مدارس کی بندش: ایک تہذیب کے زوال کی دستک

مَسْعُود مَحبُوب خان (ممبئی)
یہ لمحہ… محض ایک لمحہ نہیں، بلکہ صدیوں کی میراث کے زوال کا نوحہ ہے! یہ لمحہ… ہواؤں میں بکھرتی اذانوں کی صدا،
مٹتے چراغوں کی سسکیاں، اور اجڑتے چمنوں کی ماتمی آہیں لے کر آیا ہے۔ ملک کی مختلف ریاستوں میں، ان مقدس گلیوں اور پاکیزہ کوچوں کو مسمار کردیا گیا یا ان پر تالے ڈال دیے گئے ہیں، جہاں صدیوں سے علم و عرفان کے دیپ روشن تھے۔ جہاں معصوم آنکھیں قرآن کی حروف کو سینوں میں اتارتی تھیں۔ جہاں لفظوں کے موتی پروئے جاتے تھے، جہاں حکمت کی قندیلیں جھلملاتی تھیں، اور جہاں سے ایمان کی کرنیں تاریکیوں کا سینہ چیر کر نکلتی تھیں۔
وہ آنگن، جن کی مٹی میں سجدوں کی خوشبو رچی ہوئی تھی، وہ حجرے،
جہاں علم کی تپش میں دلوں کو کندن بنایا جاتا تھا، وہ صحن، جہاں امیدیں پروان چڑھتی تھیں، آج بے کسی کے عالم میں خاموش کر دیے گئے ہیں۔ "مدارس”، جو اُمت کا فکری قلعہ ہیں، جو تہذیبی وجود کی پاسبانی کرتے ہیں، جن سے اُمت کی روحانی رگوں میں تازگی دوڑتی ہیں، آج مہرِ خاموشی کا شکار کئے جارہے ہیں۔ یہ منظر صرف کچھ دیواروں، چھتوں یا کتابوں کے مقفل ہونے کا نہیں، یہ ایک پوری تہذیب کے اجڑنے کی تمہید ہے۔ یہ ہمارے آنے والے کل کے اندھیروں کی پیش گوئی ہے۔ یہ اُمت کی آنکھوں سے بہنے والا وہ خاموش آنسو ہے، جس کی نمی کو محسوس کرنے کے لیے دل میں بیدار ضمیر کا ہونا شرط ہے۔
مگر افسوس! کہ آج ہم جشن کی رنگین بستیوں میں مست ہیں، جب کہ ہمارے اطراف اجڑے دیار اپنی ویرانیوں کا ماتم کر رہے ہیں۔ فضا میں بکھری ہوئی وہ آہیں، جو کبھی فضا کو دہلا دیا کرتی تھیں، آج بے صدا ہو چکی ہیں، گویا درد بھی اب چیخنے سے مایوس ہو چکا ہے۔ افسوس صد افسوس! قوم ہے کہ غفلت کی دبیز چادر میں لپٹی سو رہی ہے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ طوفان کے کنارے پر کھڑے ہو کر بھی، ہمیں اپنی سلامتی کا زعم لاحق ہے۔
مساجد کے منبر آباد ہیں، خطیبوں کی آوازیں فضا میں گونج رہی ہیں، جلسوں کے اسٹیج سجے ہیں، تقاریر کے طوفان اٹھ رہے ہیں، شادیوں میں باراتوں کی چمک دمک ہے،
ساز و سامان کی نمائش اپنی انتہاء کو پہنچی ہوئی ہے۔ مگر دلوں میں وہ اضطراب، وہ بے چینی، وہ بے کلی کہیں دکھائی نہیں دیتی، جو وقت کے طمانچے کا قدرتی ردّعمل ہونا چاہیے تھا۔ ایسا لگتا ہے کہ ہماری روحیں پتھر ہو چکی ہیں، دلوں پر زنگ کی موٹی پرت جم چکی ہے، جذبے پژمردہ ہو چکے ہیں، اور ضمیر اپنی آخری کراہیں بھی اندر ہی اندر گھونٹ کر خاموش ہو چکا ہے۔
