ڈاکٹر عثمان غنی امارت گرلس کمپیوٹر سنٹر ہارون نگر ، پٹنہ کی انقلابی خدمات – تاریخ کے آئینہ میں

شاہ نواز احمد خان
ریٹائرڈ لیبر کمشنر رکن شوریٰ و عاملہ امارت شرعیہ ، پھلواری شریف، پٹنہ
امت مسلمہ کی ہمہ جہت ترقی کے لیے جہاں جامعات کی ضرورت ہے ، وہیں تکنیکی اداروں کے قیام کو بھی لازمی جزو کی حیثیت دی گئی ہے ۔ ایک سرے پر دارا لعلم ہے ، دوسری طرف دار العمل ؛علم و عمل کسی قوم کی ترقی کے لیے جزو لا ینفک ہیں ۔ مفکر قوم و ملت حضرت مولانا علی میاں قدس سرّہ اپنے خصوصی خطاب میں صنعت داؤدی پر اکثر زور دیتے تھے۔ حضرت داؤد علیہ السلام فن آہن گری کے موجد اول ہیں ۔ مرور ایام کے شانہ بشانہ چل کر یہی فن انجینئرنگ کے شعبہ میں داخل ہوا۔ آئرن اینڈ اسٹیل انڈسٹری کی اساس اسی فن آہنگری کی رہین منت ہے ۔ اس فن کی ہمہ گیریت و افادیت کو مسلم امۃ کے حق میں پہلے امارت شرعیہ نے محسوس کیا اور حضرت امیر شریعت رابعؒ اور ان کے رفیق کار قاضی مجاہد الاسلام قاسمی ؒ نے اپنی وسعت نظری کا ثبوت دیتے ہوئے اسے عملی شکل عطا کیا ، آج امارت شرعیہ کی قلمرو میں امارت ٹیکنیکل انسٹی ٹیوٹس کا قیام و انصرام ہمارے قول پر سند کی حیثیت رکھتا ہے ۔ مختلف ٹریڈس کے ساتھ ، کمپیوٹر کے فن کو اعلیٰ معیار تک لے جانے میں امارت شرعیہ کی کوششیں مبارک باد کی مستحق ہیں ۔ میں نے ازراہ تلطُّف۲۱؍ جولائی ۲۰۲۰ء کو ڈاکٹر عثمان غنی گرلس کمپیوٹر سنٹر ہارون نگر ، پھلواری شریف، پٹنہ کا سرسری جائز ہ لیا ۔ پہلی نظر میں تین منزلہ عمارت دیکھ کر احساس مسرت ہوا، سنٹر کے سکریٹری انعام خان صاحب نے روایتی انداز میں رسم ضیافت ادا کی۔ دوران گفتگو پروفیسر شمس الحسن نگراں شعبۂ تعلیمات امارت شرعیہ بھی تشریف فرما ہوئے، معلوم ہوا کہ سن ۲۰۰۳ء سے یہ سنٹر معاشی طور پر کمزور طبقہ کی بچیوں کے لیے اپنی افادیت کا ثبوت دے رہا ہے ۔ اس سنٹر کی بنیاد سن ۲۰۰۳ء میں بہار کے گورنر اخلاق الرحمن قدوائی نے اپنے دست مبارک سے رکھی تھی، ڈاکٹر اخلاق الرحمن قدوائی کی علم دوستی اظہر من الشمس ہے ، مولانا مظہر الحق عربی و فارسی یونیورسٹی کی منظوری انہیں کے دور ہمایونی میں ہوئی ، وہ اس یونیورسٹی کے قیام سے عربی و فارسی کی اعلیٰ تعلیم کو پروان چڑھانے کے آرزو مند تھے ۔ گورنر ہاؤس کی ایک خصوصی نشست میں جس کی قیادت شمائل نبی کر رہے تھے اور ابنائے قدیم کی ایک جماعت ان کے ساتھ تھی ، گورنر صاحب نے فرمایا کہ اس مجوزہ یونیورسٹی کے حیطۂ اختیار میں طب ، صحافت، انجینئرنگ اور میڈیکل سائنس کے شعبوں کو بھی وقت کے ساتھ ساتھ جگہ دی جا سکتی ہے، میں بھی اس نمائندہ نشست میں موجود تھا۔ ’’ہوتا ہے جادہ پیماں پھر کارواں ہمارا‘‘ کے عنوان سے گورنرصاحب سے ہوئی گفتگو نذر اشاعت ہو چکی ہے۔
