بنگلورو تشدد : کانٹے سے کانٹا نکالنے کا فن ڈاکٹر سلیم خان

بنگلورو تشدد : کانٹے سے کانٹا نکالنے کا فن
ڈاکٹر سلیم خان
بنگلورو کے پلکیشی نگر سے ریزرو حلقۂ انتخاب سے 2018میں اکھنڈ سرینواس نے دوسری مرتبہ کامیابی حاصل کی ۔ اس سے قبل وہ اسی حلقۂ انتخاب سے جے ڈی (ایس) کے ٹکٹ پر جیتے تھے لیکن کانگریس میں آنے کے بعد انہیں پورے صوبے میں سب سے زیادہ ووٹ کے فرق سے کامیاب ہونے کا اعزاز حاصل ہوا۔ انہیں کے علاقہ میں ڈی جے ہلی نام کا مسلم اکثریتی محلہ بھی ہے۔ ظاہر ہے انہیں ہرانے میں مسلمانوں کی حمایت کا بھی بڑا حصہ رہا ہوگا اس لیے رائے دہندگان کو ان سے خاصی توقعات بھی رہی ہوں گی۔ اس رکن اسمبلی کے بھتیجا نوین کچھ عرصے سے مسلمانوں کے خلاف سماجی رابطے کی ویب سائٹس پر پوسٹ ڈالنے لگا یہاں تک کہ پیغمبر اسلام حضرت محمد ﷺ پر توہین آمیز مضامین تک شائع کردیئے ۔ نوین اگر مقامی ایم ایل اے کا مخالف ہوتا تو اس کی حرکات کے لیے اکھنڈ سرینواس کو موردِ الزام نہیں ٹھہرایا جاسکتا تھا لیکن چونکہ وہ تو ان کا دستِ راست تھا اس لیے اسے کو روکنے کی ذمہ داری ایم ایل اے پر آتی ہے۔ وہ اگر اپنے بھانجے کو منع کرکے قبل ازوقت اپنے رائے دہندگان سے معافی تلافی کرلیتے تو یہ تشدد کی نوبت نہیں آتی لیکن ان کا معذرت بھرا ویڈیو جس وقت سامنے آیا تب تک چڑیا کھیت چگ چکی تھی۔
ڈی جی ہلی کے مسلمان نوین کے خلاف شکایت درج کرانے کی خاطر پولس تھانے گئے تھے ۔ ان کا ارادہ تشدد برپا کرنے کا نہیں تھا بلکہ وہ تواسے گرفتار کرنے کا مطالبہ کررہے تھے ۔ اس معاملہ کی نزاکت کا احساس کرکے اگر فوراً کارروائی کی گئی ہوتی یعنی نوین کو گرفتار کرلیا جاتا یا کم ازکم شکایت کنندگان کی ایف آئی آر درج کرنے کے بعد پولس ایکشن میں آجاتی اور قانونی کارروائی شروع کردیتی تب بھی عوام کو سمجھا بجھا کر لوٹایا جاسکتا تھا لیکن اس میں مجرمانہ تاخیر ہوئی ۔ عینی شاہدین کے مطابق پولیس افسر اور اے سی پی نے 2گھنٹے انتظار کرنے کیلئے کہا اور اس کی وجہ سے ہجوم مشتعل ہوگیا اور جو تناؤ کا ماحول بنا تو وہ تشدد کی شکل اختیار کرگیا ۔ عوامی غم و غصے کو کم کرنا بھی انتظامیہ کی ذمہ داری ہے۔ اس معاملے میں کوتاہی اس قابلِ مذمت تشدد اور جانی و مالی نقصان کا سبب بنی ہے ۔ یہ سارے حقائق غیر جنبدارانہ تحقیقات سے سامنے آئیں گے۔ اس معاملے کو یہ کہہ کر ٹالا نہیں جاسکتا کہ ملک کا انتظامیہ سست رو ہے اور اس کا خیال کرکے عوام کو صبرو تحمل سے کام لینا چاہیے ۔ یہ نہ صرف تساہل بلکہ تفریق و امتیاز کا بھی معاملہ تھا۔ کسی خاص طبقے کو اگر بار بار بھید بھاو کا شکار کیا جائے تو انسانی فطرت اس کے خلاف احتجاج کرتی ہے ۔