ایسا محسوس ہوتا ہے کہ بزمیں سجی ہوئی ہیں مگر قبریں خاموش ہیں، قہقہے گونج رہے ہیں مگر رُوحیں ماتم کناں ہیں، چراغ جل رہے ہیں مگر ان میں روشنی کی بجائے اندھیرے کی دھند بھری ہوئی ہے۔ کاش کوئی آتا، کاش کوئی جھنجھوڑتا، کاش کوئی ہمیں بتاتا کہ
جو قوم اپنے وقت کی صدا پر لبیک نہیں کہتی، تاریخ کے صفحات سے اس کا نام مٹادیا جاتا ہے۔ یہ وقت صرف ماتم کا نہیں، یہ وقت ایک نئے عزم، ایک نئی بیداری، اور ایک نئی تعمیر کا تقاضا کر رہا ہے۔ مگر ہم ہیں کہ خوابوں کی نگری میں کھوئے ہوئے ہیں، اور حالات کی دھواں دھواں فضا میں بھی ہمیں اپنی محفلیں روشن دکھائی دے رہی ہیں۔ افسوس! کہ جب قوموں پر غفلت چھا جاتی ہے، تو اجڑے دیاروں کی آہیں بھی انہیں جگانے میں ناکام ہو جاتی ہیں۔
یہ کوئی وقتی آندھی نہیں ہے جو اٹھے اور تھم جائے، یہ ایک سوچا سمجھا، منصوبہ بند طوفان ہے جس کی لہریں تہذیبوں کی بنیادوں کو ہلا دینے کے لیے اٹھ رہی ہیں۔ ملک کے مسلمان اس وقت ایک غیر اعلانیہ مگر مہلک جنگ کا سامنا کر رہے ہیں — ایسی جنگ جس میں نہ تلواروں کی جھنکار ہے، نہ توپوں کی گرج، مگر اس کی چوٹ تعلیم پر ہے، اس کا وار تہذیب پر ہے، اس کی ضرب شناخت اور بقاء پر ہے۔ آج جب کہ کچھ ریاستوں میں مدارس کے دروازے بند کیے جا چکے ہیں، یہ خاموش سناٹا ایک بڑے طوفان کا پیش خیمہ ہے۔ یہ سمجھ لینا نادانی ہوگی کہ خطرہ محض دور کہیں محدود ہے۔ نہیں! یہ آگ رینگتی ہوئی تمہارے شہروں کی فصیلوں سے ٹکرائے گی، تمہاری گلیوں میں سرسرائے گی، اور ایک دن تمہارے اپنے گھروں کے در و دیوار کو اپنی لپیٹ میں لے لے گی۔
اے غفلت کی نیند میں ڈوبی ہوئی قوم! اگر آج ہم نے آنکھیں بند کرلیں، کانوں میں روئی ٹھونس کر سچائی کی صدا کو نظر انداز کیا، اور اپنے وقتی مفاد کے نشے میں مست رہے، تو جان لو کہ ہم ایک ایسی اندھی کھائی کی طرف بڑھ رہے ہیں جہاں ہر طرف اندھیرا ہے، مایوسی ہے، اور بے بسی کے سوا کچھ نہیں۔ وہ کھائی جہاں سے واپسی کا کوئی راستہ نہ ہوگا، جہاں توبہ کی چیخیں بھی صدا بہ صحرا ہو جائیں گی۔ اب بھی وقت ہے کہ بیدار ہو جاؤ۔ اپنے علم کو، اپنی تہذیب کو، اپنی شناخت کو تھام لو۔ ورنہ تاریخ کے اوراق پر ہمارا نام صرف ایک داستانِ عبرت کے طور پر لکھا جائے گا۔
