حضرت مولانا مکین احمد رحمانی رحمہ اللہ یادوں کے جھروکے سے محمد شافع عارفی

حضرت مولانا مکین احمد رحمانی رحمہ اللہ

یادوں کے جھروکے سے

محمد شافع عارفی
معہد الولی الاسلامی ہرسنگھ پور

دل افسردہ کا ہر گوشہ چھنک اٹھتا ہے
ذہن جب یادوں کی زنجیر ہلا دیتا ہے

گذشتہ صبح تقریباً4 بجے حضرت مولانا مکین احمد رحمانی رحمہ کے وفات کی المناک خبر ملی میں اپنی تمام تر کوششوں کے باوجود حضرت کے آخری دید اور جنازہ میں شرکت کی سعادت سے محروم رہا

کل ہی حضرت مولانا مکین احمد رحمانی رحمہ اللہ کی شفقت و عنایات,بے لوث خدمات,
تواضع و انکساری, سادگی و سچائی, ظرافت و خوش طبعی, جملہ چست کرنے کے معصومانہ انداز, حضرت ناظم صاحب رحمہ اللہ کی ذات اور مدرسہ چشمہ فیض ململ کے اساتذہ طلباء سے ان کے قلبی تعلق بلکہ مدرسہ سے ان کے جنون عشق وارفتگی کی داستان لکھنے بیٹھا پر طبیعت آمادہ نہ ہوئی لیکن……..

وقت کے ساتھ گزر جاتا ہے ہر اک صدمہ
وقت ہر زخم کو ہر غم کو مٹا دیتا

اور بقول کسے

دل گھٹا جاتا ہے افسردہ دلی سے یاروں
کوئی افواہ ہی اڑادو کہ کچھ رات کٹے
ہجر میں آہ و بکا رسم کہن ہے لیکن
آج یہ رسم ہی دہراؤ کہ کچھ رات کٹے

حضرت مولانا مکین احمد رحمانی رحمہ اللہ کا تذکرہ زمانہ طالب علمی ہی سے اپنے بھائیوں کی زبانی اس تسلسل سے سنتا آیا تھا کہ دل میں ان سے ملنے کی خواہش مچلتی تھی پر زمانہ طالب علمی میں یہ خواہش پوری نہ ہوسکی..
میرے تدریسی زندگی کی ابتداء ہی مدرسہ چشمہ فیض ململ سے ہوئی یہاں پہلی مرتبہ حضرت سے میری ملاقات ململ جامع مسجد میں ہوئی انہوں ہی غالبا سلام کیا اور میں جواب دیتا ہوا آگے بڑھ گیا تعارف کی نوبت نہیں آئی نماز فجر کے بعد حضرت ناظم صاحب رحمہ اللہ نے مجھے دفتر بلایا اور مولانا مکین صاحب رحمانی کا تعارف کراتے ہوئے کہا یہ ہمارے نائب مہتمم اور دست و بازو ہیں میں نے مولانا سے معذرت کی اور کہا حضرت معاف کیجئے میں مسجد میں آپ پہچان نہیں سکا مولانا کا فورا جواب آیا”میں نے آپ کو پہچان لیا کیونکہ آپ ہمارے مطلوب تھے”
یہ حضرت سے میری پہلی یادگار ملاقات تھی
چشمہ فیض ململ کے میرے تین سالہ تدریسی زندگی میں حضرت کی طرف سے جو شفقت و محبت ملی اسے کسی طرح بھولنا ممکن نہیں اور چشمہ فیض سے علہدگی کے بعد بھی میرا ان سے رابطہ منقطع نہیں ہوا

تیری انجمن سے نکل کے بھی نہ بھلاسکوں میں تجھے کبھی
تیرے نام ورد زبان رہے تیری یاد دل میں بسی رہے

چشمہ فیض کے زمانہ تدریس میں ان کی شفقت و بے تکلفی نے مجھے کافی شوخ بنادیا تھا بسا اوقات میں اور رفیق مکرم مولانانظام الدین ندوی ان سے تعلیمی معاملات پر بحث و مباحثہ بھی کرلیتے اور وہ خندہ پیشانی تحمل کے ساتھ برداشت کرلیتے تھے ایک مرتبہ صبح گرما گرم بحث ہوئی تو عصر کے بعد مجھے بلایا اور نصیحت کرتے ہوئے گویا ہوئے”نہ اتنے شیریں بنئے کہ ہر کوئی نگل جائے اور نہ اتنے تلخ بنئے کہ سب تھوک دیں”
مولانارحمہ اللہ کے بعض فیصلے بظاہر تقاضہ انصاف کے خلاف نظر آتے لیکن گہرائی سے غور کرنے پر معلوم ہوتا کہ ان کا فیصلہ صد فیصد درست ہے
ایک مرتبہ دو بچوں کی آپسی لڑائی میں ایک طالب علم کا سر پھٹ گیا مولانا آئے بینڈیج وغیرہ کرایا اور دونوں کو ڈانٹ ڈپٹ کر روانہ کردیا کسی استاذ نے عرض کیا حضرت اس طرح کے طالب علم کو سخت سزا ملنی چاہئے مولانا نے کہا تب تو دونوں کو سزا دیجئے میں نے مولانا سے پوچھا حضرت جس کا سر پھٹا ہے اسے کیوں سزا دیجئے گا؟انہوں نے برجستہ جواب دیا آپ نے حدیث”القاتل والمقتول في النار”نہی پڑھاہے کیا؟

