مسلم دنیاکاجذبہ قربانی لیکن مغلوب کیوں؟

عبدالرافع رسول
رب العالمین کے حکم پرعیدالاضحی کے موقع ٰپرکرہ ارض پرموجود امت مسلمہ میںقربانی کاجذبہ دیکھیں تودل باغ باغ ہوجاتاہے مگردوسری طرف آج اس عظیم امہ کی مغلوبیت کاحال دیکھ کرسینہ چھلنی ہے ۔عیدالاضحی کے مقدس موقع پردنیا بھر میںقربانی کے لئے کتنی مالیت کے جانور فروخت ہوتے ہیں اس بارے میں کوئی(Credible)معتبر اعداد و شمار تو موجود نہیں ہیں البتہ کئی اہم مسلمان ممالک کی کل شرح آبادی میں سے مالداراورمتمول عوام کی شرح کوبنیادبناکرایک اندازہ لگایاجاسکتاہے کہ عیدالاضحی پر کس ملک میں کتنی مالیت کے جانورقربان کئے جاتے ہے اورپھر قربانی کے بعد جمع ہونے والی کھالوں سے یہ اندازہ بخوبی لگایا جاسکتا ہے کہ سالانہ عیدالاضحی کے موقع پراللہ کی رضاکے حصول کے لئے چاردانگ عالم مسلمان کتنے کھرب خرچ کئے جاتے ہیں۔ مسلم دنیا کا آبادی کے لحاظ سے سب سے بڑا ملک انڈونیشیا ہے جہاں 22کروڑ سے زائدشرح آبادی ہے جس میں سے ہرسال تقریبا 1کروڑ 8 لاکھ 40 ہزارلوگوں کی طرف سے قربانی کی جاتی ہے۔ مسلم ممالک میں آبادی کے لحاظ سے دوسرے نمبر پر پاکستان ہے جہاں20کروڑ سے زائد شرح آبادی ہے اورہر سال تقریبا1کروڑ 22لوگوں کی جانب سے قربانی کی جاتی ہے۔پاکستان ٹینریز ایسوسی ایشن نے2019کی قربانی پراپنی رپورٹ میں کہاکہ عید قربان پرتقریبا 66لاکھ 80ہزار جانور قربان کیے گئے،جن میں 24لاکھ گائے،32لاکھ بکرے فروخت جبکہ10لاکھ بھیڑیں،دنبے اور 80ہزار اونٹ شامل ہیں۔اسے قبل پاکستان ٹینری ایسوسی ایشن کی جانب سے سال2018کے حوالے سے اعدادوشمارپیش کرتے ہوئے بتایاگیاکہ 2018میںعید الاضحی پر تقریبا 60لاکھ بڑے چھوٹے جانوروں کی قربانی کی گئی۔مسلم دنیامیں بنگلہ دیش کی آبادی کے لحاظ سے تیسرابڑامسلمان ملک ہے جہاںشرح آبادی 18کروڑسے زائدہے اس میں تقریبا80لاکھ 72ہزارلوگ قربانی کرتے ہیں۔مصر آبادی کے لحاظ سے مسلم دنیامیں چوتھے نمبرپر ہے جہاں کی شرح آبادی 8کروڑسے زائد ہے اور یہاں تقریبا62لاکھ 23ہزار لوگ قربانی کرتے ہیں۔ آبادی کے لحاظ سے مسلم دنیامیں ترکی پانچویں نمبرپر ہے جہاںکی شرح آبادی 7کروڑ سے زائدہے اور یہاںتقریبا48لاکھ 20ہزار لوگ قربانی کرتے ہیں۔ مراکش میںتقریبا8لاکھ 40ہزار لوگ قربانی کرتے ہیں۔ عراق میں تقریبا4لاکھ 72ہزار لوگ قربانی کرتے ہیں۔ الجیریامیں تقریبا4لاکھ 12ہزار لوگ قربانی کرتے ہیں۔ سوڈان میں تقریبا2لاکھ 54ہزار لوگ قربانی کرتے ہیں۔واضح رہے کہ مراکش ،عراق ،الجیریا،سوڈان ان سب کی شرح آبادی انیس بیس کی تفاوت کے ساتھ ایک جیسی یعنی 3کروڑ سے زائدہے۔سعودی عرب جہاں کی آبادی بھی تقریبا3کروڑ نفوس پرمشتمل ہے مگریہاں حج کی وجہ سے سب سے زیادہ تقریبا1کروڑ 50لاکھ 30ہزار لوگ قربانی کرتے ہیں۔
