بنگلورسے جموں تک شرمناک گستاخانہ مہم

عبدالرافع رسول
13اگست سے 15اگست2020 تک دودنوںکے دوران تواتر کے ساتھ بنگلورسے جموں تک سنگھ پریوارنے اپنے سیاہ چہروں پرغلاظت مل کر سید الانبیاء والمرسلین خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات اقدس میں توہین کی نا پاک اور شرمناک مہم جوئی کی جسارت کی ۔یہ دراصل بھارت میں ہندوتواکے نظریئے کی اسلام دشمنی اور طویل المیعادمنصوبہ بندی کا حصہ ہے کیونکہ بھارت کاہندوتوا یہ سمجھتا ہے کہ جب تک مسلمان اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات اقدس سے عقیدت اور محبت کا اعلیٰ معیار برقرار رکھے ہوئے ہیں تو ان کے اندر سے اسلامی غیرت ودینی حمیت کھرچی نہیںجا سکتی ہے اور جب تک مسلم سماج میں اپنے مرکز سے وابستگی کا جذبہ برقرار ہے مسلم سماج کو مذہبی اعتبارسے زیر نگیں نہیں بنایا جا سکتا۔کیونکہ یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات اقدس سے محبت ہی ہے کہ جس پرمسلمانوں کے ایمان کی زمین سے عرش تک بلندوبالا روشن عمارت کھڑاہے اوراسی سے ایک مسلمان اسلامی تعلیمات کے ساتھ جوڑا ہوا ہے ۔ جس دن یہ تعلق کمزور ہو گیا مسلمانوں اور غیر مسلموں میں کوئی تفریق کوئی فرق باقی نہیں رہے گا۔پھر نہ صرف یہ کہ ان کے تہذیبی،نظریاتی، فکری اور ثقافتی ڈھانچے کو زمین بوس ہونے سے کوئی نہیں روک سکے گا بلکہ انہیں’’ہندوتواکے نظریئے‘ کے تحت ہندومعاشرے کا حصہ بنانا بھی آسان رہے گا۔اس مقصد کے لئے ہندوتواکے نظریئے’’ غلیظ ذہنیت ‘‘کے حامل ہندو ہندوستان کے مسلمانوںکے خلاف وہ وقتافوقتامختلف زہرگداز مطالبات پیش کرتے ہیں۔ البتہ یہ یادرکھناچاہئے کہ جو آسمان کی طرف تھوک پھینکنے والاگروہ ہے اس کا تھوک خود اس کے ہی چہرے پہ آگرتا ہے۔ اس کاانجام بالآخر ان افراد و اقوام کی بگاڑ پہ ہی منتج ہو گا جیسے کہ پچھلی اقوام کی شکلیں خنزیر اور بندروں جیسی بنا دی گئی تھیں۔ انسانی تاریخ کے اوراق ابھی تک بڑے روشن ہیں اور اب بھی ایسا ہی ہو رہا ہے اور یونہی رہے گا ، فطرت بڑی خاموشی سے اور حیرتناک طور پر اپنا کام کئے جا رہی ہے۔ جو پردہ غفلت میں رہنا چاہتے ہیں ان کو اس کی خبر ہی نہیں ہوتی۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ ہندئووںاورمسلمانوں کے مابین فکر و نظر کی کشمکش صدیوں سے جاری ہے اور جاری رہے گی۔لیکن اس کاہرگزیہ مطلب نہیں کہ پلیدہندوایک غلیظ مہم چھیڑ کرنبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم کی شان اقدس میں گستاخی کر کے مسلمانوں کے دل مجروح کر کے انتقام لینے پراترآئے۔ اسے قبل بھارت میں کئی ایسے دلدوزواقعات پیش آئے جس کے ذریعے قرآن پاک کی بے حرمتی ، شعائر اسلام کی توہین کی نا پاک و نا مراد کوششیں ہوئیںجسکے جواب میں انہیںمسلمانوں کی پر زور صدائے احتجاج کا سامنا کرنا پڑا ہے۔جس سے اسے یہ پتاچل گیاکہ بھارتی مسلمانوںکی نبض چل رہی ہے اور وہ کسی بھی طرح کی دل آزارمہم کوہرگز قبول کرنے کے لئے تیارنہیں ہے ۔ مسلمان غیرت اور عقیدت کو انسانی سماجی میں توازن برقرار رکھنے کی ایک اہم بنیاد تصور کرتا ہے ۔ اور اس بنیاد سے محرومی کا مطلب یہ ہے کہ مسلم سماج بھی دنیا کے دوسرے معاشروں جیسا ہے۔ اس لئے مسلمان کسی بھی صورت میں خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم، قرآن اورشعائراسلام کی توہین برداشت کرتا ہے۔مسلمانوں کی غیرت اسلامی اوردینی حمیت کویہ دیکھ کربھارت میں ہندوغنڈے اپنا سر پیٹ رہے ہیں۔
ہندوتوا کی اسلام دشمنی عصر حاضر کی ان کی گندی سیاست کا ایک (Open Secret) ہے اور یہ ا نکی ظالمانہ اور سفاکانہ کردار و عمل کا مظہر ہے کہبھارت کے طول وعرض میں بھارتی مسلمانوں جوہندوستان کے ابنائے وطن ہیںپر زمین تنگ کر دی گئی ہے۔المیہ یہ ہے کہ آج بھارت کے ہر گوشے سے مظلومیت کا قرعہ فال بھارتی مسلمانوں کے نام نکلا ہوا ہے اسی وجہ سے ان کی مظلومیت کی کہانی یکساں نظر آرہی ہے ۔ان پر ڈھائے جانے والے مظالم کا انداز بھی ایک ہی طرح کا نظر آرہا ہے ۔مظلوم ستم رسیدگی کی وجہ سے اگرچہ بکھرے ہوئے ہیں لیکن ظالم ہر جگہ اکٹھے اور ایک ہو کر کھڑے نظر آ رہے ہیںاور ان کے ہاتھ میں ظلم ڈھانے والا کوڑا ایک ہی طرز کا ہے۔ظلم وجبرڈھانے کے باوجود جب ان کاسینہ ٹھنڈانہیں ہورہاتووہ توہین رسالت پراتر آتے ہیں تاکہ مسلمانوں کے جسموں کے ساتھ ساتھ انکی روح کوبھی مجروح کیاجائے ۔بلاشبہ بھارت میں برپا ہندوتہذیبی جارحیت اور تصادم کا ذہنی معیار جب اتنا بلند اور تصادم آرائی کرنے والوں کی ذہنی سطح جب اس قدر زہر بھری ہے تو پھراس خطے کے مسلمانوں کو ایک اور طویل المیعاد محاذ آرائی کیلئے تیار رہنا ہو گا ۔ پھر یہ ایک ایسی بھڑکتی ہوئی آگ کے شعلے ہیں جو بھڑکتے ہی چلے جائیں گے ۔ ہندوستان کے کفرستان کامہیب طوفان بھارتی مسلمانوں کو اپنی لپیٹ میں لیے جا رہا ہے اوریہ طوفان بڑی تیزی کے ساتھ مقبوضہ جموںوکشمیرکارخ کررہاہے جس پرجموں کے ہندوغنڈوں کی طرف سے توہین رسالت کی دل آزارمہم گواہ ہے ۔