وقت کی دھڑکتی رگوں سے ایک بے ساختہ پکار سنائی دے رہی ہے، جو ہر باشعور دل کو جھنجھوڑ رہی ہے۔ یہ صدا تقاضا کر رہی ہے کہ ہم اپنے ذاتی اختلافات، گروہی تعصبات اور معمولی رنجشوں کو پسِ پشت ڈال کر ایک ایسی لڑی میں پروئے جائیں جس کا ہر دانہ اخوت، محبت اور یکجہتی سے چمک رہا ہو۔
یہ وقت کا تقاضا ہے کہ ہم اپنے ان بکھرے ہوئے قافلوں کو ایک کارواں میں ڈھالیں، جہاں منزل کی طلب ہر ذاتی خواہش پر غالب ہو، اور اتحاد کی قوت ہر کمزوری کو مٹا دے۔
آج جب کہ ہماری قوم کی کشتی متلاطم موجوں کے تھپیڑوں کا شکار ہے، ضروری ہے کہ ہم ہوش کے ناخن لیں۔ وہ بے دریغ دولت جو ہم شادی بیاہ کی تقریبات پر، رسم و رواج کی نمائش پر، اور ظاہری شان و شوکت کی نمائش پر بہا دیتے ہیں، اسے روک کر اپنی تعلیمی درسگاہوں کی بنیادوں میں، اپنے فلاحی اداروں کی دیواروں میں، اور اپنے ملی وجود کی حفاظت کے قلعوں میں نصب کریں۔ یہ وقت ہے کہ ہم اپنی ترجیحات کو ازسرِ نو مرتب کریں — دنیاوی نمائش کے بجائے، علم، خدمت، اور ملی شعور کے چراغ روشن کریں، تاکہ ہماری آنے والی نسلیں اندھیروں کی مسافر نہ بنیں۔
مزید یہ کہ، اپنے وجود کی، اپنے تشخص کی، اپنے دینی وقار کی حفاظت کے لیے ہمیں محض وقتی جذبات نہیں بلکہ ایک منظم، حکمت آمیز اور مستقل جدوجہد کا آغاز کرنا ہوگا۔ یہ جدوجہد نہ گلی کوچوں کی نعرہ بازی ہو، نہ فیس بک اور سوشل میڈیا کی وقتی گرمی؛ بلکہ یہ ایسی سنجیدہ، تدبیر سے بھرپور اور صبرآزما محنت ہو جو دلوں کو جوڑے، عقلوں کو روشن کرے، اور عمل کو جِلا بخشے۔ یاد رکھو! وقت تھم نہیں رہا۔ یا تو ہم وقت کی پکار پر لبیک کہہ کر اپنے مقدر کی تقدیر بدل لیں، یا پھر تاریخ کے ملبے تلے دب کر اپنے کھوئے ہوئے وقار کا نوحہ لکھتے رہ جائیں۔
مدارس صرف اینٹ پتھر کی عمارتیں نہیں ہیں، یہ روحِ اُمت کے وہ چراغ ہیں جن کی لو میں ہماری تاریخ کی تابانی، ہماری تہذیب کی خوشبو اور ہمارے فکری سرمایے کی حرارت پوشیدہ ہے۔ مدارس وہ نخلستان ہیں جہاں علم کے چشمے ابلتے ہیں، روحوں کو سیراب کرتے ہیں، اور دلوں میں چراغاں کرتے ہیں۔ یہ وہ قلعے ہیں جو ہر دور کے فکری طوفانوں کے سامنے سینہ سپر ہو کر اُمت کی حفاظت کرتے آئے ہیں۔ جب ایک مدرسہ بند ہوتا ہے، تو سمجھ لو کہ صرف ایک دروازہ نہیں بند ہوتا، بلکہ تاریخ کے ایک روشن باب پر اندھیرے کی چادر کھینچ دی جاتی ہے۔ یہ محض ایک درسگاہ کا مقفل ہونا نہیں ہے، یہ شعورِ اُمت کے دروازے پر لگنے والا قفل ہے؛ ایسا قفل جو دل و دماغ کی روشنی کو زنجیروں میں جکڑ دیتا ہے، ایسا قفل جو آنے والی نسلوں کے سینے میں علم کے بجائے خوف اور بے یقینی کے بیج بو دیتا ہے۔
