نقد یا سامان تجارت میں شرعی غنا کا پیمانہ کیا ہے، سونے کانصاب یا چاندی کا؟

ترتیب : مفتی ریاض احمد قاسمی 

استاد حدیث و فقہ جامعہ رحمانی مونگیر

مبائل : +917079707529
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ بات ظاہر ہے کہ سونے اور چاندی کا نصاب منصوص ہے، اگر کوئی شخص سونے یا چاندی کی مقررہ مقدار کا مالک ہو جائے تو وہ شرعاًغنی (صاحب نصاب) ہوجاے گا، لیکن سوال یہ ہے کہ موجودہ حالات میں اگر کسی کے پاس نقد روپے یا سامان تجارت ہو تو شرعی غنا کے لیے پیمانہ سونے کا نصاب ہوگا یا چاندی کا ؟
جمہور فقہاءمتقدمین کے نزدیک نقد روپے یا سامان تجارت کے لئے پیمانہ وہ نصاب ہوگا جس میں فقراء کا زیادہ فائدہ ہو،اور جس سے واجب کی ادائیگی میں زیادہ احتیاط ہو، جب کہ حضرت امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک پیمانہ وہ ثمن ہوگا جس کے عوض سامان خریدا گیا ہہ۔
چنانچہ علامہ وہبہ زحیلی فرماتے ہیں کہ سامان تجارت کی قیمت لگانے کا طریقہ شوافع کےعلاوہ جمہور فقہاء کے نزدیک یہ ہے کہ: جب سال گزر جائے تو سونے اور چاندی میں سے جو نقد مساکین کے لیے زیادہ نفع بخش ہو، اس کے ذریعے سامان کی قیمت لگائی جائے، تاکہ فقراء کے حق میں احتیاط پر عمل ہوسکے اور اس ثمن(اداشدہ قیمت) کے ذریعے قیمت نہیں لگائی جائے، جس سے سامان خریدا گیا ہے، جیسا کہ یہ حضرت امام شافعی رحمتہ اللہ علیہ کا مسلک ہے۔
(الفقہ الاسلامی وادلتہ:٧٦٠/٢)
اس سے معلوم ہوا کہ متقدمین فقہاء کے نزدیک خاص سونا کو پیمانہ بنانے کا تصور نہیں تھا، بلکہ وہ یا تو فقراء کا نفع پیش نظر رکھتے تھے یا وہ ثمن جس کے ذریعے سامان خریدا گیا ہے، خواہ سو نا ہو یا چاندی۔ موجودہ زمانے میں چونکہ چاندی کے نصاب کو پیمانہ بنانے میں فقراء کا زیادہ نفع ہے، اس لئے عالم اسلام کے عموماً اور برصغیر کے خصوصاً تمام فقہاء اور ارباب‌ افتاءنے اسی کو پیمانہ بنانے کا فتوی دیا ہے، البتہ معاصرین علماء عرب میں سے شیخ محمد ابو زہرہ، شیخ عبد الوہاب خلاف، شیخ عبدالرحمن حسن، علامہ یوسف قرضاوی اور شیخ وہبہ زحیلی کی رائے یہ ہے کہ سونے کا نصاب پیمانہ ہونا چاہیے۔
ان حضرات نے موجودہ زمانے میں سونے اور چاندی کی قیمت میں پائے جانے والے نمایاں فرق کو بنیاد بنایا ہے اور درج ذیل وجوہ سے استدلال کیا ہے:
١ ۔۔۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں چاندی اور سونے کی قیمتوں میں 10 گنا ہ کا فرق تھا، اس تناسب کو ملحوظ رکھ کر چاندی کا نصاب 200 درہم اور سونے کا نصاب 20 دینار مقرر کیا گیا تھا، لیکن بعد میں سونے کی قیمت تقریبا اپنے حال پر برقرار رہی جبکہ چاندی کی قیمت میں گراوٹ آنے لگی اوردورنبوی میں فرق کا جو تناسب تھا وہ باقی نہیں رہا۔
مذکورہ دعویٰ کی ایک دلیل مؤرخین کا یہ بیان ہے کہ عہد اول میں ایک دینار دس درہم کے برابر تھا، اس کے بعد عہد بنو امیہ کے نصف آخر میں ایک دینار12 درہم کے برابر ہوگیا اور عہد عباسی میں صورت حال یہ ہو گئی کہ ایک دینار15درہم،یا اس سے بھی زیادہ کے برابر ہو گیا۔(فقہ الزکاۃ، ٢٦٤/١)
اسی طرح علی مبارک نے مقریزی سے نقل کیا ہے کہ فاطمیین کے دور حکومت میں دراہم کی اتنی کثرت ہوگئی کہ ایک دینار کا تبادلہ 34درہم سے ہوا کرتا تھا۔(حوالہ بالا)
اس کی تائید اس حدیث سے بھی ہوتی ہے جو امام ابو داؤدنے روایت کی ہے کہ دور نبوی میں دیت آٹھ سو دینار یا آٹھ ہزار درہم مقرر کی گئی تھی، لیکن جب حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا دور آیا تو انھوں نے خطبہ دیا اور فرمایا کہ چونکہ اونٹ مہنگے ہو چکے ہیں اس لیے سونا والوں پر ایک ہزار دینار اور چاندی والوں پر بارہ ہزار درہم دیت ہوگی۔
