ایک چراغ اور بجھا اور بڑھی تاریکی !

ایک چراغ اور بجھا اور بڑھی تاریکی
اس کارگاہِ ہستی میں لوگ آتے ہیں اور وقت مقر رہ تک اپنی زندگی گذارنے کے بعد رخصت ہو جاتے ہیں۔ لیکن تاریخ کا حافظہ انہی لوگوں کو اپنی یادداشت میں محفوظ رکھتا ہے جن کی زندگیاں ایک معین اور متعین نصب العین کے تحت گذرتی ہیں جو دنیا میں دینے کے لئے آتے ہیں لینے کیلئے نہیں۔ اور اسلامی تناظر میں بقول علامہ اقبالؒ کے
میری زندگی کا مقصد تیرے دیں کی سرفرازی
میں اسی لئے مسلمان میں اسی لئے نمازی
آج صبح جیسے ہی بیدار ہوا ، سوشل میڈیا پر یہ اندوہناک و المناک خبر پڑھ کر کلیجہ منہ کو آگیا، دل کی دھڑکنیں تیز ہوگئیں اور سینہ پھٹ کر رہ گیا، ذہن و دماغ میں لرزہ طاری ہوگیا ، یقین کرنا مشکل ہورہا تھا کہ ہم سب کے مخدوم و مربی، استاذ الاساتذہ حضرت مولانا قاضی حبیب اللہ قاسمی صاحب بھی الوداع کہہ گئے ۔
إنا لله وإنا إليه راجعون
لله ما أخذ وله ما اعطى وكل شيء عنده بأجل مسمى
حضرت مولانا قاضی حبیب اللہ قاسمی رحمہ اللہ دارالعلوم دیو بند کے قدیم فضلاء میں تھے ، اپنے علاقے میں دارالعلوم دیو بند کے عظیم سپوت ہونے کے ناطے علومِ ولی اللہی، فکرِ نانوتوی کے امین و پاسباں تھے ، ترجمانِ فکر دیو بند تھے ، نمونہ اسلاف ، فرشتہ صفت اور اس دور پرفتن میں بزرگوں کی نشانی تھے ، علم میں پختگی ، گہرائی و گیرائی تھی ، خالص علمی شخصیت کے مالک تھے ، صلاحیت و صالحیت کا حسین امتزاج تھے ، چہرے مہرے پر عبادت و ریاضت، رب کریم کے حضور سربسجود ہونے کی نشان یہ ظاہر کرتی تھی کہ خشوع و خضوع، اخلاص و للہیت، تقوی و پرہیزگاری، زہد و ورع ، خوف و خشیتِ الہی جیسی صفات و کمالات سے متصف تھے ۔
ایک عرصے سے دارالقضاء امارت شرعیہ بہار و اڑیسہ جھارکھنڈ کے پلیٹ فارم سے شہر مدھوبنی کے دارالقضاء کے باوقار منصب پر فائز تھے ، بڑے ہی خوش اسلوبی سے پورے علاقے کے عائلی، معاشرتی اور سماجی مسائل کی تصفیہ اور حل فرماتے تھے، انکی شخصیت مسند قضاء پر پورے علاقے کے لئے زینت تھی،
مدرسہ فلاح المسلمین بھوارا مدھوبنی بہار میں دارالقضاء کے علاوہ حدیث و تفسیر کے ماہر و مقبول استاذ تھے ، پورے علاقے میں اپنے سیرت و کردار ، علم و عمل اور اخلاق کریمانہ کی وجہ سے سب کے منظور نظر اور ہر طبقہ میں مقبول و محبوب تھے ، دینی، ملی سماجی خدمات کے لئے فعال و متحرک رہتے تھے،
دینی و اصلاحی اجتماعات، تعلیمی و ثقافتی کانفرنسوں کی زینت ہوا کرتے تھے، قادر الکلام خطیب تھے ،شستہ و شائستہ ،سلیس زبان بولتے تھے ۔
سنہ 1999کا واقعہ ہے ،جب میرے والد مکرم حضرت مولانا محی الدین صاحب مد ظله العالي( جن سے حضرت قاضی صاحب مرحوم کے بڑے ہی گہرے تعلقات اور والہانہ محبت تھی ) نے حفظ قرآن پاک کے لئے مدرسہ فلاح المسلمین بھوارا مدھوبنی بہار میں میرا داخلہ کروا یا ، مدرسہ میں ششماہی امتحان ہوچکا تھا ، بظاہر داخلہ کی کوئی گنجائش نہیں تھی ، والد محترم حضرت قاضی صاحب رحمہ اللہ کی خدمت میں مجھے لیکر پہونچے، حضرت مرحوم نے مختصر امتحان لیا اور پھر اپنی شفقت و محبت کی سعادت نصیب فرمائی،
وہیں سے حضرت قاضی صاحب رحمہ اللہ کی ذات والا صفات سے نسبت جڑگئی ،اور پھر مرور ایام کے ساتھ ساتھ محبت و عنایت بڑھتی چلی گئی،
قیامِ مدرسہ چشمہ فیض ململ کے دوران بار بار ان سے ملاقاتیں ہوتی تھیں، دینی تعلیمی اور اصلاحی پروگراموں کے دوران اسٹیج پر ملاقات کا شرف حاصل ہوتا ، بہت دعائیں دیتے، شفقتیں فرماتے اور اپنی موجودگی میں اپنے نوجوان شاگرد کی ترقی و کامیابی سے خوش ہوتے تھے ۔
ڈھونڈو گے اگر ملکوں ملکوں، ملنے کے نہیں نایاب ہیں ہم
تعبیر ہے جس کی حسرت و غم، اے ہم نفسو وہ خواب ہیں ہم
آج وہ اپنے منتسبین و محبین اور عقیدتمندوں کو سوگوار اور افسردہ کرکے دار فانی سے رخصت ہوگئے
اللہ پاک مغفرت فرمائے اور ان کے درجات کو بلند فرمائے اور انکے خدمات کو قبول فرما کر جنت الفردوس میں اعلی مقام عطا فرمائے
نظام الدین محی الدین
جامعہ ام القری
مکہ مکرمہ
١٤٤١/١٢/٩
Comments are closed.