مدارس کا زوال اُمت کے فکری قلعے کی بنیادیں ہلانے کے مترادف ہے۔ جب ان قلعوں کی دیواریں گرنے لگتی ہیں تو حملہ آور صرف زمین پر نہیں چڑھائی کرتے، وہ ہماری روح، ہماری شناخت، ہمارے ایمان پر یلغار کرتے ہیں۔ مدارس بند ہوں تو قوم کی آنکھوں سے حکمت کا نور چھن جاتا ہے، زبانوں سے صداقت کا لہجہ روٹھ جاتا ہے، اور دلوں سے عزّتِ نفس کی حرارت سرد پڑ جاتی ہے۔ یاد رکھو! مدرسہ بند ہونا ایک حادثہ نہیں، یہ ایک المیہ ہے؛ ایسا المیہ جو اگر وقت پر نہ سمجھا گیا تو نسلوں کے ماتھے پر پشیمانی کی لکیریں چھوڑ جائے گا۔ اب بھی وقت ہے کہ ہم مدارس کی حفاظت کو محض علماء کی ذمّہ داری نہ سمجھیں، بلکہ ہر فردِ اُمت اسے اپنا فرضِ اوّلین سمجھے، کہ یہی چراغ رہیں گے تو قافلہ روشنی میں سفر کرتا رہے گا۔
اے غفلت کی نیند میں ڈوبی ہوئی قوم! سن لو! وقت تمہیں بار بار جھنجھوڑنے نہیں آئے گا۔ آج جو تم نے آنکھیں بند کر رکھی ہیں، جو تم نے سستی اور بے نیازی کا بستر تان رکھا ہے، یاد رکھو! یہ غفلت ایک دن تمہارے دروازے پر ماتم کرتی ہوئی دستک دے گی، لیکن اُس وقت تمہارے پاس نہ مہلت ہوگی، نہ موقع۔ آج جو طوفان مساجد و مدارس پر آیا ہے، وہ کل ہمارے در و دیوار کو لرزائے گی، ہمارے سینے کو چھلنی کرے گی، اور ہمارے خوابوں کو خاک میں ملائے گی۔ وقت، یہ بے رحم قاصد، کسی کے انتظار میں نہیں رکتا، نہ کسی کے اشکوں سے پگھلتا ہے، نہ کسی کی آہوں پر پلٹتا ہے۔ آج کا جو پل تم نے سستی اور بے عملی کی نذر کر دیا، وہ کل شرمندگی کا ایک زنجیر بن کر تمہاری گردن میں جھولے گا۔ آج جو وقت کا دامن تم نے جھٹک دیا ہے، کل وہی دامن تمہاری مٹھی سے چھن کر حسرتوں کی راکھ بن جائے گا۔
یاد رکھو! وقت کی سوئی کسی کے لئے رُکتی نہیں، وہ مسلسل چلتی ہے — بیدار قوموں کو منزل کی طرف لے کر، اور سوئی ہوئی قوموں کو اندھی کھائیوں میں دھکیل کر۔ آج اگر تم نے آنکھیں کھول لیں، ہاتھوں میں عمل کا چراغ تھام لیا، اور دلوں میں بیداری کی آگ لگا دی، تو شاید کل تمہاری پیشانیاں عزّت سے بلند ہوں۔ ورنہ خاموشی، غفلت اور سستی کی یہ مٹی، تمہیں ایسا دفن کرے گی کہ تمہارا نام و نشان بھی باقی نہ رہے گا۔ اے میری قوم! اب بھی وقت ہے — جاگ لو! قدم بڑھا لو! ورنہ تاریخ کا ماتمی کارواں تمہیں اپنی گرد میں چھپا لے گا، اور تمہاری داستانیں محض عبرت کی کہانیاں بن کر رہ جائیں گی۔