اگرچہ اس میں کوئی شک نہیں کہ ایک مومن کی سرشت میں بزدلی نہیں اس کی خمیر حمیت اسلامی سے خالی نہیںاس کے ضمیرکی چنگاریاں دبی نہیں اور وہ شکست و ریخت کو کسی بھی حا ل میں قبول نہیں کرتا ۔لیکن یہ بات ضرورماننی پڑے گی کہ شیروں کی قیادت گیدڑوں کے ہاتھوں میں ہے یہی وجہ ہے کہ بنگلورسے جموں تک مسلمانوں کے خلاف ایک دل آزارمہم جاری ہے ۔لیکن یادرکھیں کہ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ہر مسلمان اور مومن کا ایک ایسا لازوال تعلق ہے جو کسی حکومت یا دوسرے کی رائے کا پابند نہیں۔ یہ بالکل ایسے ہی ہے جیسے کہ کسی بھی بچے کا اپنے والدین کے ساتھ ہوتا ہے۔ بلکہ اس سے کہیں زیادہ وہ جان ہی کس کام کی جو حرمت رسول صلی اللہ علیہ وسلم پہ قربان ہونے کو ہمہ وقت تیار نہ رہے اور یہ بھی صحیح کہ لہو جو آنکھ سے ٹپکے نہیں وہ پھر کیا ہے مسلمانوں کی قیادت کی جاہلانہ و مجرمانہ غفلت اور منافقانہ و ظالمانہ بے حسی اور بے عملی کے نتائج اپنی جگہ لیکن حوصلہ افزاء یہ بات ہے کہ ہمیں اس بات کا یقین ہونا چاہیے کہ ناموس رسالت صلی اللہ علیہ وسلم پرکٹ مرناہر صاحب ایمان کی تمنا،خواہش اورآرزوہے۔
13اگست 2020جمعرات کوبھارتی ریاست کرناٹک کے شہربنگلورو میں ایک ہندورکن اسمبلی اکھنڈا سرینواسا مورتھی کے قریبی ساتھی اوراس کے رشتہ دار نے سیدالانبیاء والمرسلین صلی اللہ علیہ وسلم کی شان اقدس میں گستاخی کرتے ہوئے ایک توہین آمیز پوسٹ فیس بک پر شائع کی۔ سوشل میڈیا پریہ دل آزارگستاخانہ پوسٹ وائرل ہونے کے بعدمقامی مسلمانوں نے ملزم کے خلاف مقدمہ درج کرانے کیلئے علاقے کے پولیس تھانے میں درخواست دی جس میں لکھاگیاکہ رکن اسمبلی نے توہین رسالت کاارتکاب کرتے ہوئے مسلمانوں کے جذبات کو مجروح کیا ہے،اسے فوری طورپرگرفتارکرکے قرارواقعی سزا دی جائے۔ تاہم پولیس نے اس درخواست پر کوئی نوٹس نہیں لیا۔ہندو پولیس کے اس مسلم دشمنانہ رویے پرمسلمانوں نے احتجاجی مظاہرہ کیا۔پولیس نے مسلمانوں اور اسلام کے خلاف نفرت انگیز جرم کو روکنے کے بجائے طاقت کا بدترین استعمال کرتے ہوئے مظاہرین پر براہ راست فائرنگ کر دی جس تین مسلم نوجوان شہیدجبکہ سیکڑوں زخمی ہو گئے۔
ادھرجموں کے ضلع ریاسی میںبھارت رکشا منچ نامی تنظیم کے جنرل سکریٹری ستپال شرماولد پریم ناتھ شرما ساکنہ میاں باغ ادھم پور ہے اور اسکے دو ساتھیوں دیپک اور روہت شرما کی طرف سے 15اگست 2020ہفتے کوبمقام امپھلا میڈیا سے بات کرتے ہوئے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی شان اقدس میںمیں گستاخی کاارتکاب کیابعدمیں یہ شرمناک ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی جس میں انہوں نے نبی اعظم وآخرصلی اللہ علیہ وسلم کی شان اقدس کی توہین آمیزبکواس بکتے ہوئے اپنے خنزیرنما چہروںغلاظت ملی۔
