قربانی خداکی عطاکی ہوئی عظیم نعمت

از:ارشادعالم قاسمیؔ مدرسہ فیض ابرارپاکٹولہ سیتامڑھی
قربانی ایک اہم عبادت اورشعائر اسلام میں سےہے، خداکاتقرب حاصل کرنیکی نیت سے حلال جانور کوذبح کرنا قربانی کہلاتاہے،حضرت آدم کے دوبیٹوں ہابیل اور قابیل نے بھی قربانی دی تھی، ایک نے مینڈھاذبح کیاتھا اوردوسرےنے کھیت کی پیداوار صدقہ کیاتھا،زمانہ جاہلیت میں بھی قربانی دی جاتی تھی مگرفرق یہ تھا کہ کفارومشرکین بتوں کےنام پرجانور قربان کیاکرتےتھے، اورآج بھی برادران وطن کسی خاص تہوار پرجانورقربان کیاکرتے ہیں، پہلے انبیاء کے زمانےمیں جسکی قربانی کو آگ کھالیاکرتی وہ مقبول سمجھی جاتی تھی حتی کہ جہادوغیرہ میں حاصل کئے گئے مال غنیمت کو اگرآسمانی آگ کھالیتی توجہاد مقبول سمجھاجاتا۔
ذی الحجہ کے شروع کے دس دن کو خصوصی اہمیت حاصل ہے اللہ رب العزت قرآن کریم میں ذی الحجہ کی دس راتوں کی قسم کھاتےہیں، ان دس دنوں اور دس راتوں کی عبادت اللہ تعالی کوجتنا محبوب ہے اتنا کسی اور دن میں نہیں اورقربانی کے دنوں میں سب سے محبوب اورپسندیدہ عمل قربانی ہے، جو وسعت کےباوجود قربانی نہ کرے ایسے لوگوں کے بارے میں نبی اکرمﷺ نے فرمایاکہ وہ میرے عیدگاہ کےقریب بھی نہ آوے۔
قربانی کامقصد ہی خداکی خوشنودی اورتقرب حاصل کرناہے،جب مقصوداتناپاکیزہ ہےتو قربانی سےپہلے نیت کودرست اورخالص کرنانہایت ضروری ہے بلکہ جانور خریدتے وقت ہی نیت کوپاک اورصاف کرلیاجائے، عمومادیکھاگیاہے، شہروں اوردیہاتوں میں قربانی کے جانوروں کی تعریف وتوصیف بیان کرنےمیں آپسی ہوڑ مچ جاتی ہے ہرکوئ اپنے جانور کی خوبی،اس کا فربہ پن فخریہ بڑھاچڑھاکربیان کرتاہے، اوردوسرے کےجانورکی عیب وکمی تلاش کرتارہتاہے، قربانی کے بعد بھی گوشت کے وزن میں یہ مسابقہ جاری رہتاہے ، یادرکھئےیہ اعمال خداکوغضبناک کرنیوالےہیں،اور قربانی کی مقبولیت کومشکوک کردینے والے، سورہ حج میں اللہ تبارک وتعالی فرماتے ہیں، لن ینال اللہ لحومہا ولادماؤھا ولکن ینالہ التقوی الآیۃ۔اللہ کے یہاں قربانی کے جانوروں کاگوشت نہیں پہنچتااورنہ ہی خون پہنچتاہے، البتہ اللہ کے یہاں تقوی پہنچتاہے۔
اللہ یہ نہیں دیکھے گا کہ کس کاجانور زیادہ فربہ ہے، اور کس کے جانور میں زیادہ گوشت ہے، یا کس کاجانور زیادہ مہنگاہے باری تعالی توصرف یہ دیکھےگا کس کی نیت خالص ہے، سوجسکی نیت میں خدا کی خوشنودی کے علاوہ کسی چیز کی آمیز ش نہیں ہوگی اسکی قربانی یقینامقبول ہے۔