اس استدلال پر روشنی ڈالتے ہوئے علامہ یوسف قرضاوی فرماتے ہیں کہ دوسرے علماء کا مذہب یہ ہے کہ سونے کے نصاب کو پیمانہ بنانا ضروری ہے اس لیے کہ دور نبوی کے بعد پھر اس کے بعد مختلف ادوار میں دیگر اشیاء کی طرح چاندی کی قیمت بھی بدلتی رہی، لیکن سونے کی قیمت کافی حد تک ایک حال پر برقرار رہی اور مختلف ادوار میں اس کی قیمت کافی حد تک یکساں رہی ، کیونکہ ہر زمانے میں سونے کی قیمت کا معیار ایک ہی رہا۔ (حوالہ بالا)
لیکن یہ استدلال متعدد وجوہ سے درست نہیں ہے:
اس استدلال پر پہلا اشکال تو یہ ہے کہ موجودہ دور میں اگر کسی کے پاس خود چاندی بقدرنصاب ہو تو اس پر زکوۃ واجب ہوگی یا نہیں؟ اگر ہو گی تو شرعی غنا کے بغیر ہوگی، کیونکہ عہد نبوی کے مقابلے میں آج چاندی کی قیمت بہت گھٹ گئی ہے جس کی وجہ سے مالیت کی وہ مقدار متحقق نہیں ہوئی، جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے زمانے میں شرعی غنا کے لیے ضروری قرار دیا تھا اور اگر مذکورہ شخص پر زکوٰۃ واجب نہیں ہو گی تو یہ صریح نص کے خلاف ہو گا جس پر پوری امت نے اب تک عمل کیا ہے؟
اس استدلال پر دوسرا اعتراض یہ ہوتا ہےکہ چاندی کی قیمت میں گراوٹ کا سلسلہ عہد فاروقی ہی سے شروع ہوچکا تھا اور فاطمیین کے دور میں یہ سلسلہ یہاں تک پہنچ گیا تھا کہ ایک دینار کا تبادلہ 34 درہم سے ہوا کرتا تھا جیسا کہ تفصیل سے گزرا، تو کیا اس زمانے میں امت کے کسی فقیہ نے یہ رائے اختیار کی کہ شرعی غنا کا پیمانہ اب سونے کا نصاب ہوگا اور چونکہ چاندی کی وہ قیمت باقی نہیں رہی جو دور نبوی میں تھی، اس لئے اس کا اعتبار نہیں ہوگا؟
اگر چاندی کی قیمت میں نمایاں گراوٹ کے باوجود ماضی میں کسی فقیہ نے یہ راے اختیار نہیں کی تو موجودہ زمانے میں یہ رائے اختیار کرنا اجماع امت کے خلاف ہوگا۔ ٢۔ ان حضرات کا دوسرا استدلال یہ ہے کہ: شارع علیہ الصلوۃ والسلام نے دیگر اموال(مویشی اور زمینی پیداوار) کا جو نصاب مقرر کیا ہے، اس سےموازنہ کاتقاضہ یہ ہے کہ موجودہ زمانے میں سونے کے نصاب کو پیمانہ بنایا جائے، کیونکہ چاندی کا نصاب دوسرےاموال کے نصاب سے کسی طرح بھی ہم آہنگ نہیں ہے، جبکہ سونے کا نصاب کافی حد تک دوسرے اموال کے نصاب سے ہم آہنگ ہے یاقریب قریب ہم آہنگ ضرور ہے، چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اونٹ کا نصاب پانچ اونٹ، بکریوں کا نصاب چالیس بکریاں ، گائے/بیل کا نصاب جمہورکے مطابق 30 گائے/ بیل، زمینی پیداوار کا نصاب جمہور کے بقول 5/وسق ( تقریبا 9 کوئنٹل 45 کیلو) مقرر فرمایا ہے، ان مختلف نصابوں میں قدر مشترک کے طور پر جو مالیت پائی جاتی ہے سونے کا نصاب اس سے زیادہ قریب ہے۔
علامہ یوسف قرضاوی اس استدلال کی طرف اشارہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ میرا خیال ہے کہ یہ قول صحیح ہے اور اس کی دلیل مضبوط ہے، چنانچہ دوسرے اموال زکوۃ کے نصاب کے ساتھ موازنہ کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ ہمارے زمانے میں سونے کا نصاب ہی ان سے قریب ہے، نہ کہ چاندی کا نصاب،مثلاً: پانچ اونٹ، چالیس بھیڑ/ بکری، یا پانچ وسق کھجور /کشمش کے قریب بیس مثقال سونا ہے، نہ کہ دو سو درہم۔(فقہ الزکوۃ،٢٤٦/١)
لیکن یہ استدلال بھی متعدد وجوہ سے درست نہیں ہے:
اس کی پہلی خامی تو یہ ہے کہ اس کا سارا دارو مدار ظن اور تخمین پر ہے،جب کہ چاندی کے نصاب کو پیمانہ بنانے کامدار مقاصدِ زکوٰۃ اور احتیاط فی العبادات کے اصول پر ہے۔ وان الظن لایغنی من الحق شیئا، یعنی ظن و تخمین یقین کے مقابلے میں کچھ فائدہ نہیں پہنچاتا۔