اب بھی وقت ہے! ہنوز دروازے کھلے ہیں، ابھی تقدیر کے قلم نے آخری فیصلہ تحریر نہیں کیا۔ سوچو! سنبھلو! کہ وقت کی ریت مٹھیوں سے پھسلتی جا رہی ہے، اور تاریخ کی صدا ہر گوشے میں گونج رہی ہے: اٹھو! بیدار ہو جاؤ! اپنی بقاء کے معرکے کو سر کرو، قبل اس کے کہ تمہاری شناخت، تمہاری عظمت، تمہارا وجود محض کتابوں کے چند بوسیدہ اوراق میں ایک بےجان تذکرہ بن کر رہ جائے۔ یہ لمحہ، جو تمہارے سامنے جھک کر التجا کر رہا ہے، تم سے عمل کا سوال کر رہا ہے۔ یہ وقت کی پکار ہے کہ اپنے خوابیدہ عزم کو جگاؤ، اپنے دلوں کے چراغ روشن کرو، اور اپنی تاریخ کے اجڑے قافلوں کو پھر سے کارواں میں ڈھالو۔ اے اہلِ ایمان! اپنے علم کے میناروں کو ٹوٹنے نہ دو، اپنے چراغوں کی لو کو بجھنے نہ دو۔ کیونکہ چراغ جب بجھتے ہیں تو راستے اندھیروں میں گم ہو جاتے ہیں، اور مینار جب گرتے ہیں تو افق پر صدیوں تک کوئی روشنی کا نشان باقی نہیں رہتا۔
تاریخ گواہ ہے!!! جو قومیں اپنے علم، اپنے تہذیب، اپنی شناخت کے محافظ نہ بن سکیں، جو اپنی میراث کو بے سہارا چھوڑ بیٹھیں، وہ نہ صرف زمیں سے مٹ گئیں، بلکہ وقت کی گرد میں ان کے نام تک دب کر رہ گئے۔ اس لیے اے عزیزو! ابھی بھی وقت ہے — اپنے آپ کو سنوار لو، اپنی صفوں کو درست کر لو، اپنے چراغوں کی حفاظت کر لو، اپنی نسلوں کے مستقبل کو تاریکی کے سمندر میں غرق ہونے سے بچا لو۔ اٹھو! عمل کی زمین کو اپنے قدموں سے آباد کرو! فکر کی فضا کو اپنے اذہان سے منور کرو! اور اپنے قلعوں کو مضبوط کرو، تاکہ تمہارا وجود افق پر دوبارہ ایسے چمکے جیسے اندھیری رات میں صبح کا پہلا ستارہ چمکتا ہے — امید، حوصلے اور نئی زندگی کی نوید بن کر۔
یاد رکھو! اگر ہم نے اب بھی آنکھیں نہ کھولیں، تو وقت وہ زخم دے گا جو صرف جسم پر نہیں، بلکہ قوم کے شعور پر نقش ہو گا۔ اور تاریخ گواہ ہے — جو قومیں اپنے مدرسوں اور تعلیمی اِداروں کو چھوڑ دیتی ہیں، وہ بہت جلد اپنی پہچان بھی کھو دیتی ہیں۔ خوابوں سے نکلیں، حقیقت کی دھوپ میں قدم رکھیں، اور ایک نئے عہد کی بنیاد رکھیں — ایسا عہد جہاں علم، اخوت، غیرت، اور شعور کی مشعلیں پھر سے روشن ہوں۔ "آئیے! علم کا چراغ تھامیں، اور اپنی تہذیب کے اجڑے دیار کو پھر سے گلزار بنائیں”۔
Comments are closed.