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہاسے روایت ہےکہ نبی ﷺ نےارشاد فرمایا،قربانی کےدنوں میں ابن آدم کاکوئ عمل قربانی سےزیادہ محبوب نہیں،اورقیامت کےدن قربانی کاجانوراپنی سینگ، بالوں اورکھروں کےساتھ زندہ ہوکرآئیگا،نیزقربانی کےجانورکاخون زمین پرگرنےسے قبل ہی قبول ہوجاتاہے۔(الحدیث) قربانی ایسی عظیم نعمت ہے جس کے ذریعہ بندہ رب کے ساتھ اپنی عقیدت اورلگاؤکی انتہا کوظاہرکرتاہے اورجانورذبح کرکے گویااپنی جان اورمال اپنےرب پرنچھاورکردیتاہے ۔
قربانی جلیل القدرپیغمبر حضرت ابراہیم علیہ السلام کی سنت اور ناقابل فراموش یادگارہے، اللہ رب العزت نےاپنے خلیل حضرت ابراہیم علیہ السلام کوبڑی جستجو اور دعائے نیم شبی کےبعدحاصل ہونیوالے محبوب فرزند حضرت اسمعیل علیہ السلام کو قربان کرنے کا حکم دیا،اللہ کےخلیل نے بلاچون وچراحکم کی تعمیل کی اورعین وقت پرحضرت اسمعیل علیہ السلام کی جگہ جنتی مینڈھاذبح ہوا،اس وقت سے قیامت تک کیلئے حضرت ابراہیم علیہ السلام کی یہ سنت جاری وساری ہوگئی۔ قربانی کےتین دن دس،گیارہ اوربارہ ذی الحجہ کوکوئ بھی عمل قربانی کابدل نہیں ہوسکتا لہذا غنی اور صاحب نصاب شخص اپنی طرف سے قربانی توکرےہی،اپنے زندہ ومردہ ماں،باپ،رشتہ دار،انبیا ء کرام خصوصا حضورپُرنورﷺ اورصحابہ، ؓ میں سے استطاعت کے بقدرجن کےنام پرقربانی کرسکتاہو ضرورکرے،یہاں ایک بات قابل توجہ ہےکہ اگرکسی پرقربانی واجب ہے،اوروہ احتراما ماں،باپ کی طرف سے قربانی کرتاہے،اپنی طرف سے نہیں کرتا تو اس کی قربانی ادا نہیں ہوئ،اس نے نفلی عمل تو انجام دیاہے،اورواجب وضروری کوترک کردیا،لہذاہرشخص اپناجائزہ لےلے قرض کی رقم کوچھانٹ کر اپنے کو صاحب نصاب پاتاہےتووہ پہلے اپنی طرف سے ایک بکرایابڑے جانورمیں ایک حصہ لےلےاورگنجائش ہوتوماں،باپ اوردیگرلوگوں میں سے جتنےکوشامل کرسکتاہو،شامل کرلے۔ نماز،روزہ،زکوۃ وحج میں جس قدر کوتاہی برتی جاتی ہے اس سے کہیں زیادہ لاپرواہی اورغفلت قربانی میں برتی جاتی ہے،قرون اولی میں جس کثرت سےقربانی کافریضہ انجام دیاجاتاتھا وہ آج کل عنقاء ہے، ایک ایک آدمی سو،سو اونٹوں کی قربانی کیاکرتاتھا،خودحضوراقدس ﷺ نے سومیں سے تریسٹھ اونٹوں کی قربانی اپنے دست مبارک سے کی ہے، اندازہ لگایاجاسکتاہے کہ مال وزر کے کثرت کےباوجود آج یہ شرح کس قدرتنزلی کاشکارہے،اورہم ترقی کے کس پائیدان پرپہنچے ہوئے ہیں۔
ہرعقلمندبالغ مسلمان مردوعورت جس کی ملکیت میں ساڑھے باون تولہ چاندی یاساڑھےسات تولہ سونا یا کسی ایک کی مالیت کےبرابر رقم ہو، ضرورت سےزائدقرض کی رقم کو چھانٹ کرتو اس پرقربانی واجب یعنی ضروری ہے، اگرقربانی نہیں کرےگا توسخت گنہگارہوگا، قربانی کیلئے سال گذرنے کی بھی کوئ شرط نہیں ہے،حتی کہ ایک شخص سال بھرمذکورہ نصاب کامالک نہیں تھا مگرقربانی کے تین دنوں میں سے کسی ایک میں نصاب کامالک ہوگیاتو اس پرقربانی واجب ہے۔
