قوم کے محسن حضرت مولانا وستانویؒ کی قابل قدر خدمات

 

خورشید عالم داؤد قاسمی

 

عہد ساز شخصیت کی وفات:

خادم القرآن والمساجد حضرت مولانا غلام محمد وستانوی صاحب –رحمۃ اللہ علیہ– اس دار فانی سے کوچ کرگئے۔ وہ ایک عرصے سے بیمار تھے۔ ان کی بیماری سے متعلق تواترسے خبریں سوشل میڈیا سے موصول ہورہی تھیں۔ دنیا بھر میں پھیلے محبین ومتعلقین ان کی صحتیابی کے لیے دعا کر رہے تھے۔ انھوں نے اسپتال میں، 4/مئی 2025 کی دوپہر کو آخری سانس لی۔ ان کی وفات سے، ہم نے حقیقی معنی میں ایک عہد ساز شخصیت کھودیا ہے۔ ان کے کارنامے تاریخ میں مستقل ایک باب کے طور پر رقم کیے جائیں گے۔ آپ ایک روایتی مولوی ہوکر، نہ صرف ہزاروں مدارس ومکاتب اور مساجد قائم کیے؛ بلکہ آپ نے درجنوں اسلکولس، کالجز وغیرہ بھی قائم کئے۔ لوگ انھیں ہندو بیرون ہند میں مکاتب، مدارس، مساجد، اسکولس، کالجزاور اسپتال کے معمار کی حیثیت سے جانتے ہیں۔ بہت سے لوگ حیران ہیں کہ ایک روایتی مدرسہ کے تعلیم یافتہ شخص کا دماغ مدرسہ کے ساتھ ساتھ اسکولس، متعدد شعبہ جات کے کالجز کے بارے میں کیسے سوچا،پھر منصوبہ کیسے بنایا، خاکہ کیسے تیار کیا، پھر اس خاکےکو وجود کیسے بخشا؟ پھر عملی طور پر منصوبے کے مطابق، قوم کے بچے وہاں سے استفادہ بھی کرنے لگے۔ پھر وہ مختلف میدانوں میں قوم وملت کی خدمت بھی کرنے لگے۔جب بھی مولانا وستانویؒ ذکر ہوگا؛ تو لوگ صرف انھیں ایک روایتی مولوی کے طور پر یاد نہیں کریں گے؛بلکہ ان کی متعدد خدمات کی وجہہ سے، انھیں ایک تعلیمی مفکر، سماجی رہنما اورانقلابی شخص کے طور پر یاد کریں گے۔

 

قوم کے عظیم محسن:

مولانا وستانویؒ ایک مخلص انسان تھے۔ ان میں دینی حمیت تھی۔ انھیں قوم کی فکر تھی۔انھیں قوم کے بچوں کے مستقبل کی فکر رہتی تھی۔ قوم کی ضرورت کے مطابق، وہ سوچتے تھے اور پھر اس سوچ کو زمین پر اتارنے کا ملکہ رکھتے تھے۔ وہ جانتے تھے کہ قوم کے بچوں کو علم کی روشنی چاہیے۔ پھر انھوں نے مختلف علوم وفنون کے درجنوں ایسے ادارے قائم کیے، جن کی روشنی دور دور تک پھیلنے لگی۔ انھوں نے –اللہ کی مدد اور توفیق سے – جو کارنامے انجام دیے، وہ بہت سے ادارے اور تنظیمیں بھی انجام دینے سے قاصر ہیں۔ وہ قوم کے عظیم محسن تھے۔ دینی اور عصری علوم کے شعبے میں انھوں نے ایک انقلاب پیدا کیا۔ ان کے جانے سے جو خلاء پیدا ہوا ہے، وہ دہائیوں میں بھی پر ہوتا نظر نہیں آرہا ہے۔

 

مولانا وستانوی صاحبؒ کی خدمات کا آغاز:

حضرت وستانوی صاحبؒ نے مہاراشٹر کے ایک دور دراز دیہات، اکل کوا کی سرزمین پر، ایک مکتب کا آغاز سن 1979 میں ایک مسجد سے کیا؛ جب کہ وہ دار العلوم، کنتھاریہ، بھروچ، گجرات میں ایک مدرس تھے۔اس وقت اس مکتب میں صرف چھ طلبہ اور ایک معلم تھے۔ اکل کوا ایک چھوٹا سا گاؤں تھا، جو بنیادی سہولتوں سے بھی محروم تھا۔ پھر وہ چھوٹا سا مکتب حقیقی معنی میں "جامعہ” ہوگیا اور وہ "جامعہ اسلامیہ اشاعت العلوم” سے دنیا میں معروف ہوا۔وہاں ہزاروں کی تعداد میں قوم کے بچے تعلیم حاصل کرنے کے لیے جوق در جوق پہنچنے لگے۔ پھر اکل کوا جو ایک دیہات تھا، وہ علوم وفنون کے ایک بڑے شہر میں تبدیل ہوگیا اور دنیا کے متعدد ممالک میں جانا جانے لگا۔ مولانا وستانویؒ اس مکتب کو جامعہ اشاعت العلوم میں تبدیل کرکے، آرام سے نہیں بیٹھے؛ بلکہ وہ حالات کا مشاہدہ کرتے رہےاور ملت کی ضروریات کے بارے میں غور وفکر کرتے رہے۔ ان کے غور وفکر کے نتیجے میں،جامعہ اشاعت العلوم ایک فکر اور ایک تحریک بن گیا۔

 

جامعہ اکل کوا کی کامیاب پیش رفت:

جامعہ اکل کوا، حضرت مولانا وستانویؒ کی تعلیمی بصیرت اور ہمہ گیر سوچ کا شاہکار ادارہ ہے۔ یہ ایک ایسا منفرد تعلیمی مرکز ہے جو دینی و عصری تعلیم کو یکجا کرنے میں اپنی مثال آپ ہے۔ انھوں نےجامعہ کے تحت دینیات، درجہ حفظ، درسِ نظامی، اسلامیات میں تخصصات کے متعدد شعبے سے لے کر، پرائمری سے بارھویں جماعت تک کے اردو اور انگلش میڈیم اسکولس بھی قائم کيے۔ مزید بر آں، عصروی علوم وفنون کے درجنوں کالجز قائم کیے جو کامیابی سے چل رہے ہیں۔

 

مولانا وستانو یؒ عام روایت سے ہٹ کر،ایک مدرسہ کے احاطہ میں، اسلامی ماحول میں، سن 1993 ء میں آئی ٹی آئی کا شعبہ قائم کیا۔پھر انھوں نے جامعہ کے کیمپس سے متصل، متعدد کالجز قائم کیےاورمتعدد کورسز متعارف کرائےجیسے: بی یو ایم ایس میڈیکل کالج، انجینئرنگ کالج (ڈپلوما ان انجینئرنگ اور بیچلر ان انجینئرنگ)، فارمیسی کالج (ڈی فارمیسی، بی فارمیسی اور ایم فارمیسی، پی ایچ ڈی ان فارمیسی)، ایم بی بی ایس میڈیکل کالج اور نرسنگ (جی این ایم)، ایل ایل بی، اردواور مراٹھی زبانوں میں ڈی ایڈ اوربی ایڈ کورسز ۔ انھوں نے آفس آٹومیشن، سافٹ ویئر ڈویلپمنٹ وغیرہ جیسے پیشہ ورانہ شعبے بھی جامعہ کے احاطے میں قائم کیے۔ ان مذکورہ بالا اداروں کے علاوہ، آپ نے ہزاروں مکاتب، مدارس اور مساجد ملک کے متعدد علاقوں میں قائم کیے جو آپ کے لیے صدقۂ جاریہ ہیں۔

 