افغانستان 2کروڑ 90لاکھ آبادی اور تقریبا2لاکھ 10ہزار لوگ قربانی کرتے ہیں۔ ازبکستان 2کروڑ 68لاکھ آبادی اور تقریبا1لاکھ لوگ 60ہزار لوگ قربانی کرتے ہیں۔ شام 2کروڑ 8لاکھ آبادی اور تقریبا1لاکھ قربانی کرتے ہیں۔ کویت کی 5لاکھ آبادی اور تقریبا98ہزار لوگ قربانی کرتے ہیں۔ ملائیشیا 1کروڑ 70لاکھ آبادی اور تقریبا95ہزار قربانی کرتے ہیں۔ تیونس 1کروڑ 34لاکھ آبادی اور تقریبا87ہزار لوگ قربانی کرتے ہیں اور یمن 2کروڑ 8لاکھ آبادی اور تقریبا80ہزار لوگ قربانی کرتے ہیں۔ یہ وہ چندمسلم ممالک ہیںجن میں قربانیوں کی تعداد دوسرے ممالک کی نسبت زیادہ ہوتی ہے تا ہم دیگر مسلم ممالک جیسے فلسطین، لیبیا، اردن، جبوتی، موریطانیہ، گیمبیا، تاجکستان، آذر بائیجان، ترکمانستان، قازقستان، کرغزستان، قطر، بحرین، عمان اور متحدہ عرب امارات جیسے درجنوں ممالک ہیں جن میںبھی بڑے پیمانے پرجانوروں کی قربانی ہوتی ہے۔ اسی طرح بعض غیر مسلم ممالک میں بھی مسلمان قربانی کرتے ہیں۔ جیسے بھارت اس کی سب سے بڑی مثال ہے۔ بھارت کے20کروڑ مسلمانوں میں سے تقریبا1کروڑ سے زائد لوگ قربانی کرتے ہیں۔ اب آپ چند لمحوں کے لیے رک جائیے اور درج بالا ممالک میں قربانیوں کے اعدادو شمار کا مجموعہ ملاحظہ کیجیے۔
متذکرہ اعدادوشمار کے مطابق یہ 6کروڑ 20لاکھ93ہزار قربانی کرنے والے افراد بن جاتے ہیں۔ اگر اس میں دیگر تمام مسلم ممالک کے صرف 50لاکھ اور غیرمسلم ممالک بالخصوص بھارت کے مسلمانوں کو بھی شامل کرلیا جائے تو یہ مجموعہ 7کروڑ 70لاکھ 93ہزار بن جاتا ہے۔ فرض کرتے ہیں یہ پونے 8کروڑ لوگ مل کر 3کروڑ جانور ذبح کرتے ہیں تو ان 3کروڑ جانوروں کے گوشت کا اوسطا مجموعی وزن کتنا ہوگا؟ ہم اس کو اس اندازے سے حل کرتے ہیں کہ چھوٹے اور بڑے جانور کا اوسط وزن 50کلوگرام فکس کردیتے ہیں تو یہ ایک ارب 50کروڑ کلو یعنی 3کروڑ 75لاکھ من گوشت بن جاتا ہے۔ اگر ہم اس گوشت کی فی کلو قیمت 500 روپے ہی رکھیں تو اس گوشت کی کل قیمت 7کھرب 50ارب بن جاتی ہے۔ اب ایک قدم اور آگے بڑھتے ہیں اور 3کروڑ جانوروں کی کھالوں کا حساب لگاتے ہیں۔ہم چھوٹی اور بڑی کھال کی اوسط قیمت 1800روپے ہی رکھ لیتے ہیں تو اس کا مجموعہ 54ارب روپے بن جاتے ہیں۔ جانوروں کی ہڈیاں اور آنتیں وغیرہ بھی فروخت ہوتی ہیں، لیکن ہم ان کو شمار میں نہیں لارہے۔ یوں امت مسلمہ ہر سال 8کھرب اور 4ارب کی قربانی کرتی ہے۔واضح رہے کہ ہرمسلمان مردوزن بالغ ،عاقل اور صاحبِ نصاب پر قربانی واجب ہے۔ استطاعت کے باوجود قربانی نہ کرنے والے پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سخت ناراضی کا اظہار فرمایا ہے حتی کہ اس کا عیدگاہ کے قریب آنا بھی پسند نہیں فرمایا۔
