدی ۔میں حضرت کی خدمت میں حاضر ہوا اور اپنے آنے کا سبب بتایا ۔حضرت نے بہت تسلی دی اور مقدمہ میں کامیابی کے لئے چودھویں پارہ کی آیت(انا کفیناک المستھزئین ) ایک ہزار مرتبہ بعد نماز فجر سورج نکلنے سے پہلے پہلے وظیفہ مکمل کرنے کی ھدایت دی ۔اللہ کا فضل و کرم ایسا ہوا سترھویں دن ضمانت ہوگئ اور فائل ایسی دبی کہ 2017 یعنی وفات ہونے تک بھی کیس دوبارہ اٹھا نہیں ۔اللہ حضرت مولانا افتخار الحسن صاحب مرحوم کو جنت الفردوس میں اعلی مقام عطا فرمائے بال بال مغفرت فرمائے آمین ۔یہ سب واقعات ایسے ہیں جن کو دیکھ کر ہمیں اپنے علماء و بزرگوں کی زندگی پر رشک آتا ہے ۔واقعی ہمارے اکابر امت مسلمہ کے لئے بہت نایاب ہیں۔

Comments are closed.