تڑپائیں گے تیرے وہ اقوال حکیمانہ *آہ:حضرت الاستاذرحمة اللہ علیہ* *واہ: حضرت الاستاذرحمة اللہ علیہ* ____________________________________ *حضرت الاستاذ قاضی محمد حبیب اللہ صاحب قاسمی رحمتہ اللہ علیہ کی مختصر علالت کی مختصر روداد!

تڑپائیں گے تیرے وہ اقوال حکیمانہ

*آہ:حضرت الاستاذرحمة اللہ علیہ*
*واہ: حضرت الاستاذرحمة اللہ علیہ*
____________________________________
*حضرت الاستاذ قاضی محمد حبیب اللہ صاحب قاسمی رحمتہ اللہ علیہ کی مختصر علالت کی مختصر روداد!*
____________________________________
آہ: اس بات پر کہ ہم سب کے مربی ذمہ دار استاذ العلماء داغ مفارقت دے گئے!
واہ: اس بات پر کہ گئے بھی تو کس شاہانہ اندازمیں گئے، جس طرح پوری زندگی چستی، بیداری اور حاضر دماغی کے ساتھ گزاری موت کے وقت بھی وہ چستی، بیداری، اور حاضر دماغی کا ثبوت پیش فرماگئے!
حضرت کے اس مختصر روداد میں کیا لکھوں؟کیسے لکھوں؟اور کہاں سے شروع کروں؟ یہ سمجھ سے بالاتر ہے۔ آنکھ اشکبار دل پارہ پارہ ہے، نہ دل میں سکون ہے، نہ ذھن کام کررہا ہے، الفاظ و تعبیرات کی شہسواری تو دور سیدھے سادے الفاظ بھی بڑی مشکل سے لکھ پا رہاہوں، گھر میں رہوں یا مدرسہ میں، محفل میں رہوں یا تنہائی میں، بس ہر وقت حضرت الاستاذ کے رخسار پر بکھرے ہوئےتبسم اور آپکے لہجے کی ملاحت، آپ کے حکیمانہ اقوال تڑپا رہے ہیں، جب بےقراری بڑھتی ہے تو حضرت کی قبر پرحاضر ہوکر فاتحہ، یاسین کے ذریعہ کچھ سکون حاصل کرپاتاہوں۔ اس وقت میرے کانوں میں بس حضرت الاستاذ رحمتہ اللہ علیہ کی وہ بات گونج رہی ہے جو موت سے ایک روز قبل آکسیجن لگے ہونے کی حالت میں مجھ سے فرمارہے تھے: مولانا مدرسہ کا کیا حال ہے؟ مدرسہ کی مسجد میں وقت پر اذان اور نماز ہوتی ہے یا نہیں؟ میں نےکہا حضرت آپ پریشان نہ ہوں آپ کے بات کرنے سے پریشانی بڑھے گی پر آپ *تو مریض عشق تھے* مدرسہ کا عشق اور اللہ کے گھر کی محبت آپ کو خاموش کہاں رہنے دیتی بس آپ فرماتے جارہے تھے! اس وقت کچھ تعمیری کام کی وجہ سے مسجد کا دروازہ نکال دیا گیاہے، تو فرمانے لگے مسجد کادروازہ بند کیا یا نہیں! ایسا نہ ہو کہ کوئی جانور مسجد میں چلاجائے، میں نے کہا حضرت دروازے پر اچھی طرح چوکی رکھ کر اسے بند کردیا گیا ہے، اور الحمدللہ نماز بھی وقت پر ہوجاتی ہے، آپ پریشان نہ ہوں، تب جاکر کچھ مطمئن نظر آئے۔
مجھ بے خبر کو کیا خبرتھی؟
کہ حضرت الاستاذ الوداعی کلام فرمارہے ہیں؛ اس وقت میں اپنے آپ کو کوس رہاہوں کاش ! میں حضرت کو نہ روکتا تو بہت کچھ مزید سننے کو ملتا لیکن ہائے افسوس! اس معمولی علالت کے درمیان جب کبھی آپ کچھ فرمانا چاھتے تو میں طبی اعتبار سے چپ ہوجانے کو کہتا کہ حضرت زیادہ بات کریں گے تو تنفس میں پریشانی ہوگی، مجھ ناچیز کو کیا پتا تھا کہ ہمیشہ کے لئے اس لہجے کی ملاحت سے محروم کردیاجاؤں گا!