اوراگرکسی شخص کےپاس اوپرذکرکئے ہوئے نصاب کےبقدر مال نہ ہو، پھربھی وہ قربانی کرے تویہ قربانی نفل ہوگی۔
یہاں ایک بات قابل توجہ ہے کہ بعض حضرات قربانی کےعوض کورونامتاثرین،یاغرباء کی مددکو اہم سمجھتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اس سال قربانی کرنے سے بہتر ہے کہ غرباء، یاکورونامتاثرین کی مددکردی جائے توجان لیں کہ ایسی سونچ شرعی تقاضوں کےخلاف ہے کیونکہ یہ لوگ دینی امورمیں ہی عقل کے گھوڑے دوڑاتےہیں اورعبادات میں ہی کمپرمائز کرتےہیں، اورجب ۵۰۰ روپے کی جگہ ہزار،اور ہزار کی جگہ پندرہ سوروپے کالباس زیب تن کرتے ہیں، مکان ودوکان بنانے میں لاکھوں خرچ کرتےہیں توپھریہ کیوں نہیں سونچتے کہ کم خرچ کرکے کسی غریب کی مدد کردی جائے۔
قربانی درست ہونیکیلئے جانوروں میں اقل عمرکی شرط ہے، کہ اس عمرکی تکمیل سے قبل قربانی درست نہیں ہوتی،مثلا چھوٹاجانورہوجیسے بکرا،بکری،تومکمل ایک سال کاہوناضروری ہے، اوربڑاجانورہوجیسےگائے، بیل، بھینس، وغیرہ تومکمل دوسال کاہوناضروری ہے،اوربڑاجانورمثلا اونٹ ہو تومکمل پانچ سال کاہونا ضروری ہے،بعض لوگوں میں یہ غلط فہمی پھیلی ہوئ ہے کہ جانور کا دانتاہوناضروری ہے جوکہ سراسر غلط اور بے بنیاد ہے،بلکہ دانت دیکھ کرجوجانور خریداجاتاہے وہ محض اس لئےکہ دانت سے عمر کااندازہ ہوجاتاہے قربانی کی درستگی کیلئے دانتا اورغیردانتاکی کوئ قیدنہیں ہے، اس کو اس طرح سمجھئےکہ زیدکی گائے زید کے ہی کھونٹے پرپلی بڑھی ہے،یا کسی پڑوسی کے کھونٹےپر اس کاجانور پلابڑھاہے توجونہی دوسال مکمل ہونگے اس بڑے جانور کی قربانی درست ہوگی گرچہ دانت نہ نکلاہو ہاں زید اگربازار سے جانور خریدنےجائیگا توپہلےتحقیق کرلے دوسال پوراہوایانہیں بیچنے والےکی بات پرہرگزاعتمادنہ کرے اوردانت بھی دیکھ لے کہ دوپکے دانت نکل گئے ہیں یانہیں اگر نکل گئے ہیں تویہ علامت ہے اس بات کی کہ بڑے جانور کی عمردوسال اورچھوٹےکی ایک سال ہوچکی ہے۔۔
قربانی کرنے والوں کیلئے ذی الحجہ کاچاندنکلنے کے بعد مستحب ہے کہ ناخن بال وغیرہ نہ کاٹیں جب تک کہ قربانی نہ ہوجائے،مگرواضح ہوکہ یہ عمل صرف استحبابی ہے، اس سے اجروثواب میں اضافہ ہوتاہے ترک پرمؤاخذہ اور گناہ نہیں ہوتا، لہذاکو ئ قربانی کاخواہشمند اگرذی الحجہ کاچاندنکلنے کےبعد بال،ناخن وغیرہ کاٹ لے تواسکو لعن طعن وملامت کرنا مناسب نہیں،کیونکہ اس نے استحبابی عمل کوچھوڑاہے،اور اس سے قربانی میں کوئ خلل اوراثرنہیں ہوتا۔
جولوگ قربانی نہیں کرینگے ان کیلئے کوئ قید نہیں، وہ چاند نکلنے کے بعد ناخن،بال وغیرہ کاٹیں یانہ کاٹیں۔
Comments are closed.