یہ ادارے مولانا کے خواب کا عملی روپ ہیں۔ آج یہ ادارے ہزاروں طلبہ و طالبات کی علمی، فکری اور اخلاقی تربیت کا مراکز بن چکے ہیں، جو پورے ملک سے طلبہ کو اپنی طرف کھینچتے ہیں۔ وہاں لڑکوں اور لڑکیوں کے لیے علیحدہ علیحدہ کیمپس، معیاری ہاسٹل، لائبریری وغیرہ دستیاب ہیں۔ وہ سکون واطمینان سے ان اداروں میں تعلیم حاصل کرتے ہیں۔سیکڑوں طلبہ ان اداروں سے استفادہ کرکے، قوم وملت کی خدمات میں مشغول ہیں۔یہ بات قابل ذکر ہے کہ یہ سارے ادارے اسلامی ماحول میں قائم کیے گئے اور طلبہ کو اسلامی ماحول فراہم کیا گیا۔ان اداروں اور کالجوں کی حقیقی ماں، جامعہ اشاعت العلوم ہے۔ یہ تمام ادارے جامعہ اشاعت العلوم کی آغوش میں پروان چڑھ رہے ہیں۔ مجھے نہیں لگتا کہ فی الحال بر صغیر ہندوپاک میں کمیت، رقبے اور شعبہ جات کے اعتبار سے کوئی ادارہ جامعہ اکل کوا سے بڑا ہوگا۔

 

مسابقۃ القرآن الکریم کی ایک انوکھی اورمفید روایت:

یہ دور تقابلی اور تنافسی دور ہے۔ جن میں تقابل اور تنافس کا شوق ہوتا ہے، وہ جلدی ترقی کرتے ہیں۔ ایسے بھی اچھی چیزوں میں تنافس کی ترغیب قرآن کریم میں بھی آئی ہے۔ خادم القرآن حضرت مولانا وستانوی صاحبؒ نے جامعہ اکل کوا کے زیر انتظام، کل ہند پیمانے پر، "مسابقۃ القرآن الکریم” کی ایک انوکھی اور مفید روایت شروع کی۔ ہندوستان بھر کے مدارس سے طلبہ ایک بڑی تعداد میں، اس مسابقۃ میں شرکت کے لیے پہنچتے ہیں۔مسابقہ میں شرکت کے لیے جانے سے قبل، طلبہ اپنے اپنے مدارس میں، اپنے ساتذہ کرام اور ساتھیوں کی موجودگی میں، مہینہ دو مہینے پہلے سے اس کی مشق کرتے ہیں۔ اس مسابقہ کی وجہہ سے طلبہ میں ایک بیداری پیدا ہوئی ہے۔ وہ حفظ کےطلبہ جو مسابقہ میں شرکت کے لیے جاتے، وہ خاص طور پر اور جو نہ جاتے وہ عام طور پر اس بات کی کوشش کرتے کہ وہ قرآن کریم اچھی طرح سے یاد کریں۔ وہ قرآن کریم تجوید کی پوری رعایت کے ساتھ پڑھیں۔ وہ طلبہ جو اس مسابقۃ میں شرکت کے لیے جاتے اور اوّل، دوم یا سوم پوزیشن سے کامیابی حاصل کرتے، وہ مختلف قسم کی اشیا اور نقد رقم کی شکل میں، بڑے انعامات سے نوازے جاتے۔ جن دنوں میں، جامعہ اکل کوا میں مسابقہ ہوتا ہے، ان دنوں کا جامعہ کا منظر مزید خوشنما اور دیدنی ہوتا ہے۔ جب راقم الحروف انکلیشور، گجرات میں تھا، اس موقع سے ایک بار جامعہ اکل کوامیں مسابقہ کی تاریخ پڑی۔ راقم اپنے کچھ ساتھیوں کے ساتھ،اکل کوا پہنچا۔ مسابقہ کا منظر دیکھ کر بڑی خوشی اور مسرت ہوئی۔

 

ایک متواضع شخصیت:

اتنی عظیم شخصیت اور ایسے عظیم کارنامے انجام دینے کے باوجود، وہ بڑے متواضع، سادہ مزاج اور درمند دل رکھتے تھے۔وہ بڑے چھوٹے اور خواندہ وناخواندہ کا اکرام کرتے تھے۔ وہ سب سے بڑی محبت کرتے تھے۔ لوگوں سے بہت جلدی مانوس ہوجاتے تھے۔ جب کسی سے ملتے؛ تو بڑی محبت سے بات کرتے تھے۔ جب ہم مرکز اسلامی ایجوکیشن اینڈ ریسرچ سینٹر، انکلیشور، گجرات میں تھے؛ تو ان کے بیانات سننے، قریب سے دیکھنے اور بات چیت کرنے کا موقع ملا۔ ایک بار کچھ مہمانوں کی معیت میں،حضرت مولانا اسماعیل صاحب ماکروڈ ؒ ، ڈائریکٹر: مرکز اسلامی ایجوکیشن اینڈ ریسرچ سینٹر، انکلیشور کی قیادت میں، جامعہ اکل کوا جانے کا شرف حاصل ہوا،جہاں مولانا وستانوی صاحبؒ کی زیارت اور ان سے ملاقات کی سعادت میسر آئی۔ مولانا نے انگریزی شعبے سے متعلق متعدد سوالات کیے اور ہم نے اپنی سمجھ کے مطابق جوابات دیے۔