*اب انہیں ڈھونڈ چراغِ رخِ زیبا لیکر*
ہم لوگوں نے یہ سوچا تھا کہ حضرت آرام کریں گے تو جلد صحت مند ہوکر پھر سے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ والے رعب و جلال کے ساتھ ہمارے درمیان جلوہ افروز ہوں گے۔ پھر سے ہمیں روک ٹوک اور تنبہ فرمائیں گے۔ لیکن کس کو پتا تھا کہ اتنی جلدی معمولی علالت کے بعد حضرت الاستاذ داغ مفارقت دے جائیں گے۔ حضرت الاستاذ رحمتہ اللہ ادھر دو تین ماہ سے بہت فٹ اور تندرست نظر آرہے تھے میں تقریباً روزانہ ہی کم سے کم ایک بار ضرور پوچھتا تھا: حضرت طبیعت کیسی ہے؟ جواب ملتا الحمد للہ! تقریباً بیس دن پہلے چہرے پر تبسم بکھیرے ہوئے فرمانے لگے الحمد للہ آج کل طبیعت بہت اچھی رہتی ہے، شوگر بھی نارمل رہتاہے، لیکن ساتھ میں اکثر الوداعی باتیں کرتے تھے، مولانا! آپ لوگ بیدار ہوجائیے! میری زندگی پوری ہوچکی، اب میرے جانے کا وقت ہے! پر میں حضرت کی ان باتوں سے زیادہ پریشان نہیں ہوتا تھا یہ سوچ کر کہ اللہ والوں کو ہر وقت موت کا استحضار رہتاہے، لیکن کیا پتا تھا کہ رب کی طرف سے بھی جدائی کا فیصلہ ہوچکاہے۔ کچھ پتا نہیں چلا اور کیا سے کیا ہوگا۔ابھی کچھ دن قبل تقریباً ١٠/ جلائی سے حضرت مولانا عبد اللہ صاحب قاسمی صدر مدرسہ فلاح المسلمین کی طبیعت خراب چل رہی تھی اور تقریباً ٢١/جلائی تک وہ بہت پریشان رہے، اس درمیان حضرت الاستاذ رحمتہ اللہ علیہ اپنے شاگرد صدر صاحب کے تعلق سے بہت غمگین اور فکر مند رہتےتھے دن میں کئی بار بذریعہ موبائل مجھ سے صدر صاحب کی حالت دریافت فرماتے اور دعاؤں سے نوازتے، یہاں تک کے ٢٠/جلائی کو میرے ساتھ بعد نماز عصر عیادت کے لیے تشریف لے گئے، اور پھر شام کو ہمارے دروازے پر تشریف لائے، میں اور میرے بڑے بھائی ماسٹر وجیہ تھے مجھ سے فرمانے لگے کیا ہوگیا مولانا عبد اللہ کو؟ آپ لوگ انکا خیال رکھیے اگر کچھ ہو گیا تو بڑا نقصان ہو جائےگا، ہم دونوں بھائیوں نے یقین دہانی کروائی پھر اندر تشریف لانے کی گزارش کی لیکن یہ فرماتے ہوئے کہ ابھی گھر سے چائے پیکر آرہاہوں، مدرسہ تشریف لےگئے۔
٢١/جلائی کو نماز مغرب سے کچھ قبل حضرت الاستاذ سے مدرسہ کے باہر ملاقات ہوئی، آپ دارالقضاء تشریف لے جارہے تھے میں بھی ساتھ ہو لیا دار القضاء کے باہر آپ بیٹھ گئے میں نے دیکھا کہ آپ کے چہرے پر سردی زکام کی علامت بالکل ظاہر تھی، آنکھوں میں حدسے زیادہ سرخی تھی، میں پریشان ہوا اور کہا حضرت! آپ کی طبیعت بہت خراب لگ رہی ہے، فرمانے لگے نہیں مولانا بس موسم کی تبدیلی کا اثر ہے، میں نے دوا کے لئے کہا تو جواب ملا اچھا ہومیوپیتک دوا لےلیں گے، میں نے کہا حضرت ابھی حالات ٹھیک نہیں ہیں انگریزی دوا کھالی جائے {تاکہ جلدی سے زکام ختم ہو}