مدرسہ چشمہ فیض اور حضرت ناظم صاحب رحمہ اللہ کی ذات سے تو گویاان کو عشق تھا ناظم صاحب جب ململ میں ہوتے تو کم ہی دونوں بزرگوں کو الگ دیکھاجاتا بارہا ایسا ہوا کہ ہم لوگوں کو حضرت کے علالت کی خبر ملی شام میں ان کی عیادت کیلئے ہم لوگ ان کے گھر گئے خود ناظم صاحب اور اساتذہ کا اصرار رہا کہ آپ دو تین دن آرام کریں لیکن صبح کو دیکھا گیا کہ وہ سب سے پہلے مدرسہ میں حاضر ہوکر کسی کام میں مشغول ہیں

جی نہ چاہے تھا کہیں چھوڑ کے جانے کو
میں نے معشوق بنا رکھا تھا میخانے

ان کی بے پایاں شفقت و محبت نے مجھے ان کے نزدیک شوخ بنادیا تھا مولانا جب کبھی شام میں مدرسہ نہی آتے تو میں رفیق گرامی مولانا نظام الدین ندوی صاحب کے ہمراہ ان کے گھر عیادت کے بہانے چائے پینے پہونچ جاتا ایک مرتبہ کئی مہینے تک ان کے گھر جانے کا بہانہ نہیں ملا تو میں نے ان کے ساتھ ناشتہ کرتے ہوئے کہا حضرت آپ بیمار بھی نہیں ہورہے ہیں کہ میں عیادت کے بہانے آپ کے گھر چائے پینے آؤں مولانا مسکرائے اور کہا آپ کو ہمارے گھر آنے کیلئے بہانے کی ضرورت نہیں آپ آج ہی شام تشریف لے آئیں

مولانا کی طبیعت میں ظرافت تھی وہ لطیف طنز کرتے اور سمجھتے بھی تھے ایک مرتبہ انہوں نے مجھے مدرسہ کی رسید دیتے ہوئے کہا کہ رسید لے جائیں اور چندہ کی کوشش کیجئے آہستہ آہستہ ہی انسان کسی کام کو کرنا سیکھتا ہے نئے تعلیمی سال پرمجھ پوچھا آپ نے کتنا چندہ کیا؟میرا چندہ 250/روپے تھا میں نے بتایا تو تھوڑی دیر خاموش رہے پھر کہا”کس بے وقوف نے اتنا زیادہ چندہ آپ کو دے دیا”

ایک مرتبہ ان کی مجلس میں رفیق محترم مولانا نظام الدین صاحب کے ساتھ حاضر تھا تو ایک شخص پر طنزکرتے ہوئے ایک شعر پڑھا??

ہواہے شہ کا مصاحب پھرے ہے اتراتا
وگرنہ شہر میں غالب کی آبرو کیا ہے

یہ شعر اتنا بروقت برمحل تھا کہ جب بھی اس موقع کو یاد کرتا ہوں ہنسی آجاتی ہے

بانگ حراء میں ایک مضمون ملک کے مشہور اہل قلم مولانا محسن عثمانی ندوی صاحب کا آیا یہ مضمون دراصل جناب عبدالرحیم قریشی کی حیات زندگی پر تھا لیکن آخر کے چند سطروں ملک کی موجودہ مسلم قیادت کے عدم برداشت اور نااہلی کا رونا روتے ہوئے عثمانی صاحب نے ایک بڑے عالم مفکر پر طنز تعریض کرتے ہوئے اشارہ کنایوں میں جملہ چست کیاتو اس مضمون کو پڑھ کر مولانا نے مجھے بلایا اور بانگ حراء دیتے ہوئے کہا محسن صاحب کا یہ مضمون زور پڑھئے جب میں اس جگہ پہونچا جہاں طنز و تعریض کی بوچھاڑ تھی تو مولانا نے روک کر مجھ سے پوچھا ضمیر کا مرجع سمجھ رہے ہیں یا نہی؟ میں نے جواب دیا حضرت بالکل سمجھ گیا تو مجھ سے کہا آپ ہی اس کا مزا لے سکتے تھے.اسلئے آپ کو بلایا

ا مولانارحمہ اللہ کی زندگی جہد مسلسل سے مرکب تھی چشمہ فیض کی اندرونی ذمہ داریوں کو اس خوش اسلوبی,دانائی تحمل و برداشت کے ساتھ نبھایا کہ حضرت ناظم صاحب رحمہ اللہ کو بہت حد مدرسہ کے اندرونی الجھنوں سے آزاد کر دیا تھا

مولانا اپنے خالق حقیقی کے حضور پہونچ گئے اور اپنے پیچھے رشتہ داروں دوست و احباب کے علاوہ ہزاروں کی تعدادمیں محبت کرنے شاگردوں کی جماعت چھوڑ گئے انہوں نے جہدوعمل سے معمور بافیض زندگی گذاری اور اصل زندگی تو یہی ہے

ليس الحياة بانفاس ترددها
إن الحياة حياة الفكر والعمل

لیکن چشمہ فیض کے اساتذہ طلباء ہمیشہ ان کے قدموں کی چاپ کو مدرسے کے چہاردیوالی میں محسوس کرسکیں گے
کہے دیتی ہے شوخی نقش پاکی
ابھی اس راہ سے کوئی گیا ہے

مولانا انسان تھے لہذا بشری تقاضوں سے آزاد بھی نہیں تھے یقینا ان سے غلطیاں کوتاہیاں ہوئیں ہونگی خالق کائنات اسے اپنی جوار رحمت میں جگہ دے اور ان کی غلطیوں کوتاہیوں پر عفو و درگذر کا قلم کھینچ دے

آسمان تیری لحد پر شبنم افشانی کرے

سبزہ نورستہ اس گھر کی نگہبانی کرے

Comments are closed.