کرناٹک کی پولس پہلے کئی مرتبہ چستی اور پھرتی کا مظاہرہ کرکے چکی ہے ۔اس کے امتیازی سلوک چند مثالیں دیکھ لینے کے بعد اضطراب کی وجہ ازخود سمجھ میں آجاتی ہے۔ دور جانے کے بجائے اسی علاقہ کی مثال لیں تو آ صف نامی مقامی نوجوان یاد آتا ہے کہ جسے ایم ایل اے اکھنڈ سرینواس کے بارے میں سوشیل میڈیا پر تبصرہ کرنے کے سبب شکایت درج کرنے کے صرف 10منٹ میں حکام نے گرفتار کرلیا تھا۔ آصف کے معاملہ میں پولس نے جس مستعدی کا مظاہرہ کیا اگراسی طرح نوین کو بھی حراست میں لے لیا جاتا تو نہ پولس اسٹیشن پر حملہ ہوتا اور نہ گولی چلانے کی نوبت آتی ۔ مجمع کو منتشر کرنے کے لیے پولس کا ہوائی فائر یا کمر کے نیچے گولی چلانے کے بجائے سینے پر نشانہ سادھنا بھی قابل مذمت ہے۔ مظاہرین پر طرح طرح الزامات لگانے والوں کوملعون نوین پر توہین رسالت، معاشرے میں نفرت انگیز جرائم، فسادات کو بھڑکانے کا مجرم قرار دینا چاہیے۔ اس کے علاوہ لاپروائی برتنے والے پولیس افسران کو بھی معطل کرکے ان کے رویہ کی جانچ ہونی چاہئے تاکہ آگے چل کر انتظامیہ کے اندر ذمہ داری کا احساس پیدا ہو۔
بنگلورو میں برپا ہونے والے تشدد کے بعد ملزم نوین کو عدالت نے 5 دنوں کیلئے پولیس تحویل میں بھیج دیا ہے اور معاملہ کی تحقیقات ہو رہی ہیں ۔ اس بیچ نوین نے اپنا اکاونٹ ہیک ہونے کی بات بھی کہی لیکن تفتیش کے بغیر اس کا اعتبار نہیں کیا جاسکتا۔ بی جے پی کی صوبائی حکومت کے لیے مسلمانوں کا کانگریس کے خلاف ہونا خوش آئند بات ہے اسی لیے غالباً اس نے ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ کی نگرانی میں پورے معاملہ کی جانچ کا حکم دیا ہے۔ اس کام کے لیے بنگلورو کے ڈپٹی کمشنر جے این شیومورتی کو مجسٹریٹ نامزد کیا گیا ہےاورانہیں 3 ماہ کے اندر رپورٹ دینے کی ہدایت بھی کی گئی ہے۔ اسی کے ساتھ ریاستی حکومت کا اترپردیش کے طرز پر تشدد میں ہونے والے نقصان کی بھرپائی کیلئے ملزمین کے اثاثہ جات ضبط کرنے کا اشار ہ دیا ہے جو نہایت خطرناک رحجان ہے کیونکہ یہ رویہ عام طور پر صرف مسلمانوں کے خلاف اختیار کیا جاتا ہے ۔ اس کی سب سے بڑی مثال بنگلورو سانحہ کے تین بعد 14 اگست کو اعظم گڑھ کے بانس گاؤں میں برپا ہونے والے تشدد کے تعلق سے خود حکومت یوپی کا رویہ ہے۔
بانس گاوں کے پردھان ستیہ میو جیتے کے قتل کے بعد حالات کشیدہ ہوئے تو بونگریا سڑک جام کردی گئی اور اس دوران ایک 12سالہ بچے کی گاڑی کی زد میں آنے سے موت ہوگئی۔ اس کے بعد لوگوں نے راسے پورپولیس چوکی کو پھونک دیا ۔ مظاہرین نے گاڑیاں بھی جلائیں اور آس پاس آگ زنی کی مگر پولیس نے لاٹھی چارج اور ہوائی فائرنگ پر اکتفا کیا ۔ انکاونٹر کے لیے بدنام زمانہ اترپردیش کی پولس نے بھی سینے پر گولی نہیں چلائی ۔ اترپردیش کی مثال تو کرناٹک میں دی جارہی لیکن اعظم گڑھ کے بانس گاوں میں تشدد کرنے والوں سے نقصان بھرپائی کا مطالبہ کسی نے نہیں کیا تو کیا صرف مسلمانوں کے لیے ہے؟ جے ڈی ایس رہنما ظفر اللہ خان نے اس اقدام کی مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ حکومت ، عدالت کا کام نہیں کرسکتی ۔ابھی تو پرتشدد احتجاج کے بعد ہونے والی گولی باری کی جانچ سی سی بی نے مکمل بھی نہیں کی ہے۔ سابق وزیر اعظم ایچ ڈی دیوے گوڑا نے تشدد کے واقعہ کی مذمت کرنے کے بعد پولیس سے درخواست کی کہ وہ ابتدائی جانچ کے بعد بے قصور لوگوں کو رہا کرے۔
