صبح کی بات فہیم اختر ندوی کے ساتھ

صبح کی بات

فہیم اختر ندوی

 

السلام علیکم

 

ضرورت تو پہلے سے تھی، اور اب ناگزیر ہوگئی ہے۔۔ کہ ہمارا اپنا قومی نصاب تعلیم ہو۔۔۔ بات سیدھی سی ہے کہ ہماری فکر ہم ہی کو کرنی ہے۔۔ دوسروں سے توقع رکھنے اور مانگنے والے ہمیشہ مانگتے اور آس لگائے ہی رہ جاتے ہیں۔۔ پھر انھیں بھیک کم اور محرومی زیادہ ملتی ہے۔۔۔

 

جن لوگوں نے اپنا نصاب اور نظام بنایا، وہ ملک اور قوم کو دینے والے بن گئے۔۔ پھر ان کے یہاں باریابی عزت بن گئی، اور وہ ادارے ملک کا سرمایہ قرار پائے۔۔۔

 

ہمارے اگلوں نے یہ سوچا اور کیا تھا، اور اس کے نتیجے ملے اور بنے تھے ۔۔ تب مکاتب کے جال نے بچوں کو عقیدہ وایمان سکھایا تھا، مدارس کے پھیلاؤ نے شریعت کے ماہرین بنائے تھے، اور اسکولوں کے سلسلہ نے زبان ومذہب سے آشنا رکھا تھا۔۔ یہ اہم کام تھا، اور اس کے نتائج موجود ہیں۔۔۔

 

تب ضرورت اور تھی، اب ضرورت کچھ اور ہے۔۔ اب حالات بھی بدلے، امکانات بھی دوسرے اور وسائل بھی نئے ہیں۔۔ تو اب کام پھر سے سوچنے اور کرنے ہیں۔۔۔ اب ہمارے ماہرین دین غیروں میں اجنبی ہیں، اور عصری اداروں میں شرک ولادینیت کی تیاری ہے۔۔ اب میدان عمل کھلا اور صلاحیتوں کا مقابلہ ہے۔۔ اب نظریات کا سامنا اور قابلیت کو منوانا ہے۔۔ اور اب قوم بھی تیار اور افراد کار بھی ہشیار ہیں۔۔ تو اب متحدہ لائحہ عمل بنانے اور اپنا قومی فریم ورک اپنانے کا وقت ہے۔۔۔ کیونکہ۔۔۔ ہمارا کام ہم ہی کو کرنا ہے، اور ہمارا معیار ہماری قیمت بنائے گا۔۔۔

 

تو اپنی قومی تعلیمی پالیسی اپنی وسیع ضروریات، اپنے مذہبی فرائض اور اپنی ملکی حصہ داری کے مطابق ہوگی۔۔ اس میں عصری مضامین کا مقابلہ جاتی معیار ہوگا، اقدار اور کردار کا کارگر نمونہ ہوگا، تاریخ اور تاریخ سازوں کا سبق آموز پیام ہوگا، مذہب کی بنیادی پختہ وابستگی کا انتظام ہوگا، اور انسانیت کےلئے اسلام کے پیغام امن وخوشحالی کا پیکر تیار ہوگا۔۔۔

 

یہ فریم ورک دستور کی مذہبی، لسانی اور تعلیمی آزادی کی وسعتوں میں بنے گا، اور ملکی قوانین کی سہولتوں اور گنجائشوں کی ممکنہ تشریح وتعبیر کے ساتھ طے پائے گا۔۔۔ پھر یہ فریم ورک ایک ڈھیلے نظام کے تحت گاؤں گاؤں اور محلہ محلہ زمین پر اتارا جاسکے گا۔۔ اورتعلیم وتربیت کا یہ سلسلہ ابتداء سے بتدریج اعلی تعلیم تک لایا جاسکے گا۔۔۔

 

نئی تعلیمی پالیسی 2020 نے متبادل اسکولوں اور نجی اداروں کےلئے دروازے زیادہ کھولے ہیں، تو گنجائشیں زیادہ پیدا ہوئی ہیں۔۔ تشریح تو الگ سوچ اور ارادہ سے الگ ہوتی رہتی ہے۔۔۔ دروازہ کھلا ہے، تو داخل ہونے والے اپنی ذہانت اور حکمت سے داخل ہوں گے۔۔۔

 

یہ کچھ سوچ ہیں، کرنے کے کچھ کام ہیں، مشورے کے کچھ عنوان ہیں۔۔۔ اور جس طرح محلہ محلہ مکتب کھلے تھے، نجی محنت وخرچ پر مدرسے بنے تھے، ایسے ہی نجی اسکول، چھوٹی تعلیم گاہیں، اور بتدریج بڑھتے ادارے بھی کھلیں گے۔۔۔ یہ ملت کی ضرورت ہے، تو ملت جڑے گی، بڑھے گی، اور کامیابی حاصل کرے گی۔۔

 

اللہ راہ دکھائے اور کامیاب بنائے۔

 

خدا حافظ

23 اگست 2020

3 محرم 1442

Comments are closed.