دوسری اہم بات یہ ہے کہ سونے کی قیمت تو پوری دنیا میں تقریبا یکساں ہے، لیکن مویشی اور زمینی پیداوار کا حال اس سے مختلف ہے، چنانچہ بعض دیہی علاقوں میں بعض مویشیوں کی پیداوار اتنی کثرت سے ہوتی ہے کہ اس کے نصاب کی قیمت چاندی کے نصاب کی قیمت سے ہم آہنگ ہوتی ہے، جیسا کہ ہمارے دیہی علاقوں میں بکریوں کی قیمت کا حال ہے، اسی طرح ہندوستان میں بعض زمینی پیداوار، مثلاً :دھان گیہوں، مکئی وغیرہ اتنی کثرت سے ہوتی ہے کہ پانچ وسق کی قیمت چاندی کے نصاب کی قیمت سے بھی کم ہوتی ہے، لہذا ایسی صورت میں یہ کلیہ درست نہیں ہے کہ مختلف اموال کے نصاب کی قیمت سونے کے نصاب کی قیمت سے ہم آہنگ ہے، بلکہ حقیقت یہ ہے کہ مختلف اموال کے نصاب کی قیمت مختلف احوال اور مختلف اطراف میں نمایاں طور پر مختلف ہوتی رہتی ہے، اس لیے مختلف اموال کے نصابوں کی قیمت کونہ سونے کے نصاب کی قیمت سے ہم آہنگ کہا جاسکتا ہے، نہ چاندی کے نصاب کی قیمت سے، بلکہ صحیح یہ ہے کہ نصابوں کے تقرر کا معاملہ توقیفی اور سماعی ہے، قیاس آرائی کو اس میں دخل دینا درست نہیں ہے۔
تیسری بات یہ ہے کہ فرض کیجئے موجودہ زمانے میں مذکورہ اموال کے نصابوں کی قیمت سونے کے نصاب سے ہم آہنگ ہے، لیکن عین ممکن ہے کہ آئندہ سونے کی قلت کے باعث اس کی قیمت میں گرانی آجائے، جس کے آثار بہت نمایاں ہیں اور روزافزوں جدید تکنک کے نتیجے میں مذکورہ اموال کی فراوانی ہو جائے اور ان کی قیمت میں کمی آجائے، جس کی وجہ سے ان اموال کے نصاب کی قیمت سونے کے نصاب کی قیمت سے بھی ہم آہنگ نہ رہ سکے، تو اس وقت پھر وہی اشکالات پیدا ہوں گے جو آج پیدا ہو رہے ہیں اور پھر کوئی تیسرا راستہ اختیار کرنا ہوگا، جس کے نتیجے میں”تحدید شرعی”کی کوئی اہمیت باقی نہیں رہ سکے گی اور حدود شرعیہ پامال ہو کر رہ جائیں گے۔
ان حضرات کا تیسرا استدلال یہ ہے کہ ایک آدمی چار اونٹ یا 29 گائے/بیل یا 39 بھیڑ/ بکریاں،یا 86 گرام سونے کا مالک ہو، جو بلاشبہ ایک خطیر مال ہے،تو وہ شرعاًغنی نہیں ہے، کیونکہ وہ صاحب نصاب نہیں ہے، لیکن ایک آدمی موجودہ کرنسی سے تقریباً33000 روپے، یا اس کے بقدر سامان تجارت کا مالک ہوجائے، تو وہ شرعاًغنی ہے،کیونکہ وہ صاحب نصاب ہے، یہ صریح تضاد ہے، جو اسلام کے مزاج کے خلاف ہے۔
علامہ یوسف قرضاوی یہ استدلال پیش کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ پانچ اونٹ یا چالیس بکری کی قیمت چار سو دینار یا چار سو مصری ڈالر یا اس سے بھی زیادہ ہے، تو جو شخص چار اونٹ، یا 39 بکریوں کا مالک ہو، اسے تو شارع فقیر قرار دے، لیکن جو ایک بکری کی قیمت کا بھی مالک نہ ہو،وہ شرعاً غنی ہوجائے،اور اس پر زکوٰۃ واجب ہو، ایسا کیسے ہوسکتا ہے؟ اتنی کم رقم کے مالک کو شارع کیسے غنی قراردے سکتا ہے؟(حوالہ بالا)
یہ استدلال بھی متعدد وجوہ سے درست نہیں ہے
یہ استدلال دراصل اس مفروضے پر مبنی ہے کہ مختلف جنس کے نصابوں کی مالیت برابر ہے یا تقریباً برابر ہے، پھر اس کے بعد جس نصاب کی مالیت دوسرے نصابوں کی مالیت سے کم تر محسوس ہوئی، اس پر نامعقول اور شارع کے مزاج کے خلاف ہونے کا حکم لگا دیا گیا،حالانکہ نصابوں کے تقرر میں شارع نے بڑی حکمت سے کام لیا ہے اور ہر جنس کے نصاب میں الگ الگ معیارملحوظ رکھا ہے، کیوں کہ مختلف نصابوں کا تقرر شرعی غنا کے تحقق کے لئے کیا گیا ہے اور شرعی غنا کا تحقق ہرمال میں الگ الگ مقدار سے ہوتا ہے، اس سلسلے میں ضابطہ یہ ہے کہ جس مال سے ضروریات کی تکمیل جس قدر ہمہ جہت اور آسان ہوتی ہے، اسی قدر کم مال سے غنا کا تحقق ہو جاتا ہے، کیونکہ وہ مال مال داری اور بے نیازی ثابت کرنے میں زیادہ مؤثر ہے، اس لیے اس مال کا نصاب کم مقرر کیا گیاہے، لیکن جس مال سے ضروریات کی تکمیل ہمہ جہت نہیں ہوتی یا تبادلے کی دشواریوں کے بعد ہوتی ہے، اس میں غنا کا تحقق زیادہ مال سے ہوتا ہے، اس لئے ان دشواریوں کا لحاظ کر کے نصاب زیادہ مقرر کیا جاتا ہے،کیونکہ وہ مال مال داری اور بے نیازی ثابت کرنے میں کم موثر ہے مثلا: مویشیوں کے مقابلے میں نقود یا غلہ جات کے ذریعے ضروریات کی تکمیل براہ راست، ہمہ جہت اور آسان ہوتی ہے، اس لئے ان کا نصاب نسبتاً کم رکھا گیاہے۔ خود علامہ یوسف قرضاوی اس اصول کو تسلیم کرتے ہیں، فرماتے ہیں کہ مویشیوں کی بنسبت نقود کا نصاب کم مقرر کرنا شارع حکیم کا مقصود ہے، کیونکہ جو آدمی نقود کا مالک ہو، وہ اپنی مختلف قسم کی معاشی ضروریات کو بڑی جلدی اور بڑی آسانی سے پورا کر سکتا ہے، جب کہ اونٹ وغیرہ مویشیوں کا مالک شخص ایسا نہیں کر سکتا، چنانچہ اگر کسی کے پاس بہت سے اونٹ ہوں اور اسے کھانا کپڑا یا دوا کی ضرورت ہو، تو وہ اپنی ان ضروریات کی تکمیل اسی وقت کرسکتا ہے جب اپنے کسی اونٹ کو نقودکے عوض فروخت کرے، حالانکہ بسا اوقات فروخت کرنا آسان نہیں ہوتا اور بسا اوقات مناسب دام نہیں ملتا، اس کے برخلاف جو نقود کا مالک ہے وہ جب چاہے جس طرح چاہے اپنی ضروریات کی تکمیل کر سکتا ہے، کیونکہ نقود تبادلے کا براہ راست ذریعہ اور ضروریات کی خریداری کا قدرتی آلہ ہیں۔(حوالہ بالا ٢٦٨_٢٦٩)
بخاری شریف کی ایک روایت سے بھی اس نظریے کی تائید ہوتی ہے کہ شارع علیہ الصلاۃ والسلام نے مختلف اجناس میں غنا کا معیار الگ الگ رکھا ہے اور اسے نصابوں کے تقرر میں ملحوظ رکھا ہے، چنانچہ حضرت انس رضی اللہ تعالی عنہ کی ایک لمبی حدیث اموال کے نصاب سے متعلق مروی ہے،اس کا ایک حصہ یہ ہے کہ جس پر اونٹوں کی زکوۃ میں جذعہ (دوسالہ اونٹ) واجب ہو، لیکن اس کے پاس جذعہ نہ ہو البتہ اس کے پاس حقہ (تین سالہ اونٹ) موجود ہو تو اس سے حقہ قبول کر لیا جائے گا اور اس کے ساتھ اگر ہو سکے تو دو بکریاں ورنہ بیس درہم مزید لیے جائیں گے اور جس پر اونٹوں کی زکوۃ میں حقہ واجب ہو لیکن اس کے پاس حقہ نہ ہو، البتہ جذعہ ہو تو اس سے جذعہ قبول کیا جائے گا اور محصل اسے بیس درہم یا دو بکریاں واپس کرے گا۔ یہ حدیث بتاتی ہے کہ دور نبوی میں ایک متوسط بکری کی قیمت دس درہم تھی، اسی لیے بیس درہم اوردو بکریوں کے درمیان اختیار دیا گیا۔ اس حساب سے 40 بکریوں کی قیمت چار سو درہم ہوئی، جبکہ چاندی کا نصاب 200درہم ہے، پس جب خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ فرق ملحوظ رکھا تھا، تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ ایک آدمی بیس بکریوں کا مالک ہوتا تھا جس کی مالیت دو سو درہم ہوتی تھی، پھر بھی وہ شرعاً غنی نہیں ہوتا تھا اور اس پر زکوۃ واجب نہیں ہوتی تھی، لیکن اسی معاشرے میں ایک آدمی نقد دو سو درہم کا مالک ہوجاتا تھا، تو وہ شرعاً غنی قرار دیا جاتا تھا اور اس پر زکوٰۃ واجب ہو جاتی تھی۔جب نصابوں میں مالیت کا یہ فرق دور نبوی میں موجود اور ملحوظ تھا، تواسی طرح آج بھی اگر کوئی نصاب سے کم جانور یا سونے کا مالک ہو تو وہ شرعاًغنی نہیں ہے، لیکن اگر کوئی اتنی رقم یا سامان تجارت کا مالک ہو جائے ، جو اقل متیقن نصاب کی قیمت کے برابر ہو، تو وہ شرعاًغنی ہو جائے گا اور اس پر زکوۃ واجب ہوگی، بلکہ خود وہ شخص بھی جو نصاب سے کم جانور یا سونے کا مالک ہے اگر اپنا یہ مال بیچ دے اور اتنی رقم حاصل کر لے جو دو سو درہم کی مالیت کے برابر ہو، تو وہ شرعاًغنی ہو جائے گا اور اس پر زکوۃ واجب ہوگی اور یہ فرق اس لیے ہوگا کہ پہلے وہ جس مال کا مالک تھا، اس سے ضروریات پوری کرنے پر اتنا قادرنہیں تھا جتنا اب ہوگیا، اس لیے وہ پہلے تکمیل ضروریات کے باب میں شرعاً غنی نہیں تھا، لیکن اب وہ شرعاًغنی ہو چکا ہے۔