تو اپنےایک خاص انداز میں اچھا اچھا کہتے ہوئے وضو کرنے لگے۔میں بھی نماز کےلئے نکل پڑا، اسی رات بعد نماز عشاء کھانا کھاتے ہوئے یہ دردناک خبر ملی کے حضرت مولانا وصی احمد صاحب قاسمی ناظم مدرسہ چشمہ فیض ململ کا انتقال ہوگیا اس پریشان کن خبر سے طبیعت میں بےچینی ہوگئی نیز فکر ہوئی کہ حضرت الاستاذ رحمة اللہ علیہ اس خبر سے مزید پریشان ہوجائیں گے میں نے فوراً برادرم مفتی امداد اللہ صاحب کو فون کیا حضرت کی طبیعت کے سلسلے میں پوچھا اور ہم دونوں نے یہ مشورہ کیا کہ حضرت کو ناظم صاحب رحمة اللہ علیہ کی موت کی خبر کل صبح دی جائے۔ پھر میں نے حضرت کو فون کیا سلام کے بعد خود ہی فرمانے لگے کہ ملت کا بڑا نقصان ہوگیا حضرت ناظم صاحب کا انتقال ہوگیا (کسی صاحب نے بذریعہ فون حضرت کو اطلاع دے دی تھی) پھر طبیعت کے بارے میں پوچھنے پر حضرت فرمانے لگے ارے مولانا میں نے دھیان ہی نہیں دیا مجھے تو ٢٠٢/ بخار تھا اوراب بھی ہے، لیکن دوا لے چکا ہوں، ابھی کھانے کے بعد کھالوں گا، اس وقت تقریباً رات کے دس بج رہےتھے، کیونکہ حضرت الاستاذ رحمة اللہ علیہ کی سنت یہ تھی کہ آپ ہمیشہ عشاء پڑھ کر مدرسہ سے گھر تشریف لے جاتے تھے یہ معمول لاک ڈاؤن کے زمانے میں بھی رہا، اسی لئے رات کے کھانے میں تاخیر ہوتی تھی۔ پھر حضرت مفتی محمد روح اللہ صاحب قاسمی مدظلہ کو حضرت کے بخار کے تعلق سے بتلایا تو مفتی صاحب بے قرار ہوگئے اور فرمایا کہ حضرت کو گرم پانی سے بھاپ دلوایا جائے۔ اور ہم لوگوں کو ایکٹیو رہنے کو کہا۔ ٢٢/جولائی کو حضرت کی خدمت میں حاضر ہوا اور بہت ہمت کر کے درخواست کی کہ حضرت آپ آرام کریں آپ صحت کا خیال کیے بغیر مستقل کام کیے جارہے تھے، اب آپ گھر سے باہر بالکل نہ نکلیں نماز بھی گھر میں ادا کرلیا کریں، حضرت نے بڑی تکلیف کے ساتھ فرمایا اچھا دیکھتا ہوں۔ حضرت کے لئے مدرسہ نہ جانا بڑی تکلیف دہ بات تھی۔ آپ کی سنت تھی کہ مدرسہ میں تعلیم جاری ہو یا تعطیل کا زمانہ ہو، لاک ڈاؤن ہو یا ان لاک آپ ہمیشہ مدرسہ میں موجود رہتے،اور کبھی بھی افتاء،قضاء کے تعلق سے آنے والوں کو واپس نہیں کرتے تھے، یہی وجہ ہے کہ اس مختصر علالت کے زمانے میں بھی تین دن میں تین فریق معاملہ لیکر گھر پر آگئے اور اس بات پر بضد کہ حضرت سے ملاقات کروادی جائے، لیکن حضرت مفتی روح اللہ صاحب قاسمی مدظلہ کے بہت سمجھانے پر آنے والے واپسی پر آمادہ ہوئے۔ 