راحت اندوری کے انتقال سے اردو ادبی حلقوں میں غم کی لہر ۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔ مزمل الحق راشد ندوی

۔۔۔

راحت اندوری کے انتقال سے اردو ادبی حلقوں میں غم کی لہر ۔۔۔۔

۔۔۔۔۔ مزمل الحق راشد ندوی ۔۔۔۔۔۔۔

۔۔۔۔ جب سے راحت اندوری کی وفات ہوئی ہے اردو دنیا میں غم کی لہر تیز ہوگئی ہے اور سوشل میڈیا میں ہر طرف انکی خبر گردش کررہی ہے آج اردو پڑھنے سمجھنے والے مغموم ہیں انکی آنکھیں اشکبار ہیں اور کہ رہی ہیں کہ ایک روشن چراغ بجھ کر اردو زبان و ادب کو الوداع کہہ گیا جس سے پوری دنیا فیض پاتی تھی راحت اندوری کی پیدائش اندور میں یکم جنوری 1950 کو ہوئی تھی انہوں نے اردو ادب میں پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی تھی وہ ایک اچھے اردو زبان و شعر و ادب کے بےتاج بادشاہ ممتاز نغمہ نگار منفرد انداز کیلئے معروف اور مقبول عالمی شہرت یافتہ شاعر فخر ہندوستان اور سمندر کو کوزے میں سمیٹ کر پیش کرنے والے تھے وہ مشاعروں میں قہقہے لگاتا تھا انکا انداز قہقہ بہت مشہور و معروف تھا جب وہ مظلوم کے ظلم کی منظر کشی کرکے پڑھتا تھا تو انکی چینخ ساری دنیا کی آواز بن جاتی تھی وہ چہرے سے سیاہ ضرور تھا لیکن اندر سے بہت چمکتا دمکتا روشن تھا وہ بولنے میں بڑی مہارت رکھتا تھا اپنے قیمتی الفاظ کے ذریعے پوری دنیا کو اپنا دیوانہ بنایا کرتا تھا جب ضرورت ہوتی تھی بیدار کرنے آجاتا تھا وہ اپنے اشعار کے ذریعے جنگ بھی کرتا تھا ڈرتا نہیں تھا بےباک تھا وہ ہزاروں محفلوں میں گیا اور چھا گیا اور پیغام بھی دے گیا جب وہ کہتا تھا کہ تمہارے باپ کا ہندوستان تھوڑی ہے اتنا کہ کر تیز قہقہ لگاتا تھا جیسے کسی کو وارننگ دے رہا ہو کہ سنبھل جاؤ ہم کسی آندھی کسی طوفان سے کم نہیں ہیں ہم سے مت ٹکرانا انکا یہ شعر بہت مشہور تھا ۔۔۔
افواہ تھی کہ میری طبیعت خراب ہے
لوگوں نے پوچھ پوچھ کر بیمار کردیا
میں جب مر جاؤں تو میری الگ پہچان لکھ دینا
لہو سے میری پیشانی پے ہندوستان لکھ دینا ۔۔۔۔
وہ 70 برس کی عمر میں وفات پا کر پورے ہندوستان کو غمزدہ کرگئے اور اپنے پیچھے بےشمار واقعات لمحات اور یادیں چھوڑ گئے ۔۔۔۔۔ اللہ انکی مغفرت فرما کر جنت الفردوس میں اعلی سے اعلی مقام عطا فرمائے اور انکے پسماندگان کو صبر جمیل عطا فرمائے ۔۔۔

Comments are closed.