خلاصہ کلام یہ ہے کہ مختلف اموال سے شرعی غنا کےتحقق میں شارع علیہ السلام نے باقاعدہ فرق ملحوظ رکھا ہے، لہذا ان کے درمیان موازنہ کر کے قریب قریب برابری ثابت کرنا کسی نتیجے پر پہنچا نے میں مفید نہیں ہے، کیونکہ اس سے شارع کا منشا ہی فوت ہو جاتا ہے۔
ان حضرات کا چوتھا استدلال یہ ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے زمانے میں مختلف اموال کا جو نصاب مقرر فرمایا تھا وہ اس زمانے کے معیار زندگی کے مطابق ایک خطیر مال تھا جس کا مالک غنی سمجھا جاتا تھا، کیونکہ اس مال سے سال بھر وہ اپنی گھریلو ضروریات پوری کر سکتا تھا، لیکن موجودہ زمانے میں عام لوگوں کا معیار زندگی بہت بلند ہو گیا ہے، چنانچہ آج کل دو سو درہم کی مالیت ایک معمولی رقم ہے جس کے مالک کو غنی شمار نہیں کیا جاسکتا،کیونکہ وہ اس مال سے چند ماہ بھی اپنی گھریلو ضروریات پوری نہیں کر سکتا ہے، اس لئے آج کی دنیا میں جو معیار زندگی رائج ہے اس کے مطابق غنا کا پیمانہ سونے کا نصاب ہونا چاہیے، جس کی مالیت آج بھی خطیر رقم شمار کی جاتی ہے۔
اس استدلال کی طرف اشارہ کرتے ہوئے علامہ یوسف قرضاوی نے حضرت شاہ ولی اللہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ کی مایہ ناز کتاب حجۃ اللہ البالغہ سےایک عبارت پیش کی ہے جس کا ترجمہ یہ ہے کہ نصاب پانچ اوقیہ چاندی اس لئے مقرر کیا گیا کہ یہ مقدار کم سے کم افراد پر مشتمل خاندان کے لیے پورے سال کافی ہوتی تھی، بشرطیکہ اکثر ممالک میں اشیاء کی قیمتیں یکساں ہوں،آپ ممالک معتدلہ کے عرف وعادت کا سستائی اور مہنگائی کے سلسلے میں جائزہ لیں، تو ایسا ہی پائیں گے۔
اس کے بعد علامہ یوسف قرضاوی فرماتے ہیں کہ : کیا آجکل کسی اسلامی ملک میں پچاس ساٹھ مصری یا سعودی یا قطری ریال یا چند ہزار پاکستانی یا ہندوستانی روپے کسی بھی خاندان کے لیے پورے سال یا ایک ماہ، حتی کہ ایک ہفتہ بھی کافی ہیں؟ بعض وہ ممالک جہاں اقتصادی معیار بلند ہوگیا ہے مثلا پٹرول والے ممالک، وہاں تو یہ مقدار کسی متوسط خاندان کے ایک دن کے اخراجات کے لیے بھی کافی نہیں ہے، تو اس مقدار کے مالک شخص کو شارع حکیم کی نظر میں کیسے غنی شمارکیا جائے گا؟ یہ عقل سے بہت دور کی بات ہے۔(فقہ الزکوۃ: ٣٦٥/٢)
یہ استدلال بھی محل نظر ہے
یہ استدلال بھی کوئی وزن نہیں رکھتا ہے، کیونکہ فقہ کا علم رکھنے والا اچھی طرح جانتا ہے کہ ایک ہے شرعی غنا اور ایک ہے عرفی غنا۔ اور شرعی غنا کب متحقق ہو گی؟ شارع علیہ السلام نے اس کی مختلف صورتیں مختلف نصابوں کی شکل میں بیان فرما دی ہیں، ان میں سے کسی بھی نصاب کا، حتی کہ کم ترین نصاب یا اس کی قیمت کا جو مالک ہو جائے گا وہ شرعاً غنی سمجھا جائے گا۔ دوسری چیز ہے عرفی غنا، یہ ایک اضافی چیز ہے جس کا پیمانہ افراد اور زمان و مکان کے معیار زندگی کے اعتبار سے مختلف ہوتا رہتا ہے۔ اس کی واضح مثال سفر ہے، ایک ہے سفر شرعی اور ایک ہے سفر عرفی، سفر شرعی کب متحقق ہوگا؟ اس کے لیے ایک مخصوص مسافت شارع نے متعین فرمادی ہے، لیکن سفر عرفی کا کوئی خاص پیمانہ نہیں ہے، وہ سفر کی سہولیات، افراد اور زمان و مکان کے حالات کے اعتبار سے مختلف ہو سکتا ہے، اب اگر یہ کہا جائے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے زمانے میں سفر شرعی کی جو مسافت متعین فرمائی تھی وہ اس زمانے کے لحاظ سے ایک لمبی مسافت تھی جو تین دنوں میں طے کی جاتی تھی، جب کہ آج کی دنیا میں یہ بہت معمولی مسافت ہے جو چند گھنٹوں بلکہ چند منٹوں میں طے کی جا سکتی ہے، لہذا موجودہ زمانے میں سفر شرعی کا پیمانہ کوئی دوسرا ہونا چاہیے، تو ظاہر ہے کہ یہ کہنا درست نہیں ہوگا، کیوں کہ سفر شرعی کی مقدار شرعاً مقرر ہے، اسی طرح یہاں بھی سمجھنا چاہیے کہ شارع علیہ الصلوۃ والسلام نے شرعی غناکے لیے جو مختلف پیمانے مقرر فرمادئیے ہیں ان میں سے کسی بھی پیمانے کا_خواہ اقل ترین پیمانے کا سہی_ کوئی شخص مالک ہو جائے، تو وہ شرعاًغنی ہوگا اور اس پر زکوۃ وغیرہ واجب ہوگی۔