24/ جولائی کو بعد نماز عصر میں چاروں بھائیوں اور چچا زاد بھائی کے ساتھ عیادت کے لئے حاضر ہوا حضرت الاستاذ مفتی محمد روح اللہ صاحب قاسمی پہلے سے ہی تشریف فرماتھے، حضرت کو معلوم ہوا تو خود اپنے کمرہ سے نکل کر مہمان خانے میں تشریف لائے بخار کا آنا جانا اس وقت بھی تھا لیکن طبیعت میں بشاشت تھی اطمنان کا اظہار کیا، لیکن ایک افسوس ناک معاملہ کی وجہ سے بہت دکھی بھی نظر آئے اور پھر بر وقت ! بہت عمدہ نصیحت فرمائی! کہ کام کرنے والوں کو ہمیشہ سننا ہی پڑتاہے دنیا والے کسی کو نہیں چھوڑتے، بڑی سے بڑی ہستیوں کو لوگوں نے پامال کیاہے، لیکن جو اللہ کے لئے کام کرتے ہیں وہ کسی کی باتوں کی پرواہ کیے بغیر کام کرتے رہتے ہیں۔ حضرت کی ان باتوں پر عمل کیا جائے تو یہ قابل قدر باتیں ہم سب کے لئے اکسیر ثابت ہوسکتی ہیں۔
حضرت الاستاذ نے اس معمولی علالت کے درمیان کئی بار اشارہ دیا کہ میں اس فریبی اور فانی "دنیا” کو الوداع کہنے جارہاہوں لیکن ہم لوگ سمجھ نہیں سکے !
٢٦/ جولائی سے طبیعت تھوڑی بگڑ گئی تھی بخارکا اب ابھی آنا جانا تھا اسی لئے کچھ لوگوں نے ڈاکٹر روشن کمار سے ملنے کا مشورہ دیا لیکن اسی درمیان کربس ہسپتال کے ڈائریکٹر مرغوب نیازی صاحب کو میرے بھائی نے جب حضرت کی علالت کے سلسلے میں خبردی تو وہ پریشان ہوگئے اور فوراً ایک ہسپتال کے اسٹاف کو خون لینے بھیجا، تین چار قسم کی جانچ کے بعد جناب نیازی صاحب نے فون پر مجھ سے کہا کہ حضرت کو لیکر ہسپتال آئیے مزید کچھ جانچ ہونی ہے، برادرم مفتی امداد اللہ صاحب اور حضرت مفتی روح اللہ صاحب قاسمی مدظلہ سے مشورہ کے بعد ہسپتال پہنچ کر سارے چیکپ کروالیے گئے، تمام جانچوں کے بعد پتا چلا کہ کوئی بڑا مسئلہ نہیں ہے بس تھوڑا سا بلغم سینے میں ہے۔ کربس ہسپتال کے ڈائریکٹر مرغوب نیازی صاحب کو اللہ جزائے خیر دے انہوں نے کہا حضرت قاضی صاحب ہم سب کے لئے عظیم سرمایہ ہیں، جس وقت جس چیز کی ضرورت ہو کرپس ہاسپیٹل حاضر ہے۔

*لہجے کی ملاحت جب یاد آئے گی تو روئیں گے*
*تڑپائیں گے تیرے وہ—- اقوال حکیمانہ*

٢٧/جلائی کو حضرت کے وصال سے تین دن قبل برادرم مفتی محمد امداد اللہ قاسمی کے ساتھ دوائی لیکر حاضر خدمت ہوا تو میں نے حضرت الاستاذ رحمتہ اللہ علیہ کی دلجوئی کے لئے کہا آپ گھبرائیے نہیں، رپورٹ نارمل ہے بس آپ دوا استعمال کریں انشاءاللہ جلد صحت یاب ہوجائیں گے، جواب میں فرمانے لگے آپ لوگوں کی اپنی کوشش ہے، لیکن کیا آپ اپنی کوشش سے ہمیں بچالیں گے؟ میں نے کہا حضرت ابھی ہم لوگوں کی تربیت باقی ہے، آپ ابھی رہیں گے انشاءاللہ! پھر حضرت الاستاذ کا جو اپنا خاص انداز تھا کہ ہر بات پر قرآن سے دلیل ڈھونڈنے کی سعی کرتے اسی انداز میں فرمانے لگے سورہ {واقعہ} کی وہ آیت پڑھیے! پڑھیے! پھر خود ہی پڑھکر ترجمہ فرمانے لگے{ *فَلَوْ لَاۤ اِذَا بَلَغَتِ الْحُلْقُوْمَ،وَ اَنْتُمْ حِیْنَئِذٍ تَنْظُرُوْنَ، وَنَحْنُ اَقْرَبُ اِلَیْہِ مِنْکُمْ وَ لٰکِنْ لَّا تُبْصِرُوْنَ، فَلَوْ لَاۤ اِنْ کُنْتُمْ غَیْرَمَدِیْنِیْنَ،تَرْجِعُوْنَہَاۤ اِنْ کُنْتُمْ صٰدِقِیْنَ،* }
تو جب جان گلے تک آپہنچتی ہے،اور تم اس وقت مرنے والے کو تَک رہے ہوتے ہواور ہم تمہارے مقابلےاس شخص سے زیادہ قریب ہوتے ہیں؛ لیکن تم دیکھ نہیں سکتے، تو اگر تم کسی اور کے قابو میں نہیں ہو، تو اس جان کو کیوں نہیں واپس لے آتے اگر تم سچےہو!

*رب سے جاملنے کا انداز ہی نرالا تھا*
حضرت قاضی صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے جس خوبصورت انداز میں دنیا کو الوداع کہا وہ قابل دید اور قابل رشک بھی ہے۔ ہم سب بے خبر تھے لیکن حضرت الاستاذ خالق حقیقی سے ملاقات کی زبردست تیاری فرمارہے تھے، علالت سے ٹھیک پہلے جس کتاب کا مطالعہ فرمارہے تھے وہ کتاب {سفر آخرت کے آداب و احکام} ہے اور جس صفحہ پر آپ نے نشان لگا رکھاتھا اس میں وہ تمام احکام ہیں جو مرنے کے وقت مرنے والوں کے ساتھ کیا جاتاہے، ہم سبھوں کے گمان میں بھی نہیں تھا کہ حضرت رحمة اللہ علیہ اس دار فانی کو الوداع کہنے والے ہیں، لیکن ہوا ایساہی! علالت کے تین چار دنوں میں مجھے بھی رات میں حضرت کے گھر پر ہی قیام کرنا تھا لیکن ہائے افسوس کہ میری {بٹیا} کی طبیعت خراب ہونے کی وجہ سے رات میں اپنے گھر جانا پڑتاتھا، اسی لئے محرومی کا افسوس مجھے اب بھی ہے۔ لیکن حضرت مفتی روح اللہ صاحب قاسمی مدظلہ العالیٰ دن رات مستقل حضرت کےساتھ ہوتے تھے۔
٣٠/جلائی بروزجمعرات مجھے اپنے گھر سے آنے میں تاخیر ہوگئی آتے آتے تقریباً ٩/بج گئے، اس سے ٹھیک پانچ منٹ قبل حضرت مفتی روح اللہ صاحب مفتی امداد اللہ صاحب کو یہ کہتے ہوئے کہ میں اپنے گھر سے فریش ہوکرآتا ہوں تشریف لے گئے، چونکہ حضرت مفتی صاحب پچھلی رات سو نہیں سکے تھے، جب میں کمرے میں داخل ہوا تو حضرت استنجا سے فارغ ہو کر نکلے اور بیٹھتے ہی آکسیجن لگانے کو کہا، آکسیجن لگاتے ہی آپ لیٹ گئے، اس وقت تنفس بہت تیز ہوگیا تھا؛ لیکن ہم لوگ زیادہ پریشان نہ ہوئے کیونکہ علالت کے تین چار دنوں میں جب بھی حضرت استنجا وغیرہ کے لئے چلتے تو تنفس تیز ہوجاتا تھا، لیکن حقیقت