سوال یہ ہے کہ اپنے رب کے حکم کے سامنے اس قدر تسلیم ورضابننے والی امت مسلمہ کوآخرکیاہوگیاکہ وہ مغلوب بنادی گئی اورآج جب امہ مسلمہ عید الاضحی منارہی ہے کہ بھارت اور اسرائیل مسلسل اورلگاتار کشمیری اورفلسطینی مسلمانوں ظلم کے پہاڑ توڑ رہے ہیںاوران کاخون بے دریغ بہایاجارہاہے۔ افواج ہنود کشمیرمیں اورصیہونی فوجیں فلسطین میں مسلمانوں کوذبح کررہی ہیں جبکہ ہندوستان میں پہلے ہی کی طرح آج بھی مسلمان بدستورزیرعتاب ہیں ۔دونوں خطوں میں مسلمانوں کو مولی گاجر کی طرح کاٹا جا رہا ہے اورمسلما ن ممالک پرمسلط حکمران اس سلسلے میں خاموش بنے ہوئے ہیں۔محض اغیارکی خوشنودی بجالانے کے لئے مسلمان ممالک کے یہ حکمران خاموش بیٹھے ہیں ۔ افسوس صدافسوس!وہ امتِ مسلمہ جسے اللہ نے خیر امت بنایا گیاجسے مالی وجانی طورپر قربانی کاحکم دیاگیاہے،اس امت کو فریضہ شہادتِ حق کے لیے اٹھایا گیا ہے۔ ۔مگرآج مغلوب المغلوب بنی ہوئی ہے ۔
شکوہ مومنین توبڑی چیزہے ،پوری امہ آہ !شکوہ مومنین کیاشکوہ ملک سے بھی محروم ہے۔شکوہ ملک جس چیزکانام ہے وہ ہرقسم کے خارجی وداخلی اثرات سے آزاد اورپاک ملکی پالیسی ہے ۔داخلی اطمینان اور سرحدوں کی قوت وشوکت ہے ،دوسرے ممالک میں عزت ومنزلت کامقام ہے ،قوموں کی برادری میں سربلندی ہے،افرادِ قوم کااطمینان معاشی ومعاشرتی خوشحالی ہے لیکن خوردبین لگا کربھی آپ کویہ اوصاف کسی مسلمان ممالک میں نہیں ملتے بلکہ مسلمان مملکتیں اپنے اندرکئی گروہوں میں بٹ کرایک دوسرے کے خلاف ’’سردجنگ اورپراکسی وار‘‘لڑرہے ہیں اوراپنے ہی کلمہ خوانوں کے گلے کاٹنے میں مصروف ہیں اوراغیاراس بات پرخوش ہیں کہ ہزاروں میل دوربیٹھ کروہ ان پرحکومت کررہے ہیں۔اگردنیاوی دولت سے اللہ نے کچھ اسلامی ممالک کومالامال فرمایاہے توان کی دولت سے فائدہ بھی اغیار اٹھا رہے ہیں، ان مسلمانوں کے خزائن اغیارکے تصرف میں ہیں اوراسی سرمائے سے مسلمان ممالک کواسلحہ تیارکرکے فروخت محض اس لئے کیاجاتاہے کہ اس کاتجربہ بھی تم دوسرے مسلمان ممالک کی آبادی پرکرو۔پھرشکوہ دیں یہ ہے کہ اللہ جس کے حاکم ہونے کااقرارہم سب کرتے ہیں (ان الحکم للہ) جس کامطلب یہ ہوتاہے کہ اسی کاحکم اورقانون چلے اورجس کوآقامانا ہے اس سے انحراف کھلی بغاوت ہے ۔جب شکوہ مومنین ہواورنہ شکوہ ملک ہونہ شکوہ دین توپھرآزادبندہ مومن کہاں ملے گا اوریہی وجہ ہے کہ عیدکادن ہجوم ِ مومنین کے سواکچھ نہیں۔