اس استدلال میں دوسری قابل غور بات یہ ہے کہ حضرت شاہ ولی اللہ صاحب رحمتہ اللہ علیہ نے چاندی کی ایک خاص مقدار کو نصاب مقرر کرنے کی جوحکمت بیان فرمائی ہے، علامہ قرضاوی نے اسے علت کا درجہ دے کر اسی پر حکم کا دارومدار رکھنا چاہاہے کہ جس مال میں یہ حکمت موجود ہو، وہ نصاب ہے اور جس مال میں یہ حکمت موجود نہ ہو وہ نصاب نہیں ہے، حالانکہ اہل علم جانتے ہیں اور خود شاہ صاحب نے اسی کتاب کے مقدمے میں صراحت فرمادی ہے کہ احکام شرعیہ کا مدار ان کی حکمتوں پر نہیں، بلکہ ان کی علتوں پر ہوتا ہے اور علتیں بھی انہی احکام کی نکالی جا سکتی ہیں جو مدرک بالقیاس ہوں، لہذا اولاً تو مقادیرِ شرعیہ مدرک بالقیاس نہیں ہیں، اس لیے ان کی علتوں کی جستجو بیکار ہے۔ ثانیاً شاہ صاحب نے جو حکمتیں بیان فرمائی ہیں، ان پر احکام کا دارو مدارکھنا درست نہیں ہے، کیونکہ ان حکمتوں کا مقصد دلوں کو مطمئن کرنا اور احکام شرعیہ کو عام لوگوں کے ذہنوں سے قریب کرنا ہے، نہ کہ ان پر احکام کا دارومدار رکھنا۔
ان حضرات کا پانچواں استدلال یہ ہے کہ چاندی کے نصاب کو پیمانہ قرار دینے کی صورت میں اگرچہ فقراء کا نفع ہے، لیکن مال والوں کا نقصان ہے کہ اس قدر معمولی مال میں انہیں زکوۃ وغیرہ کا مکلف بنایا جارہا ہے، لہذا جہاں فقراء کی رعایت ضروری ہے، وہیں مال والوں کی رعایت بھی ضروری ہے اور چاندی کے نصاب کو پیمانہ بنانے میں صرف فقراء کی رعایت ہو پاتی ہے، مال والوں کی رعایت نہیں ہو پاتی، اس لئے اس کے بجائے سونے کے نصاب کو پیمانہ بنایا جائے، تاکہ مال والوں کی بھی رعایت ہوسکے۔
اس استدلال کو علامہ یوسف قرضاوی نے ان الفاظ میں نقل فرمایا ہے کہ چاندی کے نصاب کو پیمانہ بنانا اگر فقراء اور مستحقین کے لئے زیادہ مفید ہے، تو مال والوں کے لئے نقصان دہ بھی تو ہے، جبکہ زکوۃ کے سلسلے میں مال والے حضرات بڑے بڑے سرمایہ کار اور ساہو کار نہیں، بلکہ امت کے عوام ہیں۔(حوالہ بالا)
یہ استدلال بھی بہت کمزور ہے
یہ استدلال اس لیے کمزور ہے کہ اگر چاندی کے نصاب کو پیمانہ بنانے میں فقراء کا فائدہ اور مال والوں کا نقصان ہے، تو ہونا یہ چاہئے تھا کہ نصف چاندی اور نصف سونا کے نصاب کو پیمانہ بنایا جائے، تاکہ دونوں فریق کی رعایت ہوسکے، لیکن ظاہر ہے کہ ایسا نہیں ہو سکتا ورنہ خلاف اجماع لازم آئے گا، کیونکہ اس کا کوئی بھی قائل نہیں ہے، اس لیےکیا یہ گیا کہ سونے کے نصاب کو پیمانہ مقررکیا گیا، لیکن اس سے جانبداری کا اشکال تو جوں کا توں باقی رہا کہ اس میں تو مال والوں کا نفع ہے، مگر فقراء کا نقصان ہے۔
دوسری بات یہ ہے کہ شریعت نے ہر مال والے کو غنی قرار نہیں دیا ہے، بلکہ اس نے شرط لگائی ہے کہ وہ مال بقدر نصاب ہو، دین سے فارغ ہو،اور ضروریات زندگی سے زائد ہو، نیز زکوٰۃ کے لیے یہ بھی شرط ہے کہ وہ بڑھنے والا ہو اوراس پر پورا سال گزر چکا ہو، یہ ساری شرطیں اور اس پر واجب ہونے والی معمولی مقدار مال والوں کی رعایت ہی کے پیش نظر ہیں، لہذا جب کسی کو یہ سہولیات حاصل ہوں اور اس کے بعد وہ کسی نصاب کا مالک ہو جائے تو انصاف کا تقاضہ یہ ہے کہ اب وہ مزید کسی رعایت اور سہولت کا انتظار نہ کرے، بلکہ اللہ کا شکر ادا کرتے ہوئے اس مال میں جو فقراء کا حق ہے اسے ادا کردے اور جہاں تک ہوسکے احتیاط کی صورت اختیار کر ے، اس میں اس کا دنیوی اور اخروی فائدہ ہوگا اور فقراء کا بھلا ہوگا۔