یوں تو حق و باطل،کفرواسلام کی کشمکش ہر دور میں جاری رہی ہے۔ لیکن گزشتہ چند برسوں سے بھارت میں اس حوالے سے مزید شدت آگئی ہے اورکافرانہ قوتوں کی طرف سے بھارتی مسلمانوں کو نشانہ بنایاجارہاہے پہلے انہیں سیاسی ، اقتصادی طور پر کمزور کیا ،اوراب مسلمانوں کے منبع ومرکز کی توہین پروہ اتر آئے ۔جمعہ 21اگست2020 کو وادی کشمیراورجموں کے مسلم اکثریتی علاقے ابل پڑے اور اسلامیان جموںو کشمیرنے اس طوفان بدتمیزی کے خلاف احتجاج کیا ۔بھارت کاسنگھ پریوارسمجھ بیٹھاہے کہ ایسے مسلمان جوبھارت میں جس قدر وسیع ہوں جس کی آبادی 22کروڑ سے بھی زیادہ کیوں نہ ہو لیکن وہ جری اوربے باک قیادت سے عاری ہو بھیڑوں کا گلہ اور سروں کی قطار کے سواکچھ نہیں۔جو ماضی سے پٹتاچلاآرہاہے اورمستقبل میں بھی ان کے ساتھ یہی کچھ ہوگابلکہ اسے بھی برے حالات سے انہیں سامناہوگااورجوآج اورکل بے بسی اوربے کسی کی عملی تصویربنے رہیںگے ۔اس لئے سنگھ پریوار نے ایک ناپاک منصوبہ تیارکیاہواہے جس کے تحت وہ تہذیبی یلغار کی انتہائوں تک بھارت کے مسلمانوںکا پیچھا کرنا چاہتا ہے۔اسی شرمناک منصوبے کایہ حصہ ہے کہ وہ اپنے چہروں پرگنداچھالتے ہوئے ایسی زہر افشانی کر رہا ہے جو مسلمانوں کے لیے نا قابلِ برداشت ہے اور مسلمان اس زہر افشانی پر نعرہ زن بن جاتے ہیں۔اسے اس طرح بھی سمجھاجاسکتاہے کہ بھارتی مسلمانوں کو جان بوجھ کر مشتعل کیا جا رہا ہے تا کہ ان کے خلاف بنائے گئے ناپاک منصوبوں کی تکمیل ہو۔سنگھ پریوارنے اب اپنے تمام شروفسادکے ساتھ جموںوکشمیرکابھی رخ کرلیااوراس طرح بیک وقت بنگلورسے جموں تک توہین رسالت کی ایک شرمناک مہم چھیڑدی ہے ۔
اسلامی عقیدے اور اس سے پھوٹنے والے صالح افکار کے نتیجے میں ہو ش مند مسلمانوں کے تلملااٹھنے پر ا نہیں بے صبر لوگ قرار دیا جا رہا ہے اور ستم ظریفی یہ ہے اہل اسلام کو کفر کے سامنے گردن جھکانے پر مجبور کرنے والی سفاک ہندوتنظیمیں جوبھارت میںکئی ناموں سے اسلام اور مسلمانوں کے خلاف کام کر رہی ہیں جوبھارتی مسلمانوں کو ذلت آمیززندگی گزارنے پرمجبورکر رہی ہیں اور اسی میںوہ اپنے مقاصد میں کامیابی دیکھ رہی ہیں۔لیکن المیہ یہ ہے کہ بھارت کی مسلمان تنظیموں نے کبھی بھی سنگھ پریوار کی ہرزہ سرائی پر غور نہیں کیا۔انکے ناپاکعزائم اور ان کے اغراض ومقاصد کو نہیں سمجھا ان کی نیت کافتور اور درپردہ مقاصد کو نہیں بھانپا ان کی کھوٹ اور عصبیت کو نہیں پرکھا۔