 

مپلنگو، زامبیا میں ختم بخاری شریف کے جلسے میں شرکت:

سن 2017 میں، مولانا وستانوی صاحب مون ریز ٹرسٹ کی دعوت پر، زامبیا کے شمالی صوبے میں واقع مپلنگو کا سفر کیا۔ آپ 10/فروری 2017 کی شام کو مپلنگو پہنچےاور 13/فروری 2017 کی صبح کو یہاں سے واپسی ہوئی۔ وہ ختم بخاری شریف کے جلسے میں، مہمان خصوصی کی حیثیت سے شرکت کی لیے تشریف لائے تھے۔انھوں نے طلبہ کو بخاری شریف کی آخری حدیث کا درس دے کر، بخاری شریف کی تکمیل کرائی۔ یہ میری خوش قسمتی تھی کہ ان کو ریسیو بھی کرنے گیا اور رخصت بھی کرنے گیا؛ بلکہ روانگی کہ وقت، بندہ اسی کار میں تھا جس میں حضرت تھے۔ حضرت سے پورے راستے مختلف موضوع پر گفتگو ہوتی رہی۔

 

جب آپ مپلنگو تشریف لائے، اس وقت مولانا محمد ابراہیم صاحب قاسمی شولاپوری یہیں مقیم تھے۔ مولانا شولاپوری جامعہ اکل میں کئی سال شعبہ عالمیت میں زیر تعلیم رہ چکے ہیں۔ مولانا وستانویؒ مولانا محمد ابراہیم صاحب بڑی محبت کرتے تھے ۔ مولانا محمد ابراہیم صاحب کی معیت میں، ہمیں مولانا وستانویؒ کو بہت قریب سے دیکھنے اور ان کی خدمت کا موقع ملا۔ بندہ نے ان کے اس سفر کی روداد قلم بند کی تھی۔ وہ روداد، جامعہ اکل کوا سے شائع ہونے والے اردو رسالے "شاہراہ علم”، مارچ 2017 کے شمارے میں چھپا بھی تھا۔ ان کا وہ سفر ہم لوگوں کے لیے بڑا مفید رہا۔ وہ ہم سے بڑی محبت کرنے لگے۔ ہم جب بھی ان کے روم میں جاتے؛ تو بہت خوش ہوتے اور بڑی محبت کا اظہار کرتے۔

 

مولاناوستانویؒ ایک عظیم انسان اور تجربہ کار شخص تھے۔ انھوں نے ہمیں بڑے مفید مشورے دیے۔ انھوں نے ہم سے فرمایا کہ طلبہ کے ساتھ شفقت سے پیش آئیں! انھوں نے اپنے بارے میں فرمایا کہ وہ ہر روز مغرب بعدشعبہ دینیات کے دار الاقامہ میں جاکر بیٹھتے ہیں اور چھوٹے چھوٹے بچے ان کے سامنے کھیلتے رہتے ہیں۔ ان بچوں کو ان سے کوئی ڈر نہیں لگتا؛ بلکہ ان کو معلوم ہے کہ حضرت انھیں دیکھ کر خوش ہوتے ہیں۔ اگر کسی کوان سے ملنا ہو،چاہے وہ ان کے کسی کالج کے ہی طلبہ کیوں نہ ہو، ان کو دینیات میں آنا ہوتا ۔ حضرت نے فرمایا: انسان کو خوشامدی طبیعت نہیں ہونا چاہیے۔ جامعہ (اکل کوا) میں اتنے اساتذہ ہیں؛ لیکن میں کسی کو نہیں کہتا کہ وہ میرے سامنے حاضری دیتے رہیں! میں تو چاہتا ہوں کہ بس کام ہوتا رہے۔ حضرت نے فرمایا: "کام کروانا” ایک بڑی صفت ہے۔ انسان کو اپنے اندر کام کروانے کی صلاحیت پیدا کرنی چاہیے۔ حضرت نے دارالعلوم، دیوبند کے اہتمام سے متعلق فرمایا کہ : کچھ لوگ ہم سے پوچھتے تھے کہ کیا آپ کورٹ جائیں گے؟ میں نے انکار کرتے ہوئے کہا کہ دارالعلوم، دیوبند کے خلاف میں کبھی کورٹ نہیں جاسکتا۔