تیسری بات یہ ہے کہ اس طرح کے مسائل پر غور کرتے وقت صرف دنیاوی اور مادی فائدہ ہی ملحوظ نہیں رکھنا چاہیے، بلکہ اسلامی فلسفہ کے مطابق جو اخروی اور روحانی فوائد ہیں، انہیں مقدم رکھنا چاہیے، تاکہ نفع اور نقصان کا صحیح تعین ہو سکے، چنانچہ جب ہم اس پہلو سے غور کرتے ہیں تو ہمیں مال والوں کے نقصان کے بجائے ان کا نفع ہی نظر آتا ہے۔
جمہور فقہاء کا قول راجح ہے
ان حضرات کے مقابلے میں جمہور فقہاء متقدمین اور معاصرین کی رائے یہ ہے کہ کسی خاص نصاب کو پیمانہ بنانے کے بجائے اس نصاب کو پیمانہ بنایا جائے جس میں فقراء کا زیادہ نفع ہواورجس سے واجب کی ادائیگی میں پورا احتیاط ہو، ہمارے زمانے میں چونکہ چاندی کا نصاب فقراء کے حق میں زیادہ مفید ہے، اور اس میں احتیاط بھی ہے، اس لیے اسی کو پیمانہ بنایا جاتا ہے۔ اس قول پر مندرجہ ذیل وجوہ سے استدلال کیا جاتا ہے:
١…..فرضیتِ زکوۃ کا مقصد فقراء کی حاجت روائی ہے چنانچہ علامہ ابن الہمام فرماتے ہیں کہ زکوٰۃ کی مشروعیت کا مقصد ہے مالی تعاون کے ذریعے فقراء کی غم خواری کرنا اس طور پر کہ وہ خود فقیر نہ ہو جائے۔(فتح القدیر ٤٨٢/١)
پس جو نصاب اس مقصد کو زیادہ پورا کرنے والا ہوگا وہی پیمانہ بننے کے لائق ہو گا اور ظاہر ہے کہ کم مالیت والانصاب ہی اس مقصد کو زیادہ پورا کرے گا اس لیے اسی کو پیمانہ بنانے میں مقصد زکوۃ کی تطبیق زیادہ ہے، ہمارے زمانے میں کم مالیت والا نصاب چاندی کا ہے اس لیے چاندی کے نصاب کو پیمانہ بنایا جاتا ہے۔
٢…..دوسری دلیل یہ ہے کہ جب کسی معاملے میں قلیل و کثیر کے درمیان تردد ہو جائے اور معاملہ دونوں کے درمیان دائر ہو، تو اقلِ متیقن کو ترجیح دی جاتی ہے، جیسا کہ نماز کی تعداد رکعات میں شک ہوجانے پر بنا علی الاقل والی حدیث سے ظاہر ہے، اس اصول کا تقاضا یہ ہے کہ سونے اور چاندی کے نصاب میں جو اقل ہو اس کو ترجیح دی جائے اور اسی کو نقد، یا سامان تجارت کے نصاب میں پیمانہ بنایا جائے۔
٣….. تیسری دلیل یہ ہے کہ فقہاء کے نزدیک عبادات میں احتیاط واجب ہے، جیسا کہ حدیث میں آیا ہے: دع مایریبک الی مالا یریبک۔ یعنی مشکوک چیزوں کو چھوڑ کر یقینی چیزوں کو اختیار کرو، ظاہر ہے کہ زکوۃ بھی ایک عبادت ہے جس میں احتیاط کا تقاضا یہ ہے کہ کم مالیت والے نصاب کو پیمانہ بنایا جائے، تاکہ بندہ اپنے آقا کا حق احتیاط کے ساتھ کامل طریقے پر ادا کرسکے۔
٤….. چوتھی دلیل یہ ہے کہ جب سے سونے اور چاندی کی قیمتوں میں نمایاں فرق ہوا ہے، اسی وقت سے کم مالیت والے نصاب کو پیمانہ بنانے پر امت کا تعامل چلا آرہا ہے، کم ازکم برصغیر میں اس کے خلاف کوئی فتوی سامنے نہیں آیا ہے، جس سے اس مسئلہ میں ایک طرح سے اجماع کی شان پیدا ہوگئی ہے، اب اس کے خلاف قول اختیار کرنے سے اس اجماعی تعامل کی خلاف ورزی ہوگی، نیز اس سے لوگوں کے ذہنوں میں شکوک و شبہات پیدا ہوں گے اور عجب نہیں کہ بعض لوگوں کے لیے یہ فتنہ کا سبب بن جائے، اس لیے اب تک امت کا جوتعامل چلا آرہا ہے اسی کو باقی رکھا جائے، اسی میں دنیا اور آخرت کا فائدہ اور ایمان و اسلام کا کامل اظہار ہے۔
نوٹ : صدقۃ الفطر اور قربانی کا نصاب چونکہ وہی ہے جو زکوۃ کا نصاب ہے، متقدمین و متاخرین میں کسی نے ان تینوں کے نصاب میں فرق کا قول اختیار نہیں کیا ہے، اس لئے جو نصاب انفع للفقراء اور احوط ہوگا وہی زکوۃ، صدقہ فطر اور قربانی تینوں میں پیمانہ بنایا جائے گا، ورنہ خلاف اجماع لازم آئے گا۔