گذشتہ 30برسوں سے بالخصوص اسلامیان مقبوضہ کشمیر جرم بے جرمی میں مارے جا رہے ہیں،شہیدکئے جارہے ہیںکبھی اس پراحتجاج کیا اورنہ ہی اس طرف بھارت کی مسلم جماعتوں نے کبھی توجہ کی۔پھرجب گذشتہ کئی برسوں سے اسلامیان ہندوستان کی اینٹ سے اینٹ بجا دی گئی اس طرف بھی انہوں نے پوری طرح التفات نہ کی۔ وہ سنگھ پریوارکے استحصالی اوراس کے جھگڑالو رویّے کی طرف نہیں دیکھتے۔اس خونخوار بھیڑیے جس نے سرکاری پشت پناہی اورحکومتی سرپرستی اورمودی کی مکمل آشیربادسے بھارتی مسلمانوں کا عرصہ حیات تنگ کر رکھا ہے اس کے خونی جبڑوں کو نہیں دیکھتے اور ان خونی جبڑوں سے نہ اللہ اللہ کرنیوالا کوئی مسلمان بچاہواہے اورنہ ہی وہ خود دار مسلمان سر اٹھا کر چلنے کا ارادہ کرتا ہے۔خوداری کی راہ پرچلنے والے کی فوری سر کوبی کی جاتی ہے ۔صورتحال یہ ہے کہ بھارت میں کوئی مسجد حتیٰ کہ قرآن ،رسول اورشعائراللہ سنگھ پریوار کے شر سے محفوظ نہیں۔ دراصل اس نے ایک جنگ چھیڑرکھی ہے جو اسلام اور مسلمانوں کے خلاف ہے۔ سرکاری سرپرستی میں یہ ماینڈسیٹ مسلمانان بھارت کے خلاف ننگیمسلم کش فسادات کا ارتکاب کر چکا ہے جس میں آج تک ہزاروںمسلمان مرد ،خواتین، بچے اور بوڑھے شہید ، زخمی و معذور اور اس سے کئی گنا زیادہ ہیں، بے شمارمسلمان ظلم کے مارے بے گھر اور اپنے وطن سے دور کسمپرسی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔
اس جنگ کومذیدآنچ دیتے ہوئے مودی کازرخرید میڈیا بھارتی مسلمانوں کو دہشت گردی اور انتہا پسندکہہ کران کے خلاف انتہائی زہریلے اور مسموم پروپیگنڈے میں ہمہ تن مصروف ہے اوریہ مہیب سلسلہ لگاتارجاری ہے۔بھارتی میڈیا کی طرف سے پورے بھارت کو یہ باور کرانے کی کوشش کی جا رہی ہے کہ اسلام دہشت گردی اور انتہا پسندی کی تعلیم دینے والا مذہب اور مسلمان دہشت گرد اور انتہا پسند ہیں اس لئے بھارت میں امن و امان کو یقینی بنانے کے لیے اسلامی تعلیمات میں تبدیلی،اسکی جگہ صوفی ازم کولاکھڑاکرنا اور دہشت گرد اور انتہا پسند مسلمانوں کا خاتمہ ضروری ہے۔ آج کے بھارتی حکام’’مودی اینڈکمپنی‘‘ اپنے عوام کو بیوقوف بناتے ہوئے مسلسل اس بات کا پروپیگنڈہ کر رہے ہیں کہ مسلمان دہشت گردہیں اوران سے نمٹ لینے کے اقدامات بھارت کے عوام ’’ہندئووں‘‘کے تحفظ کے لیے ضروری ہیں۔
لیکن کہانی کچھ اور ہے جس کی وضاحت کرتے ہوئے ایک امریکی مفکر ’’فوکوہامہ‘‘ نے ’’End of Histry‘‘ میں لکھا کہ سرمایہ دار انہ نظام انسان کیلئے لا فانی نجات کا ذریعہ ہے اسلام ایسی تمام کمزوریوں اور شکست و ریخت کے باوجود اس کامیاب طرز زندگی کے لئے خطرہ ہے۔اس بات کوبنیادبناتے ہوئے اغیار طوفان کی طرح مسلمانوں پر چڑھے چلے آرہے ہیں۔