اس سنٹر میں ڈی سی اے اور بی سی اے بشمول لائبریری سائنس کے کورس پڑھائے جا تے ہیں ۔ ابھی تک لگ بھگ ۴۰۰؍ بچیاں اس سنٹر سے فارغ ہو چکی ہیں ۔ ایسا ہی ایک سنٹر امارت شرعیہ کے احاطہ میں بھی ہے ، جو امارت انسٹی ٹیوٹ آف کمپیوٹر اینڈ الیکٹرونکس کے نام سے موسوم ہے ؛ یہ صرف لڑکوں کے لیے مختص ہے ، اس کے قیام سے لے کر آج تک ہزاروں طلبہ اس سے فیضیاب ہو چکے ہیں ۔ فارغین طلبہ کی ایک معتد بہ تعداد غیر ممالک میں بھی اپنی خدمتوں کے جوہر دکھلا رہی ہے ۔یقینا امارت شرعیہ بہار، اڈیشہ و جھارکھنڈ نے تکنیکی شعبہ میں اپنے جہد مسلسل سے اسلاف کے خوابوںکو شرمندۂ تعبیر کر دیا ہے ۔یہ سنٹر ڈاکٹر عثمان غنی مرحوم کے نام پر ان کے وارثین کی طرف سے برائے اجر وثواب قائم کیا گیاہے ، طالبات یہاں سے فارغ ہو کر اپنے خاندان کو سنبھالا دے رہی ہیںاور آج کے معاشی بحران میں اپنے پیروں پر کھڑی ہیں،یہی صدقۂ جاریہ ہے۔گذشتہ برسوں میں این ڈی ٹی وی کی طرف سے عالمی شہرت یافتہ صحافی شری رویش کمار نے بھی اس سنٹر کا معاینہ کیا تھا ۔ دوران معاینہ شری کمار کو یہ جان کرخوشی ہوئی کہ اس سنٹر میں زیر تعلیم طالبات میں مسلم بچیوں کے ساتھ غیر مسلم بچیاں بھی بلا تفریق مذہب و ملت اپنے ذوق و شوق کا مظاہرہ کر رہی ہیں ۔ مجھے محترم انعام خان صاحب( سکریٹری ڈاکٹر عثمان غنی امارت گرلس کمپیوٹر سنٹر ہارون نگر )نے بتلایا کہ اس سنٹر کی ہیڈ معلمہ شری متی روپا شرما ہیں ، میں نے سنٹر کی تعلیم و تربیت کے سلسلے میں ان سے باتیں کیں اور انہوں نے میرے تمام سوالات کا تشفی بخش جوا ب دیا ، ان کے ساتھ ان کی معاون محترمہ نور جہاں ، محترمہ نزہت غوثیہ اور اس سنٹر کے سابق پرنسپل جناب عرفان احمد صاحب بھی تھے ۔ آپ اس سے خود امارت شرعیہ کی وسیع المشربی اور جذبۂ خیر سگالی کا بخوبی اندازہ کر سکتے ہیں ۔ امارت شرعیہ نے اپنے علمی سفر میں ہمیشہ ذات و مذہب سے اوپر اٹھ کر فلاح انسانیت کے لیے کام کیا ہے ۔ اس کی زندہ مثال اس کے تمام تکنیکی انسٹی ٹیوٹس بشمول مولانا منت اللہ رحمانی ٹیکنیکل انسٹی ٹیوٹ (پارا میڈیکل)پھلواری شریف ہیں ، جہاں ڈی ایم ایل ٹی ، بی ایم ایل ٹی ، فیزیو تھراپی(ڈگری و ڈپلوما کورس)اور اے بی پی ٹی کی تعلیم و تربیت دی جا تی ہے ۔ یہ ادارہ گذشتہ ماہ و سال سے اپنی حسن کارکردگی کی وجہ سے مقبول عام ہے ۔