یہ امرواضح ہے کہ کسی بھی مسلمان ملک کی حقیقی عید تب ہوتی ہے جب ان کا ملک با وقار ہو اور دین سر بلند ۔ آج ہمارا دین کے ساتھ کیا معاملہ ہے اور ہمارے مسلم ممالک کی کیا حالت ہے؟ ہماری اصل عید تو اس دن ہوگی جب چاردانگ عالم مسلمان کو حقیقی آزادی حاصل ہوگی، خدا مختاری کادوردورہ ہوگا ، دین سر بلند ہوگا، اور کرہ ارض پرہم اپنے دین کے نفاذ اور سر بلندی کے لیے سرگرم عمل ہوں گے۔ اس لیے کہ غلاموں اور مجبوروں کی عید بھی کیا عید ہوتی ہے؟بہرکیف! اللہ اکبر اللہ اکبر لا الہ الااللہ و اللہ اکبر اللہ اکبر وللہ الحمد کا نعرہ بلندکرتے ہوئے مسلمان عیدگاہوں کارخ کرتے ہیں اوراس طرح اسلام عظیم الشان نیکیوں اور انقلاب آفرین خوبیوں کی بنیاد پر یوم عید کاڈسپلن اورکوڈآف کنڈیکٹ مقرر کرتا ہے،یعنی عید ہر فرد مسلم کی اپنی عیداپنی مرضی اوراپنی من چاہی نہیں ہوتی کہ جیسے چاہے منائے اور جو چاہے کر گزرے، کسی کو کسی کے ساتھ کوئی سروکار نہ ہو۔ جو انسانیت کے لیے ہمہ گیر، ہمہ جہت اور ہمہ وقت ہوں ، جن کا تعلق کسی خاص قوم، نسب و حسب یا علاقے سے نہ ہو بلکہ اس کا تعلق نوع انسانی سے ہو اور عالم گیر ہو۔پھریہ کہ اسلام کی عید محض کھیل تماشا، شور شرابا اور ہنگامہٓ ہا ہو کا نام نہیں، یا فقط خوش لباسی اور خوش خوراکی سے عبارت نہیں،بلکہ یہ خدائے قدیر کی اجتماعی عبادت سے لے کر اخوت و مدت، ہمدردی اور محبت، خیرات اور فیاضی، پاکیزگی اور طہارت اور تنظیم و اتحاد جیسی اعلی صفات کا مظہر ہے۔بلکہ یہاں تو ابنائے وطن کو عید میں شریک کرنے کا حکم ہے، اور وہ جو مالی مجبوریوں اور معاشی دشواریوں کے سبب ان مسرتوں سے بہرہ ور نہیں ہوسکتے تو دوسرے مسلمانوں کے فرائض میں ہے کہ وہ ان سے مالی تعاون کریں اور عید سے پہلے پہلے انہیں اس قابل بنائیں کہ وہ دوسرے مسلمانوں کے دوش بدوش خوشیوں میں شریک ہوسکیں۔
غرض عید اسلام کی عظمت، شوکت اور شاندار روایت کا امین ہے۔ اگر ہم عید کے ان عظیم دینی و اجتماعات کو کارآمد، مفید اور کثیر المقاصد بنانے کی تدابیر اختیار کریں تو ان اجتماعات سے دینی اور دنیاوی افادیت میں بہت اضافہ ہوسکتا ہے۔یہ احیائے دین اور اقامتِ دین کے لیے انتہائی موثر ثابت ہوسکتے ہیں، مگر افسوس کہ ہم ان اجتماعات سے کماحقہ فائدہ نہیں اٹھارہے۔ یہ اجتماعات محض ہجوم مومنین ہوکر رہ گئے ہیں اور انہیں شکوہِ ملک و دین کا وہ مرتبہ حاصل نہیں جو آزاد قوموں کا شعار ہوتا ہے۔
ہاں البتہ مظلومیت میں بھی اگرعید کی خوشیوں کاحصول چاہتے ہیں تویہ بہترین موقع ہے کہ وہ ہزاروں خاندان جواس وقت غربت اورفاقہ کشی کی حالت میں کسی سے بھی اپنایہ دکھ بیان نہیں کرسکتے اورغیرانسانی حقوق کی پابندیوں کے وجہ سے دوسرے ملک کے افرادبھی ان تک امدادپہنچانے سیقاصرہیں،آپ کی فوری توجہ کے مستحق ہیں۔جلدی کیجئے کہیں دیرنہ ہوجائے۔
Comments are closed.