میں یہ رخصتی اور وداعی کا وقت تھا، لگتا ایسا ہے ملک الموت کو آپ دیکھ رہے تھے اسی لئے تو آپ نے اپنے اکلوتے فرزند مفتی امداد اللہ صاحب قاسمی سے کہا کہ میں آج کی نماز فجر نہیں پڑھ سکوں گا تم فدیہ ادا کردینا، اللہ اکبر ! اور امداد اللہ میرا چہرا قبلے کی طرف کردو، پھر ہم دونوں سے فرمانے لگے آپ لوگ سورہ یٰسین پڑھیے،تین حفاظ مزید کمرے سے باہر تھے، مولانا امیر فیصل صاحب قاسمی،حافظ اسد اقبال،حافظ مسعود فیصل؛ میں نے تینوں کو اندر بلایا اور سب مل کر یاسین پڑھنے لگے۔ دوسری طرف حضرت کا جو اپنا دعا کرنے کا نرالا انداز تھا اسی انداز میں بلند آواز سے عربی میں دعا کرنے لگے، اللھم لک الحمد کله ولک الشکر کله ایک لمبی سی دعا پورے جوش میں پڑھنے لگے میں نے کہا حضرت آہستہ دعا کریں، تنفس میں پریشانی ہوگی تو کچھ آواز میں کمی آئی؛ لیکن پورے جوش میں دعا کرتے رہے، لیکن اس وقت بھی ہم لوگ یہ سمجھ رہے تھے کہ تنفس بڑھنے کی وجہ سے حضرت قبلہ رخ کرنے اور یاسین پڑھنے کا حکم فرمارہے ہیں، ادھر میں نے حضرت مفتی روح اللہ صاحب کو خبر بھجوائی کہ آپ جلد تشریف لے آئیں اور مفتی امداد صاحب نے حضرت کے حکم مطابق رخ بدلنا چاہا اب تک حضرت پچھم سر اور پورب پاؤں کرکے آرام فرمارہے تھے،جیسے ہی اتر کی طرف تکیہ رکھا گیا اور سر کے نیچے ہاتھ لگانا چاہا کہ حضرت خودہی اٹھ کر سنت کے مطابق داہنے ہاتھ کو رخسار کے نیچے اور بائیں ہاتھ کو ران پر رکھ کر اب دعا کے بجائے کلمہ شہادت پڑھنے لگے، اسی درمیان حضرت مفتی روح اللہ صاحب بھی تشریف لے آئے شہادت کے بعد بہ آواز بلند اللہ اللہ اللہ کی صدا لگانے لگے، پھر ہم لوگوں نے محسوس کیا کہ پاؤں سرد ہورہاہے اور منٹوں میں ہاتھ کی کیفیت بھی پاؤں کی طرح سرد ہوگئی، لیکن لب پر اب بھی اللہ اللہ جاری تھا، ہم لوگ کچھ سمجھ پاتے کہ اس پہلے ہی حضرت نے اس دار فانی کو ہمیشہ کے لئے الوداع کہہ دیا انا للہ وانا الیہ راجعون۔ اللھم اغفرلہ وارحمہ و ادخلہ فی جنة الفردوس۔
اس وقت جو کیفیت بنی وہ بیان کے قابل نہیں ہے۔ میں نے اپنی زندگی میں کئی بار لوگوں کو مرتے اور دنیا چھوڑ تے دیکھاہے، لیکن حضرت الاستاذ رحمة اللہ علیہ جس انداز میں رخصت ہوئے وہ قابل رشک ہے، موت کے وقت بھی ایسی بیداری، اللہ اکبر! اس قدر حاضر دماغی، قبلہ رخ ہونا، یاسین پڑھوانا، دعاکرنا، کلمہ شہادت،اور اللہ اللہ کے ساتھ آخری سانس لینا۔ واہ: حضرت الاستاذ! آپکی زندگی بھی نرالی اور موت بھی نرالی! سبحان اللہ۔ لیکن حضرت تو چلے گئے اور ہم سب کو بے سہارا کرگئے، کتنے ہی مدارس مکاتب آپ کی رہنمائی میں اشاعت دین واسلام کا کام انجام دے رہے تھے، ان سب کو اب آپ جیسے رہنما کی تلاش ہے، آج بھوارہ ہی نہیں پورا مدھوبنی مغموم ہے۔ میں خود ٣١/٣٢/سالہ زندگی میں کئی بار غموں سے دوچار ہوا، کتنے ہی اپنوں کو کھویا، کئی بار مشکلوں سے گزرنا پڑا، لیکن خدا شاھد ہے کہ حضرت الاستاذ کے داغ مفارقت نے اندر سے ہلا کر رکھ دیا ہے، میں برادرم مفتی امداد اللہ صاحب قاسمی، اور حضرت الاستاذ مفتی روح اللہ صاحب قاسمی اور روحانی اماں جسے میں بچپن سے ہی {دائی} کہتا ہوں، نیز چاروں بہنوں اور تمام رشتہ داروں سے دلجوئی کی بات کیسے کروں، جبکہ ضبط کا بندھن میں خود توڑ جاتا ہوں۔ میری خوش قسمتی یہ رہی کہ پچھلے پانچ سالوں میں الحمدللہ حضرت الاستاذ رحمتہ اللہ علیہ کے ساتھ اچھا خاصا وقت گزارنے کا موقع ملا اور بہت کچھ سیکھنے کا موقع میسر آیا۔ لیکن اس وقت حضرت کی مفارقت سے زندگی بوجھ سی ہوگئی ہے۔ یہ پہلا موقع ہے کہ میں بقر عید اپنے شریک حیات کے ساتھ کرتا؛ لیکن ہوا یہ کے عید تو گزر گئی پر خوشی سے خالی رہی، عمدہ قسم کے پکوان تو پکے لیکن لذت ندارد۔ برسوں سے حضرت رحمة اللہ علیہ کی سنت تھی کہ عید کی نماز کے بعد مٹھائی کا ڈبا ہاتھ میں لیے میرے گھر تشریف لاتےتھےابو اور تمام بھائیوں کے ساتھ کھانے پینے سے لطف اندوز ہوتے، ہماری عید کو دوبالا فرماتےتھے، ابھی عید الفطر کی بات ہے نماز سے فارغ ہوئے، لاک ڈاؤن کی وجہ سے دکانیں بند تھیں مٹھائی نہیں مل سکی، میں حضرت کے ساتھ تھا، مجھ سے فرمانے لگے مولانا عید ہے مٹھائی کے بغیر جانا اچھا محسوس نہیں ہورہا ہے، میں نے کہاحضرت آپ سے بڑی مٹھائی کیا ہوگی، بس آپ تشریف لے چلیں، حضرت تشریف لائے اور ہمیشہ کی طرح ہماری عید کو دوبالا فرمایا، لیکن ابھی حال یہ ہے کہ حضرت کے فراق میں ہر طرف حزن وغم، آنسو، سسکی اور افسردگی ہے۔ بالآخر مسئلہ یہ ہے کہ ہم سب کا ایمان تقدیر پر ہے، اللہ کی طرف سے یہ فیصلہ ہونا تھا تو ہوا، اب ہمارے لئے صبر و شکر کے علاوہ کوئی راستہ بھی نہیں، اللہ سے دعا ہے کہ اللہ پاک حضرت الاستاذ قاضی محمد حبیب اللہ صاحب قاسمی رحمة اللہ علیہ کے درجات کو بلند فرمائے، اللہ پاک ہمیں نعم البدل عطا کرے اور ہم سب کو صبر جمیل سےنوازے نیز حضرت الاستاذ کے مشن پر اخلاص کے ساتھ ہم سب کو کام کرنے کی تو فیق نصیب فرمائے۔ آمین یارب العالمین!
*علماء کی ہے آنکھیں نم مغموم ہیں طلبہ بھی!*
*دل پہ ہے بہت بھاری تیرا یوں چلے جانا۔*

شریک غم: *مسیح احمد قاسمی*

Comments are closed.