ڈاکٹر عثمان غنی مرحوم کے تینوں صاحبزدگان ؛ ڈاکٹر ضیا عثمان، ارتضیٰ عثمان اور ارتقیٰ عثمان امریکہ میں رہتے ہوئے چشم بینا سے اس ادارہ کی نگرانی کا فرض انجام دیتے ہیں ۔ پوری عمارت وقف ہے، واقفین حضرات اور امارت شرعیہ کے مشورہ سے مشہور صحافی جناب خورشید انور عارفی صاحب اس سنٹر کے چیر مین ہیں ۔ ان کی صحبت عارفانہ سے اس ادارہ کی ترقی ہر صاحب نظر کے لیے قابل دید ہے ، مجھے انعام خان نے بتلایا کہ انسٹی ٹیوٹ کے اقامتی ایام میں حضرت امیر شریعت ساد س حضرت مولانا سید نظام الدین صاحبؒ اور سابق ناظم امارت شرعیہ مولانا انیس الرحمن قاسمی کی خدمات جلیلہ کا اعتراف امارت شرعیہ کے تمام اراکین و متوسلین کو ہے ، فی الحال سنٹر کی جدید کاری کا عمل پورا ہو چکا ہے ، اس سنٹر کی سہ منزلہ ھئیت، کشادہ ہال ، جدید مزین و مرصع روم زبان حال سے کہ رہے ہیں کہ اس میں بوقت ضرورت کسی دوسرے ڈسپلن کی گنجائش بھی ہو سکتی ہے، اسی ضمن میں محترم شمس الحسین صاحب نگراں تعلیمات امارت شرعیہ نے فرمایا کہ اس سنٹر کے ایک حصہ میں بچیوں کے لیے پارا میڈیکل کا کورس بھی جاری کیا جا سکتا ہے۔آریہ بھٹ نالج یونیورسٹی سے رابطہ قائم ہے ، اب زمین کی کساد بازاری کا یہ عالم ہے کہ ایک ہی عمارت میں متعدد ادارے چل رہے ہیں ، تعلیم نسواں کی اہمیت و ضرورت پر مفکر اسلام حضرت مولانا سید محمد ولی رحمانی صاحبدامت برکاتہم امیر شریعت بہار اڈیشہ وجھارکھنڈ کی فکرسے ہم سبھی واقف ہیں ، حضرت اس خواب خفتہ کی بیداری کے لیے ہمہ دم مشغول عمل رہتے ہیں ، اللہ ان کی کوششوں کو بار آور فرمائے(آمین)۔
جس طرح سے اس ادارہ کی جدید کاری میں حضرت امیر شریعت نے توجہ فرمائی ہے اور ادارہ قابل رشک ہو چکا ہے ، مجھے امید ہے کہ ہماری بیٹیوں کے لیے یہ مرکز پارا میڈیکل کی تعلیم و تربیت کی راہ میں سنگ میل ثابت ہو گا ۔(ان شاء اللہ)مائنورٹی اداروں کے ذمہ داروں کو چاہئے کہ اداروں کے قیام میں وزیر اعظم کے پندرہ نکاتی پروگرام کو ملحوظ خاطر رکھیں ، حقوق طلبی کی راہ کل آسان تھی نہ آج۔ جہد مسلسل سے اس راہ کے سنگریزے چلنے والوں کے لیے منزل کی رہنمائی کرتے ہیں ، امارت شرعیہ کی پوری تاریخ اس کی زندہ و جاوید مثال ہے۔
Comments are closed.