سیمانچل کی پسماندگی کی ذمہ دار تمام سیاسی جماعتیں ہیں محمد زکریا القاسمی  ڈائریکٹر مجلس تحقیق بنگلور۔

سیمانچل کی پسماندگی کی ذمہ دار تمام سیاسی جماعتیں ہیں

محمد زکریا القاسمی

ڈائریکٹر مجلس تحقیق بنگلور۔

جوں جوں انتخابات کا وقت قریب آرہا ہے سیاسی جماعتوں کے سربراہ اور نیتا سیمانچل کے گلی کوچوں میں نظر آرہے ہیں اور نظر کیوں نہیں آئیں گے اس لئے کہ اب وقتی ہمدردی اور پانچ سو ہزار روپے کے نوٹ تھما کر انہیں پھر پانچ سال تک اپاہج بنا کر رکھ دینا ہے اسکے بعد تو وہ سیاسی جماعتوں کے سربراہ اور نیتا جوکہ آپ کے گلی کوچوں میں آپ کے ہمدرد بن کر گھوم رہے تھے اب وہ صرف اور صرف آپ کو ایوانوں میں نظر آئیں گے دوبارہ پانچ سال مکمل ہونے تک وہ عنقا پرندہ کی نایابی کی نظیر سے کچھ کم نہیں اسکی واضح مثال بہار کا طلاطم خیز سیلاب ہے  2017 میں بہار سیلاب نے تباہی کا جو قہر و غضب مچایا تھا اس بھیانک موقع پر

کن کن سیاسی جماعتوں کی ہمدردی سامنے آئ اور کس کس نے عنقا پرندے کا رول ادا کیا وہ سب کے سامنے ہے بہار میں ہر سال سیلاب آتا ہے

اس موقع سے نہ تو وزیر اعظم کی طرف سے کوئی خاص مدد ملتی ہے اور نہ ہی وزیر اعلیٰ ہاں! کی طرف سےاونٹ کے منہ میں زیرے کے بقدر چار پانچ کیلو چاول کا اعلان تو کیا جاتا ہے مگر مقامی نیتا اسے بھی چٹ کرجاتے ہیں ابھی بہار کے اکثر علاقوں میں سیلاب ہے کھیتیاں برباد ہوچکی ہیں مویشی اور جانور بہ چکے ہیں مگر اب تک حکومت نے کوئی خاص امداد کا اعلان نہیں کیا ہےآہ! ملک کے وزیر اعظم اور بہار کے وزیر اعلیٰ سیمانچل کے عوام کی درد کو محسوس کر پاتےکہ سیمانچل کے ہزاروں گاؤں جو دریاؤں،اور ندیوں کے الگ الگ کناروں میں بسی ہوئی ہیں  اس ڈیجیٹل انڈیا کے دور میں بھی دریا اور ندی پار کرنے کے لئیے انکے پاس صرف  ذریعہ کشتی کا سہارا ہے  اگر انکی آمدو رفت کے لئے کوئی پل اور برج تعمیر کردیتے تو ان ہزاروں زندگیوں کو قبل از وقت بچائ جاسکتی ہے جو صرف اسلئے موت کی کھائ میں گر گئے ہیں کہ راستہ نہ ہونے کی وجہ سے  وقت رہتے انہیں میڈیکل ہیلف نہیں مل پاتی ہے

ملک کے وزیر اعظم اور بہار وزیر اعلیٰ سیمانچل کے بچوں کی اعلی تعلیم کے لئے کوئی یونیورسٹی کا قیام عمل میں لاتے کم از کم یہاں کے تشنگان علوم کو دیگر شہروں میں جاکر در در کی ٹھوکریں نہ کھانی پڑتی کاش ملک کے وزیر اعظم اور بہار کے وزیر اعلیٰ سیمانچل  کے کسانوں کو ہر سال آنے والی سیلاب کی تباہی سےبچانے  کے لئے ان ندیوں میں باندھ کی تعمیر کر پاتے جسکے سیلابی  پانی سے ہر سال کروڑوں اربوں کی فصل کھیتوں میں برباد ہوجانے کی وجہ سے یہاں کے کسان مقروض ہوجاتے ہیں اور قرض کے بوجھ تلے دب کر خود کشی جیسے اقدام اٹھانے پر مجبور ہوجاتے ہیں سیلاب کا پانی کسی پلاننگ سے ان خشک شہروں کی طرف کی جاسکتی ہے جہاں پانی کی کافی دقت ہے

لیکن یہاں ادنی نیتا سے لے کر اعلی تک سبھی نے بہار اور سیمانچل کے ساتھ دغا کیا ہے  سیمانچل کی اکثر آبادی دیہاتوں میں بستی ہیں  جسکا سیدھا مطلب ہے دیہی علاقوں میں رہنے والے لوگ طے کرتے ہیں کہ کون اسکا نمائندہ ہوگا لیکن اتنی بڑی ووٹ کی طاقت ہونے کے باوجود دیہاتوں کی حالت  سب سے زیادہ  ناگفتہ ہے ٹوٹی پھوٹی  سڑکیں خستہ حال اسکولیں اسکے علاوہ بہت سے مصائب و الام ہیں  جس سے روزانہ گاؤں والوں کو گزرنا پڑتا ہے جو بیان کرنے سے زیادہ دیکھنے  سے تعلق رکھتا ہے  اسلئے یہ بات  مکمل ذمہ داری سے کہی جاسکتی ہے کہ سیمانچل کی بد حالی کا ذمہ دار صرف اورصرف وہ سیاسی جماعتیں ہیں جو گذشتہ ستر سالوں سے اپنے مفاد کے لئے   اپنی سیاسی زمین کے طور پر بہار اور سیمانچل کو استعمال کیا ہے خواہ وہ مرکزی حکومت ہو یا پھر ریاستی حکومت ہر ایک نے اپنی سیاسی بالا دستی کے باوجود بھی اس خطے کو مسلسل نظر انداز کیا ہے

اسلئے آنے والے انتخابات میں پارٹی اور شخصیت سے اوپر اٹھ کر کسی مخلص اور ایماندار قوم وملت کا درد رکھنے والے کو ترجیح دیں تاکہ بہار اور بالخصوص سیمانچل کی بدحالی دور ہو سیمانچل کے تمام اضلاع کے باشندوں سے اپیل ہے (کٹیہار کشن گنج پورنیہ ارریا والوں سے اپیل ہے ) کہ پانچ سو ہزار کے چکر میں اپنی نسل کو تباہی کے دہانے پر کھڑا نہ کریں بلکہ آنے والی نسلوں کی ترقی کیسے ہوگی کون ایمانداری سے سیمانچل کو آگے لے جائے گاایسے ایم پی ایم ایل اے کا انتخاب کریں ۔

Comments are closed.