اس وقت دارالافتاء مرکز اھل السنۃ والجماعت، لاہور کراچی کاایک فتوی سامنے آیا ہے، جس میں اس بات کو ترجیح دی گئی ہے کہ خاص طور پر وجوب قربانی کے لیے سونے کے نصاب کو پیمانہ بنانا چاہیے، لیکن یہ فتویٰ محلِ نظر ہے، اور اس کی جتنی وجوہِ ترجیح ذکر کی گئی ہیں، ان سب کی کمزوریاں سطورِ بالا سے واضح ہوجاتی ہیں، تاہم اس فتوی سے متعلق مزید چار باتیں عرض کردینا مناسب ہے:
١……اس فتوی میں ایک طرف یہ صراحت ہے کہ اگر کوئی شخص ساڑھے باون تولہ چاندی کا مالک ہو جائے تو اس پر قربانی واجب ہوگی، لیکن دوسری طرف یہ کہا گیا ہے کہ جو اتنے چاندی کی قیمت کے بقدر مال کا مالک ہو تو اس پر قربانی واجب نہیں ہے، حالانکہ دونوں صورتوں میں مالک نصاب شخص کی مالی حیثیت بالکل برابر ہے، کیا اس تضاد کے ساتھ کوئی فتوی قابل قبول ہو سکتا ہے؟
اگر واقعی چاندی کے نصاب کی مالیت بہت گھٹ گئی ہے اور اس سے شرعی غنا کاتحقق نہیں ہو رہا ہے، تو ہمت کرکے صاف صاف یہ فتوی دینا چاہیے کہ کوئی شخص چاندی کے نصاب کا مالک ہو جائے،تو وہ صاحب نصاب نہیں ہے، اس پر قربانی واجب نہیں ہو گی، جب تک وہ سونے کے نصاب یا اس کے بقدر مال کا مالک نہ ہو جائے۔ ظاہر ہے کہ اس کی ہمت نہیں کی جاسکتی ، کیونکہ اس سے صریح نص کا الغا لازم آے گا، تو پھر وجوب قربانی کے لیے اس کے بقدر مالیت کو بھی کافی تسلیم کرنا ہو گا، ورنہ صریح تضاد لازم آے گا۔
٢……دوسری بات یہ قابل غور ہے کہ ایک شخص سونے اور چاندی کے نصابوں میں سے کسی ایک نصاب کے بقدر مال کا مالک ہو گیا جس سے قدرت ممکنہ متحقق ہوگئی، جو قربانی کے لئے شرط ہے، لیکن وہ دوسرے نصاب کی مالیت کے بقدر مال کا مالک نہیں ہے، تو اس کے حق میں قربانی ایک نصاب کے اعتبار سے واجب ہوئی، دوسرے نصاب کے اعتبار سے واجب نہیں ہوئی، ایسی صورت میں حضرت ابراہیم اور حضرت اسماعیل علیہ السلام کی یادگار قربانی کو سامنے رکھ کر خود اپنے دل سے پوچھئے کہ آپ پر کیا واجب بنتا ہے؟ قربانی کرنا یا نہ کرنا؟ یہ کیسی دورنگی ہوگی کہ ہم قربانی کا فلسفہ حضرت ابراہیم اور حضرت اسماعیل کے واقعات کے تناظر میں یہ بیان کریں کہ قربانی کا مقصد امت میں یہ جذبہ ابھارنا ہے کہ ہم اللہ کے حکم سے اللہ کے نام پر عزیز سے عزیز چیز بھی قربان کر سکتے ہیں، لیکن جب عمل کی نوبت آئے تو یہ نصاب نہیں وہ نصاب ہونا چاہیے کی بحث شروع کر دیں۔
٣…… تیسری بات یہ ہے کہ ابھی جو چاندی کی مارکٹ ریٹ ہے، اس کے اعتبار سے بقدر نصاب چاندی کی قیمت تقریبا33000 ہزار روپے ہوتی ہے، آج بھی اگر کسی کے پاس تمام ضروریات سے زیادہ اور قرض سے فارغ اتنے روپے موجود ہیں، تو اللہ کا لاکھ لاکھ شکر ادا کرنا چاہیے، جب کہ قربانی کا ادنی خرچ بڑے جانور میں تقریبا دو،ڈھائی ہزار روپے(بندہ خود ٢٢٠٠میں حصہ دار ہے) اور چھوٹے جانور میں بکری لیں تو تین ہزار روپے ہیں، ہاں زیادہ کی کوئی حد نہیں ہے، ایسی حالت میں اگر اس شخص پر قربانی واجب ہو تو کونسا ظلم ہو جائے گا، آجکل ڈھائی تین ہزار روپے آدمی چائے پانی میں یا نزلہ زکام کے علاج میں آسانی کے ساتھ خرچ کرکے چلا آتا ہےاور اس پر کسی بار کا احساس تک نہیں ہوتا، آخر کیا ضروری ہے کہ قربانی کے لیےپندرہ، بیس ہزار کا بکرا ہی معیار ماناجائے۔
٤…… چوتھی اور آخری بات یہ ہے کہ یہ دنیا بہت بڑی ہے اور اس میں بسنے والے لوگوں کے احوال و اطوار بہت مختلف ہیں، اس لیے ایک خطے اور ایک طبقے کی رعایت کی جائے گی تو دوسرا طبقہ اور خطہ نظر انداز ہو جائے گا، لہذا سلامتی اور احتیاط کا راستہ یہی ہے کہ شریعت نے جس چیز کا جو نصاب طے کر دیا ہے اور فقہاء نے اخذ و استنباط کے جو اصول مقرر کر دیے ہیں، ان پر قائم رہا جائے، بعض خطوں اور بعض لوگوں کے مصالح کی بنا پر شریعت کے طے شدہ مقادیر اور مسلمہ اصول سے انحراف نہ کیا جائے۔ والسلام

Comments are closed.