اس فلسفے کے پیرکارمودی سرکارکی سرپرستی میں سنگھ پریوار اسلام اورمسلم دشمنی کو باضابطہ طورپراپنی ناپاک اورپلید سیاست کا حصہ بن چکا ہے اوروہ بھارتی انتخابات میں ہندئووں کی غالب اکثریت سے ووٹ بٹورنے اورزیادہ سے زیادہ سیٹیںجیتنے کے لیے مسلمانوں کے دلوں پر آرے چلا کر اپنے خبث باطن اورکھل کراپنے ناپاک عزائم کا اظہار کررہے ہیں اوراس طرح ان کی طرف سے مسلمانوں کے مرجع ومنبع رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کی شان اقدس میں ہرزہ سرائی ضروری تصور کی جاتی ہے۔ افسوسناک اور کربناک صورتحال پیدا ہو رہی ہے کہ ہندوتنظیمیں اوران سے وابستگان ایک سے بڑھ کر ایک مسلمانوں کے مرجع ومنبع کی شان اقدس کے خلاف زبان درازی کررہے ہیں 13اگست سے 15اگست 2020میں بنگلورسے جموں تک کی شرمناک مہم اسی خباثت کاحصہ ہے ۔لیکن اس دوران ہم نے دیکھاکہ مملکت پاکستان کے بغیربھارت میں ہورہی توہین رسالت پرکوئی مسلمان ملک نہیں بول رہا۔پاکستان نے بھارت کوسفارتی سطح پرپیغام پہنچایاکہ وہ مسلمانوں کی دل آزاری سے باز آجائے یہ کوئی بھارت کااندرونی معاملہ نہیں کہ ہم خاموش رہیں یہ مسلمانان عالم کی غیرت اسلامی کوللکارنے کی مذموم کوشش ہے ۔ عرب سے عجم تک عالم اسلام پر مسلّط بد معاش حکمران اپنی گردنیں طاغوت کے سامنے جھکائے ہوئے تسلیم و رضا کی تصویر بنے ہوئے ہیں۔ ان کے اس روئیے نے اسلام اور مسلمانوں کو عالم کفر کے سامنے بے توقیر کر دیا کاش ان بدمعاشوں میں غیرت ہوتی تو کبھی بھی بھارت کے یہ خنازیر سید الاولین والآخرین خاتم النبیین محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کی شان اقدس میں ہرزہ سرائی کی جسارت نہ کرتے۔
عالمی سطح پرمسلمانوں کابکھرائو سے اغیارہرزہ سرائی پرحوصلہ پارہاہے دنیا بھرکے مسلمان مجتمع نہ ہوئے تواغیارہرزہ سرائی سے باز نہیں آئیں گے ۔عالمی سطح پرجب تک نہ یہ اعلان ہوکہ خبردار! توہین رسالت ہرگزبرداشت نہیں اورکوئی پلید کافراپنی گندی زبان استعمال کرکے مسلمانوں کی دینی حمیت اوراسلامی غیرت کوللکارے یہ ہرگز قبول نہیں۔ مسلمانوں کے شایان شان یہ نہیں کہ وہ کسی بھی طرح کی ہرزہ سرائی پرخاموش رہیں۔ مسلمانوں کو اپنی تقدیر اور حالت بدلنے کا جو نسخہ دین نے فراہم کیا ہے وہ اس پر عمل کریں نیشنل ازم ، برادری ازم، وڈیرہ ازم جیسے بتوں کو توڑ کر وہ با صلاحیت دیانت دار اور دنیاوی اوردہنی علوم سے بہرہ مند صاحبان بصیرت کو اپنا اعتماد دیں ان سے قربت بڑھائیں انہیں امارت سونپیں امت مسلمہ کو ایک ایسی صالح قیادت عطا ہوتووہی امت مسلمہ کو موجودہ زبوں حالی سے نجات دلائے گی۔
Comments are closed.