یہ معاملہ چونکہ کانگریس کے لیے خطرے کی گھنٹی ہے اس لیے پردیش کانگریس کمیٹی نے سانحہ کی وجوہات اور حقائق کا پتہ لگانے کیلئے سابق وزیر داخلہ جی پرمیشور کی صدارت میں ایک کمیٹی تشکیل دے دی ۔ اس معاملے جو لوگ مسلمانوں پر اندر عدم برداشت کا الزام لگاتے ہیں یا مسلم سماج کے اندر انتہا پسندی پر تشویش کا اظہار کرتے ہیں انہیں دوران تشدد رونما ہونے والے دو واقعات پر غور کرنا چاہیے ۔ ان میں سے ایک انفردای اور دوسرا اجتماعی نوعیت کا ہے۔ یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ سارے فساد کی جڑ نوین تھا اس کے باوجود ایک سوشیل میڈیا پوسٹ میں نوین کی والدہ نے اعتراف کیا کہ آج وہ محض مسلم نوجوان کے جان بچانے کی وجہ سے زندہ ہے۔رکن اسمبلی اکھنڈ سرینواسا مورتی کی بہن جینتی کو گھر میں آگ لگانے سے کچھ منٹ قبل مسلم نوجوانوں نے بحفاظت نکال کر دوسری عمارت میں پہنچا دیا تھا۔ یہ سلوک ذرائع ابلاغ میں مسلمانوں کے خلاف پھیلائے جانے والے عدم برداشت کے الزام کی تائید نہیں بلکہ تردید کرتا ہے۔ جینتی کے مطابق ہنگامہ 8بجے کے قریب شرو ع ہوا اورجیسے جیسے وقت گذرتا گیا حالات خراب ہوتے چلے گئے۔ سینکڑوں لوگ چونکہ سڑک پر تھے اور گاڑیاں جل رہی تھیں اس لیے فرار کا کوئی راستہ نہیں تھا ۔ ایسے میں تقریبا10بجے کے قریب ایک مسلمان انہیں دوسری عمارت میں حفاظت کے ساتھ لے گیا۔ اس قدر ہیجان انگیز ماحول میں مسلم نوجوانوں کےیہ انسانیت نوا ز ی قابل تحسین ہے۔
ایک زمانے میں مسلمان جذبات میں آکر نادانستہ بی جے پی کو اپنے خلاف اچھالنے کا ہتھیار فراہم کردیتے تھے۔اس کومیڈیا میں اچھال کر وہ اپنے سارے کرتوت پر پردہ ڈال دیتی تھی لیکن اب مسلمان ہوشیار ہوگئے ہیں ۔ انہیں پتہ تھا کہ سرینواس کے گھر اور پولس تھانےکی توڑ پھوڑ کو اچھال کر انہیں بدنام کیا جائے گا لیکن ایک عام ہندو کو متنفر کرنے کے لیے ان کے مذہبی مقام کی بے حرمتی سب سے سہل حربہ ہے۔ ماضی میں سنگھ کے لوگ خود ایسی حرکت کرکے اس کا الزام مسلمانوں کے سر منڈھتے رہے ہیں ۔ اتفاق سے سرینواس کی رہائش گاہ کے عین سامنے ایک ہنومان مندر ہے ۔ اس کو اگر کوئی غیر مسلم بھی نقصان پہنچا کر غائب ہوجاتا تو وہ الزام مسلمانوں پر ڈال کر عام ہندو کو اسلام سے دور کرنے کی سازش رچی جاسکتی تھی ۔ اس متوقع کوشش کو ناکام کرنے کے لیے مسلم نوجوانوں نے انسانی زنجیر بناکر اس کی حفاظت کا اہتمام کیا۔ اس کا الٹا اثر ہوا میڈیا کے اندر مسلما نوں کے اس اقدام کی تعریف و توصیف ہونے لگی ۔ اس کی ویڈیو بناکر اسے وائرل کیا گیا جو ٹیلی ویژن پر بھی چلی ۔ کانٹے کو کانٹے سے نکالنے کا فن وقت کی اہم ضرورت ہے۔
(۰۰۰۰۰۰۰جاری )
Comments are closed.