 

خالص دینی جذبے سے کام کرنے والی شخصیت:

مولاناوستانوی صاحبؒ کی ایک خصوصیت یہ بھی تھی کہ انھوں نے جو بھی کام کیا، وہ خالص دینی جذبے کے ساتھ کیا۔ انھوں نے جس کام کو قوم وملت کے ضروری سمجھا، اللہ کا نام لے کر، اس کام کو شروع کردیا۔ انھوں نے یہ کام کسی دنیوی ادارے ، تنظیموں یا حکومت سے کسی طرح کا مراعات حاصل کرنے یا ایوارڈ پانے کے لے نہیں کیا۔ اس حوالے سے مجھے یاد آرہا ہے کہ جب میں نے ان سے جناب ظہیر قاضی صاحب، صدر: انجمن اسلام، ممبئی کے اس جملے کا ذکر کیا کہ آپ کو اگر ایجوکیشن کے فیلڈ میں کام کرنے کا نوبل ایوارڈ بھی دیا جائے؛ تو کم ہے۔ اس پر مولانا نے فرمایا: بیٹے! اپنے کو اس ایواڑد سے کیا لینا، اپنے کو صرف جنت مل جائے، یہی اپنی خواہش ہے۔

 

مولانا کا مختصر سوانحی خاکہ:

مولاناغلام محمد وستانوی صاحؒب یکم جون1950ء کو صوبہ: گجرات کے ضلع: سورت کے ایک گاؤں "کوساڑی” میں پیدا ہوئے۔ آپ کے والد ماجد جناب اسماعیل ابراہیم رندیرا صاحؒب تھے۔سن 1952 میں ان کا خاندان، کوساڑی سے "وستان” منتقل ہوگیا۔انھوں نے ابتدائی تعلیم مدرسہ قوت الاسلام کوساڑی میں حاصل کی۔پھر مدرسہ شمس العلوم، برودہ میں تعلیم حاصل کی۔ انھوں نے سن 1964ء میں دار العلوم فلاح دارین، ترکیسر ،گجرات میں داخلہ لیا۔اس ادارے میں انھوں نے مفکر ملت حضرت مولانا عبد اللہ صاحب کاپوردیؒ کی نگرانی میں، آٹھ سال تک تعلیم حاصل کی اور دورۂ حدیث شریف مکمل کیا۔ مزید علمی تشنگی بجھانے کے لیے انھوں نے سن 1972 میں ہندوستان کی قدیم دینی درسگاہ جامعہ مظاہر علوم، سہارنپور میں دورۂ حدیث شریف میں داخلہ لیا اور سن 1973 میں وہاں سے فارغ ہوئے۔ حضرت وستانویؒ نے فلاح دارین میں بخاری شریف شیخ الاسلام حضرت مولانا سید حسین احمد مدنیؒ کے شاگرد،حضرت مولانا مفتی احمد بیمات صاحبؒ سے پڑھی؛ جب کہ مظاہر علوم میں، حضرت شیخ الحدیث مولانا زکریا صاحبؒ کے شاگرد رشید: حضرت مولانامحمد یونس صاحب جون پوریؒ سے پڑھی۔ ان کی انتظامی صلاحیت کے اعتراف میں، مہاراشٹر کے ایک ادارہ نے انھیں ایم بی اے کی اعزازی ڈگری سے نوازا ۔

 

تدریسی خدمات:

جامعہ مظاہر علوم سے فراغت کے بعد، آپؒ نے ضلع سورت کے قصبہ بوڈھن میں تقریباً دس دن تدریسی خدمات انجام دیں۔ پھر آپ کی تقرری دارالعلوم کنتھاریہ، بھروچ (گجرات) میں ہوئی، جہاں آپ شعبۂ عالمیت میں تدریسی فرائض انجام دیتے رہے۔ وہاں آپ کے زیر تدریس فارسی اور متوسطات کی متعدد اہم کتابیں رہیں۔ آپ نے سن 1983 تک کنتھاریہ میں بحیثیت مدرس اپنی ذمہ داریاں نہایت خوش اسلوبی سے نبھائیں۔ اس کے بعد آپ نے خود کو جامعہ اشاعت العلوم، اکل کوا کی تعمیر و ترقی کے لیے مکمل طور پر وقف کر دیا۔

 

اہلِ خانہ اور اولاد:

حضرت مولانا وستانویؒ کا تعلق ایک دیندار خانوادے سے تھا۔ ان کے اہلِ خانہ، خاص طور پر ان کے بڑے بھائی حافظ اسحاق صاحبؒ، ہمیشہ ان کے مشن میں شانہ بشانہ رہے۔ حضرت مولانا کی زندگی کی شب و روز جدوجہد کے پس پردہ، ان کے اہلِ خانہ کی قربانیاں اور دعائیں ہمیشہ شامل رہیں۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت مولاناوستانویؒ کی اولاد کو نیک، صالح اور تعلیم یافتہ بنایا۔ ان کے بڑے صاحبزادے مولاناسعید صاحب وستانویؒ تقریبا دوسال قبل وفات پاگئے۔ان کے دوسرے صاحبزادے حضرت مولانا حذیفہ غلام محمد وستانوی ہیں، جو دینی و عصری علوم کے حامل ایک باوقار علمی اور انتظامی شخصیت ہیں۔ وہ حضرت کی حیات میں ہی جامعہ کا انتظام وانصرام بحسن وخوبی انجام دے رہے تھے۔ اب ان کی وفات کے بعد،اراکین جامعہ نے مولانا حذیفہ صاحب کو”رئیس الجامعۃ” منتخب کیا ہے۔ان کی صلاحیت وصالحیت سے پوری امید ہے کہ ان شاء اللہ، وہ اپنے والد صاحبؒ کےمشن کو احسن انداز میں آگے بڑھا ئیں گے۔ ان کے تیسرے بیٹے مولانا اویس وستانوی صاحب ہیں۔انھیں اراکین جامعہ نے "نائب رئیس الجامعۃ” منتخب کیا ہے۔ امید ہے کہ ان شاء اللہ، مولانا اویس صاحب اپنے برادر اکبر کا دست و بازو بن کر، ادارے کو آگے لے جانے میں، ممد ومعاون ثابت ہوں گے۔

 

مولانا وستانویؒ کی تدفین:

حضرت مولانا وستانویؒ کا انتقال ایک ایسے عظیم درخت کے گرنے کے مترادف ہے جس کی چھاؤں میں نسلیں پروان چڑھتی رہیں۔ ان کی وفات نے ہزاروں علما اور طلبہ کو یتیم کردیا ہے، جنھوں نےان کی رہنمائی اور دعاؤں سے اپنی زندگیوں کو سنوارا۔ ان کی نماز جنازہ، مولانا حذیفہ صاحب وستانوی کی امامت میں، جامعہ اکل کوا کے وسیع وعریض احاطے میں، اسی رات تقریبا ساڑھےبارہ بجے ادا کی گئی اور تدفین مکرانی گاؤں کے قبرستان میں ہوئی۔آج لاکھوں دل ان کے لیے دعائیں کر رہے ہیں اور ان کی بے مثال خدمات کو خراجِ عقیدت پیش کر رہے ہیں۔ہم بارگاہِ ایزدی میں دعا گو ہیں کہ: اللہ تعالیٰ حضرت کی مغفرت فرمائیں، ان کے درجات بلند فرمائیں، ان کے قائم کردہ تعلیمی اداروں کو ہمیشہ قائم و دائم رکھیں اور ان کے اہل خانہ کو صبر جمیل عطا فرمائیں! آمین!

Comments are closed.